رسول اللہ کے ان اقدامات کے نتیجے میں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق قریش کا ایک ہزار کا لشکر نکلا‘ جس کی دو فوری وجوہات ہو گئی تھیں. ایک تو یہ کہ نخلہ میں آپؐ نے جو گروپ بھیجا تھا اس کی مڈبھیڑ قریش کے ایک تجارتی قافلے سے ہو گئی‘ اور جس میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک مارا گیا اور مسلمان ایک کو اسیر بنانے کے علاوہ مالِ تجارت بھی چھین کر لے آئے. اب مکہ میں شور مچ گیا کہ محمد( ) کی یہ جرأت کہ اُس کے آدمیوں نے ہمارا آدمی مار دیا. یہ ہجرت کے بعد پہلا قتل تھا اور یہ مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک کا تھا. ثانیاً حضور نے قریش کے اس تجارتی قافلے کا پیچھا کر کے اسے روکنے کی کوشش کی تھی جو ابوسفیان کی سرکردگی میں شام جا رہا تھا‘لیکن یہ قافلہ مسلمانوں کے ہاتھوں بچ نکلا تھا. قافلے کی واپسی کے وقت ابوسفیان کو زیادہ اندیشہ لاحق ہوا‘ کیونکہ یہ ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ تھا جس میں ایک ہزار اونٹوں پر کروڑوں کا مال تجارت لدا ہوا تھا. چنانچہ ابوسفیان نے قریش کو ہنگامی پیغام بھیجا کہ مجھے محمد ( ) اور ان کے ساتھیوں سے خطرہ ہے کہ وہ حملہ کر کے ہمیں لوٹ لیں گے‘ لہٰذا فوری مدد بھیجو. دوسری طرف ابوسفیان نے خود راستہ بدل لیا اور بدر سے ہو کر گزرنے کے بجائے نیچے ساحل کے ساتھ ساتھ ہو کر گزر گیا. ادھرمکہ میں ابوسفیان کا ہنگامی پیغام پہنچا اور ادھر سے لوگ روتے پیٹتے اور کپڑے پھاڑتے ہوئے آ گئے کہ محمد ( ) کے آدمیوں نے ہمارا ایک آدمی مار دیا ہے تو اس کے نتیجے میں قریش کے مشتعل مزاج لوگوں (Hawks) کا پلڑا امن پسند لوگوں(Doves) پر بھاری ہو گیا. Hawks اور Doves ہر قوم میں ہوتے ہیں. ہر صورت میں لڑنے مرنے پر تیار ہونے والے Hawks کہلاتے ہیں اور جنگ سے گریز کا مشورہ دینے والے Doves کہلاتے ہیں. قریش میں بھی دونوں طرح کے لوگ تھے. 

Hawks 
میں ابوجہل‘ عتبہ بن ابی معیط اور بڑے بڑے لوگ تھے. ان کا کہنا یہ تھا کہ چل کر مدینہ پر فوج کشی کرو اور محمد ( ) اور ان کے ساتھیوں کو ختم کر دو. دوسری طرف ان میں Dovesؔ بھی تھے‘ جن میں ایک بزرگ شخصیت عتبہ بن ربیعہ بھی تھا جو بدر کے میدان میں پہلا مقتول ہے‘ لیکن وہ بہت شریف النفس انسان تھا. دوسرے حکیم بن حزام تھے ‘ جو شاید اندر ہی اندر ایمان بھی لا چکے تھے‘ لیکن ابھی ظاہر نہیں کیا تھا‘ وہ بھی بہت شریف انسان تھے. یہ دونوں حضرات کہتے تھے کہ اب بلا ہمارے سر سے ٹل گئی ہے‘ محمد ( ) اور ان کے ساتھی یہاں سے چلے گئے‘ اب تم محمد کو بقیہ عرب کے حوالے کر دو‘ اس لیے کہ محمد ( ) چین سے بیٹھنے والے تو نہیں ہیں‘ انہوں نے اپنی دعوت پھیلانی ہے ‘ تو جو ردعمل ہمارا ہے وہی سارے کے سارے عرب کے لوگوں کا ہو گا‘ کیونکہ سب مشرک اور ُبت پرست ہیں. اب محمد ( ) کی ان سے کشمکش ہو گی ‘جس میں اگر محمد ان پر غالب آ گئے تو ہمارا کیا جائے گا‘ وہ بھی تو قریشی ہیں‘ بنوہاشم سے ہیں‘ گویا پورے عرب پر قریش کی حکومت قائم ہو جائے گی. اور اگر بقیہ عرب نے محمد( ) کو ختم کر دیا تو جو تم چاہتے ہو وہ ہو جائے گا اور تمہیں اپنی تلواریں اپنے بھائیوں کے خون سے رنگین نہیں کرنی پڑیں گی. آخر محمد( ) بھی تو بنی ہاشم سے ہیں! بہرحال جب یہ دو چیزیں سامنے آ گئیں تو Doves بے بس ہو گئے اور Hawks نے طبل جنگ بجا دیا. چنانچہ وہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے اور ایک ہزار کا لشکر کیل کانٹے سے لیس کر کے لڑائی کے لیے تیار ہو گئے. 

