مولانا آزاد کی علمیت کا ذکر زبان پرآیا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ کچھ لوگ کہا کرتے تھے‘ اور شاید اب بھی ایسا کہنے اور سمجھنے والے کچھ لوگ موجود ہوں کہ مولانا آزاد ذہین بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا علم بہت کم ہے. لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مولانا کے انتقال کے بعد ایسی ٹھوس شہادتیں مل گئی ہیں جن سے لوگوں کا یہ قول غلط ثابت ہوجاتا ہے. ہمارے یہاں نئی دہلی میں حکومت کا قائم کردہ ایک محکمہ ہے جس کا نام انڈین کلچر اینڈ سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا اسی سے ملتا جلتا نام ہے‘ اس کی ایک بہت بڑی لائبریری ہے اس میں مولانا آزاد کا ذاتی کتب خانہ منتقل ہوگیا ہے جو بے شمار قیمتی کتابوں پر مشتمل تھا اور اس میں بعض نادر کتب کے نسخے بھی شامل تھے. اس لائبریری میں جب مولانا آزادؒ کی کتابوں کا جائزہ لیا گیا تو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ بہت کم کتابیں مولانا آزاد کے کتب خانہ کی ایسی تھی جن پر مولانا کے نوٹ اور حواشی نہ ہوں. اس کے برعکس ان کتابوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جن پر مولانا نے نوٹ اور حواشی تحریر کیے تھے. چنانچہ حکومت نے ایک شخص کو اس کام کے لیے مقرر کیا کہ وہ مولانا کے جن کتابوں پر حواشی ہیں ان سب کو مرتب کرکے پیش کرے. چنانچہ تمام حواشی مرتب ہوئے. اس کے کچھ حصے رسالہ ’’اسلام اور عصر جدید‘ دہلی‘‘ میں قسط وار چھپ گئے ہیں. ان سے مولانا کی دقت نظر اور گہرے غور و فکر کا اندازہ ہوتا ہے. الغرض مولانا آزاد کا مطالعہ بہت وسیع تھا. ان کا حافظہ بھی نہایت قوی تھا. ساتھ ہی انتہائی ذہین و فطین تھے.