یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ مستشرقین نے اپنی کوتاہ نظری کے باعث رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مکی اور مدنی دور کے طرزِ عمل کو متضاد قرار دیا ہے. چنانچہ آرنلڈ ٹائن بی(۱۸۸۹ء.۱۹۷۵ء)نے حضورﷺ کے بارے میں ایک بڑا زہر بھرا جملہ کہا تھا :
Muhammad failed as a prophet but succeeded as a statesman
یعنی محمد (ﷺ ) نبی کی حیثیت سے تو ناکام ہو گئے‘ لیکن بحیثیت سیاست دان کامیاب ہوئے‘‘. مکہ میں دعوت و تربیت‘ تزکیہ اور صبر محض کا جو نقشہ تھا اس کے نزدیک انبیاء کا کام یہی ہوتا ہے. یہی کام تین سال تک حضرت عیسیٰ ؑنے کیا. اس کا کہنا یہ ہے کہ محمد (ﷺ ) جب مکہ میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے (معاذ اللہ) مدینہ کی طرف راہِ فرار اختیار کی. مستشرقین ہجرتِ مدینہ کو Flight to Medina کہتے ہیں‘ حالانکہ یہ فرار نہیں تھا‘ بلکہ ایک متبادل مرکز (alternate base) کی طرف منتقلی تھی. پہلے آپؐ نے متبادل مرکز کی تلاش میں طائف کا سفر اختیار فرمایا تھا‘لیکن مشیت ِ الٰہی کچھ اور تھی.
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ متبادل مرکز (alternate base) مدینہ کی شکل میں عطا کیا. انقلابی جدوجہد میں اقدام کے مرحلہ کے آغاز کے لیے مدینہ کی حیثیت ایک Base کی تھی.
برطانوی پروفیسر منٹگمری واٹ (۱۹۰۹ء . ۲۰۰۶ء)‘ جسے ضیاء الحق صاحب نے خاص طور پر پاکستان بلایا تھا‘ نے سیرتِ محمدیﷺ پر دو کتابیں لکھی ہیں:
1- Muhammad at Mecca
2- Muhammad at Medina
اس نے ان دونوں کتابوں میں اپنے تئیں رسول اللہﷺ کی زندگی کے متضاد پہلوئوں کو نمایاں کیا ہے. اس کا کہنا یہ ہے کہ مکے والا محمد (ﷺ ) کچھ اور ہے‘ مدینے والا کچھ اور. مکے والا محمد (ﷺ ) تو داعی‘ مبلغ‘ مزکی اور درویش ہے اور اس کی سیرت میں واقعتا نبیوں والا نقشہ نظر آتا ہے جبکہ مدینے والا محمد تو ایک مدبر‘ منتظم‘ سٹیٹسمین‘ سیاست دان اور سپہ سالار ہے. اس کے نزدیک یہ دونوں شخصیتیں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں. اس سے قطع نظر کہ Muhammad at Medina میں اُس نے حضورﷺ کے لیے مدح اور تعریف کے تمام ممکنہ الفاظ کو جمع کردیا ہے.آپؐ کی دُور اندیشی‘ معاملہ فہمی‘ آپؐ کی صحیح صحیح صورت حال کے بارے میں صحیح صحیح اقدام کی صلاحیت‘ آپؐ کی انسان شناسی اور ہر انسان کی ذہنی سطح کا اندازہ کرتے ہوئے اس سے اس کی سطح پر بات کرنا اور ہر انسان سے اس کی صلاحیت و استعداد کے مطابق کام لے لینا جیسی تمام خصوصیات کا تذکرہ اس نے کھلے دل کے ساتھ کیا ہے.
اس نے حضورﷺ کی موقع شناسی‘ تدبر اور سیاست وغیرہ کے جتنے بھی اعلیٰ ترین اوصاف ہیں ان کا ذکر افعل التفضیل (superlative) کے صیغے میں کیا ہے. اس سے ایک مسلمان دھوکا کھاتا ہے کہ یہ کتاب حضورﷺ کی تعریف میں لکھی گئی ہے‘ حالانکہ درحقیقت وہ تضاد (contrast) بیان کر رہا ہے کہ بحیثیت سیاست دان (statesman) تو آپؐ کے یہ اوصاف ہیں جبکہ بحیثیت نبی آپؐ ناکام ہو گئے اور آپؐ کو مکے سے بھاگ کر مدینہ میں پناہ لینی پڑی. یہ وہ زہر ہے جو اس نے گھولا ہے. لیکن حضورﷺ کی معاملہ فہمی‘ دور اندیشی اور statesmanship کا اس نے گھٹنے ٹیک کر اعتراف کیا ہے. حضورﷺ کے انہی اوصافِ عالیہ کا شاہکار ’’میثاقِ مدینہ‘‘ تھا‘ جس میں آپؐ نے مدینہ میں آباد یہودیوں کے تینوں قبیلوں کو پابند کر لیا. اگرچہ بعد میں وہ ایک ایک کر کے غداری کے مرتکب ہوتے رہے‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ جب وہ غداری بھی کرتے تھے تو چھپ چھپ کر اور ڈرتے ڈرتے‘ کیونکہ وہ اس معاہدے میں جکڑے ہوئے تھے‘ کھلے عام انہیں ان سرگرمیوں کی جرأت نہیں تھی. لہٰذا درپردہ سازشیں کرتے رہے‘ وہ کبھی مکہ والوں کو ابھارتے‘ کبھی کسی اور کو. بعد میں اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے سبب یہودیوں کے تینوں قبائل بنوقینقاع‘بنو نضیر اوربنوقریظہ مدینہ سے نکال دیے گئے.