مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل یہاں لفظ ’’جہاد‘‘ کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جائے. پہلی بات یہ کہ میرے نزدیک جہاد ہمارے دین کا مظلوم ترین تصور (concept) ہے. مظلوم ہونے کے اعتبار سے اس کے ہم پلہ دوسری شے جو آتی ہے وہ قرآن ہے. ہمارے دین کی یہ دو مظلوم ترین حقیقتیں ہیں. جہاد کے بارے میں اتنے مغالطے ذہنوں میں ہیں کہ حد و شمار نہیں. پھر خاص طور پر ہماری تاریخ میں ایک دور وہ بھی آیا کہ جب ہم براہِ راست محکوم ہوئے ‘نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ ذہنی و فکری اعتبار سے بھی. یعنی ہم دو طرفہ غلامی کے پنجے میں گرفتار ہوئے. اُس وقت اہل مغرب کی طرف سے ہم پر جہاد کے حوالے سے بڑے جارحانہ حملے ہوئے اور استہزاء و تمسخر کا معاملہ ہوا. انہی کا یہ الزام ہے کہ: ؏ ‘’’بوئے خوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے!‘‘ چنانچہ اس ضمن میں ہمارا انداز معذرت خواہانہ (apologetic) رہا ہے. میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ اب یہ دَور اصلاً گزر چکا ہے ‘لیکن تاحال اس کے باقیات السیّئات کچھ لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں ‘اور جب تک ہم اُن کو اچھی طرح کھرچ نہیں دیں گے اُس وقت تک دین کی کوئی مثبت‘ پائیدار اور فعال تحریک جو نتیجہ خیز بھی ہو‘ اٹھانا ممکن نہیں ہو گا.
دوسری بات یہ کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلا مغالطہ ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا اور اس کے نتائج بہت دُوررس ہیں کہ جہاد کے معنی ’’جنگ‘‘ ہیں. اس بارے میں میری رائے ہے کہ اغیار اور بیگانوں کی کارستانی کے ساتھ ساتھ یگانوں اور اپنوں کی بھی غلطیاں ہیں. اپنوں کی بڑی اکثریت نے بھی جہاد کو ’’جنگ‘‘ ہی قرار دیا جب کہ قرآن مجید مستقل طور پر دو اصطلاحات استعمال کرتا ہے‘ ایک ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ اور دوسری ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘. لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ہمارے دینی لٹریچر میں جنگ کے تمام مدارج و مراحل کے لیے بطورِ عنوان لفظ جہاد استعمال ہو جاتا ہے اور جنگ کو ’’جہاد‘‘ ہی سے موسوم کیا جاتا ہے. چنانچہ ہوتے ہوتے ہمارے ذہنوں میں جہاد اور قتال مترادف کی حیثیت سے جاگزیں ہو گئے اور عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ جہاد کے معنی جنگ ہیں.
تیسری بات یہ کہ ظاہر ہے جنگ ہر وقت اور ہمیشہ تو نہیں ہوتی‘ لہٰذا جہاد فرضِ کفایہ رہ گیا اور فرضِ عین کی فہرست سے خارج ہو گیا. جب کبھی جنگ کا مرحلہ آتا تھا تو جتنی نفری کی ضرورت ہوتی تھی وہ نکل آتی تو بقیہ لوگوں کی طرف سے وہ فرض ادا ہو جاتا تھا. یہی فرضِ کفایہ کا تصور ہے اور بالکل صحیح تصور ہے. لیکن جہاد و قتال کو مترادف سمجھ لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے یہاں جو فقہی تصورات و معیارات اور سوچ کے جو پیمانے ہیں ان میں جہاد گویا صف ِاوّل کی شے رہا ہی نہیں. اس کا فرضِ عین ہونا پس منظر میں چلا گیا ‘حتیٰ کہ ذہنوں سے اَوجھل اور محو ہوگیا. اِلا ماشاء اللہ! چوتھی بات یہ کہ اس پر ستم بالائے ستم اور بناء الفاسد علی الفاسد یہ ہوا کہ ہم نے یہ تصور کر لیا کہ مسلمان جب بھی جنگ کرے توگویا وہ جہاد فی سبیل اللہ کر رہا ہے. حالانکہ ایک مسلمان ذاتی حیثیت سے جہاں فاجر و فاسق ہو سکتا ہے وہاں ظالم بھی ہو سکتا