ایک بات اور نوٹ کیجیے کہ جب کفار عین بدر کے میدان میں پہنچ گئے اور ادھر سے حضور بھی تین سو تیرہ کی نفری لے کر آ گئے تو لشکر مکہ کو یہ پیغام پہنچ گیا کہ ہمارا قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے. چنانچہ حکیم بن حزام اور عتبہ بن ربیعہ ابوجہل کے پاس آئے اور آ کر کہنے لگے کہ ہمارا قافلہ بحفاظت بچ کر نکل گیا ہے‘ اب لڑائی کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی حیثیت ایسی ہے کہ اگر آپ چاہیں تو یہ خون ریزی رک سکتی ہے. عتبہ بن ربیعہ نے ابوجہل کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ جو ہمارا ایک آدمی محمد( )کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا اس کا خون بہا میں ادا کرتا ہوں‘ باقی یہ کہ ہمارا قافلہ تو بچ کر نکل ہی گیا ہے‘ لہٰذا ہمیں اس خونریزی سے بچناچاہیے.

اس پر ابوجہل نے مقتول کے بھائی کو بلا کر کہا کہ تمہارے بھائی کے خون کا بدلہ تمہارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے‘ یہ لوگ آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنگ نہ ہو. اس نے عرب کے رواج کے مطابق کپڑے پھاڑے اور چیخنے لگا کہ مجھے تو قصاص اور بدلہ چاہیے‘ مجھے کوئی خون بہا نہیں چاہیے! مزید یہ کہ ابوجہل نے عتبہ کو طعنہ دیا کہ شاید تم پر بزدلی طاری ہو گئی ہے‘ کیونکہ تمہارا اپنا بیٹا حذیفہ سامنے ہے. ایک عرب کے لیے تو یہ بہت بڑا طعنہ تھا. اس نے کہا کہ اچھا یہ تو کل معلوم ہو گا کہ کون بزدل ہے اور کون بہادر ہے. چنانچہ اگلے دن سب سے پہلے عتبہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کو لے کر میدان میں آیااور مبارزت طلب کی. ادھر سے تین انصاری صحابی مقابلہ کے لیے نکلے. عتبہ نے پوچھا:کون ہو تم؟ انہوں نے کہا انصارِ مدینہ. عتبہ نے کہا: نہیں‘ ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں‘ ہمیں اپنے ہم پلہ لوگوں سے لڑنا ہے‘ ہم ان کاشت کاروں سے لڑنے نہیں آئے. اس پر پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کے مقابلے میں نکلنا چاہا لیکن حضور نے روک دیا. پھر حضرت علی‘ حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضوان اللہ علیہم اجمعین نکل کر میدان میں آئے اور پہلا قتل حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں عتبہ کا ہوا. اس طرح وہی شخص جو جنگ روکنا چاہتا تھا‘ لیکن بزدلی کا طعنہ برداشت نہیں کر سکا‘ سب سے پہلے واصل ِجہنم ہوا. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شیبہ کا کام تمام کیا. پھر دونوں لشکر باہم ٹکرائے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی 
نصرت سے اہل ایمان کو فتح عطا فرمائی اور اس دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ قرار دیا گیا.

یہاں سے حضور کی انقلابی جدوجہد آخری مرحلے میں داخل ہو گئی. یہ ’’مسلح تصادم‘‘ جس کا آغاز غزوۂ بدر سے ہوا‘ چھ سال جاری رہا. آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے بارہ سال دعوت و تزکیہ‘ تنظیم اور صبر محض 
(کُفُّوْا اَیـْدِیَـکُمْ) کے مراحل میں گزرے . یہ مکہ کے بارہ برس تھے. مدینہ میں آ کر آپؐ نے پہلے چھ مہینے میں اپنی پوزیشن مستحکم کی‘ اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال کے دوران قریش کے خلاف مہمیں بھیجیں جن کے نتیجے میں یہ مسلح تصادم شروع ہوا. اس طرح گویا سانپ کو بل میں سے نکالا گیا. میں یہ بات جان بوجھ کر کہہ رہا ہوں. اس لیے کہ مکہ تو حرم ہے‘ وہاں جا کر کشت و خون کوئی پسندیدہ شے نہیں ہے. لہٰذا قریش کو وہاں سے نکالنا ایسے ہی تھا جیسے کہ سانپ کو بل سے نکال کر باہر لے آیا جائے اور پھر اس کی گردن کچلی جائے. چنانچہ بدر میں ان کے چوٹی کے ستر ّسردار مارے گئے جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی. اس کے بعد چھ سال تک مسلسل جنگ لڑی گئی‘ جس کے نتیجے میں غزوۂ بدر‘ غزوۂ احد‘ غزوۂ احزاب اور غزوۂ خیبر وغیرہ ہوئے. محمد ٌ رسول اللہ نے غلبہ ٔدین کی جدوجہد کے لیے پوری تیاری کی تھی. افراد کو تیار کیا تھا‘ ان کا تزکیہ کیا تھا‘ ان کے اندر ولولہ پیدا کر دیا تھا کہ ہر چہ بادا باد‘ جانیں دینے کو تیار ہیں‘ انہیں نظم کا خوگر بنا دیا تھا. پھر ان کی للّٰہیت اس درجے کو پہنچ چکی تھی کہ ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی!

یہ ساری تیاری کر کے آپؐ میدان میں آئے تھے. پھر مسلح تصادم کا دَور شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی. 
جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱
(بنی اسراء یل)