حضرت شیخ الہندؒ ‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ اور مسئلۂ انتخاب و بیعت ِامام الہند
(۱) موضوع زیرِ بحث پر ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک اہم تحریر جو اوّلاً ’میثاق‘ بابت ستمبر اکتوبر ۱۹۷۵ء اور پھر ’میثاق‘ جنوری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی
(۲) مولانا افتخار احمد مراد آبادی کے دو تائیدی خطوط
(۳) مولانا اللہ بخش ایازؔ ملکانوی کے اعتراضات و استفسارات اور ان کاجواب
(۴)حکیم محمود احمد برکاتی کی وضاحتی تحریر اور اس پر ’میثاق‘ کا نوٹ
امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک تحریرجو ’میثاق‘ بابت ستمبر اکتوبر ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی تھی:
مولانا ابوالکلام آزاد جمعیت علماءِ ہند اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ علیہ
’’میثاق‘‘ بابت اکتوبر و نومبر۱۹۷۴ء کے ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ کے صفحات میں جو ایک طویل تحریر راقم الحروف کے قلم سے شائع ہوئی تھی اُس میں اس ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ کے جائزے کے سلسلے میں جو اس وقت پورے عالم اسلام میں جا ری ہے‘ قومی تحریکوں کے ذریعے حصولِ آزادی اور علمائے کرام کے دفاعی رول کے ذکر کے بعد عرض کیا گیا تھا:
’’اس‘ ہمہ جہتی احیائی عمل‘ کا تیسرا اور اہم ترین گوشہ وہ ہے جس میں وہ جماعتیں اور تنظیمیں برسرِکار ہیں جو قائم ہی خالص احیائی مقاصد کے تحت ہوئیں اور جنہیں اب اس احیائی عمل کے اعتبار سے گویا مقدمۃ الجیش کی حیثیت حاصل ہے! مختلف مسلمان ممالک میں ایسی جماعتیں اور تنظیمیں مختلف ناموں کے تحت کام کرتی رہی ہیں لیکن ؎ ’’ہے ایک ہی جذبہ کہیں واضح کہیں مبہم‘‘ اور ’’ہے ایک ہی نغمہ کہیں اونچا کہیں مدھم‘‘ کے مصداق ان کی حیثیت ایک ہی تحریک کے تحت کام کرنے والی مختلف تنظیمی ہیئتوں کی ہے.
ان جماعتوں میں سے اگرچہ ایک دَور میں جوش اور جذبے کی شدت اور اثر و نفوذ کی وسعت کے اعتبار سے مصر کی ’’الاخوان المسلمون‘‘ توجہات اور اُمیدوں کا مرکز بن گئی تھی‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ احیائی عمل کے اس گوشے میں بھی اصل اہمیت برصغیر ہند و پاک ہی کو حاصل ہے.
برصغیر میں اس تحریک احیائے دین کے مؤسس اوّلین اور داعی ٔاوّل کی حیثیت مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کو حاصل ہے جنہوں نے اس صدی کے بالکل اوائل میں’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے(۱) ’’حکومت ِ الٰہیہ‘‘کے قیام اور اس کے لیے ایک ’’حزب اللہ‘‘ کی (۱) ’’الہلال‘‘ کا اجراء ۱۹۱۲ء میں ہوا تھا! تأسیس کی پرزور دعوت پیش کی. مولانا کے مخصوص طرزِ نگارش اور اندازِ خطابت نے خصوصاًتحریک ِخلافت کے دوران ان کی شہرت کو برصغیر کے طول و عرض میں پھیلایا اور ان کی دعوت نے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو مسخر کر لیا. لیکن اس کے بعد خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کس سبب سے انہوں نے اس عظیم مشن کو خیرباد کہہ کر انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی اور باقی پوری زندگی پوری یکسوئی اور کمال مستقل مزاجی کے ساتھ ہندوستان کی نیشنلسٹ سیاست کی نذر کر دی.
مولانا کی زندگی کے اس عظیم انقلاب کے ممکن اسباب میں ان کی حد سے بڑھی ہوئی ذہانت کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے کہ ؏ ’’اے روشنی ٔطبع تو برمن بلاشدی!‘‘مولانا بلاشبہ عبقری تھے اور عبقری انسان زیادہ عملی نہیں ہوا کرتے.اس کا کچھ سراغ ان کے اس جملے میں بھی ملتا ہے کہ ’’ہم بیک وقت گلیم زہد اور ردائے رندی اوڑھنے کے جرم کے مرتکب ہیں‘‘.اور ایک خیال جو زیادہ قرین قیاس ہے یہ بھی ہے کہ مولانا کی حیثیت ایک سکہ بند اور مسلّم عالم دین کی نہ تھی اور اس وقت تک مسلمانانِ ہند پر علماء کی گرفت بہت مضبوط تھی ‘لہٰذا مولانا کو گویا راستہ بند نظر آیا. اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کے ذریعے ہم تک پہنچی اور جس کا حاصل یہ ہے کہ دس سال کے عرصے میں اپنے پیش نظر مقصد کے لیے تمہیدی مراحل کی تکمیل کے بعد اپریل ۱۹۲۲ء میںمولانا نے دہلی میں منعقدہ جمعیت علمائے ہند کی کانفرنس میں مفتی کفایت اللہ مرحوم اور مولانا احمدسعید مرحوم کے تعاون سے اگلا قدم اٹھانے کی سکیم بنائی. چنانچہ پہلے خودانہوں نے تقریر کی اور اپنے جوشِ خطابت سے حاضرین کے جذبۂ عمل کو ابھارا ہی نہیں للکارا. اور پھر مولانا احمد سعید صاحب نے تقریر کی کہ حضرت شیخ الہندؒ کی رحلت کے بعد سے مسلمانانِ ہند کی قیادت کی مسند خالی ہے.اور اب جو مرحلہ درپیش ہے اُس میں ’’شیخ الہند‘‘سے بھی بڑھ کر ’’امام الہند‘‘ کی ضرورت ہے. اب غور کرو اور اس کے لیے کسی موزوں شخص کو تلاش کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کرو اور جدوجہد کا آغاز کردو. لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مطلوب تھا. چنانچہ علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیری اٹھے اور انہوں نے براہِ راست مولانا آزاد کو خطاب کر کے ان الفاظ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا کہ ’’ایاز قدرِ خود بشناس!‘‘ جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پوری تقریر میں کیا کچھ ہو گا. بہرحال اس سے دل شکستہ اور دل برداشتہ ہو کر مولانا اس کام ہی سے دست کش ہو گئے اور اس کے فوراً بعد ہی انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی! اس پر ہمیں محترم احمد حسین کمال صاحب (۱) کا درج ذیل مکتوب ملا ‘ جس کا آغاز تو نہایت مشفقانہ ہے لیکن اختتام اسی قدر متحدیانہ(challenging) ہے:
’’مکرم و محترم ‘ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ‘ سلام ورحمۃآپ کا مؤقر ماہنامہ ’’میثاق‘‘ گاہے بگاہے موصول ہوتا رہتا ہے. میں اس کے لیے آپ کا نہایت ممنون ہوں. میں ہمیشہ آپ کے مضامین بغور پڑھتا ہوں اور آپ کے دینی جذبہ کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا ہوں.
تاہم آپ کے افکار اور آپ کا طریق تنظیم‘ ابتدائی دور کی ‘ جماعت اسلامی‘ اور مودودی صاحب کے انداز کا سا ہے اور اس کے نتائج و مراحل کے بارے میں بہت سے اندیشے سامنے آ جاتے ہیں.
لیکن فی الحال میرا ارادہ اس سلسلے میں کسی تبصرہ اور تنقید کا نہیں ہے‘ بلکہ اس عریضہ کا مقصد آپ کی توجہ‘ آپ کی ایک حالیہ تحریر کی طرف مبذول کرانا ہے‘ جو ماہنامہ ’’میثاق‘‘ نومبر ۱۹۷۴ء میں ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئی ہے.
آپ کے اس طویل مقالے کے بہت سے مقامات ایسے ہیں جو قابل گفتگو ہیں‘ لیکن یہاں میں صرف ایک مقام کی بات کرنا چاہتا ہوں جو ’’میثاق‘‘ کے اس پرچہ کے (۱) ڈاکٹر کمال صاحب سے غائبانہ تعارف تو راقم الحروف کو کچھ پہلے سے بھی حاصل تھا‘ لیکن بالمشافہ ملاقات ان سے ۷۰.۱۹۶۹ء میں ہوئی جبکہ پاکستان کی سیاسی فضا میں بڑی گرما گرمی تھی اور دائیں اور بائیں بازو کے درمیان کچھ کاغذی اور کچھ ہوائی جنگ بڑے زور و شور کے ساتھ جاری تھی. جس میں دوسرے بہت سے ’’متقابلین‘‘ کے شانہ بشانہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے مابین بھی معرکہ آرائی چل رہی تھی موصوف اس زمانے میں جمعیت کے ہفت روزہ آرگن ’’ترجمان اسلام‘‘ کے مدیر تھے اور غالباً جمعیت کے پالیسی بنانے والے حلقوں میں بھی خاصے دخیل تھے. بہرحال ان سے مل کر اندازہ ہوا کہ مذہب سے تو ان کا تعلق کچھ واجبی اور روایتی سا ہی ہے‘ البتہ وہ ایک منجھے ہوئے سیاسی کارکن اور پختہ سوشلسٹ ورکر ہیں. بعد میں وہ کراچی منتقل ہو گئے اور ’’ـجمعیت اکادیمی‘‘ کے نام سے کچھ کتابیں بھی انہوں نے شائع کیں جن میں سے ایک مولانا آزاد مرحوم کی سیاسی بصیرت سے متعلق بھی تھی. راقم کا خیال تھا کہ یہ اکادیمی جمعیت علماء اسلام ہی کاکوئی ذیلی ادارہ ہے ‘لیکن پچھلے دنوں کراچی جانا ہوا تو بڑی تلاش و جستجو سے راقم کورنگی کراچی میں ڈاکٹرصاحب کے دولت خانے پر حاضر ہوا. اگرچہ ملاقات کا شرف تو حاصل نہ ہو سکا تاہم یہ معلوم کر کے کچھ حیرت بھی ہوئی اور کسی قدر دکھ بھی ہوا کہ نہ صرف وہ خود بلکہ ان کے پسرِ کلاں بھی روسی سفارت خانے کے کسی ذیلی ادارے میں ملازم ہیں اگرچہ ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ ؏ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!‘‘ اُمید ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہماری اس ’’حق گوئی‘‘ کا برا نہ منائیں گے! صفحہ ۳۹ پر ہے اور حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ سے متعلق ہے.
آپ نے محترم پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کے حوالہ سے جو واقعہ جمعیت علماءِ اسلام کے اجلاس منعقدہ ‘ دہلی‘ اپریل ۱۹۲۲ء کے بارے میں لکھا ہے میں اس کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ ایک تاریخی واقعہ کی تصحیح فرما لیں.
جمعیت علماءِ ہند ۱۹۱۹ء میں قائم ہوئی.
پہلا اجلاس امرتسر میں ہوا‘ اور پہلے صدر مولانا عبدالباری فرنگی محلی منتخب ہوئے.
دوسرا اجلاس ۱۹۲۰ء میں دہلی میں ہوا‘ اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اس کے صدرتھے.
تیسرا اجلاس ۱۹۲۱ء میں لاہور میں منعقد ہوا‘ مولانا ابوالکلام آزاد اس کے صدر تھے.
اس سال اپریل میں مولانا آزاد گرفتار کرلیے گئے.
قولِ فیصل کے نام سے ان کا مشہور تاریخی بیان اس گرفتاری کے بعد ہی علی پور کلکتہ کی جیل میں عدالت کے سامنے دیا گیا تھا.
چنانچہ ۱۹۲۲ء میں مولانا‘ جیل میں تھے‘ دوسرے یہ کہ ۱۹۲۲ء کے جمعیت علماءِ اسلام کا اجلاس ‘ دہلی میں نہیں‘ گیا ‘ صوبہ بہار میں منعقد ہوا تھا. اور مولانا آزاد کی گرفتاری پر احتجاج کا ریزولیشن پاس کیا گیا تھا. نیز مولانا کو مبارک باد کا تار بھی بھیجاگیا تھا.
ا س اجلاس کی صدارت مولانا حبیب الرحمن صاحب دیوبندی نے کی اور اس سال کے جمعیت علماء اسلام کے صدر بھی مولانا حبیب الرحمن صاحب ہی تھے. اس تفصیل سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مولانا آزادؒ اور مولانا معین الدین اجمیری سے منسوب ’’میثاق‘‘ میں ذکر کردہ اس واقعہ کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے.
مجھے عرض کرنا پڑتا ہے کہ مولانا آزاد کے معاملہ میں بعض حلقوں کے احساسِ کمتری نے بہت سے ‘ خانہ ساز جھوٹ تراشے ہیں‘ یہ بھی منجملہ ان کے ایک ہے.
۱۹۲۲ء میں نہ تو جمعیت علماء اسلام کا اجلاس دہلی میں ہوا ‘ نہ مولانا اس سال قید فرنگ سے آزاد تھے.
پھر بھلا اس سارے افسانہ کی کیا حقیقت ہے. پتا نہیں پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب تک یہ روایت کن صاحب نے پہنچائی.
کانگریس میں حضرت مولانا آزاد کی شمولیت کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ان کے دینی اور سیاسی پروگرام کا ایک جزو تھی. اس موضوع پر میں تفصیل سے روشنی ڈال سکتا ہوں ‘مگر ابھی صرف اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں.
اگر آپ کی حق پسندی اجازت دے تو ’’میثاق‘‘ کی آئندہ اشاعت میں ‘ ان سطور کو شائع فرما دیجیے.
بہرحال میں نے اپنا فرض ادا کر دیاہے. والسلام کمال‘‘
اس خط کی وصولی پر راقم نے سب سے پہلے تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ مضمون میں روایت کے ساتھ راوی کا نام بھی درج کر دیا گیا تھا اور وہ بفضلہ تعالیٰ ابھی بقید حیات ہیں. پھر جب پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب سفرِ کراچی سے واپس آئے تو معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا. لیکن انہوں نے صرف یہ مزید وضاحت کر کے کہ مجھے یہ واقعہ مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم کے برادرِ بزرگ مولانا عبدالماجد بدایونی نے سنایا تھا اور وہ اس اجتماع میں بنفس نفیس موجود تھے‘ یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ ’’ہو سکتا ہے کہ سن کے بارے میں میری یادداشت نے غلطی کی ہو‘ بہرحال میرے پاس ان باتوں کی تحقیق و تفتیش کے لیے وقت نہیں ہے!‘‘
چشتی صاحب تو یہ کہہ کر فارغ ہو گئے لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے لیے یہ معاملہ اتنا غیر اہم نہ تھا. چنانچہ غور شروع ہوا کہ اس سلسلے میں کس سے رجوع کیا جائے. اوّلاً ذہن مولانا سید حامد میاں صاحب کی جانب منتقل ہوا کہ وہ مولانا محمد میاں صاحب کے فرزند ارجمند ہیں‘ جو جمعیت علماءِ ہند کی اہم شخصیتوں میں سے ہیں. چنانچہ ان سے رجوع کیا گیالیکن معلوم ہوا کہ وہ اس پورے معاملے سے بالکل بے خبر ہیں.