ہے. چنانچہ مسلمانوں کا کوئی بادشاہ یا کوئی سربراہ یا کوئی گروہ ظالم بھی ہو سکتا ہے اور ایک ناحق جنگ بھی شروع کر سکتا ہے‘ صرف اپنے مفادات کے لیے‘ صرف اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لیے‘ اپنی حدودِ سلطنت کی توسیع کے لیے‘ جبکہ اُن کے پیش ِنظر دین کی کوئی خدمت نہ ہو‘ اعلائے کلمۃ اللہ کا کوئی مقصد نہ ہو. ظاہر ہے کہ ایسی جنگ جہاد یا قتال فی سبیل اللہ کیونکر شمار ہو جائے گی‘ جبکہ ہمارے سامنے نبی اکرمﷺ کی یہ واضح حدیث موجود ہے:
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِیُرٰی مَکَانُہٗ فَمَنْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ :
مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۱)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک شخص آیا‘ اس نے دریافت کیا کہ حضور! ایک شخص جنگ کرتا ہے مالِ غنیمت کے لیے‘ ایک شخص جنگ کرتا ہے اپنے ذکر اور شہرت کے لیے اور ایک شخص جنگ کرتا ہے اپنی (یا اپنے قبیلہ کی) سربلندی دیکھنے کے لیے ‘تو کس کی جنگ اللہ کے راستے میں ہو گی؟ حضورؐ نے (جواب میں) ارشاد فرمایا: ’’صرف اس کی جنگ فی سبیل اللہ ہو گی جو اس لیے جنگ کرے تاکہ اللہ کا کلمہ سب سے بلند ہوجائے.‘‘
خیال رہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے. تو قتال فی سبیل اللہ وہ جنگ ہے جو اللہ کے جھنڈے کی سربلندی کے لیے کی جائے ‘نہ کہ ہر مسلمان کی یا مسلمانوں کی حکومت کی ہرنوع کی جنگ جہاد و قتال فی سبیل اللہ قرار دی جائے گی. بہرحال یہ ہیں وہ مغالطے جوکچھ تواغیار کی کرم فرمائی سے اور کچھ اپنوں کی ستم ظریفی سے تہہ در تہہ ذہنوں میں بیٹھ گئے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تصور کو نکھار کر سامنے لایا جائے کہ جہاد فی سبیل اللہ درحقیقت ہے کیا‘ اور جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ میں فرق کیاہے! (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا … میں نے اس پر بہت غور کیا کہ ایک عام اردو دان کے لیے وہ لفظ کون سا ہو گا جو لفظ جہاد کے مفہوم کو صحیح صحیح ادا کر دے. اہلِ علم جانتے ہیں کہ لفظ جہاد بابِ مفاعلہ سے ہے اور باب مفاعلہ کے اکثر مصادر میں فریقین کی شرکت ہوتی ہے. پھر ایک دوسرے پر غالب آنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہوتا ہے‘ جیسے بحث سے مباحثہ‘جہد سے مجاہدہ اور جہاد‘ اور قتل سے مقاتلہ اور قتال . قتال میں بات دو طرفہ ہو جاتی ہے جبکہ قتل یک طرفہ عمل ہے. کوئی شخص جا رہا ہے‘ کسی نے گولی مار دی یا خنجر گھونپ دیا درآنحالیکہ اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ یہ حادثہ ہو جائے گا‘ یہ قتل ہے .لیکن جب دو فریق آمنے سامنے ہو کر ایک دوسرے کوقتل کرنے کے درپے ہو جائیں تو یہ ان فریقین کے مابین قتال یا مقاتلہ ہے. اسی طرح جہد ُکا عمل ہے. یہ عام فہم لفظ ہے اور اردو میں کوشش کے معنی میں مستعمل ہے .اس سے جہاد و مجاہدہ کے معنی و مفہوم ہوں گے کوششوں کا تصادم‘ کوششوں کا ٹکرائو‘ کوششوں کا مقابلہ جس کے لیے ایک لفظ ہو گا ’’کشمکش‘‘ یا’’کشاکش‘‘. انگریزی میں اسے کہیں گے : struggle . آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے بعد صلہ (preposition) کے طور پر against کا لفظ آتاہے.یعنی کوئی رکاوٹ ہے‘ کوئی چیز درمیان میں راستہ روکنے والی ہے تو اسے ہٹانے اور دُور کرنے کے لیے اس سے کشمکش کرنا. درحقیقت جہاد یا مجاہدہ کا صحیح صحیح لغوی مفہوم یہی ہے.