(۱) مکتوب گرامی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘ لکھنؤ

محب گرامی منزلت ڈاکٹر صاحب زید توفیقہ ومکارمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عنایت نامہ ۱۴؍مارچ جلد پہنچ گیا. آپ کی کریم النفسی اور وسیع القلبی پر مسرت ہوئی. یہاں کی بعض اہم مصروفیتوں اور ذمہ داریوں کی بنا پر ریاض کی کانفرنس میں شرکت سے جو ۲۷؍مارچ کو ہونے والی تھی‘ میں نے معذرت کا تار دے دیا‘ اس سے زیادہ اہم کام حیدر آباد اور کلکتے میں پیش آ گئے. اب واپسی پر بھی پاکستان آنے کا مسئلہ نہیں رہا. اس کے لیے کسی دوسرے موزوں وقت اور مناسب سفر کا انتظار کرنا پڑے گا.

سفر پاکستان کے سلسلے میں دو باتیں بے تکلف عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ اُمید ہے کہ آپ ان کو ان کی صحیح اسپرٹ پر لیں گے کہ ایک یہ کہ …………………………
دوسری بات یہ کہ (آپ سے بے تکلف کہتا ہوں کہ) میں وہاں کسی تنظیم و تحریک کی دعوت پر آنے کے بجائے آزادانہ طریقے پر حاضری کو ترجیح دیتا ہوں تاکہ بے ہمہ و باہمہ رہوں. یہ طویل تجربوں اور دعوتی مصلحتوں پر مبنی ہے‘ جب ان شاء اللہ آؤں گا اور آپ مناسب سمجھیں گے اور وقت مناسب ہو گا تو آپ مجھے اپنے یہاں دعوت دے سکتے ہیں اور میرے کسی خطبے یا خطبات کا انتظام کر سکتے ہیں. مولانا عبدالمالک کو میں نے ایسا ہی اشارہ دیا ہے جنہوں نے مجھے حجاز میں دعوت پیش کی تھی اور یاد دہانی کا خط بھی آیا. اس کا تعلق کسی ناگواری یا بدگمانی سے نہیں. آپ کی صلاحیتوں‘ قوتِ عمل اور جدوجہد کی قدر کرتا ہوں اور اپنے جیسے قاصر الہمت اور ضعیف انسان پر ترجیح دیتا ہوں. اُمید ہے کہ آپ میری اس معذوری یا نزاکت کو اس کی صحیح جگہ دیں گے.

جب بھی پاکستان آیا (تو ان شاء اللہ اگر کوئی شدید مانع پیش نہ آیا تو) لاہور آؤں گا اور آپ کو بھی وقت دوں گا اور اپنے مطالعے وتجربے کے مطابق اخلاص کے ساتھ آپ کے رفقاء و طالبین علوم قرآن کو مشورہ بھی دوں گا. خدا کرے یہ خط کسی گرانی و بدگمانی کا باعث نہ ہو.
والسلام
مخلص ابوالحسن علی 

(۲) مکتوب گرامی مولانا گوہر رحمن ‘ مردان


محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب 
صدر مرکزی انجمن خدام القرآن‘ لاہور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا گرامی نامہ تو مل چکا ہے‘ لیکن انہی ایام میں قومی اسمبلی کے اجلاس ہورہے ہیں. اس لیے شرکت سے معذور ہوں.

آپ اور آپ کی انجمن نے اصلاح معاشرہ کے لیے ’’جہاد بالقرآن‘‘ کا جو طریقۂ کار اختیار کیا ہے میں اس کی تحسین کرتاہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العالمین اس جدوجہد میں برکت ڈالے اور کامیابی عطا فرمائے.