اچانک ذہن جماعت اسلامی کے بزرگ رکن اور مشہور صحافی ملک نصر اللہ خاں عزیزؔ کی طرف منتقل ہوا. موصوف کے بارے میں کبھی یہ بات سننے میں آئی تھی کہ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے ہاتھ پر بیعت کی (۱) تھی. موصوف اب بہت ضعیف بھی ہیں اور بالکل گوشہ گیر بھی‘ ان سے ان کے فرزند اکبر ملک ظفر اللہ خان صاحب کی وساطت سے رابطہ (۱) ملک صاحب نے نہ صرف اس کی توثیق فرمائی بلکہ یہ بھی بتایا کہ ۱۹۳۰ء میں وہ گونڈہ جیل میں مولانا آزاد کے ساتھ ہی نظربند تھے. اور وہیں ’’ترجمان القرآن‘‘ کی جلد اوّل کی طباعت و اشاعت کے سلسلہ میں اشتراکِ عمل طے پایا تھا. ملک صاحب نے مزید بتایا کہ بعد میں جب جماعت اسلامی قائم ہوئی اور ملک صاحب اس میں شامل ہو گئے تو ڈاکٹر نذیر احمد الٰہ آبادی نے مولانا ابوالکلام آزاد کو جماعت کا لٹریچر پہنچایا اور ملک صاحب نے بھی اس سلسلے میں ان سے بات کی تو انہوں نے فرمایا: ’’کام تو درست ہے ‘ لیکن میں مودودی صاحب کی صلاحیت اور استعداد سے واقف نہیں ہوں. مزید برآں اگر میں جماعت میں شامل ہوں تو ظاہر ہے کہ پھر پروگرام بھی میں دوں گا!‘‘ اس پر گفت و شنید کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا. قائم کیا جن سے راقم کو اسلامی جمعیت طلبہ کے زمانے سے نیاز حاصل ہے‘ تو کچھ امید افزا صورت نظر آئی. چنانچہ ان کی خدمت میں باقاعدہ حاضری دے کر معلومات حاصل کیں. ملک صاحب نے فرمایا:
’’۱۹۲۱ء میں جمعیت علماءِ ہند کا جو اجلاس بریڈ لا ہال لاہور میں ہوا تھا (۱) اس موقع پر یہ خبر گرم تھی کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو امام الہند مان کر بیعت کی جائے گی‘ لیکن بعد میں کچھ نہ ہوا. اور معلوم ہوا کہ اندرونِ خانہ دیوبندی علماء میں سے مولانا شبیر احمد عثمانی اور غیر دیوبندی علماء میں سے مولانا معین الدین اجمیری نے شدت کے ساتھ اس کی مخالفت کی تھی!‘‘
مزید برآں‘ ملک صاحب نے اس کی بھی توثیق فرمائی کہ مولانا عبدالماجد بدایونی بھی اس اجلاس میں موجود تھے!
اس سے اصولی طور پر تو چشتی صاحب کی روایت کی تصدیق ہو گئی تاہم ابھی مزید تحقیق کا خیال تحت الشعورمیں موجود تھا کہ ایک خاص ضرورت سے کراچی میں مولانا منتخب الحق قادری (۲) کی خدمت میں حاضری کا موقع ہوا تو اچانک ذہن اِدھر منتقل ہوا کہ مولانا موصوف کو مولانا معین الدین اجمیریؒ کے تلمیذ ِ رشید کی حیثیت حاصل ہے چنانچہ اُن سے بھی معاملہ زیربحث کے متعلق استفسار کر دیا گیا. جواباً مولانا نے باقاعدہ اِملا کرایا کہ:
’’مولانا (معین الدین اجمیری) نے بغیر تاریخ اور سن کے ذکر کے تذکرہ فرمایا کہ کسی کو امام الہند ماننے کی تجویز زیر غور تھی. اس کے لیے پہلے سے خط و کتابت بھی چل رہی تھی‘ بعد ازاں جامع مسجد دہلی میں ایک جلسہ ہوا جس میں تمام علمائِ ہند جمع ہوئے اور اس موضوع پر نہایت زوردار تقریریں ہوئیں اور سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا. مولانا آزاد کی تقریر گویا حرفِ آخر کا درجہ رکھتی تھی جس سے تمام حاضرین مسحور سے ہو گئے اور یہ آوازیں بھی بلند ہوئیں کہ ہاتھ بڑھایئے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں!اس پر میں نے صدرِ جلسہ سے صرف پانچ منٹ کچھ کہنے کے لیے مانگے جو بہت مشکل سے اس شرط کے ساتھ ملے کہ چھٹا منٹ کسی صورت نہ ہونے پائے. میں نے کھڑے ہو کر (۱) جمعیت علماءِ ہند کے اس اجلاس کا ذکر ڈاکٹر شیر بہادر پنی کی ایک حالیہ تالیف ’’افاداتِ مہر‘‘ میں دو طرح آیا ہے : (دیکھئے چوکھٹہ ‘ ص ۷۰)
(۲) مولانا کراچی یونیورسٹی میں ڈین آف فیکلٹی آف تھیالوجی ہیں. راقم کو ۶۴.۱۹۶۳ء میں ایم اے اسلامیات کی تعلیم کے سلسلے میں مولانا سے شرف تلمذ حاصل ہوا تھا. ان کی خدمت میں مذکورہ حاضری دوسری سالانہ قرآن کانفرنس کے سلسلے میں ہوئی تھی. عرض کیا کہ علماء کے اس موقر اجتماع میں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور صرف اشارہ کافی ہے. میں جملہ علماء کی توجہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو آپؓ نے حج سے واپسی پر اس قسم کا چرچا سن کر کی تھی کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر حضرت عمرؓ ‘ کا انتقال ہو گیا تو ہم فوراً اور دفعۃً فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے. حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کریں اور پھر فرمایا کہ ’’فلتۃً بیعۃ‘‘ (۱) اُمت کے حق میں کبھی مفید نہیں ہو گی.اگر لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے استدلال کریں گے تو بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کریں گے ‘اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ واحد شخصیت ہیں جن کے لیے اس قسم کی بیعت خالی از مضرت تھی. انؓ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ایسا موجود نہیں ہے! میرے اس توجہ دلانے پر جلسے کا رنگ ایک دم تبدیل ہو گیا. میری تائید میں مولانا انور شاہ صاحب نے ایک نہایت غامض اور دقیق تقریر فرمائی اور مولوی شبیر احمد عثمانی نے بھی میری تائید کی اگرچہ اس سے پہلے وہ اصل تجویز کی تائید میں تقریر کر چکے تھے!‘‘
مزید برآں مولانا منتخب الحق صاحب قادری نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مولانا نے اس اجلاس کی صدارت کے ضمن میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کا ذکر فرمایا تھا !‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’میں نے اس موضوع پر ایک خط کی نقل نصیر میاں (۲) کے پاس دیکھی ہے جو مولانا نے عبدالباری فرنگی محلی کے نام تحریر فرمایا تھا!‘‘
گویا راقم کے سمند ِشوق کو ایک اور ایڑ لگ گئی ‘ چنانچہ کشاں کشاں حکیم نصیر الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ اور ان سے متذکرہ بالا خط کی فوٹو سٹیٹ کاپی حاصل کی جس کی عبارت درج ذیل ہے :
’’از دار الخیر‘ اجمیر
۲/ستمبر۱۹۲۱ء
مرجع انام حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
والا نامہ نے عزت بخشی‘ سابق والا نامہ چونکہ جواب طلب نہ تھا اس وجہ سے تاریخ‘مقررۂ (۱) یعنی کسی ہنگامی اور جذباتی فضا میں دفعۃً اور اچانک کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لینا.
(۲) حکیم نصیر الدین صاحب مالک نظامی دوا خانہ‘ صدر کراچی فرزند مولانا حکیم نظام الدین مرحوم برادرِ خورد مولانا معین الدین اجمیریؒ . آنمخدوم کو ذہن میں رکھ کر عریضہ حاضر کرنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ ۵/محرم الحرام کے بعد حاضر خدمت ہو کر آنمخدوم کی ہم رکابی میں پنجاب روانہ ہو جائوں گا. یہی ارادہ اب بھی ہے. اطلاعاً عرض کیا گیا لیکن دہلی کے جلسہ ٔ جمعیت العلماء کی شرکت نے اس سفر میں ایک جدید مانع پیش کر دیا‘ کیونکہ اس کی تجویز کے مطابق ۱۷ و ۱۸ ستمبر کو جلسۂ منتظمہ قرار پایا ہے. اس میںضبطی ٔ فتویٰ و مسئلۂ امامت پیش ہو گا جس کی طرف جناب مولوی ابوالکلام صاحب کو بے حد رجحان ہے. چونکہ ان کو اس مسئلہ سے زیادہ دلچسپی ہے اس وجہ سے خالی الذہن علماء ان کی تقریر سے متأثر ہوئے. اگر من جانب فقیر اس کے التوا کے متعلق مختصر و جامع تقریر نہ ہوتی تو کچھ عجب نہ تھا کہ حاضرین علماء اسی وقت اس مسئلہ کو طے کر دیتے. اس وجہ سے علماء دہلی کا یہ خیال ہے کہ فقیر خصوصیت کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہو. اِدھر جناب مولوی شوکت علی صاحب نزاعِ رنگون کے متعلق زور دے رہے ہیں کہ فقیر جلد سے جلد وہاں پہنچ کر ان نزاعات کا تصفیہ کرائے جن کی وجہ سے وہاں کی کمیٹی ٔخلافت کا وجود خطرہ میں ہے. اب میں حیران ہوں کہ کہاں جائوں اور کس سفر کو پہلے اختیار کروں. اس کے متعلق امروز و فردا میں آنمخدوم کی خدمت میں عریضہ حاضر کرنے والا تھا کہ دفعتاً والا نامہ نے شرف بخشا. مناسب معلوم ہوا کہ اس کے جواب میں عرضِ حال کر دیا جائے جو آں مخدوم کی رائے ہو گی اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے بالکل تیار ہوں. فقط فقیر معین الدین کان اللہ لہٗ ‘‘
مندرجہ بالا شواہد اور قرائن کی بنا پر نفس مسئلہ تو بالکل طے ہو گیا ‘یعنی مولانا ابوالکلام آزاد کے لیے امام الہند کے خطاب اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی تجویز اور پھر اس کے ناکام رہ جانے میں مولانا معین الدین اجمیری کاخصوصی حصہ تو بلاشائبہ ریب و شک ثابت ہو گیا. البتہ مختلف روایتوں کی جمع و تطبیق اور کچھ دوسرے قرائن و شواہد کی روشنی میں جو صورت سامنے آتی ہے وہ غالباً کچھ یوں ہے:
۱. یہ مسئلہ سب سے پہلے جمعیت العلماء ہند کے اُس دوسرے اجلاس میں زیر بحث آیا جو دہلی میں ۷ تا ۹ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ (مطابق نومبر۱۹۲۰ء)حضرت شیخ الہندؒ کے زیر صدارت منعقد ہوا اور جس کے تقریباً دس ہی دن کے بعد ان کا انتقال ہو گیا. اور اُسی موقع کی روداد ہے جو مولانا معین الدین اجمیریؒ نے مولانا منتخب الحق صاحب کو سنائی اور انہوں نے راقم کو املا کرائی. ظاہر ہے کہ اس موقع پر مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی ذات زیر بحث نہیں آئی تھی بلکہ اس اصولی اعتراض پر کہ ایسے اہم معاملے پر فیصلہ اچانک نہیں کر لیا جانا چاہیے ‘تجویز زیر غور پر فیصلہ ملتوی کیا گیا تھا تاکہ مزید مشورہ بھی ہو سکے اور سوچ بچار بھی!
۲ . فطری طورپر اس کے بعد یہ معاملہ بحث و تمحیص اور خط و کتابت کا موضوع بنا رہا ہوگا تاآنکہ جمعیت کا وہ تیسرا اجلاس سر پر آ پہنچا جو لاہور میں نومبر ۱۹۲۱ء میں منعقد ہوا. چنانچہ بعض دوسرے امور کے علاوہ خاص اس مسئلے پر بھی حتمی فیصلہ کر لینے کے لیے مجلس منتظمہ کا وہ اجتماع ۱۷ یا ۱۸ ستمبر ۱۹۲۱ء کو دہلی میں منعقد ہونا طے پایا جس کا ذکر مولانا معین الدین اجمیریؒ نے اپنے مکتوب بنام مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ محررہ ۲ ستمبر ۱۹۲۱ء میں کیا ہے اغلباً یہی وہ اجلاس ہے جس میں وہ واقعہ پیش آیا جس کی روایت مولانا عبدالماجد بدایونی مرحوم کی وساطت سے مخدومی پروفیسر یوسف سلیم چشتی کو اور ان سے راقم کو پہنچی اور درجِ ’’میثاق‘‘ ہوئی. ظاہر ہے کہ یہی وہ موقع تھا جہاں ’’امام الہند‘‘ کے عظیم و رفیع منصب کے لیے جس شخص کا نام تجویز کیا جا رہا تھا اس کی ذات لامحالہ زیربحث آتی اور اس سلسلے میں جو کچھ مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں مولانا معین الدین اجمیری نے کہا ہو گا اس کا کسی قدر اندازہ ان کے اُس ایک جملے ہی سے بخوبی ہو جاتا ہے جومحولہ بالا خط میں موجود ہے یعنی ’’اس میں ضبطی ٔ فتویٰ اور مسئلۂ امامت پیش ہو گا جس کی طرف جناب مولوی ابوالکلام صاحب کو بے حد رجحان ہے‘‘ اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ بحث کی گرما گرمی میں مولانا معین الدین اجمیری نے مولانا ابوالکلام آزاد کو براہِ راست خطاب کر کے کہا ہو کہ ’’ایاز قدر خود بشناس!. کہاں تم اور کہاں یہ رفیع و عالی منصب! تم ایسے نوعمر (مولانا آزاد مرحوم کی عمر اس وقت کل ۳۳ برس تھی!) کو تو اکابر علماء کی موجودگی میں زبان کھولنا بھی مناسب نہیں! رہا تمہارا علم و فضل تو اس کا بھانڈا ابھی پھوٹا جاتا ہے ذرا منطق کی فلاں کتاب کی عبارت تو پڑھ کر سنا دو!‘‘ چنانچہ لگ بھگ اسی مفہوم پر مشتمل تھے وہ کلمات جو چشتی صاحب نے نقل فرمائے تھے اور راقم نے جان بوجھ کر حذف کر دیے تھے اور صرف ’’ایاز قدر خود بشناس!‘‘کے الفاظ سے کلام کے رُخ کی جانب اشارہ کرنے پر اکتفا مناسب سمجھا تھا!
۳. اس کے دوسوا دو ماہ بعد ہوا بریڈ لا ہال لاہور میں جمعیت کا وہ تیسرا اجلاس جس کا ذکر ع’’دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا!‘‘کے سے انداز میں فرمایا ہے ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب نے‘ اور جس کی صدارت کے لیے منتظمین نے پیشگی مولانا ابوالکلام آزاد کا نام اس اُمید میں طے کر دیا ہو گا کہ مجلس منتظمہ میں یہ تجویز بہرحال منظور ہو ہی جائے گی. تو جسے امام الہند مان کر اس کے ہاتھ پر عمومی بیعت کرنی ہے کیوں نہ یہ اجلاس اسی کی صدارت میں ہو. یہ دوسری بات ہے کہ مجلس منتظمہ کے اجتماع میں تجویز پاس ہونے سے رہ گئی. چنانچہ لاہور کا اجلاس خانہ پری کے لیے ہوا تو سہی لیکن کچھ یونہی پھیکے سے انداز میں. یہی وجہ ہے کہ خود مولانا آزاد اس میں اُکھڑے سے رہے جس کا تذکرہ ہے‘ ڈاکٹر شیر بہادر خاں پنی کی بیان کردہ روداد میں! اور بالکل مطابقِ قرائن ہے یہ بات کہ یہی ’’اُکھڑاہٹ‘‘ تھی جس کے نتیجے کے طور پر مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے جمعیت العلماء کا پلیٹ فارم ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا اور ع ’’کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے!‘‘ کے مصداق اپنی جولانی ٔطبع کے لیے انڈین نیشنل کانگرس کا وسیع و عریض میدان منتخب کر لیا!!
اب اگر تو ڈاکٹر احمد حسین کمال صاحب ان تفاصیل سے بے خبر ہیں اور اسی بناپرانہوں نے اس روایت کی تردید کی ہے تو پھر بھی غنیمت ہے. لیکن اگر یہ سب کچھ جانتے بوجھتے انہوں نے محض تاریخ اور سن کی ایک معمولی سی غلطی سے فائدہ اٹھا کر اس قدر متحدیانہ انداز میں حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے تو بہت ہی ہلکی رائے ان کے بارے میں قائم کرنی ہو گی. گویا : ؎
اِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِیْ فَھٰذَا مُصِیْـبَـۃٌ
وَاِنْ کُنْتَ تَدْرِیْ فَالْمُصِیْبَۃُ اَعْظَمُ
ہماری خواہش بہرحال یہ ہے کہ صورتِ حال پہلی ہی ہو نہ کہ دوسری!
