اس ضمن میں پہلا نکتہ ہے قرآن حکیم سے بعد کا پیدا ہونا.اسلام کے ابتدائی دور کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ذکر الٰہی کے لیے مرکز و محور قرآن حکیم نہ رہا‘ بلکہ اس کے بجائے رفتہ رفتہ نت نئے اور اَوراد واَذکار رائج ہونے لگے. قرآن حکیم سے دوری کا اصل سبب تو وہ فطری اور طبعی معاملہ تھا جسے میں ’’قرآن اور جہاد‘‘ نامی اپنی تحریر میں بیان کر چکا ہوں (یہ تحریر اب ’’دعوت رجوع اِلی القرآن کا منظر وپس منظر‘‘ میں شامل کر دی گئی ہے.)تاہم اس دوری کے بعض ثانوی اسباب بھی تھے. سب سے پہلے اصل اور بنیادی وجہ کو سمجھئے. اسلام کے اولین دور میں اہم ترین حقیقتیں دَور ہی تھیں‘ یعنی قرآن اور جہاد . ایک مردِ مؤمن کی شخصیت کا جو معنوی ہیولا خود قرآن سے ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو گا اور دوسرے میں تلوار.قرآن سے ایمانِ حقیقی حاصل ہوتا ہے اور ایمان کا عملی اظہار جہاد فی سبیل اللہ کی صورت میں ہوتا ہے. لیکن جب اسلام دعوت و تحریک کے مرحلے سے گزر کر سلطنت و ریاست کے مرحلے میں داخل ہوگیا تو اس تبدیلی کے بعض فطری‘ طبعی‘ منطقی‘ اور ناگزیر (inevitable) نتائج برآمد ہوئے. یہ نتائج اسی طرح ناگزیر تھے جیسے جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے. سلطنت اور ریاست میں اصل زور قانون پر ہوتا ہے‘ لہٰذا ہمارے ہاں بھی ایمان کے بجائے اسلام پر اور باطن کے بجائے ظاہر پر توجہات کا ارتکاز ہو گیا. قرآن پر سے توجہ کم ہونے لگی اور تعلیم و تعلّم اور تدبر و تفکر کے اصل موضوعات اب حدیث و فقہ بن گئے.اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اِنحراف عن القرآن کے حوالے سے ہم میں اَسلاف سے سوئے ظن نہ پیدا ہو جائے. ایمان کے بجائے اسلام اور قرآن کے بجائے فقہ و قانون پر توجہ کسی بدنیتی کی وجہ سے نہیں ہوئی‘ بلکہ یہ اسلام کے سلطنت و ریاست کے دور میں داخل ہو جانے کا منطقی اور Unavoidable نتیجہ تھا. البتہ اس میں کچھ ثانوی اسباب بھی شامل ہوئے کہ جب ہمارے ہاں دورِ ملوکیت میں دولت پرستی اور جاگیرداری آئی تو مقتدر طبقات نے شعوری طو رپر کوشش کی کہ عوام کے سامنے قرآن نہ رہے.؏ ’’چشم مسلم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب‘‘.اس لیے کہ اگر قرآن کی اصل تعلیمات لوگوں کے سامنے آئیں گی تو وہ ہمیں اسی پیمانے پر ناپیں گے اور نتیجتاً ہم پر تنقیدی نگاہیں اٹھیں گی. لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس کتاب کو ’’بند‘‘ رکھا جائے. اس موضوع پر جناب یوسف سلیم چشتی مرحوم کا ایک نہایت قیمتی مقالہ (قرآن حکیم سے بعد و بیگانگی کے اَسباب) ’’حکمت قرآن‘‘ (ستمبر۹۳ء) میں شائع ہو چکا ہے.

میں نے عرض کیا تھاکہ ہر بدعت کسی نہ سنت کی جگہ لیتی ہے . اسی طرح اگر کوئی صحیح اور مطلوب شے اپنی جگہ سے ہٹے گی تو لامحالہ کوئی غلط شے اس کی جگہ لے گی. چنانچہ جب ذکر کے حوالے سے قرآن حکیم مرکز و محور نہ رہا تو اس مقصد کے لیے مختلف اقسام کے اَوراد و اَذکار اختیار کیے جانے لگے. ان اَذکار کے متعلق خود اہل تصوف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ طریقے مسنون نہیں ہیں. ان کا کوئی تعلق کتاب و سنت سے نہیں ہے. لیکن وہ دلیل یہ اختیار کرتے ہیں کہ یہ چیزیں اجتہاد کے ذریعے اختیار کی گئی ہیں. میں اس دلیل کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں‘ اس لیے کہ یہ چیزیں اجتہاد کی تعریف پر پوری نہیں اُترتی ہیں‘ بلکہ یہ درحقیقت ایجاد و ’’ابداع‘‘ کے دائرے میں آتی ہیں. 

اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ معاملہ صرف قرآن کی جگہ دوسرے اَذکار کے اختیار کیے جانے تک محدود نہ رہا‘ بلکہ ان اَذکار کی شدت اور مقدار میں بھی اضافہ کرنا پڑا.ظاہر ہے کہ قرآن حکیم کی غیر معمولی تاثیر اور ان اَذکار کے اثرات میں زمین وآسمان کا فرق ہے. ذکر کے لیے کوئی بھی طریقے اختیار کر لیے جائیں‘خواہ وہ مجتہدانہ ہوں یا مبتدعانہ‘ ان میں قرآن حکیم کی سی تاثیر تو پیدا نہیں ہو سکتی. لہٰذا ان اَوراد و اَذکار کی کیفیت (Quality) میں جو کمی تھی اسے کمیت و مقدار (Quantity) میں غیرمعمولی اضافے کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی گئی اور نہایت مشقت طلب اختیار کرنا پڑے. نتیجتاً قرآن پر سے توجہ مزید کم ہو گئی. اس طرح گویا ایک Vicious Circle وجود میں آ گیا کہ اولاً تو ایک طبعی سبب سے قرآن پر توجہ میں کمی آئی‘ اس کے نتیجے میں روحانی پیاس کو بجھانے کے لیے نت نئے اَوراَد و اذکار اختیار کیے جانے لگے‘ اور قرآن گویا رفتہ رفتہ اذکارِ رفتہ ہوتا چلا گیا.

قرآن حکیم سے دُوری کا جو سب سے خطرناک نتیجہ برآمد ہوا وہ یہ تھا کہ قرآن کے فلسفہ و حکمت سے بعد پیداہو گیا. ظاہر ہے کہ قرآن صرف ذکر الٰہی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اپنے پڑھنے والوں کی ذہنی اور عقلی اعتبار سے رہنمائی بھی کرتا ہے. انسان کی فلسفیانہ پیاس کو بجھانے کا سامان بھی اسی کتاب میں ہے. حقیقت اور معرفت کی تلاش کے جذبے کو بھی قرآن ہی سے تسکین ملتی ہے. عالم اسلام میں قرآن حکیم سے دُوری نے ایک فکری خلا کو جنم دیا‘ اور پھر یونانی فلسفہ و منطق اور نوافلاطونیت 
(Neo-Platonism) کے افکار کی یلغار ہوئی تو ہمارے بڑے بڑے ذہن اس سے آزاد نہ رہ سکے. شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسی شخصیت افلاطون کے خیالات سے آزاد نہ ہو سکی تو پھر اور کس کی بات کی جائے! یہاں تک ہمارے ہاں علم اخلاق پر جو کتابیں تصنیف کی گئیں ان میں بھی یونانی حکماء ہی کی پیروی نظر آتی ہے. چنانچہ قرآن حکیم کے فلسفہ و حکمت سے دوری کی وجہ سے جو فکری لاء (Intelectual Vacum) پیدا ہوا تھا وہ انہی بیرونی فلسفوں کی مدد سے پر کیا گیا‘اور اس عمل نے ہمیں قرآن حکیم سے مزید دور کر دیا. یہ دُوری اس معنی میں نہیں تھی کہ قرآن کو ماننا چھوڑ دیا گیا ہو‘ یا اسے پڑھنا ترک کر دیا گیا. مسلمانوں کا قرآن پر ایمان بھی رہا‘ اس کی تلاوت بھی ہوتی رہی‘ لیکن قرآن حکیم کے ذریعے اپنی ذہنی و فکری پیاس کو بجھانے کا سلسلہ ختم ہو گیا‘ قرآن مجید کے ذریعے اپنی رُوحانی ترقی کی کوشش کا معاملہ نہ رہا‘ قرآن سے ہماری نسبت ختم ہو گئی اور تعلق منقطع ہو گیا . بقول اقبال ؎

خوار از مہجوری قرآن شدی
شکوہ سنجِ گردش دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِ زندۂ

چنانچہ وعظ و نصیحت کا سلسلہ تو برقرار رہا لیکن اس میں بھی قرآن حکیم کو مرکزی حیثیت حاصل نہ رہی ؎

واعظِ دستاں زن و افسانہ بند
معنی او پست و حرفِ او بلند
از خطیب و دیلمی گفتارِ او
باضعیف و شاذ و مرسل کارِ اُو

