جب امتحان مکمل ہو گیا اور مؤمنینِ صادقین اور منافقین بھی چھٹ کر نمایاں ہو گئے تو نصرتِ الٰہی آ گئی اور ایک مہینے کے محاصرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسے نادیدہ لشکر اتارے جنہوں نے دشمنوں کے کیمپ میں کھلبلی ڈال دی. مزید برآں اپنی غیبی تائید سے کچھ ایسے حالات پیدا فرما دیئے کہ ان حملہ آوروں کو اِسی میں عافیت نظر آئی کہ اپنے ڈیرے اٹھا کر چلتے بنے.ازروئے الفاظِ قرآنی:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾ (آیت ۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے. جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہیں آتی تھیں. اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے.‘‘
رات کو پورا لشکر موجود تھا‘ صبح دیکھا تو میدان خالی پڑا تھا. رات کی شدید آندھی نے ان لشکروں کے خیموں کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اورنظر نہ آنے والی فوجوں نے کھلبلی مچا دی ‘جس کے نتیجے میں تمام حملہ آور لشکر صبح طلوع ہونے سے پہلے اپنا بوریا بستر گول کر کے کوچ کرگئے. ’’نظر نہ آنے والی فوجوں‘‘ سے مراد وہ مخفی قوتیں اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وہ فرشتے ہیں جو اِس کائنات کے نظام اور انسانی معاملات میں اللہ کے حکم سے کام کرتے رہتے ہیں اور انسان ان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے. بہرحال اس تمام صورت حال کی غرض و غایت دراصل آزمائش و امتحان تھی‘جس میں مخلص اہل ایمان پورے اترے اور انہوں نے منافقین کے قول مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اِلاَّ غُرُوْرًا کے برعکس دلی یقین کے ساتھ یہ کہا کہ: ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اس ابتلاء سے نہ وہ ہراساں اور خوف زدہ ہوئے اور نہ ہی ان کے حوصلے پست ہوئے‘ بلکہ ان کی کیفیات یہ تھیں کہ: وَمَا زَادَھُمْ اِلاَّ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا یعنی اس پوری صورتِ حال نے ان کے ایمان اور ان کی تسلیم و رضا کی کیفیات کو اور زیادہ بڑھا دیا.اور وہ پورے قلبی اطمینان اور انبساطِ قلب کے ساتھ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے.آیت کے اس ٹکڑے میں ’’زَادَ ‘‘ کا فاعل دراصل وہ پوری صورت حال ہے جو غزوۂ احزاب میں پیش آئی.