یہی صاحب جواَب ان بزرگ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونے اور رجم کے معاملے میں ان کے سب سے بڑے ایڈووکیٹ ہونے کا ’’شرف‘‘ رکھتے ہیں‘ آج سے چند سال پہلے ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے چکے ہیں. وہ اپنے تئیں ائمہ اربعہ سے بھی خود کو بالاتر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں. انہوں نے قرآن کے قانونِ وراثت پر ایک مضمون لکھا تھا جو اُن کے رسالہ میںشائع ہوا تھا. اس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ قرآن کا قانونِ وراثت کسی کی سمجھ میں آج تک نہیں آیا ‘ خاص طور پر ’’کلالہ‘‘ کے معنی تو آج تک کوئی سمجھ ہی نہیں سکا. سورۃ النساء کی آیت ۱۲ کے آخر میں ’’کلالہ‘‘ کی وراثت کا حکم بیان ہوا ہے اور اس ضمن میں اسی سورۂ مبارکہ کی آخری آیت (۱۷۶) میں مزید وضاحت آئی ہے. آخر میں اس توضیح کا سبب بیان فرمایا گیا: یُـبَـیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمْ اَنْ تَضِلُّوْاط ’’اللہ (اس قانون کی) تمہارے لیے تبیین فرمارہا ہے‘ مبادا تم گمراہ ہو جاؤ‘‘. ان صاحب کا کہنا ہے کہ اس کے باوجوداُمت چودہ صدیوں تک گمراہ رہی‘ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کلالہ کا قانون کیا ہے‘ اب میں اس کو بیان کر رہا ہوں. اب یہ نوجوان رجم کے معاملے میں ان بزرگ کے ہم نوا بھی ہو گئے اور ان کے حلقۂ معتقدین میں بھی شامل ہو گئے. تو یہ ایک فتنہ ہے جو اِس وقت اسی شہر لاہور میں جڑیں پکڑ رہا ہے. عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب فتنہ کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے تو توجہ نہیں ہوتی. جب وہ فتنہ اپنی جڑیں زمین میں اُتار لیتا ہے اور اس کی شاخیں پھیل جاتی ہیں ‘ تب کچھ لوگ اپنی کلہاڑیاں اور تیشے لے کر آتے ہیں‘ لیکن اُس وقت کچھ پیش نہیں جاتی‘ کیونکہ وہ فتنہ ایک مضبوط تناور درخت بن چکا ہوتا ہے‘ اس کی شاخیں بہت دور تک پھیل چکی ہوتی ہیں اور اس کی جڑیں کافی مضبوط ہو چکی ہوتی ہیں. اسی لیے میں نے ضروری سمجھا کہ اس فتنہ کے متعلق آپ حضرات کو بروقت خبردار اور آگاہ (۱) صحیح مسلم ہی میں غامدیہ خاتونؓ کے بارے میں آنحضورﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے :
فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَلَـہٗ کردوں. اس لیے کہ یہ کام بھی قرآن کے نام پر ہو رہاہے اور اس کے لیے جو شور اور ہنگامہ ہے وہ بھی قرآن کے حوالے سے ہے. یہ ایک تازہ ترین مثال آ گئی ہے. اس کو یہ نہیں سمجھناچاہیے کہ یہ ایک معمولی مسئلہ ہے‘ اس پر اتنی تشویش کی ضرورت کیا ہے! (۱)
مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اُس نے پہلے ایک ہی مسئلہ ’’رفع و نزولِ مسیح‘‘ کا کھڑا کر کے اپنے معتقدین کو اس اجماعی مسئلے کے متعلق شک و شبہ میں مبتلا کر دیا تھا اور ان کو اپنے ماضی اور اسلاف سے کاٹ دیا تھا. اسی مسئلہ کو منوا کر وہ درجہ بدرجہ آگے بڑھا. پہلے مجدّد ہونے کا دعویٰ کیا .جن لوگوں نے یہ دعویٰ مان لیا تو پھر ان کے حلق سے مسیح موعود‘ مثیلِ مسیح اور بالآخر نبی ہونے کے دعاوی تسلیم کرا لیے. ورنہ غور کیجیے کہ ختم نبوت اور رفع و نزولِ مسیحؑ کے سوا وہ اکثر ان چیزوں کو مانتے ہیں جو ہمارے ہاں تسلیم شدہ ہیں. نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کے وہ قائل ہیں‘ قرآن کو ماننے کے وہ مدعی ہیں‘ کعبہ شریف کو اُمت کا مرکز تسلیم کرنے کے وہ معترف ہیں‘ اپنی عبادات کے مقام کو مسجد سے موسوم کرنے پر وہ عامل ہیں. یہ تو ہم نے ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے ان کی تکفیر کر کے ان کو ملت اسلامیہ سے کاٹا ہے‘ اور بعدازاں ایک صدارتی آرڈیننس کی رو سے ان کے لیے اسلامی اصطلاحات کے استعمال کو بھی خلافِ قانون قرار دے دیا گیا ہے. لہٰذا جان لیجیے کہ فتنہ کسی ایک یا چند مجمع علیہ مسائل کے مقابلے میں نئی اور اچھوتی بات زوردار طریقے اور مغالطہ آمیز طرزِ استدلال سے پیش کرنے ہی سے شروع ہوتا ہے. اس کو ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ ’’جہلاء‘‘ کے حلق سے اُتروا دیا جائے تو پھر ایک ایسی چراگاہ مل جاتی ہے اور ایک ایسا میدان حاصل ہو جاتا ہے کہ اس میں شکاری جس طرح چاہیں شکار کھیلیں.
