اَلْحَمْدُ لِلّہ کہ اس کتابچے کی چوتھی طباعت کے موقع پر نظر ثانی کی فرصت بھی میسر آگئی‘ اور کتابت بھی از سر نو کرا لی گئی گویا اب یہ کتابچہ ظاہری اور معنوی دونوں اعتبارات سے پہلے سے بہتر صورت میں پیش کیا جا رہا ہے .
نظر ِثانی کے دوران بار بار قلب کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کے لیے تشکر و امتنان کے جذبات پوری شدت کے ساتھ اُبھرے کہ اُس نے محض اپنے فضل و کرم سے اب سے بارہ تیرہ سال قبل مجھ ایسے کم علم اور بے بضاعت انسان کے قلم سے یہ دو مقالے تحریر کرا دیے‘ جو نہ صرف یہ کہ سیرتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے صحیح فہم کے لیے بمنزلہ کلید ہیں‘ اس لیے کہ ان سے آنحضورﷺ کی حیاتِ دنیوی کی ِجدوجہد ُکا اصل ہدف بھی معین ہو جاتا ہے اور آپؐ کا اساسی منہج عمل بھی واضح ہو جاتا ہے بلکہ ان تمام تحریکوں کی اہم ترین اورانتہائی اساسی عملی ضرورت کو بھی پورا کرتے ہیں جو مختلف مسلمان ممالک میں احیاءِ اسلام اور غلبہ ٔدین کے عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں یعنی اوّلاً: اس امر کا واضح تعین کہ احیاءِ اسلام اور غلبہ دین کی جدوجہد اسلام کے نظامِ فکر و عمل میں کس مرتبہ و مقام کی حامل ہے؟ اور توحید‘ معاد اور رسالت کے اساسی نظریات و معتقدات کے ساتھ اس کا علمی اور نظری ربط کیا ہے؟ اور ثانیاً اس امر کی وضاحت کہ اس عظیم جدوجہد کا نقطہ ٔآغاز کیا ہے؟ اور اسلامی انقلاب کے مرحلہ اولیٰ یعنی مردانِ کار کی تیاری کے لیے دعوت ‘ تزکیہ اور تعلیم کا قرآنی اور نبویؐ منہاج کیا ہے؟
راقم الحروف کے واقفانِ حال اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کی اکثر و بیشتر مطبوعات راقم کی ان تقاریر یا دروس پر مشتمل ہیں جنہیں رفقاء و احباب (بالخصوص رفیق مکرم شیخ جمیل الرحمن صاحب) نے ٹیپ سے اتار کر اپنے اپنے ذوق اور فہم کی مناسبت سے مرتب کر کے شائع کر دیا ہے اور گزشتہ بائیس سال کے عرصے میں براہِ راست راقم کے قلم سے نکلنے والی تحریروں کی تعداد بہت کم ہے اس ’قدرِ قلیل‘میں یہ دو مقالے دین کے حرکی تصور کی وضاحت او ر تحریک ِاسلامی کی علمی و فکری اساس کی تعیین کے اعتبار سے سرفہرست ہیں. (اور شاید یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے‘ راقم کے معمول اور عادت کے بالکل برعکس‘ اپنے خصوصی فضل و کرم سے ان پر پورے اہتمام کے ساتھ نظر ِثانی کی ہمت اور فرصت بھی عطا فرما دی تھی‘ فَلَـہُ الحَمْدُ !)
ان میں سے مقالہ ٔاولیٰ یعنی ’’نبی اکرمﷺ کا مقصد ِبعثت‘‘ دو ابواب میں منقسم ہو گیا ہے‘ یعنی ’’بعثت ِانبیاء ؑکا اساسی مقصد‘‘اور ’’بعثت ِمحمدیؐ کی اتمامی اور تکمیلی شان‘‘.ان میں سے پہلا باب چونکہ فلسفہ و حکمت ِدین کے بعض غامض اور دقیق مباحث پر مشتمل ہے‘ لہٰذا ایک عام قاری اسے قدرے مشکل اور ثقیل محسوس کرے گا ‘ لیکن اگر ذرا ہمت و محنت سے اس کے صغریٰ و کبریٰ کو ذہن نشین کر لیا جائے تو ان شاء اللہ العزیز کارکنوں کی دعوتی وتحریکی سرگرمیوں میں کسی نہ کسی درجہ میں عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ (۱) کا عکس پیداہو جائے گا!