یعنی واعظ کا حال یہ ہے کہ ہاتھ بھی خوب چلاتا ہے اور سماں بھی خوب باندھ دیتا ہے. اس کے الفاظ اگرچہ پرشکوہ ہیں‘ لفاظی انتہا کی ہے‘ لیکن معنی و مفہوم کے اعتبار سے نہایت پست اور ہلکے ہیں. ان میں کوئی مغز 
(essence) ہے ہی نہیں.اس کی ساری گفتگو خطیب بغدادی یا امام دیلمی سے ماخوذ ہے‘ اور اس کا سارا سروکار محض ضعیف‘ شاذ اور مرسل احادیث پر رہ گیا ہے. اور ان پر مستزاد صرف کچھ قصے کہانیاں ہیں‘ صوفیاء کے مبالغہ آمیز اور جھوٹے سچے واقعات ہیں جن کی بنیاد پر سارا وعظ کہا جاتا ہے.یہ معاملہ تو ہمارے دور میں تبلیغی جماعت تک پہنچا ہوا ہے‘ جن کے ہاں فضائل کی کتابوں میں اکثر و بیشتر ضعیف احادیث ہی کی بھرمار ہے. اسی طرح تزکیہ نفس کا معاملہ ہے ؎

صوفیٔ پشمینہ پوشِ حال مست
از شراب نغمۂ قوال مست
آتش از شعرِ عراقی در دلش
در نمی سازد بقرآں محفلش

یعنی ’’اونی گدڑی پہننے والے صوفی کی محفل میں قرآن کا ذکر ہی نہیں! اس کے ساتھ اسے سازگاری اور موافقت ہی نہیں. ہاں قوال کے نغمے سے وہ مدہوش ہو جاتا ہے‘ عراقی کے شعر سے اس کے دل میں آگ لگ جاتی ہے.‘‘

الغرض قرآن سے دوری وہ پہلا قدم تھا جس کی بدولت حضور کے بتائے ہوئے طریقے سے انحراف شروع ہوا. ذکر تو جاری رہا لیکن اس کے ضمن میں تمام تر توجہ قرآن سے ہٹ کر دیگر اَوراد و اَذکار پر مرکوز ہو گئی. آج جو شے ’’ذکر‘‘ شمار ہوتی ہے اس کا کوئی سراغ اور اس کی کوئی سند قرآن و حدیث میں موجود نہیں‘ اور یہ حقیقت اہل تصوف بھی تسلیم کرتے ہیں. چنانچہ مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کے مرشد مولانا اللہ یار چکڑالوی نے 
’’دلائل السلوک‘‘ نامی کتاب میں مانا ہے کہ یہ طریقے مسنون نہیں ہیں‘ بلکہ انہیں اجتہاد کے ذریعے اختیار کیا گیا ہے. لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں یہ اجتہاد نہیں بلکہ ابتداع و ایجاد ہے.

گزشتہ نشست میں ایک نکتہ میں نے جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھا‘ لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کر دوں. میں اپنے دروس میں ہمیشہ ’’ذکر‘‘ کے چار ذرائع بیان کرتا رہا ہوں‘ لیکن اس مرتبہ میں نے صرف تین ہی ذرائع بیان کیے تھے‘ یعنی ’’الذکر‘‘ خود قرآن حکیم‘ پھر ذکر کی جامع ترین شکل نماز‘ پھر اذکارِ مسنونہ روز مرہ معمولات کے حوالے سے‘ یا وہ تسبیحات جو حضور نے تلقین فرمائی ہیں. چوتھی چیز ہے کوئی مخصوص ذکر جو کسی خاص شخص کے لیے تجویز کیا جائے. یہ 
دراصل معالجۂ نفس کے لیے ہوتا ہے. اس نکتے کو مخالفت نفس ہی کے ضمن میں شامل کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف لوگوں کے مختلف مزاج بنائے ہیں. کسی پر شہوت کا غلبہ زیادہ ہے لیکن مال و دولت کی حرص نہیں ‘ کسی کے لیے اصل شے ہی پیسہ ہے اور کسی دوسری چیز سے اسے کوئی دلچسپی نہیں‘ کسی کی اصل خواہش شہرت کا حصول ہے جس کے لیے وہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہے‘ یا کسی کو صرف وجاہت اور اقتدار کی آرزو ہے. لہٰذا انسانی نفسیات کا کوئی ماہر کسی خاص شخص کے محرکات و داعیاتِ نفس کا تجزیہ کر کے تشخیص کر لیتا ہے کہ اس پر کس شے کا غلبہ زیادہ ہے‘ اور پھر اسی تشخیص کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اس شخص کے لیے کوئی مخصوص ذکر تجویز کرتا ہے. ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی چیزوں کو تمام لوگوں کے لیے مستقل مقام دے دینا بڑی غلطی ہو گی. مستقل حیثیت تو انہی چیزوں کی رہے گی جو محمد عربی نے بتائی ہیں. البتہ آپؐ نے بھی بعض افراد کو مخصوص اَذکار تلقین فرمائے ہیں جو اس چوتھی قسم میں شامل سمجھے جائیں گے.