====== ۲======
مسئلہ متذکرہ بالا پر تحقیق و تفتیش کے دوران راقم الحروف پر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت کے بعض ایسے پہلو منکشف ہوئے جن کی جانب پہلے توجہ نہ ہوئی تھی. جہاں تک ان کے علم و فضل‘ تقویٰ و تدین‘ خلوص و للہیت. پھر صبر و استقلال‘ ہمت و عزیمت اور مجاہدہ و مصابرت‘ گویا علم اور عمل کی جامعیت کا تعلق ہے اس کا تو کسی قدر اندازہ پہلے بھی تھا لیکن وسعت ِ نگاہ اور بالغ نظری کے ساتھ ساتھ وسعت ِ قلب اور عالی ظرفی کا جو امتزاج اُن کی ذات میں پایا جاتا تھا اس کی جانب پہلے توجہ نہ ہوئی تھی.
مولانا ۱۳۳۳ھ میں ہندوستان سے عازمِ حجاز ہوئے تھے. جہاں سے گرفتار ہو کر تقریباً تین سال اور سات ماہ حالتِ اسیری میں رہے اور رہائی ملنے پر۲۰ رمضان المبارک ۱۳۳۸ھ مطابق ۸ جون۱۹۲۰ء کو واپس بمبئی پہنچے. اِس کے بعد اُن کی زندگی نے کل چھ ماہ کے لگ بھگ وفا کی اور ۱۸ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ مطابق ۳۰ نومبر۱۹۲۰ء کو وہ خالق حقیقی سے جا ملے! پھر اس مختصر مدت کے دوران ضعیفی اور عام نقاہت پر مستزاد مرض و علالت کا بھی مسلسل ساتھ رہا. بایں ہمہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہ دین و مذہب اور ملت و اُمت کے مسائل سے فارغ الذہن ہو سکے نہ ملک و وطن کے معاملات سے! اور اس مختصر مدت میں جو چند کام انہوں نے کیے یا کرنے کی کوشش کی ان پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ موجود الوقت صورتِ حال کا بالکل صحیح تجزیہ کر چکے تھے بلکہ ان کی نگاہیں مستقبل کے حالات و واقعات کا بھی نہایت دور تک مشاہدہ کر رہی تھیں. مزید برآں ان کی عالی ظرفی اور وسیع القلبی کے تو وہ شواہد سامنے آتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ؏
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!
اور اس پس منظر میں‘ ہمیں معاف فرمایا جائے اگر ہم اپنے آپ کو اپنے اس احساس کے اظہار پر مجبور پائیں ‘کہ اُن کے جانشینوںمیں سے مختلف حضرات ان کی ہمہ گیر شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے وارث تو ضرور بنے‘ لیکن کوئی بھی ان کی جامعیت کا وارث نہ بن سکا . گویا ؎
نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گِل ایراں وہی تبریز ہے ساقی!
اور صورتِ حال بالکل اس شعر کے مصداق ہو گئی کہ ؎
اڑائے کچھ ورق لالے نے‘ کچھ نرگس نے ‘ کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!
خصوصاً وہ حضرات جو سیاست‘ یا جہادِ حریت‘ یا تحریک ِاستخلاصِ وطن کے میدان میں اُن کے جانشین بنے انہوں نے تو اپنے گرد تقلید ِجامد کا لبادہ اس قدر کس کر لپیٹا کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہو گئی لیکن انہوں نے اپنے موقف میں ترمیم کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی. حالانکہ اس کے بالکل برعکس کیفیت نظر آتی ہے حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت میں:
مثلاً علمی و تعلیمی اور تہذیبی و تمدنی اعتبار سے ملت اسلامیہ ہند کے بحر محیط میں جو دو روئیں علی گڑھ اور دیوبند کی صورت میں بالکل مخالف سمت میں بہہ نکلی تھیں اور ان سے جسد ملی کے پارہ پارہ ہونے کا جو شدید خطرہ موجود تھا اس کا بالکل بروقت اور صحیح اندازہ مولانا نے فرما لیا‘ حالانکہ وہ خود ان میں سے ایک کشتی میں بالفعل سوار تھے اور اس اعتبار سے بالکل خلاف توقع نہ ہوتا اگر خود ان میں یک رُخا پن پیدا ہو جاتا یا کم از کم فریق ثانی کے لیے کوئی نرم گوشہ دل میں موجود نہ رہتا. لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس چھ ماہ سے بھی کم مدت میں انہوں نے ایک تو علی گڑھ کا دورہ کیا اور وہاں ان کی عالی ظرفی اور وسعت ِ قلبی کایہ مظاہرہ سامنے آیا کہ انہوں نے برملا فرمایا کہ:
’’میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی گم شدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں. بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر الٰہی کی روشنی جھلک رہی ہے … اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جا رہی ہیں‘ مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی جانب بڑھایا اور اس طرح ہم نے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا!‘‘ (۱)
اور دوسرے جدید اور قدیم کے امتزاج کی سعی اور علی گڑھ اوردیوبند کے مابین ایک درمیانی راہ پیدا کرنے کے لیے مسلم نیشنل یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جو بعد میں ’’جامعہ ملّیہ‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی. یہ بالکل دوسری بات ہے کہ پیش نظر مقصد کے اعتبار سے یہ تجربہ بھی ناکام رہا!
دوسری طرف تحریک استخلاصِ وطن کے ضمن میں ہندو مسلم اشتراک عمل کے نظری طور پر قائل اور اس پر بالفعل عامل ہونے کے باوجود مولاناؒ کی نگاہِ حقیقت بین نے ہندوؤں کے طرزِ عمل کا بالکل صحیح مشاہدہ کر لیا اور ان کی نگاہِ دُور رس سے ان کے آئندہ عزائم چھپے نہ رہ سکے. چنانچہ جمعیت العلماء کے دوسرے اجلاس میں جو خطبہ ٔ صدارت انتقال سے چند روزقبل آپؒ نے ارشاد فرمایا ‘اس میں یہ واضح انتباہ موجود ہے کہ:
’’ہاں‘ یہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ ان اقوام کی باہمی مصالحت اور آشتی کو اگر آپ پائیدار اور خوشگوار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی حدود کو خوب اچھی طرح دلنشیں کر لیجیے. اور وہ حدود یہی ہیں کہ خدا کی باندھی ہوئی حدود میں ان سے کوئی رخنہ نہ پڑے. جس کی صورت بجز اس کے کچھ نہیں کہ صلح و آشتی کی تقریب سے فریقین کے مذہبی امور میں سے کسی ادنیٰ امر کو بھی ہاتھ نہ لگایا جائے اور دنیوی معاملات میں ہرگز کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس سے کسی فریق کی ایذا رسانی اور دل آزاری (۱) خود نوشت سوانح حیات مولانا حسین احمد مدنی ؒ بحوالہ بیس بڑے مسلمان‘ صفحہ ۲۸۸. مقصود ہو . مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب تک بہت جگہ عمل اس کے خلاف ہورہا ہے. مذہبی معاملات میں تو بہت لوگ اتفاق ظاہر کرنے کے لیے اپنے مذہب کی حد سے گزر جاتے ہیں‘ لیکن محکموں اور ابوابِ معاش میں ایک دوسرے کی ایذا رسانی کے درپے رہتے ہیں. میں اس وقت جمہور سے خطاب نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری گزارش دونوں قوموں کے زعماء (لیڈروں) سے ہے کہ ان کو جلسوں میں ہاتھ اٹھانے والوں کی کثرت اور ریزولیشنوں کی تائید سے دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ یہ طریقہ سطحی لوگوں کا ہے اور ان کو ہندو و مسلمانوں کے نجی معاملات اور سرکاری محکموں میں متعصبانہ رقابتوں کا اندازہ کرنا چاہیے.‘‘ (۱)
بنا بریں یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ اگر مولاناؒ کی زندگی وفا کرتی تو بعد میں ہندوؤں کی جانب سے جس تنگ نظری اور کم ظرفی ہی نہیں منتقمانہ ذہنیت کا مظاہرہ ہوا اس کے پیش نظر مولانا یقینا اپنے طریق کار پر نظر ثانی فرماتے اور کیا عجب کہ مسلمانانِ ہند کے جداگانہ قومی و ملی تشخص کے سب سے بڑے علمبردار اور اس کے تحفظ کے لیے عملی سعی و جہد کے ’’قائد اعظم‘‘ وہی ہوتے.
تیسری طرف اس واقعے کو ذہن میں لایئے جس کے راوی ہیں مولانا مفتی محمد شفیع مدّظلہ کہ اسارتِ مالٹاسے رہائی اور مراجعت ِ ہند کے بعد ایک روز دارالعلوم دیوبندمیں اکابرعلماء کے ایک اجتماع میں حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ ہم نے تو اپنی اسیری کے زمانہ میں دوسبق حاصل کیے ہیں. اور جب علماء کرام‘ جن میں مولانا حسین احمد مدنی ؒ ‘مولانا انور شاہ کاشمیریؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ ایسے اکابر موجود تھے‘ ہمہ تن متوجہ ہو گئے کہ دیکھیں اس‘’’استاذُ العلماء‘‘ نے اس ضعیفی اور پیرانہ سالی میں کون سے دو نئے سبق سیکھے ہیں تو حضرتؒ نے فرمایا:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے. ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا‘ دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی‘ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے. بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں. بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا (۱) بیس بڑے مسلمان‘ صفحہ ۲۹۱. جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے.‘‘
(ماخوذ از وحدتِ اُمت‘ تالیف مولانا مفتی محمد شفیع مدظلہ‘ شائع کردہ مکتبہ المنبر لائل پور)
پھر اس اعتراف واظہار ہی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ایک عام درسِ قرآن کی نشست کا باقاعدہ بنفسِ نفیس اجراء فرما دیا. گویا اب احیائے دین اور تجدید ملت کے لیے کام جس اساس اور نہج پر ہونا چاہیے اس کی جانب رہنمائی فرما دی. جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا ہرگز لکیر کے فقیر نہ تھے بلکہ آخری عمر میں بھی مسلسل غور و فکر کی عادت برقرار تھی اور بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھ کر اس کے مطابق نقشہ ٔ‘کارمیں ضروری تبدیلی کرنے کی اہمیت ان پر پوری طرح واضح تھی اور اُمت کے زوال و انحطاط کے اسباب پر ایک ماہر معالج کے سے انداز میں تشخیص و تجویز پر ہمیشہ نظر ثانی کرتے رہنا آپؒ کی عادتِ ثانیہ تھی.
حضرت شیخ الہندؒ کی وسعت ِ قلبی اور عالی ظرفی کا سب سے بڑا مظہر مولانا آزاد کے معاملے میں انؒ کا طرزِ عمل ہے! بڑے لوگوں کی بڑائی کا ایک اہم پہلو چھوٹوں کی بڑائی کا اقرار اور ان کی اُبھرتی ہوئی شخصیتوں کو خواہ مخواہ اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر انہیں دبانے کی فکر کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی صورت میں سامنے آتا ہے. اور اس پہلو سے واقعہ یہ ہے کہ عظمت کا کوہِ ہمالیہ معلوم ہوتے ہیں حضرت شیخ الہندؒ .
۱۹۱۲ء میں جب مولانا آزاد مرحوم نے ’’الہلال‘‘ نکالنا شروع کیا تو اُس وقت ان کی عمر کا کل چوبیسواں سال تھا‘ جبکہ حضرت شیخ الہندؒ ساٹھ سے متجاوز ہو چکے تھے. اور جب ۱۹۲۰ء میں مولانا آزاد کو ’’اما م الہند‘‘ ماننے کی تجویز زیر غور تھی اُس وقت وہ بمشکل بتیس برس کے تھے جبکہ حضرت شیخ الہندؒ ستر کے قریب پہنچ چکے تھے ‘ گویا عمر میں آدھوں آدھ سے زیادہ کا فرق و تفاوت تھا! پھر کہاں جملہ علمائے ہند (۱) کا بے تاج بادشاہ‘ انگریزی سامراج کے خلاف ڈٹ جانے والوں کا سرخیل (۲) دیوبند ایسی عظیم درسگاہ کا صدر مدرس ‘اور مولانا انور شاہ (۱) واضح رہے کہ اس وقت تک دیوبندی اور بریلوی کی تقسیم عمل میں نہ آئی تھی اور جمعیت علمائے ہند جملہ علمائے ہند کا مشترک پلیٹ فارم تھی!
(۲) اس اعتبار سے مولانا کے مقام اور مرتبے کا کچھ اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مالٹا سے واپسی پر جس روز انہوں نے بمبئی کے ساحل پر قدم رکھا اس روز ان کی خدمت میں حاضر ہونے والوں میں نمایاں نام مولانا عبدالباری فرنگی محلی اور مسٹر موہن داس کرم چند گاندھی کے ہیں! کاشمیریؒ ‘مولانا اشرف علی تھانویؒ ‘ مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ‘مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ ایسے اکابر علماء کا استاذ‘ اور کہاں: ایک نوخیز نوجوان جس کی زبان میں تاثیر ‘قلم میں زور اور ’’اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک!‘‘کے مصداق جہاد کا جذبہ اور جوش تو بے شک موجود تھا لیکن نہ جبہ و عمامہ نہ عبا و قبا‘ نہ کہیں کے مفتی نہ شیخ الحدیث‘ حتیٰ کہ نہ کہیں کی سند ِفراغت نہ دستارِ فضیلت‘ ایک قرآن کا عاشق ہونے سے کیا ہوتا ہے‘ نہ کسی حدیث کی کتاب پر حاشیہ کا مصنف‘ نہ فقہ کی باریکیوں کا مسلّم نکتہ دان‘ بایں ہمہ اُس استاذ العلماء کا یہ قول ان کے شاگردوں کے حلقے میں معروف ہے کہ ’’اس نوجوان (ابوالکلام آزاد) نے ہمیں اپنابھولا ہوا سبق یاد دلا دیا!‘‘ اللہ اکبر! ہے کوئی حد اس وسعت قلبی اور عالی ظرفی کی! فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ﴿۳﴾ (الملک) .مزید غور فرمایئے: ہندوستان تقلید کا گڑھ ہے یہاں اسلام کے معنی ہی حنفیت کے ہیں. اور تقلید کے دائرے سے باہر قدم نکالنے کے معنی گویا اسلام سے نکل جانے کے ہیں. اور بقول مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ ’’علمی کام‘‘ کا مطلب یہاں صرف یہ رہا ہے کہ مسلک ِحنفی کی فوقیت دوسرے مسلکوں پر ثابت کی جائے (۱) اورخود حضرت شیخ الہندؒ پکے حنفی تھے چنانچہ بیس بڑے مسلمان کے مرتب کے الفاظ میں خود ان کا حال یہ تھا کہ:
’’مسائل مختلف فیہا میں ائمہ ثلٰثہ رحمہم اللہ بلکہ دیگر مجتہدین کے مذاہب بھی بیان فرماتے اور مختصر طور سے دلائل بھی نقل کرتے‘ لیکن جب امام ابوحنیفہؒ ‘کا نمبر آتا تو مولانا کے قلب میں انشراح‘ چہرہ پر بشاشت‘ تقریر میں روانی‘ لہجہ میں جوش پیدا ہو جاتا.دلیل پر دلیل‘ شاہد پر شاہد‘ قرینہ پر قرینہ بیان کرتے چلے جاتے‘ تقریر رکتی ہی نہ تھی اور اس خوبی سے مذہب امام اعظمؒ ‘کو ترجیح دیتے تھے کہ سلیم الطبع اور منصف مزاج لوگ لوٹ لوٹ جاتے تھے…‘‘ (صفحہ ۲۳۷)
دوسری طرف ابوالکلام آزاد حنفیت سے حد درجہ بعید ‘تقلید سے کوسوں دُور ایک آزاد خیال انسان‘ جس کی اصل عقیدت تھی امام ابن تیمیہؒ سے بایں ہمہ مولاناؒ ان کے جوہر قابل کے قائل بھی ہیں اور انہیں ’’امام الہند‘‘ مان لینے کی تجویز کے پرزور مؤید بھی پھر غور کیجیے کہ ہے کوئی حد اس عالی ظرفی اور وسعت قلبی کی اور ہے اس کی کوئی دوسری مثال اس دور میں! ثُمَّ (۱) مولانا انور شاہؒ کے اس قول کے راوی بھی مولانا مفتی محمد شفیع ہی ہیں. ان کا فرمانا ہے کہ آخری عمر میں مولانا پر شدید حسرت طاری ہو گئی تھی کہ پوری زندگی کس بے کار مشغلے میں بسر کر دی! َ ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ ﴿۴﴾ (الملک).
