دوسرا یہ واقعہ میرے مشاہدے میںآیا کہ جوش ملیح آبادی اور مولوی عبد الرزاق ملیح آبادی یہ دونوں مولانا ابولکلام آزاد سے بہت زیادہ قریب تھے. مگر دونوں جس عقیدے اور خیال کے تھے‘ ان میں سے جوش کو تو آپ سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں اور مولوی عبد الرزاق ملیح آبادی بھی اُس زمانہ میں جوش سے اس معاملے میں کچھ کم نہیں تھے. مولانا آزاد نے ایک دن ان دونوں سے کہا کہ میرا آپ سے بڑا گہراتعلق ہے. آپ میرے پاس آتے جاتے ہیں لیکن میں نے اپنا ایک فرض اب تک ادا نہیں کیا جس کا مجھے بہت افسوس ہے اور میں اس کا سچے دل سے اعتراف کرتا ہوں. اب میںچاہتا ہوں کہ آپ حضرات کے سامنے اپنا وہ قرض ادا کردوں. دونوں حضرات نے کہا: وہ کیا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کے وجود اور مذہب کی ضرورت اور اسلام کی حقانیت پر آپ دونوں کے سامنے میں ایک تقریر کرنا چاہتا ہوں جو میری طرف سے تبلیغ حق کی ایک کوشش ہوگی. آپ حضرات کو حق ہوگا کہ پوری آزادی کے ساتھ میری باتوں پر تنقید کریں‘ مجھ سے سوالات کریں‘ مجھ پر جرح کریں‘ میں پوری خندہ پیشانی سے انہیں سنوں گا اور امکان بھر آپ کے اشکالات کو دور کرنے کی کوشش کروں گا.
دونوں حضرات نے رضامندی کا اظہار کیا اور کسی آنے والے دن میں صبح نو بجے کا وقت طے ہوگیا. مولوی عبد الرزاق ملیح آبادی نے مدرسہ فتح پوری میں آکر اپنے حلقہ ٔاحباب میں اس کا ذکر کیا تو مولانا محمد میاں مرحوم (جو مولانا حامد میاں مدظلہ کے والد ماجد ہیں جو آپ کے اسی شہر لاہور میں جامعہ مدنیہ کے مہتمم اور رئیس ہیں) اور مولوی قاضی سجاد حسین صاحب جو مدرسہ اسلامیہ فتح پوری دہلی میں اس وقت مدرس تھے‘ اب پرنسپل ہیں. ان دونوں کو جب خبر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا موقع ہے. کیا ہم کو بھی اس مجلس میں شرکت کی اجازت ہوگی! چنانچہ فوراً مولانا آزاد سے ان کے سیکریٹری کے ذریعے رابطہ قائم کیا. مولانا نے فرمایا کہ بڑے شوق سے آپ حضرات بھی تشریف لائیے ‘اور کوئی بھی آنا چاہے تو میری طرف سے اجازت ہے
چنانچہ مولانا محمد میاں مرحوم اور قاضی سجاد حسین صاحب کا یہ بیان ہے کہ ہم بھی پہنچ گئے. جوش ملیح آبادی اور مولوی عبد الرزاق ملیح آبادی بھی وہاں موجود تھے. ہم چاروں کے سامنے مولانا آزاد نے تقریر کی. مولانا محمد میاں کا یہ بیان ہے کہ مسلسل دو گھنٹے تک انہوں نے تقریر کی اور تقریر کا کمال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر سارے دلائل وہ تھے جو قرآن مجید میں ہیں لیکن کہیں قرآن کا حوالہ نہیں دیا کہیں کوئی آیت نہیں پڑھی. ان ہی دلائل کو عقلی طور پر اس طرح بیان کیا گویا ان کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ حالانکہ تمام دلائل قرآنی ہی تھے اس طرح پر وجودباری تعالیٰ‘ اس کی توحید‘ مذہب کی ضرورت اور مذاہب میں بھی اسلام کی حقانیت پر مسلسل دو گھنٹے تقریر کی. اس کے بعد مولوی عبد الرزاق صاحب نے کہا: مولانا! مجھے تو اب اطمینان ہوگیا. میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں.
لیکن جوش ملیح آبادی نے کہا: مولانا! میں آپ کے دلائل کا جواب تو نہیں دے سکتا لیکن دل میرا نہیں مانتا‘ تو مولانا نے کہا کہ میرے بھائی! دل پر تو میرا کوئی قابو اور اختیار نہیں ہے. جوش نے کہا کہ مولانا! آپ نے Personal God اور Impersonal God کی جو بحث کی ہے تو میں God کو Impersonal تو ماننے کے لیے تیار ہوں Personal نہیں مان سکتا. Impersonal کے معنی وہ ہیں جس کو آج کلEnergy کہا جاتا ہے. مولانا نے فرمایا‘ نہیں وہ God نہیں ہے جو Impersonal ہے‘ وہ God ہو ہی نہیں سکتا. مولانا نے پھر ثابت کیا کہ God وہی ہے جو Personal ہے. اس کی ایک ذات اور ہستی ہے پھر اس کو مزید قوی دلائل سے ثابت کیا پس یہ دو واقعات ایسے ہیں جن سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کا علم کتنا مستحضر تھا‘ اور ان کی نگاہ کتنی وسیع تھی.