میں یہ بات کئی بار عرض کر چکا ہوں اور آج پھر اس کا اعادہ کر رہا ہوں کہ میں عالم دین ہونے کا ہرگز مدعی نہیں ہوں. میں قرآن حکیم کا ایک ادنیٰ طالب علم اور خادم ہوں. میں نے اُمت کے موجودہ زوال کے اسباب پر قرآن و سنت کی روشنی میں غور کیا تو جس تشخیص تک پہنچا وہ میں بیان کر چکا ہوں. مجھے اس کی تائید الحمد للہ حضرت شیخ الہندؒ سے ان کی عمر کے آخری دَور (۱) واضح رہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب ۱۹۸۴ء کا ہے اور جس فتنہ پرور نوجوان کا ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے یہ علامہ جاوید احمد غامدی ہیں‘ جو اَب اسلام کا ایک جدید روشن خیال ‘ اعتدال پسند ایڈیشن پیش کر چکے ہیں. کے عزائم سے مل گئی اور میں اسی کام میں لگا ہوا ہوں. مجتہد ہوناتو بہت دُور کی بات ہے ‘ فقہ کے متعلق میرا مطالعہ محدود ہے. چنانچہ میں فقہی مسائل کے متعلق استفسارات کے جواب دینے سے حتی الامکان اجتناب برتتا ہوں. میں نے اپنے رفقاء سے بھی کہہ رکھا ہے کہ جس فقہی مسلک پر آپ مطمئن ہیں اس پر عمل کیجیے‘ کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اپنے مسلک کے مستند علماء اور دارالافتاء سے رجوع کیجیے پھر یہ کہ میری پختہ رائے ہے اور میں اس پر جازم ہوں کہ کسی مسئلہ پر اسلاف کی متفقہ رائے سے اختلاف‘ خواہ وہ کسی ایک مسئلہ ہی میں کیوں نہ ہو‘ انتہائی خطرناک ہے. اس طرح فتنوں کا آغاز ہوتا ہے. قادیانیت اور پرویزیت کے ناسور اسی طرح پیدا ہوئے. غور کیجیے کہ آج کل کے ہم لوگ جس نوعیت کے ہیں‘ ہماری سیرت و کردار کے جو معیارات ہیں‘ ان کے اعتبار سے کوئی مجتہدِ مطلق بن کر کھڑا ہو جائے اور خلفائے راشدین ‘ ائمہ اربعہ‘ تمام محدثین اور مفسرین کی متفق علیہ اور مجمع علیہ رائے کے خلاف اپنی رائے ظاہر کر دے تو دینی اعتبار سے یہ کتنی خطرناک بات ہے! یہ تو تمام اسلاف کے فہم دین کے خلاف اظہارِ عدمِ اعتماد ہے. رجم کا مسئلہ وہ ہے کہ جس سے خوارج اور چند معتزلہ کے سوا کسی نے اختلاف نہیں کیا‘ اہل سنت کے تمام مسالک کے علاوہ سلفی مسالک کے ماننے والے بھی اس کو’’حد‘‘ قرار دیتے ہیں‘ امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل ہیں. پھر اہل تشیع کے جتنے بھی shades ہیں وہ سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ رجم حد ہے. ایسے متفق علیہ مسئلہ کے خلاف اپنا ’’اجتہاد‘‘ پیش کرنا یہ ہوتا ہے دراصل کسی فتنہ کے آغاز کا سبب!
ان بزرگ کے بارے میں تو میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے پیش نظر کسی فتنہ کا آغاز ہے. وہ عمر کے جس اسٹیج پر ہیں وہ طبعی عمر کی قریباً آخری اسٹیج کے زمرے میں آتی ہے. حسرت ہوتی ہے تو اس بات پر کہ عمر کے آخری حصہ میں کوئی شخص ایسی کمائی لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پہنچے. یہ معاملہ یقینا حسرت ناک اور افسوس ناک ہے.