کاش کہ علمائے کرام ہماری ان گزارشات پر سیخ پا نہ ہوں بلکہ ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ ع ’’وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا!‘‘
واضح رہے کہ جمعیت علماِء ہند ۱۹۱۹ء میں قائم ہوئی تھی اور اگرچہ اس کے قیام کے وقت حضرت شیخ الہندؒ ہندوستان سے باہر تھے ‘تاہم چونکہ اس کے مؤسس اصلی مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒتھے جو حضرت شیخ الہندؒ کے شاگرد بھی تھے اور نہایت معتمد رفیق کار بھی. لہٰذا اس کی پشت پر اصل کارفرما ذہن حضرت شیخ الہندؒ ہی کا تھا.
دوسری طرف اگرچہ اس میں چند ایک اہلحدیث عالم بھی تھے جیسے مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ ‘تاہم اس پر اصل غلبہ ’’حنفیت‘‘ ہی کا تھا خواہ اس کا دیوبندی ایڈیشن ہو خواہ غیر دیوبندی جیسے فرنگی محلی خیر آبادی‘ بدایونی اور بریلوی .ان حالات میں مولانا ابوالکلام آزاد ایسے آزاد منش شخص کے ’’امام الہند‘‘ قرار دیے جانے کی کسی تجویز کے زیر غور آنے کا سوال ہی ہرگز پیدا نہ ہو سکتا اگر اس کی پشت پر حضرت شیخ الہند کی پرزور تائید ہی نہیں تحریک نہ ہوتی. اور ان کی وفات کے بعد بھی جس قدر شد و مد کے ساتھ اس تجویز کے لیے کام کیا مفتی کفایت اللہؒ اور مولانا احمد سعیدؒ نے اس کا بھی کوئی امکان نہیں تھا اگر یہ ان کے استاذ اور شیخ رحمہ اللہ علیہ کی خواہش نہ ہوتی رہایہ مسئلہ کہ اس تجویز کے ناکام رہنے کا اصل سبب کیا تھا تو اگرچہ بظاہر احوال تو یہ نظر آتا ہے کہ حنفیت کی شدت یا روایتی اور مدرسی علم کا ادّعا آڑے آ گیا‘ لیکن اصل سبب وہی ہے کہ ’’مَا شَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَـکُنْ‘‘ حضرت شیخ الہندؒ کا خلوص و اخلاص اپنی جگہ پر لیکن علم و حکمت الٰہی سب سے اوپر ہے.فَاِنَّکَ تَعْلَمُ وَلَا نَعْلَمُ وَتَقْدِرُ وَلَا نَقْدِرُ !اور وہی بہتر جانتاہے کہ آیا احیائے اسلام کی اس براہِ راست جدوجہد کے لیے ابھی ماحول ہی سازگار نہ تھا‘بقول شاعر ؎
ابھی نہ چھیڑ محبت کے راگ اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول سازگار نہیں!
یا جیسے کہ بعد کے حالات و واقعات سے ثابت ہوا. اس عظیم مقصد کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ہی موزوں نہ تھی گویا ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ رُوحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی!
بہرحال ہمارے لیے اصل قابل توجہ مسئلہ یہ ہے کہ ابوالکلام کی دعوت کا وہ عنصر کون سا تھا جس نے استاذ الاساتذہ اور شیخ الشیوخ مولانا محمود حسنؒ دیوبندی ایسی عظیم شخصیت کو مسحور کر دیا تھا. اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام کی دعوت بنیادی طور پر دو امور کی جانب تھی ایک : قرآن اور دوسرے : جہاد.
پہلے نکتے کی وضاحت کے لیے کفایت کرے گا حسب ِذیل اقتباس جو ماخوذ ہے ’’البلاغ‘‘ کے پہلے شمارے سے جو شائع ہوا تھا ۱۲ نومبر۱۹۱۵ء کو (۱) :
’’اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علت ِحقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دے کہ صرف ایک ہی علت اصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل و اسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جا سکتا ہے کہ علماء حق و مرشدین صادقین کا فقدان اور علماء سوء ومفسدین دجالین کی کثرت رَبَّـنَـــآ اِنَّـآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا . اور پھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے؟ تو ا س کو امام مالک کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ ’’لاَ یصلحُ آخِر ھذِہِ الاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُـھا‘‘ یعنی اُمت ِمرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہو سکے گی تاوقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اِصلاح پائی تھی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی و حقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین صادقین پیدا کیے جائیں.‘‘
اور دوسرے نکتے کے لیے کفایت کرے گی یہ حقیقت کہ جب مولانا آزاد نے توجہ دلائی اس حدیث نبوی کی جانب کہ اِنِّیْ آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اَللّٰہُ اَ مَرَنِیْ بِھِنَّ : الْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ!تو ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا اہل علم کے حلقے میں کہ بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ کے علاوہ بھی کوئی پانچ چیزیں تھیں جن کا حکم دیا تھا نبی اکرمﷺ نے اور جبکہ وہ پانچ ارکان ہیں قانونی اسلام کے وہاں یہ پانچ ارکان ہیں حقیقی ایمان کے!!
یہ دوسری بات ہے کہ آج ساٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی یہ دونوں نکات اتنے ہی غریب ہیں جتنے اس وقت تھے اور روایتی و مدرسی علم اور فقہی و قانونی تصورات کے غلبے کے تحت (۱) واضح رہے کہ لگ بھگ یہی زمانہ ہے حضرت شیخ الہندؒ کے ہندوستان سے عازمِ حجاز ہونے کا. جہاں سے واپسی پر آپ نے وہ جملے ارشاد فرمائے جو اس سے پہلے نقل ہو چکے ہیں. حقیقی اسلام بالکل اسی طرح اجنبی اور غریب ہے جس طرح اپنے آغاز کے وقت تھا. کس قدر صحیح فرمایا تھا جناب صادق المصدوق ﷺ نے کہ : بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ ! آج انہی غرباء کو پکارنے کی ایک نئی کوشش کا آغاز ہو رہا ہے تنظیم اسلامی (۱) کے قیام کی صورت میں: فَھَلْ مِنْ مُسْتَمِـعٍ وَھَلْ مِنْ مُجِیْبٍ!
٭٭٭ (۱) مولانا ابوالکلام آزاد نے احیائے اسلام کے لیے جس جماعت کے قائم کرنے کا ارادہ کیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ بالفعل قائم کربھی دی تھی اس کا نام عام طو ر پر ’’حزب اللہ‘‘ معروف ہے ‘لیکن عجب حسن اتفاق ہے کہ ’’افاداتِ مہر‘‘ میں اس کا ذکر ’’اسلامی تنظیم‘‘ کے عنوان سے ہوا ہے. چنانچہ مولانا غلام رسول مہرؔ مرحوم رقم طراز ہیں: ’’ہمارے مولانا (مولانا ابوالکلام آزاد) ۱۹۱۹ء میں نظر بندی سے رہا ہوئے تو آپ کو یاد ہو گا کہ اسلامی تنظیم کی ایک تحریک شروع ہوئی تھی جس میں مولاناؒ کو امام بنا کر کام کرنا مقصود تھا. اس سلسلے میں ایک لاکھ روپے کی رقم مولانا محمد علی (بن مولانا عبدالقادر قصوریؒ ) ہی نے فراہم کی تھی لیکن ہمارے مولانا ؒ جلد دوبارہ گرفتار ہو گئے اور وہ تحریک بھی رہ گئی. روپیہ بھی گیا‘ کچھ نہ بنا‘‘ واضح رہے کہ مولانا آزاد کے جملہ محبین و معتقدین نے اس پورے معاملے کو اس طرح گول مول رکھنا مناسب سمجھاہے. چنانچہ کہیں بھی اس موضوع پر مفصل گفتگو نہیں کی گئی. اور محترم پروفیسر چشتی صاحب والی روایت اتفاقاً درجِ ’’میثاق‘‘ نہ ہو جاتی تو غالباً اب بھی اس مسئلے کی تحقیق و تفتیش کا موقع پیدا نہ ہوتا. بہرحال اللہ تعالیٰ کی حکمت ِکاملہ میں ہر کام کے لیے ایک وقت معین ہے جس سے نہ ایک منٹ مؤخر ہو سکتا ہے نہ مقدم!
جمعیت علماء ہند کے اجلاس لاہور
نومبر ۱۹۲۱ء
کا ذکر ’’افاداتِ مہر‘‘ تالیف ڈاکٹر شیر بہادر پنی میں
(۱) اولاًڈاکٹر شیر بہادر خاں پنی کی زبانی جو ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے بطور سامع شریک تھے. ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’مولانا ابوالکلام آزاد اور جمعیت علماءِ ہند کی صدارت : جب آپ تشریف لائے اور مسندِ صدارت سنبھالی تو فرمایا کہ ’’ابتدائی کارروائی تحریری خطبۂ صدارت کے پڑھنے سے کی جائے گی‘‘.کسی شخص کو اپنا لکھا ہوا خطبہ پڑھنے کے لیے دیا. خطبہ کے تھوڑی دیر تک پڑھے جانے کے بعد لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی. لوگ تو ان کی تقریر کے پیاسے تھے جب یہ ہلچل زیادہ ہوئی تو آپ غصہ میں اٹھے. تحریری خطبہ قاری کے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا’’جو یہ سننا نہیں چاہتے وہ جاسکتے ہیں. جب چار پانچ منٹ تک ایک متنفس بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا اور ہال میں سخت سناٹا چھا گیا تو خطبہ پھر پڑھوانا شروع کرا دیا. جب یہ ختم ہوا تو اٹھے اور فرمایا’’عزیزانِ من! میں اس لب و لہجہ کا عادی نہیں‘ لہٰذا معافی چاہتا ہوں‘‘ اس کے بعد تقریر شروع کی.‘‘
(۲) اور ثانیاًمولانا غلام رسول مہر کے قلم سے وہ لکھتے ہیں: ’’آپ نے کئی مجالس کاذکرفرمایا. بریڈلاء ہال والی مجلس (جلسہ جمعیت علماءِ ہند) اس روز منعقد ہوئی تھی جومیری اخبار نویسی کا پہلا دن تھا. نومبر۱۹۲۱ء کی کوئی تاریخ تھی. میں اس‘جلسے میں اوّل سے آخر تک رہا. مولاناؒ نے کھدر کی دستار نہایت عمدگی سے باندھ رکھی تھی.‘‘
مولانا افتخار احمد فریدی(مراد آباد‘ بھارت)کے دو خطوط
مولانا افتخار احمد فریدی ملت اسلامیہ پاک و ہند کے ان چند درد مند بزرگوں میں سے ہیں جن کا ایک ایک لمحہ دین و ملت کے درد اور فکر کے لیے وقف ہے. ضعیف العمری کے ہاتھوں مجبور اور ایک ٹانگ سے معذور ہونے کے باوجود ان کا جوش اور جذبہ اور ہمت و عزیمت جوانوں کے لیے قابل تقلید ہے ماضی میں ان کا نہایت فعال تعلق تبلیغی جماعت کے ساتھ رہا ہے ‘ اور انہیں مولانا محمد الیاسؒ کی صحبت و رفاقت کا شرف بھی حاصل ہے.اُن سے سب سے قیمتی چیز جو راقم کو حاصل ہوئی وہ اُن کی یہ روایت ہے کہ مولانا الیاسؒ یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں بھی شیخ الہندؒ ہی کا آدمی ہوں!‘‘ آج کل اُن کا محبوب ترین مشغلہ خادمانِ دین و ملت کے مابین زیادہ سے زیادہ ربط و تعلق اور تعاون و توافق پیدا کرنے کی کوشش ہے بھارت کے جملہ دینی حلقوں میں نہایت معروف ہیں‘ لیکن مسلمانانِ پاکستان کی اکثریت کے لیے اجنبی اور غیرمعروف خود راقم کو اُن سے متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا‘ اور اس کے ضمن میں خود ان ہی نے نہایت شفقت آمیز انداز میں پیش قدمی فرمائی تھی اب جب بھی راقم کا بھارت جانا ہوتا ہے وہ اپنی جملہ معذوریوں کے باوجود مراد آباد سے دہلی تک کے سفر کی صعوبت جھیل کر بھی ملاقات کے لیے تشریف لاتے ہیں اور نہایت محبت اور شفقت کا اظہار فرماتے ہیں. راقم کے لیے اُن کی دعائیں سرمایۂ راحت و اطمینان ہیں.
(اسرار احمد) (۱)
حضرت محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب دام مجدہم‘ السلام علیکم.
مزاجِ گرامی!
بھائی عبدالکریم پاریکھ صاحب کے خط سے یہ خوشخبری معلوم ہوئی کہ وہ لاہور قرآن کانفرنس میں تشریف لے گئے تھے اور آپ سے خوب ملاقات رہی خدا مجھے بھی نصیب فرمائے .’’میثاق‘‘ اور ’’حکمت ِ قرآن‘‘ سے آپ کی مساعی ٔحسنہ کا حال معلوم ہو کر آپ کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں. بعض ڈاک والوں کی مہربانی سے نہیں ملتے جن کا قلق رہتا ہے .جنوری والا میثاق ماشاء اللہ بڑا جاندار ہے. جزاکم اللہ. مگر اس میں قرآن کانفرنس کا کوئی حال نہیں معلوم ہو سکا. حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب دام مجدہم کو آئندہ سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ابھی سے خط و کتابت کرائیں. بھائی پاریکھ حضرت مولانا کے بہت ہی تعلق والے ہیں ان کو بھی ذریعہ بنائیں. خدا کرے ان کی شرکت اس سال ہو جائے ابھی تو وہ جنوبی ہند کے اسفار میں ہیں. حق تعالیٰ شانہ ٗ نے پاریکھ صاحب کو بھی قرآن پاک کی خدمت و سعادت وہبی طور سے عطا فرمائی ہے ‘جی چاہتا ہے اس دور کے قرآنی خدمت گزاروں کا جوڑ آپ کے ساتھ قائم ہو جائے.
