پھر ایک بات‘ اور وہ یہ کہ دنیا میں اگر کسی شخص کا کوئی مخالف نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ بڑا آدمی ہے ہی نہیں. کوئی شخص بڑا آدمی اس وقت بنتا ہے جب کچھ لوگ اس کے مخالف ہوں. یہ تو لازمی بات ہے کہ بڑا آدمی وہی ہوتا ہے جو عام ڈگر سے ہٹ کر کوئی نئی راہ پیش کرتا ہے. وہ دیکھتا ہے کہ یہ راستہ جس پر لوگ اندھا دھند چلے جارہے ہیں‘ اس میں آگے کتنے خطرات ہیں. وہ دیکھتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے‘ کیا پیش آنے والا ہے‘ کیسی آندھی آنے والی ہے. وہ ان کو دیکھ کر قوم کو خبر دار کرتا ہے. ظاہر بات ہے کہ ایسے شخص کو ایک نئی راہ اختیار کرنی ہوگی‘ نیا اسلوب اپنانا ہوگا. اس وقت کے جو عوام ہوتے ہیں وہ اس کے متحمل نہیں ہوتے. اس لیے ان کے دلوں میں بیزاری پیدا ہوتی ہے لیکن جو لوگ زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ داعی کتنی دور کی بات کہہ رہا ہے. وہ اپنے مستقبل میں کیا دیکھ رہا ہے. وہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں. اس طرح ایک قافلہ بننا شروع ہو جاتا ہے‘ اور وہ قافلہ ابتدامیں چھوٹاہوتا ہے لیکن اگر استقامت سے دعوت کا کام جاری رکھا جائے اور مخالفتوں سے دل برداشتہ ہوکر ہمت نہ ہار ی جائے اور اپنے موقف پر داعی ڈٹا رہے‘ اور اپنی دعوت پیش کرتا رہے‘ اور لوگوں کو تجربہ ہو کہ جس دعوت کو لے کر یہ لوگ اٹھے ہیں اس میں یہ مخلص ہیں اور یہ دعوتِ حقہ ہے تو اگر داعیوں میں استقلال اور ثابت قدمی ہوتو دعوت پھیلتی ہے‘ اور قافلہ بڑھتا جاتا ہے یہ عام قاعدہ ہے. تو حقیقت یہ ہے کہ مولانا آزاد نے جب یہ محسوس کیا کہ جو اصل دعوت ان کے پیش نظر ہے‘ اس کے لیے ابھی حالات سازگار نہیں ہیں تو انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا. لیکن وہ بھی نہ صرف مسلمانانِ ہند کے مفاد میں تھا بلکہ پورے عالمِ اسلام کے مفاد میں بھی تھا. اس لیے کہ انگریز کے پنجہ ٔ استیلاء میں تقریباً پورا عالم اسلام بالواسطہ یا بلا واسطہ گرفتار تھا. ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خاتمے کا مطلب یہ تھا کہ اس کی گرفت کمزور ہوجائے اور دوسرے مسلمان ممالک بھی اس کی سیاسی و عسکری غلامی سے نجات حاصل کرسکیں.