مولانا سعید احمد اکبرآبادی کا سوا نحی خاکہ اور مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر اسرار احمد
کے بارے میں اُن کی رائے
مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم
ایک سوانحی خاکہ از پروفیسر محمد اسلم
’’مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم: سیرت و شخصیت‘ علمی و عملی کارنامے‘اور حضرت شیخ الہندؒ سے اُن کا خصوصی تعلق‘‘
مولانا سعید احمد اکبر آبادی کا ایک خطاب
ڈاکٹر اسرار احمد اور ان کی دینی خدمت مولانا اکبر آبادی کا ایک ریکارڈ شدہ بیان اورگفتگو
مرتبہ: شیخ جمیل الرحمن
’’چند یادیں‘ چند باتیں‘‘
مولانا اکبر آبادی اور ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک گفتگو
مرتبہ: شیخ جمیل الرحمن
مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی گفتگو کے ضمن میں
مولانا اخلاق حسین قاسمی اور مولانا محمد منظور نعمانی کے وضاحتی خطوط!
مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدظلہٗ
پروفیسر محمد اسلم
سامعین با تمکین!
جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس پر وقار تقریب کے صدر گرامی ٔ قدر پروفیسر مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی کا آپ حضرات سے تعارف کرانے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے. میرے لیے یہ ایک کٹھن کام ہے. صاحب صدر گو نا گوں خوبیوں کے مالک اور برعظیم پاک و ہند کے نامور عالمِ دین ہیں. اس لیے اس مختصر سے مقالے میںان کا تعارف کما حقہٗ کرانا ممکن نہیں ہے.
مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی کا آبائی وطن بچھرایوں ضلع مراد آباد ہے‘ جو گجر ولہ کے نزدیک رؤسا اور شرفا کی مشہور بستی ہے. مولانا کے والد مرحوم و مغفور ڈاکٹر ابرار حسین آگرہ میں پریکٹس کرتے تھے اور انہوں نے اپنے فن میں بڑا نام پایا تھا.
مولانا اکبر آبادی صاحب آگرہ میں ۱۹۰۸ء میں پیدا ہوئے. اسی مناسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اکبر آبادی لکھنا شروع کیا.
مولانا اکبر آبادی کی ولادت کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے. ڈاکٹر ابرار حسین مرحوم کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی. اور اُس کے بعد کئی سال تک اور کوئی بچہ پیدا نہ ہوا. ڈاکٹر صاحب کو اپنی اکلوتی بچی کے ساتھ بڑی محبت تھی. ایک بار موصوف طاعون کے کسی مریض کو دیکھ کر اپنے گھر آئے تو بچی فرطِ محبت سے ان کے ساتھ لپٹ گئی اور اُسے infection ہوگئی. دوسرے تیسرے دن اس کی بغل میں طاعون کی علامت نمودار ہوئی اور بچی اپنے خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ گئی.
اکلوتی بیٹی کی وفات کا ڈاکٹر صاحب پر اتنا اثر ہوا کہ اُن کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوگیا اور موصوف نے بر عظیم سے ہجرت کا عزم کرلیا. اُن کی یہ خواہش تھی کہ وہ حجاز مقدس چلے جائیں اور وہیں بقیہ زندگی گزاریں.
ڈاکٹر صاحب ہجرت کی اجازت لینے کے لیے اپنے مرشد حضرت شاہ عبد الغنی منگلوری رحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے. یہ وہی بزرگ ہیں جن کے دامنِ ارادت سے اُردو کے نامور شاعر اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی وابستہ تھے. جگر نے ’’شعلہ ٔ طور‘‘ میں اپنے مرشد گرامی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ؎
پابند شریعت نبیؐ ہوں خاکِ درِ دولت غنی ہوں
حضرت شاہ عبد الغنی نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ وہ ہجرت نہ کریں. اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں فرزند سعید عطا فرمائے گا. ڈاکٹر صاحب نے اپنے مرشد کے کہنے پر ہجرت کا ارادہ ترک کردیا. دو تین سال یونہی گزر گئے.ڈاکٹر صاحب دو بارہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے. انہوں نے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے کہا تو تھا کہ اللہ تعالیٰ فرزند سعید عطا کرے گا. ڈاکٹر صاحب پر امید ہو کر واپس لوٹے اور کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی دلی مراد پوری کردی.