حضرت شیخ الہندؒ پر اس میثاق میں خوب تفصیل سے کچھ باتیں آ گئی ہیں جزاکم اللہ. جی چاہا کہ اس سلسلہ کی کچھ باتیں بندہ بھی عرض کر دے :حضرت کے مجدد ہونے کی بات تو آپ کی ہی زبان مبارک سے سنی تھی اس پر غور کیا تو واقعی یہ ساری بہار ان کی ہی لگائی ہوئی ہے. مولانا محمد الیاس صاحبؒ شیخ التبلیغ بھی بچپن سے ہی قیام گنگوہ سے ہی تعلق رکھتے تھے .ڈاکٹر انصاری صاحبؒ کی کوٹھی پر وفات کے وقت بھی مفتی کفایت اللہ صاحبؒ اور مولانا الیاس صاحبؒ ہی تھے. حکیم اجمل خان صاحبؒ ‘ڈاکٹر انصاریؒ ‘ حکیم نابینا صاحبؒ ‘مولانا ابوالکلام آزادؒ ‘مولانا محمد علی جوہرؒ ‘صاحبزادہ آفتاب خاں صاحبؒ ‘حاجی ترنگ زئی ؒ پر بھی حضرت شیخ الہندؒ کا خوب اثر پڑا تھا. یہ سب حضرت کے فدائی تھے. ۱۹۱۰ء میں دیوبند کا جلسہ ہوا جس میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں صاحب شریک ہوئے. اس وقت یہ بات طے ہوئی تھی کہ دیوبند کے کچھ ہونہار جدید تعلیم کے لیے علی گڑھ جایا کریں گے اور اس طرح علی گڑھ کے کچھ دیوبند کی تعلیم کے لیے آیا کریں گے. مالٹے سے واپسی پر ہڈیوں کے گھلنے والے انسان نے علی گڑھ یونیورسٹی کی جامع مسجد کے ایک ستون سے کمر لگا کر یہ ارشاد فرمایا کہ ’’مدرسوں‘ خانقاہوں سے زیادہ تم سے اُمید لگاتا ہوں. جس طرح حق تعالیٰ نے تاتاریوں کو ہدایت نصیب فرمائی تھی‘ کیا عجب ہے کہ انگریزی دانوں کو بھی اس دور میں یہ شرف مل جائے اگر یہ ہوتا ہے تو یہی طبقہ اس کام کے لیے کارآمد ہوگا‘‘. حضرت شیخ الہند کی ایک ہی یادگار انسان آپ کے خطہ میں پایا جاتا ہے مولانا عزیز گل صاحب دام مجدہم‘ خدا کرے حیات ہوں‘ خطہ ٔ سرحد میں اُن سے بھی ایک دفعہ ضرور ملاقات فرمائیں. اگر ان تک پہنچنے کے لیے ضرورت رہبر کی ہو تو قاری سعید الرحمن صاحب پنڈی والے یا مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے کسی کو لے لیا جائے.
آپ کو حق تعالیٰ شانہ ٗ نے قرآن پاک کی خدمت کے لیے قبول فرمایا ہے اس لیے عرض کر رہا ہوں‘ حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ میری زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا قرب جتنا میں نے تہجد کے وقت قرآن پاک کی تلاوت میں پایا اور کسی چیز میں نہیں پایا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اُس وقت دیکھ کر پڑھا جائے اور معنی و مطلب کا دھیان نہ کرے صرف یہ کہ اللہ کے کلام کی تلاوت کر رہا ہوں. والسلام محتاج دعا خادم افتخار فریدی
(۲) حضرت محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب دام مجدہم‘ السلام علیکم.
مزاجِ گرامی!
مارچ کے اجتماع کا دعوت نامہ ملا. جزاکم اللہ. حضرت مولانا علی میاں صاحب سعودی عرب سے واپسی پر شروع اپریل میں پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں.خدا کرے دعوتِ قرآن کے پروگرام میں کراچی اور لاہور بھی کوئی پروگرام ہو جائے. بندہ نے تو ان سے عرض کیا ہے .(مولانا علی میاں مدظلہ ٗ نے اپنے ایک حالیہ مکتوب میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں جب بھی پاکستان تشریف لائیں گے تو ان شاء اللہ قرآن اکیڈمی کو اپنے خطابات کے لیے ضرورت وقت دیں گے ادارہ)
سید قطب شہید کی تالیف ‘ قرآنی خصوصیات ‘ سعید گجرانوی صاحب کے بدست ارسال کی تھی جو دفتر مرکزی انجمن خدام القرآن میں دے آئے تھے‘ خدا کرے آپ کے ملاحظہ میں آ گئی ہو.
امارت کی انتخابی کارروائی کی تفصیل جمعیت العلماء ہند کی جن رپورٹوں میں آئی ہے اس کی ایک جلد مولانا سید حامد میاں کے ذریعہ آپ کو ملی ہو گی.
حضرت شیخ الہندؒ کے سلسلہ میں میثاق میں جو تحریر آپ کی شائع ہوئی ہے ماشاء اللہ خوب ہے. جزاکم اللہ. اس سلسلہ میں ایک بات مزید معلومات کے لیے عرض کرتا ہوں. حضرت شیخ الہندؒ نے سفر حجاز سے قبل جس میں اسارتِ مالٹا سے دوچار ہوئے‘ اپنے خواص سے بیعت جہاد لی تھی. اس میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے بھی بیعت کی تھی اور اپنے شیخ مولانا خلیل احمد صاحب سے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا.
ماشاء اللہ مولانا عزیز گل صاحب سے ملاقات کر لی. یہ بھی حضرت شیخ الہندؒ کے خواص میں سے ہیں. حضرتؒ ‘کی جان کنی کے وقت شاید مولانا عزیز گل صاحب مدظلہ بھی موجود تھے. مفتی کفایت اللہ صاحبؒ اور مولانا محمد الیاس صاحبؒ ‘کا بھی حضرت شیخ الہندؒ کے پاس دریا گنج میں ڈاکٹر انصاری صاحبؒ ‘کی کوٹھی پر موجود ہونا تو یقین سے معلوم ہوتا ہے.
ایک بات یہ بھی عرض کروں کہ حضرت نانوتویؒ کے والد صاحبؒ ‘ کو آخری عمر میں اسہال کا مرض ہو گیا تھا .دیوبند مسجد انار والی حجرہ قاسمی میں قیام تھا. چوکی اور کونڈا وہاں رہتا تھا. اس کی صفائی استاد شاگرد کرتے تھے. ایک روز کونڈا رکھنے سے رہ گیا تھا تو دست زمین پر پھیل گیا. شاگرد فکر مند ہوئے کہ اب کیسے اٹھائیں؟ حضرت نانوتویؒ اس وقت باہر سے تشریف لائے اور حجرہ کے باہر ہی اس فکر و مشورہ میں شریک ہو گئے. حضرت شیخ الہندؒ ‘بھی باہر سے ساتھ آئے تھے جب کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی تو حضرت نانوتویؒ حجرہ کی طرف تشریف لے گئے. وہاں جا کر دیکھا کہ جگہ بالکل صاف ہے. یہ صفائی حضرت شیخ الہندؒ نے کر لی تھی. بس وہیں حضرتؒ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے: ’’اے اللہ! اس لڑکے کے بارے میں قیامت کے روز میری لاج رکھ لیجیے گا‘‘. حضرت شیخ الہندؒ ‘کو حضرت نانوتویؒ کی جانشینی کا شرف اسی وقت مل گیا.
حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ مسجد نبوی میں درس دیتے تھے . حضرت شیخ الہندؒ کی گرفتاری کے وقت حضرت مدنی ؒ کو گرفتار نہیں کیا گیا. انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو پیش کیا کہ میں اس تحریک میں حضرت کے ساتھ شریک ہوں. جب مالٹا سے رہائی ہوئی تو حضرت مدنی ؒ کے خاندان کی مدینہ پاک میں کئی اموات ہو چکی تھیں. والد‘ بھائی ‘ والدہ‘ اہلیہ‘ بچیاں لیکن حضرت مدنی ؒ حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ ہی ہندوستان تشریف لے آئے اور آخر تک ساتھ رہے. وفات سے ایک روز قبل حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ میں نے مولانا آزاد سے وعدہ کر لیا تھا ان کے مدرسہ دار الارشاد کے لیے ایک مدرس کا ‘لیکن کوئی آمادہ نہیں ہے تم ہی چلے جاؤ. چنانچہ حضرت مدنی ؒ روانہ ہوگئے. راستہ ہی میں تھے کہ حضرت شیخ الہندؒ ‘کی وفات ہو گئی .بس یہی واقعہ جانشینی کاذریعہ بنا.
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ بھی برابر کے شریک تھے. جامعہ ملیہ کی بنیاد والا خطبہ مولانا شبیر احمد صاحبؒ نے ہی لکھا اور پڑھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پورا مغرب ہندوستان میں انگریزوں کے اقتدار کو اپنے مفادات کے لیے کتنا عزیز رکھتا ہے اور پورا مغرب انگریزی داں طبقہ کو اپنا سب سے زیادہ حامی خیال کرتا ہے.
ماشاء اللہ مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب نے وہ مدرسہ رحیمیہ سنبھال لیا ہے جس نے ملت ہندیہ کی بقا و سلامتی کا حضرت مجدد صاحبؒ والے پروگرام کو چلانے والے شاہ ولی اللہ صاحبؒ پیدا کیے تھے. خدائے پاک ان سب کا آپ کو وارث و جانشین بنائے. آپ کی صحت کا فکر رہتا ہے . دعا کرتا رہتا ہوں . اب آپ کام کرنے والے بنائیں ‘خود کرنے کے بجائے دوسروں سے کام لیں اوران کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دیں.
والسلام
خادم افتخار فریدی
مراد آباد‘ بھارت
مکتوبِ گرامی ڈاکٹر شیر بہادر خان پنی بنام شیخ جمیل الرحمن
محترمی زاد عنایتہٗ! السلام علیکم
ماہِ مئی کے شمارے میں مراد آباد (بھارت) سے ایک مکتوب کی آخری سطر ہے:
’’… اب آپ کام کرنے والے بنائیں‘ خود کرنے کے بجائے دوسروں سے کام لیں اور ان کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دیں‘‘. گو کام مشکل تو ہے مگر ضروری ہے.
’’خیالات و افکار کا پیدا کرنا آسان ہے مگر خیالات و افکار کے بقا و قیام کے لیے اشخاص کا پیدا کرنا مشکل ہے.‘‘ (بحوالہ الہلال)
لیکن یہ کام ضروری ہے. ڈاکٹر صاحب نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ تو بڑی عزیمت کا کام ہے. اس میں عمریں کھپ جاتی ہیں اور پھر آج کل جب دنوں میں صدیاں بیت رہی ہیں‘ اس کام میں کامیابی کے لیے عرصہ ٔدراز درکار ہو گا. ’’درخت سب بوتے ہیں لیکن ہر شخص کے نصیب میں یہ نہیں ہوتا کہ پھل بھی کھائے. پس نہایت مبارک ہے وہ ہاتھ جو تخم پاشی کے بعد اپنے دامن میں اس کے پھلوں کو بھی دیکھے.‘‘ (الہلال)
مگر بالفاظ ’’الہلال‘‘ مرحوم:
’’خلوص کے لیے موت نہیں اور حق و صداقت کے لیے ناکامی نہیں. دنیا میں ہر چیز مٹ سکتی ہے پرحق و صداقت ہی ایک بیج ہے جو پامال نہیں ہو سکتا.‘‘
میں اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف موم بتی کو دونوں سروں سے نہ جلائیں ؏
ایں رشتہ مسوز کہ چندیں دراز نیست
یہ چند باتیں ڈاکٹر صاحب سے قلبی تعلق کی وجہ سے زبانِ قلم پر آ گئیں وگرنہ من آنم کہ من دانم.
بہ حرفے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از شوقِ حضوری طول دادم داستانے را
طالب دعا
شیر بہادر خان (ایبٹ آباد)
٭٭٭ جامعہ باب العلوم ‘ کہروڑ پکا ضلع ملتان کےمولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی کا امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد سےبراہِ راست اور بواسطہ ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان
استفسار اور اُس کا جواب!
(۱)
جناب ملکانوی کا پہلا خط محررہ ۱۸/جمادی الاخریٰ ۱۴۰۴ھ امام الہند بنانے کی تجویز . استاذ العلماء شیخ الہند کا کردارشیخ الہند کے جانشینوں کو دعوتِ فکر اور ایک سوال!
ڈاکٹر اسرار احمد کے حضور عرضِ نیاز!
میثاق بابت جنوری ۱۹۸۴ء میں امیر تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر اسراراحمد صاحب کا ایک مضمون ’’مولاناابوالکلام‘ جمعیت العلماء ہند اور شیخ الہند مولانا محمود حسن ‘‘ شائع ہوا جس میں مولانا ابوالکلام آزادؔ کو امام الہند بنانے کی تجویز اور استاذ العلماء حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی وسعت ِ نگاہ اور بالغ نظری کے ساتھ ساتھ موصوف کی وسعت قلبی اور عالی ظرفی کا منہ بھر کر واشگاف الفاظ میں اقرار کیا گیا. اور مولانا ابوالکلام کی دعوت کے بنیادی عنصر (قرآن و جہاد) کی بھی نشاندہی فرما دی گئی جس نے استاذ الاساتذہ اور شیخ الشیوخ مولانا محمود حسن دیوبندی ایسی عظیم نابغہ ٔروزگار شخصیت کو مسحور کر دیا تھا اور استاذ العلماء بایں علم و فضل‘ تقویٰ و تدین و خلوص و للہیت برملا فرمایا کرتے تھے کہ اس نوجوان (ابوالکلام آزاد) نے ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے اور یہ سب کچھ تقلید کے گڑھ ہندوستان میں ہو رہا تھا جہاں اسلام کے معنی ہی حنفیت کے ہیں اور تقلید کے دائرے سے باہر قدم نکالنے کے معنی گویا اسلام سے نکل جانے کے ہیں اور اس تمام تر کارروائی کے خالق حضرت شیخ الہندؒ پکے کٹر حنفی ہیں اور جس عبقری نابغہ ٔ روزگار شخصیت کے سر پر امامت ِہند کا تاج رکھنا چاہتے ہیں وہ بیک وقت گلیم زہد اور ردائے رندی اوڑھنے کے جرم کے مرتکب اور بالکل اسم بامسمیٰ آزاد ہیں. حنفیت سے حد درجہ بعید‘ تقلید سے کوسوں دور ایک آزاد خیال انسان نہ کہیں کی سند فراغت ‘نہ دستار فضیلت‘ نہ جبہ و عمامہ ‘نہ عبا و قبا ‘نہ کہیں کے مفتی نہ شیخ الحدیث . لیکن بایں ہمہ مولانا دیوبندی ان کے جوہر قابل کے قائل بھی ہیں اور انہیں امام الہند مان لینے کی تجویز کے پرزور مؤید بھی.
الحاصل ان تمہیدی گزارشات کے بعد جنہیں دراصل ڈاکٹر صاحب کے فرمودات و ارشادات کا خلاصہ کہنا بے جا نہ ہوگا‘ یہ بات روزِ روشن کی طرح کھل کر سامنے آتی ہے کہ حضرت شیخ الہند نے قیامِ حکومت الٰہیہ اور تجدید و احیائے دین وتجدید ملت کی منزل کو قریب تر کرنے کے لیے ماہ و سال‘ اعلیٰ و ادنیٰ‘ قدیم وجدید اور فکر و نظر کے تمام تراختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تحریک احیائے دین کے مؤسس ابوالکلام آزاد کو امام الہند تجویز کرانے میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں تو کیا آج بھی اگر کوئی شخص جو کہ معروف طریقہ کا سکہ بند اور مسلم عالمِ دین نہ ہو اور نہ ہی حنفیت کی جلی چھاپ رکھتا ہو‘ لیکن بایں ہمہ اُمت مسلمہ کو انحطاط و زوال اور نکبت و فلاکت سے نکالنے کے لیے اعتصام بالقرآن اور دعوت رجوع الی القرآن کا محض خیالی داعی اور ڈھنڈورچی ہی نہیں بلکہ ؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں!
کا مصداق ہو.تو کیا ان حالات میں استاد العلماء شیخ الہند کے ارادت مند عقیدت کیش جانشینوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بھی اپنے شیخ کی طرح وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اس دور میں دوسری مثال قائم کر دیں گے اور کسی ایسی نابغہ ٔ روزگار ہستی کی امامت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے فھل من مستمع وھل من مجیب یا پھر سکہ بند حنفیت‘ زہد و تقویٰ کی اجارہ داری یا روایتی و مدرسی علم کا ادّعا آڑے آئے گا؟بہرحال امیر تنظیم اسلامی کی طرف سے شیخ الہند کے جانشینوں کو یہ ایک دعوتِ فکر ہے چاہے وہ اتباعِ شیخ میں وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی کا بھرپور مظاہرہ کریں یا پھر حنفیت کی تقلید ِجامد اور روایتی و مدرسی علم کا ادّعا انہیں حق بات تسلیم کرنے سے روک دے. امیر موصوف کے ارشاد کے مطابق علماءِ کرام ہماری ان گزارشات پر سیخ پا نہ ہوں بلکہ ٹھنڈے دل سے غور کریں ؏
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
الحاصل امیر تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر اسرار احمد کا بڑے پرپیچ ‘پراسرار اور دبے دبے لفظوں میں شیخ الہند کے جانشینوں سے یہ ایک مطالبہ ہے . نہ معلوم اس خیر سگالی مطالبہ کا ان کی طرف سے کس وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی سے جواب دیا جاتا ہے. یہ ان حضرات کا نجی معاملہ ہے جس سے سردست ہمیں سروکار نہیں.
