مولاناآزاد کی اس تفسیر کے اب تک اٹھارہ پارے شائع ہوئے ہیں‘ بارہ پارے جو باقی رہ گئے‘ ان کی داستان یہ ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں اور میں بھی ان ہی کے اندر شامل ہوں کہ مولانا آزاد نے بتلایا تھا کہ انہوں نے ان پاروں کی تفسیر مکمل کردی ہے‘ میں نے یہ بات خود اپنے کانوں سے سنی ہے. لیکن وہ شائع نہیں ہوئی‘ اور اب تک یہ پتا بھی نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے. مولانا آزاد کا ۲۲؍فروری ۹۵۸ ۱ء کو انتقال ہوا تھا اور یہ انتقال تین دن کے ’’کومہ‘‘ (بے ہوشی) کے بعد ہوا تھا. مولانا کے یہ تین دن جو کومامیں گزرے تو ان میں ان کی کوٹھی میں مختلف لوگ آتے جاتے رہے. ان کے سامان وغیرہ کو ٹٹولتے اور دیکھتے رہے تو اندیشہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے مولانا کے بہت سے مسودات کو غائب کردیا‘ جن میں آخری بارہ پاروں کی تفسیر بھی شامل تھی‘ چونکہ مولانا خود فرماچکے تھے کہ انہوں نے اس کی تکمیل کر لی ہے. واللہ اعلم!
بہر حال مولانا آزاد کی جو شخصیت ہے اور ان کے متعلق جو کچھ میں نے عرض کیا ہے‘ اس سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایک خاص مشن کے آدمی تھے. ان کی دعوت وہی تھی جس کی طرف ہمارے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اپنی دو تقریروں میں ا شارات کیے ہیں. لیکن ایک تو وہ مسلمانوں سے مایوس ہوگئے‘ یعنی انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ میری تحریک کا ساتھ دیں اور اس کے ساتھ چلیں اور دوسری طرف انہوں نے یہ دیکھا کہ انگریز عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے اگر اس کو ہندوستان کی حکومت سے بے دخل کر دیاجائے تو اس کی کیفیت پر کٹے پرندے کی ہو جائے گی ممکن ہے کہ شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کے انتقال کے بعدان میں تعاون سے محرومی کا بھی احساس پیدا ہوا ہو‘ جس کی علمائے دیو بند کی اکثریت سے ان کو توقع ہوسکتی تھی اس لیے انہوں نے استخلاصِ وطن کی جدوجہد کو اپنی جولان گاہ بنایا ہو واللہ اعلم.

البتہ یہ بات کہ مولانا آزاد کے پیش نظر آغاز میں تجدید دین اور احیائے اسلام ہی کا کام تھا جس کے لیے قرآن مجید ہی کو انہوں نے اپنی دعوت کا مرکز و محور بنایا تھا. جس کا تذکرہ ڈاکٹراسرار احمد صاحب نے اپنی تقریر میں کیا ہے. اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. اس مسئلہ پر دو آراء ممکن ہی نہیں ہیں. رہی یہ بات کہ جمعیت العلماء ہند نے جمعیت کے اجلاس میں مولانا آزاد سے اختلاف کیا‘ جس کی طرف ہمارے ڈاکٹر صاحب نے اشارہ کیا ہے‘ تو میں خود تو اس اجلاس میں موجود نہیں تھا. لیکن میںنے جو کچھ اپنے دوستوں اور بزرگوں سے سنا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جمعیت العلماء کا ایک جلسہ دہلی میں ۱۹۲۰ء میں ہوا تھا جس میں اس بات کی تجویز زیر غور آئی تھی کہ مولانا آزاد کو امام الہند بنادیا جائے اور اس جلسہ میں مولانا نے بڑی پر جوش تقریر کی. تقریر اتنی پر جوش‘ ولولہ انگیز اور مدلل تھی کہ سب لوگ اس کے لیے تیار ہوگئے‘ لیکن ہمارے دیو بند کے اکابر میں سے مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہاور مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند‘دونوں اس تجویز کے حامی نہیں تھے غالباً ہمارے استاد حضرت مولانا انور شاہ کشمیری بھی ان کے ہم نوا تھے. میری معلومات کی حد تک ان کے حامی نہ ہونے کی وجو ہ دو تھیں:

ایک تو یہ کہ ان اکابر کے نزدیک امام الہند ہونے کے لیے صرف علم و فن‘ خطابت اور تحریر اور ذہانت و فطانت اور طباعی کافی نہیں ہے‘ بلکہ تقویٰ اور طہارت بھی ہونی چاہیے. اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مولانا آزاد کا باوجود اپنے علم و فضل کے تقویٰ و طہارت میں وہ مقام نہیں تھا جو ہمارے علمائے دیو بند اور ہماری دوسری دینی درس گاہوں کے مشائخ کا تھا. صاف بات یہ ہے کہ مولانا آزاد کو اس بات کا احساس و ادراک ہی نہیں تھا اگر ہوتا اور وہ سجادہ نشین ہوکر بیٹھ جاتے تو آپ دیکھتے کہ ان کے والد سے سوگنا زیادہ لوگ ان کے مرید ہوجاتے‘ چونکہ ان کے والد ماجد میں خطابت نہیں تھی‘ ادبیت نہیں تھی‘ خاص علمیت نہیں تھی‘ جب کہ اللہ نے مولانا آزاد کو اس سے خوب نوازا تھا لیکن انہوں نے اس راستے کو اختیار ہی نہیں کیا. پھر یہ کہ ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا مثلاً وہ سگریٹ پیتے تھے تو یہ نہیں کہ چھپ کر پئیں. سب کے سامنے پیتے تھے. ظاہر بات ہے کہ تقویٰ کے اعتبار سے مولانا کا کوئی خاص مقام نہیں تھا. لہٰذا ہمارے چند علماء نے ان کے امام الہند بنانے کی حمایت نہیں کی تو اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ اس کے لیے تقویٰ و طہارت کی بھی ضرورت ہے اور مولانا آزاد میں اس کی کمی تھی.

دوسری بات یہ کہ علماء متردد تھے کہ ان حالات میں کیا واقعی امام الہند کا منصب قائم کرنا چاہیے! اس لیے کہ ان کے نزدیک امام وہ ہوسکتا ہے جس کے ہاتھ میں قوتِ تنفیذ ہو. یعنی محض زبانی بنادینے سے تو کوئی امام نہیں ہوجاتا. ایسے شخص کو آپ اپنا رئیس‘ سردار کہہ سکتے ہیں. لیکن امام تو خلیفہ کے مترادف منصب ہے‘ اور جب تک قوت تنفیذ نہ ہو‘ کسی کو امام قرار دینا صحیح نہیں ہے. غلام ہندوستان میں اگر مولانا کو امام بنادیا تو اس کا مقام وہی ہوگا جیسے ایک لیڈر کا ہوتا ہے لیکن اسلام میں امام کا جو مفہوم ہے وہ تو ادا نہیں ہوگا .لہٰذا مولانا کو امام الہند بنانے کی تجویز عملی صورت اختیار نہ کرسکی مولانا معین الدین اجمیری کے متعلق جو بات سامنے آئی ہے اس کا مجھے علم نہیں ہے. لیکن اگر مولانا نے ایسی بات کہی بھی ہو تو کچھ زیادہ عجیب نہیں ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا معین الدین اجمیری رحمہ اللہ علیہ بہت بڑے منطقی اور فلسفی تھے .آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ منطقی اور فلسفی ہوتے ہیں وہ بات کہنے میں زیادہ محتاط نہیں ہوتے. بسا اوقات وہ ایسی بات بھی کہہ جاتے ہیں جو ان کو کہنی نہیں چاہیے. اگر انہوں نے کوئی ایسی بات کہی ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.