جس صبح مولانا اکبر آبادی عدم سے وجود میں آئے‘ اُ سی شب ڈاکٹر صاحب نے خواب میں اکابرین دیو بند کو دیکھا. انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو مبارکباد دی اور فرزند سعید کی ولادت پر اظہارِ مسرت فرمایا. ڈاکٹر صاحب نے نومولود کا نام سعید احمد رکھا.
مولانا بچپن ہی سے بڑے ذہین اور فطین تھے. آٹھ نو برس کی عمر میں مشکل سے مشکل شعر کا صحیح مفہوم بیان کردیتے تھے. اُن کے نانا محمد ابراہیم مرحوم نے اپنے داماد ڈاکٹر ابرار حسین کو تاکید کی کہ وہ اپنے فرزند کی تربیت میں کوتاہی نہ کریں.
مولانا سعید احمد صاحب کی ابتدائی تعلیم آگرہ میں ہوئی. اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے السنہ شرقیہ کے امتحانات پاس کیے اور اس سلسلے میں ان کا قیام لاہور میں بھی رہا. اُس زمانے میں لاہور علم و ادب کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا. علامہ اقبال‘ مولانا تاجور نجیب آبادی‘ مولانا ظفر علی خان‘ غلام رسول مہر‘ عبد المجید سالک‘ اختر شیرانی‘ محمد دین تاثیر‘ حفیظ جالندھری‘ حافظ محمود شیرانی‘ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘ڈاکٹر شیخ محمدا قبال‘ ڈاکٹر عنایت اللہ‘ ڈاکٹر سید عبد اللہ‘ ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی اور ڈاکٹر برکت علی قریشی جیسے فضلاء کے دم قدم سے لاہور کی ادبی محفلیں قائم تھیں. شام کے وقت حضوری باغ میں شاعر اور اہل علم جمع ہوتے اور دیر تک علمی موضوعات پر گفتگو رہتی. مولانا ان محافل میں شریک ہوتے.
مولانا احمدعلی صاحب لاہوری رحمہ اللہ علیہ کے درسِ قرآن کا پورے ملک میں شہرہ تھا. موصوف امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کے شاگردِ رشید تھے اور انہوں نے شاہ ولی اللہؒ کے فلسفہ کی روشنی میں قرآن حکیم کا مطالعہ کیاتھا. مولانا اکبر آبادی اُن کے درس میں بھی شریک ہوا کرتے تھے.
سکول اور کالج کی تعلیم کے بعد ڈاکٹر ابرار حسین صاحب نے ان سے کہا کہ یہ تعلیم تو انہوں نے اپنی مرضی سے حاصل کی ہے‘ لیکن اب اُن کی مرضی سے دارالعلوم دیوبند داخل ہو جائیں.
جب مولانا اکبر آبادی دارالعلوم میں داخل ہوئے تو اُس زمانے میں حضرت مولاناانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ کے درسِ حدیث کا شہرہ برعظیم سے نکل کر مصر و شام تک پہنچ چکا تھا. مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ شارح مسلم شریف دینی حلقوں سے اپنی علمیت کا سکہ منوا چکے تھے. علامہ ابراہیم بلیاوی منطق و فلسفہ میں استادِ کل مانے جاتے تھے. مولانا اعزاز علی دیو بندی عربی ادب پر آخری سند تسلیم کیے جاتے تھے.
مولانا حسین احمد مدنی ؒ اپنے ورع و تقویٰ کے لیے ضرب المثل تھے. حضرت میاں اصغر حسین صاحب پیدائشی ولی مانے جاتے تھے. اُسی زمانے میں مولانا رسول خان مرحوم‘ مفتی عزیز الرحمن عثمانی مرحوم‘ مفتی محمد شفیع دیوبندی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی بھی دارا لعلوم میں مصرو ف تدریس تھے.
مولانا اکبر آبادی صاحب نے ان تمام حضرات سے استفادہ کیا. یہ اُن کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں اپنے زمانے کے نامور اساتذہ سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا.