القصہ مذکورہ بالا مقدمات کو جب ترتیب دیا جائے تو بنیادی طور پر چند خدشات سوالیہ پیدا ہوتے ہیں. سرورِ دو عالمﷺ کے فرمان کے مطابق شفاء العی السوال خیال گزرا کہ کیوں نہ ہو امیر تنظیم اسلامی ہی کے حضور اپنے اندیشہ ہائے ذہنی کو عرض کرتا چلوں. اگرچہ آج سے پہلے خاکسار کو امیر محترم سے نیاز مکاتبت کا شرف حاصل نہیں‘ تاہم اخوتِ اسلامی کے تعلق سے پرامید ہوں کہ آنجناب محروم نہ فرمائیں گے.
(۱) اسلامی تعلیمات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی وقت اربابِ حل و عقد قومی و ملی معاملات میں کسی منتخب شخصیت کی بیعت و امارت پر اتفاق کر لیں تو انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اُمت کی دستگیری اور ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے پیش نظر انہیں ایسا کرنے کا اختیار دیا جائے بشرطیکہ جسے یہ مرتبہ عالی تفویض کیا جا رہا ہے اس کے طائر دماغ میں معمولی طلب تو کجا بلکہ ناگواری کی حد تک کے انکار کا معاملہ ہو. کیونکہ اسلامی تعلیمات کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں بے طلب و مدّعا اُمورِ اُمت سپرد کیے جائیں تو باعث خیر و برکت ہوتے ہیں اور طالب منصب و مراتب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم کر دیے جاتے ہیں. یا پھر فلاح و سعادت اور نصرتِ خداوندی کی برکات سے تہی دامن رہتے ہیں. چنانچہ مسلم شریف میں عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ سرور کائناتﷺ نے مجھ سے فرمایا :’’اے عبدالرحمن! امارت کی درخواست مت کر کیونکہ اگر درخواست کے بعد تجھے ملی تو تیرے سپرد کر دی جائے گی (امدادِ خداوندی نہ ہو گی) اور اگر بغیر درخواست کے ملی تو تیری (من جانب اللہ) مدد کی جائے گی.‘‘
(۲) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ میرے دو چچا زاد بھائی تھے. ان میں سے ایک بولا یارسول اللہ جو ملک اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دیے ہیں ان میں سے کسی ملک کی حکومت ہمیں دے دیجیے اور دوسرے نے بھی یہی کہا. آپﷺ نے فرمایا :’’اللہ کی قسم ہم کسی کو اس امر کا حاکم نہیں بناتے جو اس حکومت کی درخواست کرے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے.‘‘
(۳) حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپؐ مجھے عامل نہیں بناتے. آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے کندھے پر مارا اور فرمایا:’’ابوذر تو کمزور ہے اور یہ امانت ہے قیامت کے دن سوائے رسوائی اور شرمندگی کے اور کچھ نہیں ہے‘ مگر جو اس کے حقوق ادا کرے اور جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہیں انہیں پورا کرے.‘‘
(۴) ابوالکلام آزاد کو امام الہند بنانے کی تجویز صرف اور صرف جہادِ حریت اور تحریک استخلاصِ وطن کی حد تک تھی جس کے لیے حزب اللہ کی تأسیس اور حکومت الٰہیہ کا قیام عمل میں لانا تھا. یہی وجہ ہے کہ مذہبی معاملات میں ان کے قول و فعل کو بطور حجت و دلیل کے کبھی بھی کسی نے پیش نہیں کیا اور نہ ہی مذہبی قیادت و سیادت کی دستار ان کے سر پر رکھ دی گئی تھی. جبکہ زمانہ حال کی امارت گروہی اور مذہبی حیثیت کی حامل ہے. عیاں راچہ بیاں!
(۵) مولانا ابوالکلام کے لیے امامت ِ ہند کے رفیع منصب کے مجوز و مؤید اس وقت کے خیار امت زہد و تقویٰ‘ اخلاص و للہیت‘ علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے. لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ آپ کی امارت کے مجوز و مؤید کون اور کس معیار کے لوگ ہیں. دیدہ باید.
جناب والا! آپ کے حضور زندگی کی پہلی نیاز ہے . عرض احوال کے آداب سے بالکلیہ نابلد ہوں. اگر طبع نازک پر انجان سائل کی خش خش گراں نہ گزرے تو میثاق میں جواب کا منتظر رہوں گا.
والسلام
خاکسار بندہ ایاز ملکانوی عفی اللہ عنہ (۲)
جناب ملکانوی کا دوسرا خط محررہ ۲۰/ذی قعدہ ۱۴۰۴ھ
بخدمت گرامی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب زاد اللہ شرفکم العالی!
درخواست دعا کے بعد . السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ٗ
مزاجِ محترم بعافیت راضی تمام ہوں گے. المرام آنکہ چند ماہ پیشتر ناچیز نے خدمت ِ عالیہ میں ایک سوالیہ نیاز نامہ رجسٹری کیا تھا. جس کاجواب باوجود طلب کے میثاق میں نہ آیانہ آنا تھا. اور ویسے بھی حقائق کے جواب صبح قیامت تک بن نہیں پڑتے. اس لیے یہ بات نہ کوئی باعث تعجب تھی نہ اب ہے.
البتہ حیرانی تو جناب قمر سعید صاحب کی بے تابی پر ہے کہ موصوف مجھ خاکسار کے کوائف جمع کرنے کے لیے شہر کی ایک عظیم المرتبت علمی شخصیت کو خط میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں بعض ضروری امور کی خاطر جناب ایاز ملکانوی صاحب کے کوائف کی ضرورت ہے. براہِ کرم آپ حکمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے کوائف وغیرہ حاصل کر کے ہمیں ارسال فرما دیں. ہم شکرگزار ہوں گے . آپ کا ہم سے یہ تعاون ایک دینی معاملہ ہی کے لیے مطلوب ہے.‘‘
گرامی قدر! نہ معلوم یہ کون سی حکمت قرآنی ہے اور دعوت رجوع الی القرآن کا اصول و ضابطہ ہے کہ سائل کے سوال کا جواب تب دیا جائے جب اس کے مکمل کوائف معلوم ہوں. جناب آپ کے پروگرام اور شبانہ روز سعی و محنت کا بنیادی نقطہ دعوت رجوع الی القرآن ہے تو کیا آپ کا یہ عمل اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الآیہ) کا مصداق ہونے کے ساتھ ساتھ وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْ (الآیہ) کی ہدایت ربانی کے بھی سراسر خلاف ہے ؎
اندکے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم! کہ تو آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
اچھا خیر یہ ایک نیاز مندانہ شکوہ تھا. اُمید ہے طبع نازک پر گراں نہیں گزرے گا.
عالی قدر. محرومی جواب کے باوجود بقول حضرت غالبؔ : ؎
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی!
آج پھر مختصر عرض نامہ لے کر حاضر خدمت ہوں. کاش : ؎
چھیڑنے کا مزہ تو تب ہے کہو اور سنو بات میں تم تو خفا ہو گے لو اور سنو
کرمفرمائے محترم! نزولِ وحی کی اول تاریخ بعض حضرات نے ۲۸/جولائی ۶۱۰ء بروز شنبہ شب قدر بیان فرمائی ہے جبکہ ماہنامہ حکمت قرآن جمادی الاخریٰ ۱۴۰۴ھ میں مولانا عبدالکریم پاریکھ نے مقالہ ’’قرآن مجید. قرآن کی روشنی میں‘ ‘ نزولِ قرآن عیسوی ۶۱۰ء اگست کی چھ تاریخ کو بتایا ہے.
علاوہ ازیں آیاتِ قرآن شمارِ حضرت عائشہؓ کے مطابق ۶۶۶۶ ہیں اور مولانا دریابادی نے ۶۶۱۶ کو میزانِ اصح قرار دیا ہے ‘جبکہ حکمت قرآن کے مقالہ نگار نے ۶۲۳۷ آیات شمار فرمائی ہیں.
بہرحال ان ہر دو باتوں میں توفیق مطلوب ہے. رہی بات میرے کوائف کی تو وہ حضرت اصغر سے سن لیجیے: ؎
تیرا جمال ہے تیرا خیال ہے تو ہے مجھے یہ فرصت کاوش کہاں کہ کیا ہوں میں
میں ہوں وہ مست جس کا ایک جرعہ زمزم و کوثر!
میں اس تکوین کے خمخانہ میں صہبائے وحدت ہوں
اجازت! طالب جواب والسلام
بندہ ایاز ملکانوی عفی اللہ عنہ
(۳)
ماہنامہ ’’الخیر‘‘ شمارہ جولائی ۱۹۸۴ء میں شائع شدہ تحریر
’’میثاق‘‘ بابت جنوری ۱۹۸۴ء میں امیر تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا ایک مضمون ’’مولانا ابوالکلام‘ جمعیت العلماءِ ہند اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ‘‘ شائع ہوا جس میں مولانا ابوالکلام آزادؔ کو امام الہند بنانے کی تجویز پر استاذ العلماء حضرت شیخ الہندؒ کی وسعت ِنگاہ اور بالغ نظری کے ساتھ ان کی وسعت ِقلبی اور عالی ظرفی کی مدح و توصیف کی گئی ہے اور حضرت اقدس نور اللہ مرقدہٗ کے علم و فضل ‘ تقویٰ و تدین اور خلوص و للہیت کے اعتراف و اقرار کے ساتھ ساتھ مولانا آزاد مرحوم پر آپؒ کی عنایات اور بے حد اعتماد اور حسن سلوک کا تذکرہ کیا گیا ہے. صاحب مضمون کے مطابق حضرت شیخ الہند جس عبقری‘ نابغہ ٔ روزگار شخصیت کے سر پر امامت ہند کا تاج رکھنا چاہتے تھے وہ بیک وقت گلیم زہد اور ردائے رندی اوڑھنے کے جرم کے مرتکب اور بالکل اسم بامسمیٰ آزاد تھے. حنفیت سے حد درجہ بعید‘ تقلید سے کوسوں دور‘ ایک آزاد خیال انسان ‘ نہ کہیں کی سند فراغت نہ دستارِ فضیلت‘ نہ جبہ نہ عمامہ‘ نہ عبا نہ قبا‘ نہ کہیں کے مفتی نہ شیخ الحدیث ‘لیکن بایں ہمہ مولانا دیوبندی ان کے جوہر قابل کے قائل بھی ہیں اور ان کو امام الہند مان لینے کی تجویز کے پرزور مؤید بلکہ داعی بھی.
حضرت شیخ الہند نے قیامِ حکومت ِ الٰہیہ اور تحریک احیائے دین و تجدید ملت کی منزل کو قریب تر لانے کے لیے قدیم وجدید اور فکر و نظر کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس استقامت و بلند حوصلگی سے تحریک کی قیادت فرمائی اور اس تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام اعلیٰ و ادنیٰ حضرات کو بلاامتیاز جس محبت و بندہ پروری سے نوازا ‘مولانا آزادؔ پر یہ عنایت بھی انہی مراحم خسروانہ کا ایک حصہ ہے.
مگر ڈاکٹر اسرار احمد اس سے کچھ اور مفہوم اخذ کرنا چاہتے ہیں. ان کے مطابق شیخ الہندؒ کے ارادت مند‘ عقیدت کیش جانشینوں کو اپنے شیخ کی طرح وسعت ِقلبی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اس دور میں ایک دوسری مثال قائم کرنی چاہیے اور ’’سکہ بند حنفیت‘‘ زہد و تقویٰ کی اجارہ داری اور روایتی و مدرسی علم کا ادّعا آڑے نہیں آنا چاہیے.
آج شیخ الہندؒ کے جانشین اتباع شیخ میں کس کو ’’امیر الباکستان‘‘ تسلیم کریں. اس کی وضاحت امیر تنظیم اسلامی نے نہیں فرمائی مگر ان کے پرپیچ‘ پراسرار اور دبے دبے لفظوں میں جس شخصیت کے بارے میں وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی اختیار کیے جانے کا مطالبہ چھلک رہا ہے وہ چشم بدور ’’حضرت اقدس ڈاکٹر صاحب‘‘ ہی کی ذاتِ گرامی قدر معلوم ہوتی ہے. مگر غالباً انہوں نے ازراہِ کسر نفسی اپنے نام کی صراحت نہیں فرمائی. باقی ؏
یہی کہتے ہیں وہ اور کیا کہنے کو ہیں
اور ؏
ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا!
اس بات سے قطع نظر کہ انہوں نے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کرنے اور مولاناآزاد اور اپنے درمیان عدمِ تفاو ت ظاہر کرنے کے لیے جس رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے وہ درست ہے یا نہیں؟ اور بیک وقت گلیم زہد اور ردائے رندی اوڑھنے کے مرتکب‘ حنفیت سے حد درجہ بعید‘ تقلید سے کوسوں دور آزاد خیال انسان‘سند فراغت اور دستارِ فضیلت سے محروم ‘جبہ و عمامہ اور عبا و قبا سے تہی دامن اور مفتی و شیخ الحدیث کے منصب سے خالی جیسے الفاظ سے وہ مولانا آزادؔ کا تعارف کروا رہے ہیں یا اپنی شخصیت کا نقشہ کھینچ رہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کے حسن طلب کی داد نہ دینا تنگ ظرفی ہو گی مگر یہ طلب کچھ غور طلب ہے.
کیا ڈاکٹر صاحب ہمارے طالب علمانہ ایک دو اشکالات کا جواب دینا پسند فرمائیں گے؟
(۱) اسلامی تعلیمات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی وقت اربابِ حل و عقد‘ قومی و ملی معاملات میں کسی منتخب شخصیت کی بیعت و امارت پر اتفاق کر لیں تو انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اُمت کی دستگیری اور ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے پیش نظر انہیں ایسا کرنے کا اختیار دیا جائے .بشرطیکہ جسے یہ مرتبہ عالی تفویض کیا جا رہا ہے اس کے طائر دل و دماغ میں معمولی تو کجا بلکہ ناگواری کی حد تک انکار کا معاملہ ہو. کیونکہ اسلامی تعلیمات کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں بے طلب و مدّعا اُمورِ اُمت سپرد کیے جائیں تو باعث خیر و برکت ہوتے ہیں اور طالب منصب و مراتب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم کر دیے جاتے ہیں‘ یا پھر فلاح و سعادت اور نصرتِ خداوندی کی برکات سے تہی دامن رہتے ہیں. چنانچہ مسلم شریف میں عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے. فرماتے ہیں کہ سرور کائناتﷺ نے مجھ سے فرمایا :
’’اے عبدالرحمن! امارت کی درخواست مت کر کیونکہ اگر درخواست کے بعد تجھے ملی تو تیرے سپرد کردی جائے گی (امدادِ خداوندی نہ ہو گی) اور اگر بغیر درخواست کے ملی تو تیری (من جانب اللہ) مدد کی جائے گی.’’
(۲) ابوالکلام آزادؔ کو امام الہند بنانے کی تجویز صرف اور صرف جہادِ حریت اور تحریک استخلاصِ وطن کی حد تک تھی ‘جس کے لیے حزب اللہ کی تأسیس اور حکومتِ الٰہیہ کا قیام عمل میں لانا تھا. یہی وجہ ہے کہ مذہبی معاملات میں ان کے قول و فعل کو بطور حجت و دلیل کے کبھی بھی کسی نے پیش نہیں کیا اور نہ ہی مذہبی قیادت و سیادت کی دستار ان کے سر پر رکھ دی گئی تھی. جبکہ زمانہ حال کی امارت گروہی اور مذہبی حیثیت کی حامل ہے. عیاں راچہ بیاں.