خاتم النبیین محمد رسول اللہ کے اصلاحی اور انقلابی کام کا آغاز قرآن پڑھنے اور پڑھانے سے ہوا تھا اور آخر دم تک یہی قرآن آپ کا حقیقی اسلحہ رہا ہے.ہر قسم کی اعتقادی اور عملی و اخلاقی برائیوں اور بیماریوں کا علاج صرف قرآن کریم اور سنت رسولؐ ہے: 
وَنُـنَـزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَـآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ لا وَلاَ یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلاَّ خَسَارًاd قرآن پر ظلم کی کئی قسمیں ہیں. قرآن کی تلاوت اور اس کے علوم سے غفلت اختیار کرنا بھی ظلم ہے‘ اس پر عمل نہ کرنا بھی ظلم ہے اور قرآن و سنت کے خلاف دوسر ے قوانین پر فیصلے کرنا بھی ظلم ہے. جو لوگ قرآن کریم کی تعلیمات سے غافل ہو جاتے ہیں ان پر شیطان کو مسلط کر دیا جاتا ہے: وَمَنْ یَّـعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰـنًا فَھُوَ لَــہٗ قَرِیْنٌ .ہر دور کے مجددین و مصلحین نے اپنے تجدیدی اور اصلاحی جدوجہد کا آغاز قرآن کی تعلیمات کی اشاعت سے کیا ہے. برصغیر میں شاہ ولی اللہ کی تجدیدی و اصلاحی تحریک کا آغاز بھی قرآن کریم کے فارسی ترجمے سے ہوا تھا. مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریک اقامت دین کا آغاز بھی ترجمان القرآن میں قرآنی تعلیمات کی اشاعت سے ہوا تھا.شیخ حسن البناء شہید کی تحریک کا آغاز بھی قرآن کریم کے درسوں ہی سے ہوا تھا. میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کو بھی مفید تر بنائے. والسلام
گوہر رحمان 
شیخ الحدیث دارالعلوم تفہیم القرآن‘ مردان (رکن قومی اسمبلی) 

(۳) مکتوب گرامی مولانا محی الدین لکھوی


بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
من محی الدین اللکھوی‘ الی الاخ المحترم دکتور اسرار احمد‘ لاھور 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ اما بعد: فرمانِ نبویؐ ہے: 

تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ‘ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا‘ کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ 

معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کے بارے میں آپ نے حق تلاوت ادا کیا ہے‘ لیکن سنت رسول سے آپ نے استغنا رکھا ہے اور بزرگانِ دین سے زیادہ متأثر رہے ہیں. ورنہ اکمالِ دین اور اتمامِ نعمت ہو جانے کے بعد آپ کو اس قدر تکلف کی ضرورت نہ تھی. اگرچہ آپ کی کاوش قابل داد ہے اور آپ کا ’’تصور فرائض دینی‘‘ مستحسن ہے. بات صرف یہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے یہ بھی ایک فریضہ ہے کہ 
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا اور اس آیۂ مبارکہ پر عمل کی صرف ایک صورت ہے. وہ یہ کہ 

اِنِّیْ آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ ‘ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ 

اس وقت جو انارکی اور انتشار پھیل چکا ہے اس کی وجہ سے ہم موجودہ دور کو شر القرون کہیں تو غلط نہیں اور میرا اس حدیث شریف پر پورا یقین ہے کہ: 

مَنْ مَاتَ وَلَـیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً 

آپ ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام پر بیعت لیتے رہیں . 
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ کی رو سے یہ صحیح ہے.لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ عالمی سطح پر یہ تحریک چلائیں اور عوام و خواص کو دعوت دیں ‘تاکہ دینی جماعتیں مل کر عالمی سطح پر یا ایک امیر کا انتخاب کریں اور پورے عالم اسلام میں اتحاد پیدا ہو جائے‘ یا کم از کم عالمی سطح پر ایک متحد اسلامی جمعیت معرضِ وجود میںآجائے.

بہرحال میں نظامِ امارت میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مژدہ سناتا ہوں کہ 
’’مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُ مِائَۃِ شَھِیْدٍ‘‘ 

والسلام محی الدین
الہ آباد المعروف قلعہ تارے والا‘ ڈاک خانہ خاص‘ 
براستہ دیپالپور‘ ضلع اوکاڑہ
(نوٹ) میں بوجوہ ’’محاضرات‘‘ میں حاضری نہیں دے سکا‘ لیکن احیاءِ نظامِ امارت میں آپ کے ساتھ ہوں. جب بھی ممکن ہوا ملاقات کے لیے حاضر ہوںگا. ان شاء اللہ!