۱۹۲۶ء میں انہوں نے فریضہ حج ادا کیا. سفر حج میں مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا محمد سیہول بھاگلپوری‘ مفتی محمد کفایت اللہ اور شفیع دائودی جیسے بزرگ ان کے ہم سفر تھے.
دیو بند سے فراغت کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ ڈابھیل میں بھی گزارا. اُن دنوں مولانا انور شاہ کشمیری‘ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی‘ مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی وہیں تھے. مولانا اکبر آبادی بھی عملہ تدریس میں شامل ہوگئے‘ لیکن کچھ عرصہ بعد ملازمت ترک کرکے شاہ صاحب کی دعائوں کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سینٹ سٹیفن کالج دہلی میں داخل ہوگئے. یہیں سے انہوں نے ایم اے کیا اور پھر اسی کالج کے عملہ تدریس میں شامل ہوگئے. اسی کالج میں جنرل محمد ضیا ء الحق صاحب نے ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا.
مولانا اکبر آبادی صاحب نے مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں بھی چند سال پڑھایا ہے. وہیں عبد الصمد صارم اور مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم نے ان سے پڑھا تھا. مولانا اکبر آبادی‘ مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور مولانا حفظ الرحمن سوہاروی نے مل کر ۱۹۳۸ء میں ’’ندوۃ المصنفین‘‘ کی بنیاد رکھی. یہ ادارہ اب ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکا ہے. اب تک اسلام کے بارے میں اس ادارے نے صد ہا ٹھوس اور تحقیقی کتابیں شائع کی ہیں.
۱۹۳۸ء میں ہی ندوۃ المصنفین سے ماہنامہ ’’برہان‘‘ نکلنا شروع ہوا. اُس وقت سے لے کر اب تک مولانا اکبر آبادی ہی اس مجلہ کے مدیر ہیں. اگر ان کے صرف اداریے ہی جمع کیے جائیں تو اُن کی ضخامت ہزاروں صفحات تک پہنچ سکتی ہے. اگر ان کی تمام تصانیف اور تحریروں کو ایک جگہ رکھا جائے تو ان کی طوالت ان کے قد سے بڑھ جائے گی.
مولانا اکبر آبادی صاحب کی تصانیف میں سے صدیق اکبر‘ عثمان ذو النورین‘ غلامانِ اسلام‘ اسلام میں غلامی کی حقیقت‘ مولانا عبید اللہ سندھی او ر ان کے ناقد‘ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ وحی ٔالٰہی ‘ فہم قرآن‘ خطبات اقبال پر ایک نظر‘ چار علمی مقالات اور نفثتہ المصدور اور ہندوستان کی شرعی حیثیت خاص طور پر مشہور ہیں.انہیں عربی‘ انگریزی‘ فارسی اور اردو پر یکساں عبو رحاصل ہے‘ اور چاروں زبانوں میں بڑی روانی کے ساتھ تقریر کرلیتے ہیں.
مولانا اکبر آبادی صاحب ۱۹۴۷ء تک سینٹ سٹیفن کالج دہلی میں پڑھاتے رہے. تقسیم ہند کے وقت اِن کا گھر بھی لٹا اور موصوف بمشکل تمام اپنی جان بچا کر اہل و عیال سمیت مراد آباد تشریف لے گئے. جب ذرا امی جمی ہوئی تو مولاناابو الکلام آزاد نے ان سے کہا کہ مدرسہ عالیہ کلکتہ کا تمام عملہ اور طلبہ مشرقی پاکستان چلے گئے ہیں. آپ کلکتہ جاکر اس مدرسہ کو دوبارہ کھولیں. ۱۹۴۸ء میں مولانا اکبر آبادی صاحب مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل مقرر ہوئے. یہ پہلے ہندوستانی عالم تھے جو اس منصب پر فائز ہوئے. ان سے پہلے تقریباً پونے دو سو سال تک انگریز ہی اس مدرسہ کے پرنسپل رہے تھے. اس ضمن میں سر ڈینی سن راس اور مارگولیتھ کے نام خاص طور پر لیے جاسکتے ہیں.
مولانا اکبر آبادی ۱۹۵۹ء تک مدرسہ عالیہ کے پرنسپل رہے. انہوں نے مدرسے کو‘ جو بالکل ختم ہوچکا تھا‘ دوبارہ کھولا اور پورے ملک سے نامور علماء و فضلاء کو بلا کر مدرسے میں درس و تدریس کا فریضہ سونپا.