(۳) مولانا ابوالکلام کے لیے امامت ِ ہند کے رفیع منصب کے مجوز و مؤید اس وقت کے خیار اُمت زہد و تقویٰ‘ اخلاص و للہیت‘ علم و عمل میں یکتائے روزگار تھے. لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ آں موصوف کی امارت کے مجوز و مؤید کون اور کس معیار کے لوگ ہیں؟ (۴)
محترم ڈاکٹر صاحب کا جواب
مکرمی و محترمی مولانا اللہ بخش ایازؔ ملکانوی صاحب!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اُمید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے.
آپ کا پہلا والا نامہ میرے نام اغلباً مارچ ۱۹۸۴ء میں موصول ہوا تھا. میری خط و کتابت کا سلسلہ عرصہ سے بالکل بند ہے اور اکثر خطوط کے جوابات میرے رفقائے کار ہی دیتے ہیں. (اس کے متعدد اسباب ہیں جن کے ذکر کی اس موقع پر چنداں ضرورت نہیں ہے) لیکن آپ کے خط کے مضمون کی اہمیت کے پیش نظر میں خود ہی اس کا جواب تحریر کرنا چاہتا تھا (بلکہ میری خواہش تو اور ہی تھی جس کا ذکر آگے آئے گا!) ادھر اپریل ۸۴ء سے میرے بیرونِ ملک دوروں کا جو سلسلہ شروع ہوا تو اپریل میں ہندوستان اور مئی میں سعودی عرب کے طویل دورے ہوئے جون میں رمضان المبارک میں اس سال اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو نمازِ تراویح کے ساتھ پورے قرآن مجید کے ترجمہ کا دورہ مکمل کیا جولائی مکمل اور نصف اگست امریکہ اور برطانیہ کے دورے کی نذر ہو گئے. واپس آیاتو اندرونِ ملک دوروں کے ’’قرض‘‘ کی ادائیگی میں مصروف ہو گیا. اور گزشتہ دو ہفتوں سے علیل اور صاحب ِ فراش ہوں.
ادھر میری اصل خواہش آپ کو خود جواب تحریر کرنے سے بھی زیادہ یہ تھی کہ ایسے اہم موضوع پر خط و کتابت کی بجائے بالمشافہ ملاقات کی شکل نکال کر تفصیلی گفتگو کی جائے! اسیغرض سے میں نے بعض ذرائع سے آپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہی تھیں کہ اگر آپ کوئی معمر بزرگ ہوں تو میں خود حاضر خدمت ہونے کی سبیل نکالوں اور اگر نوجوان علماء میں سے ہوں تو آپ کو لاہور آنے کی دعوت دوں. اس کا آپ نے جس قدر برا منایا اس سے حیرت ہوئی تاہم آپ کے دوسرے خط کے اسلوبِ نگارش سے میرا مقصد حاصل ہوگیا اس لیے کہ اس نوعمری کا لاابالیانہ پن اور اٹھتی ہوئی جوانی کا متحدیانہ انداز آپ کی عمر کی غمازی کر رہا ہے آپ کے اس دوسرے خط کا ایک ’’ترکی بہ ترکی ‘‘ قسم کا جواب بھی تنظیم کے دفتر والوں نے تیار کر لیا تھا لیکن میں نے اسے روک لیا اس لیے کہ میں خود ہی کچھ معروضات پیش کرنے کی خواہش رکھتا تھا .اس اثنا میں معاصر ماہنامہ ’’الخیر‘‘ میں آپ کا کھلا استفسار نظر سے گزرا جس میں آپ نے اپنے پہلے خط کی تلخیص اپنے دوسرے خط کے طنزیہ انداز میں نگارش کی ہے بہرحال اب میں حاضر خدمت ہوں ‘تاخیر کے لیے معذرت کے ساتھ!
آپ نے بعض احادیث ِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میری ہدایت و رہنمائی کے لیے درج فرمائی ہیں جن کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں . (اگرچہ ان کے محل و موقع کے ساتھ عدم مناسبت کے ضمن میں بعد میں کچھ عرض کروں گا!) اور خود بھی آپ کی خدمت میں ایک حدیث ِ نبویؐ کا تحفہ پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں. یعنی لَـیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا بِاللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْـبَذِیِّ (ترمذی)اُمید ہے کہ آپ اس پر ضرورتوجہ فرمائیں گے.
جہاں تک حضرت شیخ الہندؒ سے متعلق میری تحریر کا تعلق ہے‘ اصل تحریر سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ نہ اس موضوع پر کچھ لکھنامیرے پیش نظر تھا اور نہ ہی وہ واقعات جن کا میں نے ذکر کیا ہے‘ خود میرے علم میں پہلے سے تھے. مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی زندگی کے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ والے دور سے اصولاً مجھے تعلق خاطر ہے اور اس کے تذکرے میں ایک بات میرے قلم سے وہ نکل گئی جو مجھے پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کی زبانی معلوم ہوئی تھی. جس کی شدت کے ساتھ تردید ڈاکٹر احمد حسین کمال صاحب نے کی. چنانچہ مجھے تحقیق و تفتیش میں سرگرداں ہونا پڑا جس کی پوری تفصیل میرے اس مضمون میں درج ہے اس تحقیق و تفتیش کے دوران حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت کے جو پہلو میری نگاہوں کے سامنے آئے وہ اس سے قبل خود میرے علم میں بھی نہ تھے. حالانکہ میں اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کے ترجمۂ قرآن مع حواشی مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ سے استفادہ کرتا رہا ہوں اور اس وجہ سے مجھے ان دونوں بزرگوں سے ایک گونہ تعلق خاطر حاصل تھا میری تحریر کا اصل محرک تو وہ تحریر خود بول رہی ہے کہ وہ شدت تأثر تھا جو حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت کے عظمت کے انکشاف سے مجھ پر ہوا جس کی بنا پر میری یہ حتمی رائے بنی کہ چودھویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ الہندؒ تھے ساتھ ہی یہ احساس بھی اُبھرا کہ حضرت شیخ الہندؒ کی عظمت سے خود حلقہ ٔ دیوبند کے علماء اور خصوصاً ان کی نوجوان نسل کی اکثریت پوری طرح واقف نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ ان کے حلقوں میں حضرت شیخ الہندؒ کی بعض دوسری معاصر شخصیتوں کا چرچا ان کے مقابلے میں زیادہ ہے! (واضح رہے کہ میرا نوجوانی کے دور ہی سے حلقہ ٔ دیوبند کے علماء سے رابطہ رہا ہے. جن دنوںمیں میں ساہیوال میں مقیم تھا تو جامعہ رشیدیہ اور اس سے وابستہ علماء کرام سے شرف ملاقات حاصل ہوتا رہا تھا. کراچی میں مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور مولانا مفتی محمد شفیعؒکی خدمت میں حاضری کا بارہا اتفاق ہوا! اور لاہور میں جامعہ مدنیہ اور بالخصوص مولانا سید حامد میاں مدظلہ کی خدمت میں بحمد اللہ میری مسلسل حاضری رہتی ہے. اور ان کے سامنے جب میں نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ چودھویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ الہندؒ تھے تو وہ بھی چونک سے گئے اور ان کا ردِّعمل تائیدی رنگ لیے ہوئے تھا!) اس تحریر کی دوبارہ اشاعت کا اصل محرک یہی خیال تھا کہ حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت سے لوگوں کو از سر نو متعارف کرایا جائے.
البتہ اس کے بین السطور میں آپ نے میری جس ’’نیت‘‘ یا ’’خواہش‘‘ کا سراغ لگایا ہے‘ میں اس کی بالکلیہ نہ تردید کرتا ہوں نہ توثیق - من وجہ اقرار ہے اور من وجہ انکار!
ایک شاعر کے قول ’’ہم لوگ اقراری مجرم ہیں‘‘ کے مصداق مجھے برملا اعتراف ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے‘ اور جس کے لیے میں نے اپنے پیشۂ طب کو بھی خیرباد کہاہے‘ وہ وہی ہے جس کی بیسویں صدی عیسوی میں پہلی بار نہایت زوردار دعوت دی تھی مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے اور جس کے لیے انہوں نے عملی جدوجہد کا آغاز بھی ’’حزب اللہ‘‘ کے قیام کی صورت میں کر دیا تھا‘ لیکن جسے وہ بعض داخلی عوامل اور خارجی موانع کے باعث جلد ہی بددل ہو کر چھوڑ بیٹھے مجھے حیرت ہے کہ آپ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ہی نہیں‘ حضرت شیخ الہندؒ کی مساعی کا اصل ہدفِ اوّلین بھی ’’صرف اور صرف جہادِ حریت اور تحریک استخلاصِ وطن ‘‘کو قرار دے رہے ہیں اور ’’حزب اللہ کی تأسیس اور حکومت الٰہیہ کا قیام عمل میں لانا‘‘ آپ کے نزدیک اس اصل مقصد کا ذریعہ تھا مجھے یقین ہے کہ ’’الخیر‘‘ والے مضمون میں یہ جملے آپ کے قلم سے سہواً نکل گئے ہیںورنہ یہ حقیقت آپ پر یقینا منکشف ہو گی کہ جس طرح پچھلی صدی کی دو عظیم تحریکوں میں سے اوّلین یعنی تحریک شہیدین خالصتاً مسلمانوں کی تحریک تھی اور اس کا اصل مقصد تھا ’’اعلائے کلمۃ الحق اور قیامِ حکومت ِ الٰہیہ و نظامِ شرعیہ‘‘ اور اس کے ذریعے کے طور پر پیش نظر تھا استخلاصِ وطن‘ جبکہ دوسری تحریک یعنی ۱۸۵۷ء کا جہادِ آزادی (انگریزوں کے قول کے مطابق ’’غدر‘‘) ہندوئوں اور مسلمانوں کی مشترک تحریک تھی . اور اس کا اصل مقصد تھا حصولِ آزادی البتہ اس میں جن علمائے کرام نے حصہ لیا ان کے پیش نظر یقینا مقدم الذکر مقصد بھی تھا اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے دَورِ اوّل کا اصل مقصد تھا ’’رجوع الی القرآن اور جہاد فی سبیل اللہ برائے اقامت دین اور قیامِ حکومت الٰہیہ‘‘ اور اس کے لیے انہوں نے بالفعل آغاز کر دیا تھا ’’حزب اللہ‘‘ کی تأسیس سے جبکہ ۱۹۲۰ء کے بعد سے ان کی مساعی بالفعل کلیتاً مرتکز ہو گئیں’’ صرف اور صرف جہادِ حریت اور استخلاصِ وطن‘‘ کے لیے! حضرت شیخ الہندؒ کے جہادِ زندگی کا اصل تعلق ہے ’’تحریک شہیدین‘‘ سے. اگرچہ بیسویں صدی کے اوائل میں ان کی جدوجہد میں زیادہ رنگ غالب نظر آتا ہے ’’جہادِ حریت اور استخلاصِ وطن کا‘‘ اور یہی وجہ ہے کہ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ والے ابوالکلام کے بارے میں ان کی زبان سے وہ تاریخی جملہ نکلا کہ ’’اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلادیا ہے!‘‘ اس ضمن میں ایک واقعہ اور بھی سن لیں جو حال ہی میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہ نے (جو اس وقت شیخ الہندؒ اکیڈمی دیوبند (بھارت) کے ڈائریکٹر ہیں) سنایا کہ جب کانپور کی مسجد کے واقعہ پر صورتِ حال بہت نازک ہو گئی تھی اور کشیدہ تھی اور اس سلسلہ میں نہایت تیز و تند مضامین لکھے تھے مولانا آزاد مرحوم نے. تو صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر نے دیوبند کا دورہ رکھا اور دارالعلوم میں آمد کا پروگرام بھی بنایا‘ لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کر دی کہ اس موقع پر مولانا ابوالکلام موجود نہ ہوں چنانچہ اس وقت کے مہتمم صاحب نے مولانا آزاد کے دارالعلوم میں داخلے پر پابندی لگا دی تو حضرت شیخ الہندؒ نے بھی اس جلسے کا بائیکاٹ کیا اور اس میں شرکت نہیں فرمائی. اور جب کچھ لوگوں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ’’حضرت! آپ ایک نوجوان کا اس درجہ کیوں خیال فرما رہے ہیں؟‘‘ تو انہوں نے جواباً یہ شعر پڑھا: ؎
کامل اس طبقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
(۱) مولانا سعید الرحمن علوی سابق مدیرخدام الدین نے اپنے ایک مقالہ (شائع شدہ ’’میثاق‘‘ اکتوبر۱۹۸۳ئ) میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ شیخ الہندؒ نے شدید علالت کے دوران جمعیت علماءِ ہند کے دوسرے جلسہ ۱۹تا۲۱/نومبر ۱۹۲۰ء بمقام دہلی کی صدارت بھی فرمائی تھی اور خطبہ ٔصدارت بھی ارشاد فرمایا تھا. بقول مولانا محمد میاں ’’بیماری و نقاہت کے سبب تھوڑی دیر بھی اسٹیج پر بیٹھنا دشوار تھا‘‘ لیکن اس اجلاس کے اہم ترین ایجنڈا یعنی امیر الہند کے انتخاب کے سلسلے میں ان کے احساسات یہ تھے ’’میری چارپائی اٹھا کر جلسہ گاہ میں لے جائی جائے اور یہ کام کر لیا جائے . پہلا شخص جو بیعت کرے گا وہ میں ہوں گا‘‘.
مولانا علوی نے یہ واقعہ تاریخ اُمت ص ۵۳ کے حوالے سے لکھا ہے. حضرت شیخ الہندؒ کے پیش نظر امیر الہند یا امام الہند کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ہی کا نام تھا اور تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ حضرتؒ کے ایما پر اس تجویز کے مفتی کفایت اللہؒ مجوز اور مولانا احمد سعید ؒ مؤید تھے. (ج.ر) خدارا! حقائق و واقعات کو ان کے صحیح پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کریں اورخود اپنے حلقے کی ایک عظیم شخصیت کی زندگی کے ایک دور (اور وہ بھی آخری دور) کے ایک اہم باب پرجو پردۂ خفا پڑ گیا ہے (یاجان بوجھ کر ڈال دیا گیا ہے!) اسے اٹھا کر اصل حقیقت کو دیکھنے کی سعی کریں بہرحال میرے نزدیک مولانا ابوالکلام آزادؔ مرحوم کے اس انتقالِ موقف سے جو جگہ خالی ہوئی تھی اسی کو پرُ کرنے کے لیے اٹھے تھے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم چنانچہ یہ محض ’’اتفاق‘‘ نہیں ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی پہلی تصنیف تھی ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ . جو گویا نہایت بسیط اور مدلل صدائے بازگشت تھی ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کی دعوت جہاد فی سبیل اللہ کی اور مولانا آزاد مرحوم کی تفسیر اور مولانا مودودی مرحوم کے ماہنامے دونوں کا نام ایک ہی ہے یعنی ’’ترجمان القرآن‘‘.
مولانا مودودی مرحوم کے بعض نظریات سے شدید اختلاف کے باوجود میری رائے ہے کہ انہوں نے اصلاً اس دعوت کے تسلسل کو قائم رکھا جس کے داعی ٔ اوّل مولانا آزاد تھے اور اس سلسلے میں یقینا قابل لحاظ پیش رفت بھی کی‘لیکن افسوس کہ جس طرح ان کے پیش رَواپنے رُخ کی تبدیلی کے بعد کلیتاً وقف ہو کر رہ گئے تھے ’’ہندوستان کی قومی سیاست‘‘ کے اسی طرح مولانا مودودی اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی بھی آزادی ہند اور قیامِ پاکستان کے بعد ’’پاکستانی قومی سیاست‘‘ کی نذر ہو گئے اور اس طرح خالص اقامت ِ دین و غلبہ ٔ دین کی جدوجہد اور اسلام کی انقلابی دعوت کا تسلسل پھر ٹوٹ کر رہ گیا چنانچہ اسی کے احیا کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا عزمِ مصمم کیا ہے ان سطور کے حقیر و عاجز راقم نے اوراس کام میں وہ اپنے آپ کو محتاج پاتا ہے جملہ علمائے دین‘ بالخصوص حلقہ ٔ دیوبند کے وابستگان کی اعانت اور سرپرستی کا چنانچہ یہ ہے میری اصل خواہش یا تمنا جسے آپ نے میری تحریر کے بین السطور پڑھا ہے‘ اور اس حد تک میں ’’اقرار ی مجرم‘‘ ہوں لیکن اگرآپ اسے تعبیر کرتے ہیں ’’امام الباکستان‘‘بننے کی خواہش اور منصب کی تمنا سے تو یہ میرے نزدیک ع’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘کے مصداق خالصتاً آپ کے اپنے ذہن کی تخلیق واختراع ہے جس سے میں اظہارِ براء ت کرتا ہوں اور آپ سے بھی عرض کرتا ہوں کہ اِجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّط اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْــمٌ کی قرآنی ہدایت کو پیش نظر رکھیں اور اس سوءِ ظن سے اجتناب فرمائیں.
