اب رسول اللہ کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں مجھے تنظیم و ہجرت کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے نبی اکرم کی تنظیمیں دو ‘نوعیتوں کی تھیں. ایک تنظیم کی نوعیت تو یہ تھی کہ‘ آپکے بربنائے نبی و رسول ہونے کے ‘جو شخص آپؐ پر ایمان لے آیا‘ اس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا ‘تو وہ خودبخود بحیثیت مؤمن آپ کا مطیع و فرماں بردار ہو گیا اور آپ سے آپ اس بڑی تنظیم میں شامل ہو گیا جس کو امت مسلمہ سے موسوم کیا جاتا ہے. اب کسی دوسری تنظیم کی حاجت ہی نہیں. وہ حضور کے احکام کا پابند ہے. آپ کی اطاعت سے سرمو انحراف کرے گا تو اس کا ایمان ہی سلامت نہیں رہے گا. اس سے زیادہ مضبوط تنظیم کا دنیا میں وجود ممکن ہی نہیں ہے. دنیا میں ہر شخص کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ لیکن رسول اللہ سے تو اختلاف ممکن نہیں. اختلاف کیا تو ایمان کی خیر نہیں اختلاف کرنا تو دور رہا‘ بات مان بھی لی لیکن اگر دل میں کوئی اضطراب یا تنگی رہ گئی تو بھی ایمان کی خیر نہیں. ازروئے الفاظ قرآنی:

فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء:۶۵
’’نہیں(اے محمد !) آپؐ کے رب کی قسم یہ ہرگز مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپؐ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو کچھ آپؐ فیصلہ کریں اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سربسر تسلیم کر لیں.‘‘ 

آپ نے دیکھا کہ آنجناب  کے حکم کو تسلیم نہ کرنے پر ہی نہیں بلکہ آپ کے فیصلوں کوہیں اس لئے اس سے حذر ہی بہتر ہے. ان حیلوں سے دل کو مطمئن کر لیا جاتا ہے. لوگ سڑک پر چلتے ہوئے حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں‘لیکن اس کے باوجود باہر نکلنا ترک نہیں کر تے. دل میں اصل چور یہی ہے کہ میں کیوں کسی کی مانوں؟لیکن یہ جان لیجئے کہ تنظیم و جماعت کے بغیر دنیا میں کبھی کوئی کام نہیں ہو سکتا.