۱۹۵۹ء میں موصوف علی گڑھ تشریف لے آئے. یہاں انہیں سنی دینیات کے شعبہ صدر اور فیکلٹی آف تھیالوجی کا ڈین مقرر کیاگیا. کچھ عرصہ بعد موصوف full پروفیسربنادیے گئے. علی گڑھ میں قیام کے دوران میں ہی انہیں کینیڈا کی McGILL یونیورسٹی سے آفر ہوئی اور موصوف ایک سال کے لیے کینیڈا تشریف لے گئے.
۱۹۶۷ء میں میرا ان سے قریبی تعلق قائم ہوا. یوں تو ۱۹۵۵ء سے ہم ایک دوسرے سے آشنا تھے اور ہماری پہلی ملاقات کلکتہ میں ۱۹۵۵ء میں ہوئی تھی‘ لیکن ۱۹۶۷ء کے اوائل میں مولانا نے مجھے اپنی فرزندی میں قبول کرلیا. اس کے بعد میں ہر سال علی گڑھ جانے لگا. موسم گرما کی تعطیلات ان کے ساتھ گزارتا اور ان سے اور علی گڑھ کے دوسرے فضلاء سے خوب استفادہ کرتا.
علی گڑھ یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد مولانا اکبر آبادی صاحب تغلق آباد دہلی میں ہمدرد کے ایک تحقیقی ادارے سے منسلک ہوگئے اور وہاں اندازاً چار سال تک کام کرتے رہے. اس دوران میں انہوں نے بوعلی سینا کی القانون کو مرتب کیا.
ہمدرد سے فارغ ہونے کے بعد موصوف کالی کٹ یونیورسٹی میں Visiting Professor مقرر ہوگئے. وہاں ایک سال رہنے کے بعد علی گڑھ واپس آئے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں اپنے ہاںVisiting Professor بناد یا. جب یہ مدت پوری ہوئی تو دارالعلوم دیو بند میں ان کے لیے شیخ الہند اکادمی قائم کی گئی. موصوف اس اکادمی کے ڈائریکٹر ہیں. دیو بند میں قیام کے دوران میں مولانا اکبر آبادی صاحب حجۃ اللہ البالغہ کا درس دیتے ہیں جس میں اساتذہ اور منتہی طلبہ شریک ہوتے ہیں.
دراصل دیو بند میں ان کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مہتمم صاحب کے ساتھ ایک جید عالم بھی ہروقت موجود رہیں‘ جن سے مہتمم صاحب اہم امور میں مشورہ لیتے رہیں.
مولانا اکبر آبادی صاحب کا شمار بھارت کے چند گنے چُنے علماء میں ہوتا ہے. موصوف کئی بار غیر ممالک میں مختلف علمی کانفرنسوں میں بھارت کی نمائندگی کر چکے ہیں. موصوف جنوبی افریقہ کے دینی حلقوں میں بھی جانے پہچانے بزرگ ہیں اور متعدد بار جنوبی افریقہ کادورہ کرچکے ہیں.
مولانا اکبر آبادی صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جتنی اُن کی نظر و سیع ہے‘ اُتنا ہی اُن کا دل بھی وسیع ہے. موصوف ہاتھ کے سخی اور دل کے غنی ہیں‘ کیوں نہ ہوں‘ آخر کو شاہ عبدالغنی کی دعا سے پیدا ہوئے ہیں. ان دنوں مولانا اکبر آبادی صاحب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حیات و سیرت لکھنے کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں. اس سے قبل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ پر تحقیقی کام کرچکے ہیں. الحمد للہ‘ ثم الحمد للہ! یہ سعادت ان ہی کے حصے میں آئی ہے کہ خلفائے راشدین کی حیات و سیرت پر شاہکار کتابیں تحریر فرمائیں. میں ان کتابوں کو ان کے لیے زادِ آخرت سمجھتا ہوں.
مولانا اکبر آبادی صاحب دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین ہیں اور دارالعلوم کی ترقی و توسیع کے لیے کوشاں ہیں. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں عمر خضر کے ساتھ دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کا موقع عطا فرمائے.