رہا دوسرا باب‘ تو وہ تو احیاۓ اسلام اور غلبہ ٔدین کی جدوجہد میں مصروف و مشغول ہر صاحب فہم و شعور انسان کے لیے ’’لابُدَّ مِنہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس لیے کہ اس کے صحیح فہم و ادراک کے بغیر نہ صرف یہ کہ اس کی بھاگ دوڑ اور سعی و ُجہد ؏ ’’آہ! وہ تیر ِنیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف!‘‘ کی صورت اختیار کر سکتی ہے. (اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک!) بلکہ اس کا بھی شدید خطرہ موجود رہتا ہے کہ انسان اپنی کم ہمتی اور قوتِ ارادی (۱) یوسف:۱۰۸: ’’پوری بصیرت کے ساتھ‘ میں خود بھی اور وہ بھی جو میری پیروی کر رہے ہیں.‘‘ کے ضعف کے باعث‘یا ذرا سی بددلی اور مایوسی یا اپنی کوشش اور محنت کے حسب منشا نتائج برآمد نہ ہوتے دیکھ کر سعی و جہد ہی سے دستکش ہو جائے اور اپنی بے عملی اور تعطل کے لیے علم اور تحقیق کے نام کو بٹہ ّلگاتے ہوئے کسی الٹی سیدھی دلیل کا سہارا لے لے اس ضمن میں واقعہ یہ ہے کہ آیہ مبارکہ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (التوبۃ:۳۳‘الفتح:۲۸‘الصف:۹) پر جو جامع اور مدلل تحریر راقم کے قلم سے آج سے تیرہ سال قبل ’صادر‘ ہو گئی تھی‘ میں اسے سراسر اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم کا مظہر اور ایک خاص وقت کی کیفیات اور خصوصی جذبے کا مرہونِ ّمنت سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اسے نہ صرف ان لوگوں کے حق میں سرمۂچشم بنا دے جو اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے ساتھ خلوص و اخلاص کا رشتہ رکھنے کے باوجود تاحال دین کے حرکی تصور سے ناآشنا ہیں اور محض جامد مذہبیت پر تکیہ کیے ہوئے ہیں‘ بلکہ ان بہت سے پرانے راہروانِ راہِ حق کو بھی اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کا ذریعہ بنا دے جو کسی شخص یا جماعت کے طرزِ عمل سے دل برداشتہ ہونے کے باعث اقامت ِدین کی جدوجہد ہی سے کنارہ کش ہو گئے ہیں‘ اور اب مختلف گوشہ ہائے عافیت میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘ تاکہ یہ ’’بھٹکے ہوئے راہی‘‘ بھی دوبارہ ’’سوئے حرم‘‘ گامزن ہو جائیں (۱) وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ!
مقالہ ثانیہ یعنی ’’انقلابِ نبویؐ کا اساسی منہاج‘‘ توجہ کو اسلامی انقلاب کے مرحلہ اولیٰ پر مرتکز کر کے اس اندیشے کا سد ِباب کرتا ہے کہ کوئی طاقتور جذبہعمل ‘ انسان کی اس طبعی کمزوری کی بنا پر جو خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ ؕ (۲) میں بیان ہوئی ہے‘ بنیادی استحکام‘ اور ابتدائی لوازم (pre-requisites) کو نظر انداز کر کے اپنی تیز روی اور عجلت پسندی کے باعث(۱) ’’بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل . اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت ِصحرا دے!‘‘ (اقبال)
(۲) الانبیاء:۳۷ :’’انسان کی خلقت میں عجلت پسندی شامل ہے.‘‘ اپنے آپ کو خود ہی ناکامی کا مستحق نہ بنا لے موضوع اور عنوان کی مناسبت سے‘ ظاہر ہے کہ ‘ اس مقالے میں’ انقلابِ نبویؐ ‘ کے بقیہ مراحل پر گفتگو خارج از بحث تھی‘ لیکن الحمد للہ کہ اب جملہ مراحل پر راقم کی جامع تالیف ’’منہج ِانقلابِ نبویؐ ‘‘ ّمنصہ شہود پر آ چکی ہے جس سے اسلامی انقلاب کے تمام مراحل از ابتدا تا انتہا واضح اور مبرہن ہو گئے ہیں - - فلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃ!
جن حضرات کو اس کتابچے کے مطالعے سے کوئی ’رہنمائی‘ میسر آئے‘ ان سے استدعا ہے کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس راہ پر ثبات اور استقامت عطا فرمائے جس کی نشاندہی اس کتابچے میں کی گئی ہے اِدھر میں ان کے حق میں دعا کرتا رہوں گا کہ علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق کہ ؎
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدرؓ بھی عطا کر!
اگر اللہ نے انہیں اس راہ کی صداقت اور حقانیت ّپر ذہنی اطمینان اور قلبی انشراح عطا فرما دیا ہے تو اس پر عملاً گامزن ہونے کی ہمت اور توفیق بھی عطا فرمائے‘ واللّٰہ الموفّق والمُستعان!
اس کتابچے پر نظر ثانی کے سلسلے میں جو تعاون قرآن اکیڈمی کے بزرگ استاد محترم حافظ احمد یار صاحب نے فرمایا اور جن مفید مشوروں سے نوازا‘ ان کے لیے تہہ دل سے ممنون ہوں.
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ میری اس حقیر پیشکش کو شرفِ قبول عطا فرماکر اسے دین ِحق کی نشأۃِ ثانیہ کی جدوجہد کے سلسلے کی ایک مفید کڑی اور میرے حق میں توشہ ٔآخرت بنادے‘ آمین!
۲۴/جولائی ۱۹۸۸ء ۹/ذی الحج ۱۴۰۸ھ
خاکسار : اسرار احمد عفی عنہ