الحمد للہ کہ مجھ پر یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہے کہ کسی ایک انسانی زندگی کے مختصر سے عرصہ میں کسی خطہ ٔ زمین میں دعوتِ اسلامی کے آغاز سے اقامت و غلبہ ٔ دین کی آخری منزل تک کے جملہ مراحل یا بالفاظِ دیگر اسلامی انقلاب کی تکمیل کا واقعہ توپوری انسانی تاریخ میں ایک ہی بار ہوا ہے یعنی سید الاوّلین والآخرین اور امام الانبیاء والمرسلین ﷺ کے دست مبارک سے اور آپ ہی کے مقصد بعثت کی آخری تکمیل (بقول امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ )‘ (ازالۃ الخفائ) کے طور پر یہ کام ایک بار پھر ہو گا اور عالمی سطح پر ہو گا‘لیکن اس کے لیے آپﷺ کے غلاموں کو کئی نسلوں تک مسلسل جدوجہد کرنی ہو گی اور ایک ایک نسل کے دوران اس عمل کو ایک ایک درجہ آگے بڑھا دینا بھی اُمت کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے اور جو خوش قسمت افراد اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ان کے لیے بہت بڑی سعادت ہو گی. اور اس ضمن میں اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوصف جو خدمت انجام دی تھی مولانا آزادؔ نے اسی کے چراغ سے روشن ہوا جماعت اسلامی کا دِیا اور اب اس کی بھی ناکامی کے بعد ان شاء اللہ اسی کی خاکستر سے نئی چنگاریاں روشن ہوں گی اور میں اپنی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود ’’خواہش مند‘‘ ہوں ؎
احب الصالحین ولست منھم لعل اللّٰہ یرزقنی صلاحًا
کے مصداق اسی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کا لیکن ہرگز مبتلا نہیں ہوں اس خبط و حماقت میں کہ یہ عظیم کام میری ’’امامت‘‘ میں سرانجام پائے گا اور میں نہ صرف یہ کہ مجددین کی فہرست میں جگہ پاجاؤں گا بلکہ بقول مولانا مودودی ’’مجدد کامل‘‘ کے مقام پر فائز ہو جاؤں گا! اس ضمن میں ‘ میں درخواست کروں گا کہ آپ میری ایک تالیف ’’سرافگندیم‘‘ کا مقدمہ ضرور ملاحظہ فرما لیں.
اس ضمن میں آپ نے جن احادیث ِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ دیا ہے اُس میں آپ سے نادانستہ ایک شدید خلط مبحث ہو گیا ہے. آپ ذرا غور فرمائیں کہ کیا حکومت کے مناصب کی طلب یا خواہش اور دین کی کسی چھوٹی یا بڑی خدمت کے لیے پیش قدمی ایک ہی قبیل کی چیزیں ہیں؟ آپ کے استدلال کا غلط نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی شخص کسی حال میں بھی دین کی خدمت کا داعیہ لے کر نہ اٹھے‘ اس لیے کہ لامحالہ اس سلسلہ میں جو شخص بھی پہل کرے گا اور دوسروں کو ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ‘‘ کی ندا دے گا‘ وہ فطری طور پر خود اس صدا پر لبیک کہنے والوں کا سربراہ ‘یا رہنما ‘یا امیر بن جائے گا .اور یہ چیز چونکہ ناپسندیدہ ہے لہٰذا لازم ہے کہ سب بیٹھے رہیں اور صورتِ حال کو دن بدن بگڑتے دیکھیں اور خاموش رہیں گویا ؎
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا!
مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے طرزِ استدلال کے اس منطقی نتیجے کو پسند نہیں فرمائیں گے اور بفرضِ محال اگر آپ کا خیال وہی ہے تو سب سے پہلے آپ اس کا جواب دیں کہ قریب ترین ماضی کی خالص ترین اسلامی تحریک کے داعی و مجاہد کبیر حضرت سید احمد بریلویؒ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے!! کیا انہیں وقت کے’’اربابِ حل و عقد‘‘نے ’’منصب ِ امامت‘‘ پر فائز کر دیا تھا یا انہوں نے خود اپنی بیعت کی دعوت لوگوں کو دی تھی!
آپ کے معاصر ’’الخیر‘‘ کے آخری اور حد درجے تیکھے سوال یعنی ’’مولانا ابوالکلام کے لیے امامت ِ ہند کے رفیع منصب کے مجوز و مؤید اس وقت کے خیارِ اُمت‘ زہد و تقویٰ‘ اخلاص و للہیت اور علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ آں موصوف کی امارت کے مجوز و مؤید کون اور کس معیار کے لوگ ہیں؟‘‘ (ص ۴۶) کا اسی قدر تیکھا اور الزامی جواب تو یہ بنتا ہے کہ حضرت! مجھ سے یہ سوال کرنے کے بجائے پہلے آپ اس کا جواب دیں کہ بقولِ خود آپ کے ’’وقت کے خیارِ اُمت‘‘ اور ’’زہد و تقویٰ‘ اخلاص و للہیت (اور) علم و عمل میں یکتائے روزگار‘‘ حضرات کی تجویز و تائید کا وہ حشر کیوں ہوا؟ کہیں ایسا تونہیں ہے کہ ہم ’’نہ خود کچھ کرنا نہ دوسروں کو کچھ کرتے دیکھ سکنا‘‘ کے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے ہوں؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی اس ساری بھناہٹ کا اصل سبب حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت کے آئینے میں موجود الوقت علماء کی اکثریت کی تصویر دیکھ لینا ہو!! گویا ؏
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے!
لیکن یہ ساری نوک جھونک غیر مفید بلکہ نقصان دہ ہے . اصل اہمیت اس مسئلہ کی ہے کہ ہم غور کریں کہ آیادین حق اس وقت ’’اَلْحَقُّ یَعْلُوْا وَلَا یُعْلٰی‘‘ کے مصداق غالب و سربلند ہے یا سرنگوں اور پامال! بقول حالیؔ مرحوم:پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے!
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے!
اور: ؎
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے!
وہ دیں جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے!
پھر اگر معاملہ واقعی مغلوبیت اور پامالی کا ہے تو اس صورت حال کی تبدیلی کا صحیح نہج کیا ہے؟ اور کیا اس ضمن میں وہی راہِ عمل درست اور صحیح نہیں ہے جو تجویز کی تھی ۱۹۱۲ء تا ۱۹۲۰ء مولانا ابوالکلام آزادؔ نے‘ اور جس کی کامل تصویب و توثیق فرمائی تھی ’’استاذ الاساتذہ‘‘ (یہ الفاظ مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے ہیں) اور ’’شیخ الشیوخ‘‘ امام الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اس وقت جبکہ ان کی حیاتِ مستعار کا دیا ٹمٹما رہا تھا اور وہ سفر آخرت کے لیے بالکل پابرکاب تھے! اور اگر اس وقت ان کے ایما کے مطابق ایک قدم اس لیے نہ اٹھایا جاسکا کہ خیرآبادی مکتب فکر کے ایک عالم دین نے ایک صحیح اور درست لیکن خالص فنی نوعیت کا اعتراض کر دیا تو کیا اس کے بعد سے آج تک ان کے تلامذہ اور متوسلین میں سے کسی نے خالصتاً اس طریق کار پر جدوجہد کا آغاز کیا؟؟
محترم! ؏ ’’ہمت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا!‘‘ کے مصداق ذرا کمر ہمت کسیے اور ان امور پر غور فرمایئے کہ :
(۱) کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ علی گڑھ اور دیوبند کے مابین جس خلیج کو ابتدا ہی میں پاٹ دینے کی کوشش کی تھی حضرت شیخ الہندؒ نے ‘ وہ اس کے بعد روزبروز وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور مسلمانانِ برصغیر کی ملی اور قومی زندگی کا اصل دھارا علی گڑھ کے زیر اثر آتاچلا گیا اور علماء کی حیثیت زندگی کی اصل منجدھار سے ہٹی ہوئی ایک پتلی سی دھار کی ہوتی چلی گئیتاآنکہ اب وہ اپنے محدود دائرہ اثر کے جزیروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں.اور یہ جزیرے بھی دن بدن نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا کے مصداق روز بروز مختصر سے مختصر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں؟
(۲) پھر کیایہ واقعہ نہیں ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ طبقۂ علماء کی وہ آخری شخصیت تھے جنہوں نے جو کام بھی کیا‘ اپنے بل بوتے پر کیا جس کا اصل نقشۂٔ کاربھی ان ہی کے ذہن کی پیداوار تھا اور اس پر عملی جدوجہد کی قیادت و رہنمائی بھی خود ان ہی کے ہاتھ میں تھیان کے بعد سے برصغیرمیں قومی اور عوامی سطح پر علماء کرام کی مختلف تنظیموں کی حیثیت عظیم تر اور سیکولر مزاج سیاسی تحریکوں کے ضمیموں کی رہی ہے. چنانچہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ جیسی عظیم شخصیت کی قیادت کے باوصف جمعیت العلماء ہند کی حیثیت کانگریس کے ضمیمے سے زیادہ نہ تھی اسی طرح مولانا شبیر احمدعثمانی ؒایسی نابغہ ٔ شخصیت کی قیادت کے باوصف جمعیت علماءِ اسلام کی حیثیت مسلم لیگ کے ضمیمے سے زیادہ نہ تھی اور یہی صورتِ حال آج تک جاری ہے کہ اس وقت بھی حلقہ ٔ دیوبند کے سیاسی اور عوامی مزاج کے حامل علماء کرام اپنی تمام تر جلالت ِ شان اور مرتبہ و مقام کے باوصف یا موجودہ فوجی آمریت کا ضمیمہ ہیں‘ یا ایم آر ڈی کا اور یا پھر جماعت اسلامی کے مانند ’’نیمے دروں‘ نیمے بروں‘‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ’’نہ اِدھر نہ اُدھر‘‘ کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں (اور کم و بیش یہی حال بریلوی مکتبۂفکر اور اہل حدیث حضرات کی قیادت کا ہے.)
(۳) پھر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ علماء کرام جمعہ و جماعت‘ درس و خطابت‘ افتاء و ارشاد ایسی اہم خدماتِ جلیلہ اور قال اللہ اور قال الرسولﷺ کی صدائوں اور دینی علوم کو زندہ رکھنے کے عظیم کارنامے‘ اور دین حق اور شریعت ِ حقہ کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کے خلاف مساعی عظیمہ کے باوصف غلبہ و اقامت ِدین کے مثبت مقصد کی جانب کوئی قابل لحاظ اور مؤثر اجتماعی تحریک نہیں چلا پا رہے؟ علمائِ دیوبند کے ایک حلقے سے تبلیغ دین کے عنوان سے جو عظیم حرکت شرو ع ہوئی‘ اس میں شک نہیں کہ وسعت کے اعتبار سے اس کی کوئی نظیر حال میں تو کیا ماضی میں بھی نہیں ملتی لیکن کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ وہ بھی انفرادی اصلاح کے مرحلے سے آگے بڑھ کر کسی خطہ ٔ ارضی پر دین حق کے واقعی قیام و نفاذ کے لیے کوئی ’’راست اقدام‘‘ کرنے کے بارے میں سوچنے پر بھی آمادہ نہیں!
اندریں حالات کیا وقت کا اصل تقاضا یہ نہیں ہے کہ: ۱. ایک خالص دینی تحریک .خالصتاً غلبہ و اقامت دین کے مقصد یا بالفاظِ دیگر ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے لیے برپا ہو. جس میں علماء کرام اور جدید تعلیم یافتہ دونوں حلقوں کے لوگ شامل ہوں اور یہ تحریک وقتی مسائل و واقعات اور خالص سیاسی حالات کی کروٹوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اصلاً نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ کے اُسوۂ مبارکہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور تبعاً ماضی ٔقریب کی خالص اسلامی تحریک ’’تحریک شہیدینؒ ‘‘ کے طریق کار اور تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے ابتداء ً وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا کے مصداق ’’الہدیٰ‘‘ کی سیف قاطع کے ذریعہ الحاد ‘ دہریت‘ زندقہ اور کفر و شرک کے خلاف جہاد کے لیے پیش قدمی کرے اور وقت آنے پر غلبہ و اقامت دین کے لیے ’’راست اقدام‘‘ کرے اور یا اس میں بالفعل کامیاب ہو یا کم از کم مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَـیْہ ِج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُز وَمَا بَدَّلُوْا تَـبْدِیْلًاW (الاحزاب) کے مصداق جانوں کا ہدیہ تو بارگاہِ خداوندی میں پیش کر دے.
۲ . اس کے لیے تنظیم کی اساس مغرب سے درآمد شدہ اور فی الوقت عمومی طور پر مروّجہ‘طریقوں پر نہ ہو بلکہ ’’بیعت سمع و طاعت و ہجرت و جہاد‘‘ کی منصوص‘ مسنون اور مأثور اساس پر ہو.
اب اگر ایک حقیر و ناتواں انسان نے وقت کے اس تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے اس کام کا بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو کیا علماءِ کرام بالخصوص اس حلقے سے وابستہ حضرات ‘جو حضرتِ شیخ الہندؒ کی عظمت کے پوری طرح قائل ہیں اور مولانا آزاد مرحوم کو بھی کسی نہ کسی درجے میں ’’اپناتے‘‘ ہیں‘ کا کام یہ ہے کہ اسے طنز و تشنیع کا ہدف بنائیں یا یہ کہ نوجوان اس کا ساتھ دیں اور بزرگ اس کی سرپرستی فرمائیں؟ جبکہ
(۱) اسے اپنی بے بضاعتی کا پورا اعتراف ہو اور وہ علماء کا حریف ہونا تو درکنار عالم دین ہونے کا سرے سے مدعی ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو محض قرآن حکیم کا ایک ادنیٰ طالب علم اور دین حق کا ایک ادنیٰ خادم قرار دیتا ہو.
(۲) اپنے بعض پیش روئوں کی غلطیوں سے تنبہ حاصل کرتے ہوئے مجتہد ِمطلق ہونے کا ادّعا تو درکنار‘ فقیہات میں سرے سے دخل ہی نہ دیتا ہو. (۳) سلف صالحین کے اتباع اور ’’سبیل المؤمنین‘‘ کے التزام کو اپنے لیے لازم قرار دیتا ہو‘ اور
(۴) موجو د الوقت علماء و مشائخ کی تعظیم و توقیر کرتا ہو ‘ اور اپنے آپ کو اُن کے تعاون اور سرپرستی کا محتاج سمجھتا ہو !!
آخر میں طویل سمع خراشی کے لیے معذرت خواہ ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ اور ادارۂ ’’الخیر‘‘میری باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے. میں اپنی بات کی وضاحت کے لیے علماءِ کرام کی خدمت میں حاضری کو اپنے لیے سعادت خیال کرتا ہوں‘ اس کا موقع مرحمت فرمائیں تو مزید ممنون ہوں گا.
فقط
وَالسَّلَامُ عَلَی الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَـیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ
اسرار احمد عفی عنہ ‘ محرم الحرام ۱۴۰۵ھ