آنحضورﷺ کی اجتماعی جدوجہد میں قرآن کا مقام

اب میں سیرتِ مطہرہ اور خاص طور سے اس اسوۂ حسنہ کے ان تین مراحل کے اعتبار سے ایک تجزیہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا میں نے آغاز میں ذکر کیا تھا اس کے بعد میں نے اُسوۂ حسنہ کے ضمن میں دو باتیں بحیثیت مجموعی بیان کی ہیں کہ محض آرزو یا مرثیہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا دین کا دل میں درد ہے توہمیں اُسوۂ حسنہ کے مطابق انقلابی جدوجہد کرنا ہو گی. ہمیں مرثیہ پڑھنا اور رونا بہت آتا ہے. لیکن اگر یہ رونا نبی اکرم  کے اجتماعی اُسوۂ حسنہ کے ساتھ ہو تو یہ سونا ہے‘ اس کے مطابق عمل نہیں ہے تو یہ ٹسوے ہیں‘ جو عورتیں بہایا کرتی ہیں‘ جن کی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے.

اب ذرا ان تین اجزاء کو لیجئے‘ جن کو میں نے دو دولفظوں کے جوڑوں کے ساتھ تین مراحل کے عنوانات کے تحت آپ کے سامنے پیش کیا تھا.

سب سے پہلی بات یہ کہ ’’دعوت و تربیت‘‘ کے ضمن میں نبی اکرم  کا اُسوہ یہ ہے کہ ان دونوں کاموں کا مرکز‘ مبنی ٰ‘ مدار اور محور قرآن اور صرف قرآن رہا ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کو ایمان کی دعوت دو قرآن کے ذریعے تذکیر کرو قرآن کے ذریعے انذار کرو قرآن کےذریعے تبشیر کرو قرآن کے ذریعے نصیحت اور موعظت کرو قرآن کے ذریعے بحث و مباحثہ اور جدال و محاجہ کرو اس قرآن کے ذریعے تبلیغ کرو قرآن کی !دعوت کی مختلف سطحوں کے لئے یہی الفاظ آتے ہیں .

اب ذرا ان الفاظ کے مطابق وہ ہدایاتِ الٰہی سنئے جو قرآن حکیم میں نازل ہوئی ہیں فرمایا: فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ (ق:۴۵پس یاددہانی کراؤ بذریعہ قرآن ہر اُس شخص کو جو میری پکڑ اور سزا سے ڈرتا ہو.‘‘ وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام:۱۹’’اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے تمہیں بھی خبردار کردوں اور اُن کو بھی جن کو یہ (قرآن) پہنچے‘‘__ فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا (مریم:۹۷’’پس (اے نبیؐ ) ہم نے اس کتاب کو آپؐ ‘کی زبان میں اس لئے آسان بنایا ہے کہ آپؐ اس کے ذریعے خداترسوں کو بشارت پہنچا دیں اور جھگڑالوقوم کو اس کے بُرے انجام سے آگاہ اور خبردار کر دیں‘‘ اس آیت میں خاص بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ لِتُبَشِّرَ کے ساتھ بھی ’’بِہ‘‘ اور ’’ تُنْذِرَ‘‘ کے ساتھ بھی ’’بِہ‘‘ آیا ہے یعنی دونوں کام بشارت و انذار اسی کتاب ’’قرآن‘‘ کے ذریعے ہوں گے مزید فرمایا: یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (المائدۃ:۶۷’’اے ہمارے رسول! پہنچائیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپؐ کی طرف آپؐ کے رب کی جانب سے‘‘تبلیغ کس کی؟ قرآن کی! اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا (بنی اسرائیل:۹’’بے شک یہ قرآن اس راستے کی رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور بشارت دیتا ہے ان اہل ایمان کو جو نیک عمل کرتے ہیںکہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے‘‘. بشارت دینے والا کون؟ قرآن!اس انداز اور تبشیر بالقرآن کا ذکر سورۃ الکہف کے آغاز ہی میں بڑے مہتم بالشان انداز میں ہوا. فرمایا:
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲﴾ 

’’شکر اور تعریف کے لائق ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اس نے کوئی کجی نہیں رکھی. بالکل سیدھی اور ہموار و استوار تاکہ وہ لوگوں کو اپنی جانب سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کر دے اور ایمان لانے والوں کو‘ جو نیک عمل کر رہے ہیں‘ اس بات کی خوشخبری سنا دے کہ ان کے لئے بہت اچھا اجر ہے‘‘.

میں نے جو آیات آپ کو سنائیں ان سب کا حاصل یہ نکلا کہ :

دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا مرکز و محور اور مبنیٰ و مدار صرف اور صرف قرآن ہے. انذار ہو یا تبشیر‘ تبلیغ ہو یا تذکیر‘ مباحثہ ہو یا مجادلہ‘ موعظہ ہو یا نصیحت‘ یہ تمام کام صرف قرآن مجید ہی کے ذریعے سرانجام دیئے جائیں گے.
’’دعوت‘‘ کا لفظ ہمارے دین کی غالباً سب سے جامع اصطلاح ہے‘ جس کے لئے سورۃ النحل کی آیت ۱۲۵سے استشہاد کیا جا سکتا ہے‘ جس میں دعوت کے ضمن میں یہ جامع و مانع ہدایت دی گئی ہے کہ: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ’’(اے نبیؐ !) دعوت دو اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ‘اور لوگوں سے مباحثہ و مجادلہ کرو اس طور سے جو نہایت ہی عمدہ ہو.‘‘ یہ ہے اسوہ جناب محمد رسول اللہ  کا سیرتِ مطہرہ میں آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ کہیں نبی اکرم  نے طویل تقریر و خطاب فرمایا ہو. جہاں تشریف لے گئے تو یہی فرمایا کہ ’’لوگو!میرے اوپر اللہ کی طرف سے ایک کلام نازل ہوا ہے اسے سن لو!‘‘ معلوم ہوا کہ فلاں وادی میں کوئی قافلہ آ کر اترا ہے تو وہاں تشریف لے گئے اور فرمایا تو یہ فرمایا کہ ’’لوگو! میرے پاس اللہ کا اتارا ہوا کلام ہے‘ وہ میں تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں‘‘. مجمعوں میں آپؐ قرآن پڑھ پڑھ کر سنایا کرتے تھے. ہمیں تو قرآن کا ترجمہ کر کے اس کا مطلب اور مفہوم سمجھانا پڑتا ہے‘ جبکہ وہاں معاملہ یہ تھا کہ ازدِل خیزد بردِل ریزد. وہاں توحال یہ تھا کہ نبی اکرم کی زبانِ مبارک سے قرآن سنا اور سعید روح کے قلب و ذہن اور رگ و پے میں سرایت کر گیا. بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن اور محض قرآن سن کرمشرف بہ اسلام ہوئے . عمر بن الخطاب کو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس نے بنایا؟ قرآن نے! یہ سورۂ طٰہٰ کی معجز نمائی تھی جس نے عمرؓ کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ؏ دگرگوں کرد تقدیر عمر را!

ابوذر غفاریؓ جو ڈکیتی کا پیشہ رکھنے والے ایک قبیلے کے فرد تھے ‘ انہیں اس مقام تک کس نے پہنچایا کہ ؏ ’’رہزنان از حفظِ اُو رہبر شدند!‘‘ جن کے متعلق نبی اکرم فرماتے ہیں کہ ’’جس نے زہدِ عیسیٰ علیہ السلام دیکھنا ہو تو وہ میرے ساتھی ابوذرؓ کو دیکھ لے!‘‘. لبیدؓ شعرائے سبعہ معلقہ کے سلسلے کے آخری شاعر ہیں‘ ان کے ایک شعر پر سوقِ عکاظ میں تمام شعرائے وقت نے ان کو سجدہ کیا تھا وہ ایمان لے آئے تو قرآن کے ذریعے.کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ اب شعر نہیں کہتے؟ توجواب ملا: أَبَعْدَ الْقُرْآنِ؟ یعنی قرآن کے نزول کے بعد میری کیا مجال کہ میں شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کروں طفیلؓ دوسی یمن کے رہنے والے قادر الکلام شاعر تھے. جب مکہ آئے تو قریش کے بہکانے پر کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ مبادا کانوں میں کلام اللہ پڑ جائے. لیکن ایک دن خود ہی رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن سننے کی فرمائش کرتے ہیں اور جیسے ہی کچھ حصہ سنتے ہیں‘ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا‘بے شک یہ وحی الٰہی ہے اور اُ سی وقت مسلمان ہو جاتے ہیں الغرض اس کتابِ ہدایت کے طفیل‘ جو رہزن تھے وہ رہبر بن گئے‘ جو اُمّی تھے‘ اَن پڑھ تھے وہ دنیا کے لئے معلم بن گئے‘ جو زانی و شرابی تھے‘ وہ عصمتوں کے محافظ اور مکارمِ اخلاق کے علمبردا ربن گئے. یہ سب کچھ قرآن کی معجزنمائی تھی.

میری اس گفتگو کا نتیجہ بھی یہ نکلا کہ دعوت و انقلابِ نبویؐ کا اساسی منہج عمل پورے کا پورا قرآن مجید کے گرد گھومتا ہے یا سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیا جائے کہ نبی اکرم  کا آلۂ انقلاب ہے قرآن حکیم! اس با ت کو مولانا حالی مرحوم نے تو نہایت سادہ اور سلیس الفاظ میں یوں بیان کیاکہ ؎

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا!
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادیؐ عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی!

اورعلامہ اقبال مرحوم نے اسی بات کو یوں الفاظ کا جامہ پہنایا ؎

در شبستانِ حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید!
پھر علامہ مرحوم نے حد درجہ پُرشکوہ الفاظ میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے کہ:
گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن!
آں کتاب زندہ قرآنِ حکیم حکمتِ اُو لایزال است و قدیم
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است!
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا است ایں زندہ و پائندہ و گویا است ایں!
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود!

اب ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجئے. اگر کوئی دعوت اس قرآن سے پرے پرے دی گئی ہوقرآن کو Bypass کر کے دی گئی ہو‘ قرآن کے بجائے کسی شخصیت کے لٹریچر کے بل پر چل رہی ہو‘ کسی اور کی تصانیف پر چل رہی ہو‘ وطنیت و قومیت کے نام پر چل رہی ہو تو وہ دعوت اُسوۂ رسول  سے ہٹی ہوئی ہے اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں کہتا اُسوۂ رسول تو یہ ہے دعوت و تبلیغ‘ انذار و تبشیر‘ تلقین و نصیحت ان سب کا مبنی ٰ‘ مداراور مرکز و محور صرف اور صرف قرآن ہو گا.