’میثاق‘ بابت ستمبر ۱۹۸۴ء میں ’’قرآن حکیم کے نام پر اٹھنے والی تحریکوں کے بارے میں علماء کرام کے خدشات‘‘ کے موضوع پر راقم الحروف کے خطاب کی اشاعت کے بعد تبصروں‘ تنقیدوں اور مشوروں کا جو سلسلہ ذاتی خطوط اور دینی جرائد میں شائع شدہ مضامین کی صورت میں شروع ہوا تھا‘ وہ تا حال جاری ہے.

گزشتہ شمارے میں ہم نے بعض خطوط میں جو اہم نکات اٹھائے گئے تھے اُن کے ضمن میں بھی اپنی گزارشات پیش کر دی تھیں. اور خصوصاً معاصر’ الخیر‘ ملتان میں شائع شدہ دو اہم تحریروں کے مشترک نکات کے ضمن میں مفصل وضاحت پیش کر دی تھی. خاص طور پر تقلید جامد‘ اور اجتہاد مطلق‘ کے بین بین ’’نیم تقلید‘‘ کی جو اصطلاح راقم نے وضع کی تھی اُس کے ضمن میں کچھ راقم کے عجز’بیان‘ کچھ اختصار اور کچھ بعض دوسرے اسباب سے جو مغالطے پیدا ہو گئے تھے اُن کے ازالے کی ہر ممکن کوشش کی تھی.

حسن اتفاق سے مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ‘ گزشتہ ماہ بنفس نفیس پاکستان تشریف لے آئے اور انہوں نے ’میثاق‘ میں نہ صرف اپنا مکتوب اور اس پر راقم کا شکریہ ملا خطہ فرما لیا بلکہ متذکرہ بالا موضوع پر ’الخیر‘ کے مضامین بھی پڑھ لیے اور راقم کی وضاحت بھی ملاحظہ فرما لی. اس پر اُن کا یہ قول فیصل راقم کے لیے بہت ہی حوصلہ افزائی کا موجب ہوا ہے‘ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے:’’ڈاکٹر صاحب نے اس نزاعی خطاب میں تفصیلی طور پر نہ سہی‘ اجمالی طور پر جس آرزو کا اظہار کیا ہے اُس سے بعض علماء کرام کو شکایت پیدا ہوئی. ڈاکٹر صاحب موصوف نے ’میثاق‘ نومبر کے پرچے میں اس غلط فہمی کو دُور کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ علمائِ حق کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے. مجھے امید ہے کہ تقلید اور نیم تقلید جیسے جزوی مسائل کو دعوتِ قرآنی کے بنیادی مشن کے مقابلے میں اہمیت نہیں دی جائے گی. 

پاکستان کے اندر اس وقت جزوی مسائل میں مختلف مکاتب فکر کے علماء جس طرح آپس میں گتھم گتھا ہیں اور مخالف شریعت عناصر اس کو ہوا دے کر علماء دین کا مذاق اڑ وا رہے ہیں اور اس حرب عقائد سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں شرعی نظام قائم کرنے کا مطلب اس ’’لڑاکو‘‘ طبقے کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دینا ہے. اس کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے فقہی موقف کی حوصلہ افزائی کی جائے. موصوف کا مقصد یہی ہے کہ جزوی اور فروعی اختلافات کی شدت اور ہنگامہ آرائی کم سے کم ہو جائے اور ملت کی پوری طاقت و توجہ دین بر حق کی اصولی دعوت پر مرکوز ہو جائے.‘‘

حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ‘ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے والد ماجد کے نام نامی سے معنون مدرسے کے مہتمم اور صدر مدرس ہیں جو نئی دہلی میں واقع مشہور قبرستانِ ’’مہندیاں‘‘ میں واقع ہے ‘جہاں نہ صرف شاہ ولی اللہؒ اور ان کے تمام جلیل القدر فرزند بلکہ اس عظیم خانوا دے کی اور بھی متعدد عظیم ہستیاں محو استراحت ہیں 
(۱راقم کے نزدیک اسی تعلق اور نسبت کا پرتوکامل ہے جو مولانا قاسمی مدظلہ‘ کی مندرجہ بالا سطروں میں جھلک رہا ہے آخر کیسے ممکن تھا کہ ’’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ‘‘ایسی عظیم کتاب کے عظیم مصنف کے ساتھ اس قدر قریبی تعلق بھی اپنے اثرات نہ پیدا کرتا.

بہرحال ہمیں قوی امید ہے کہ نہ صرف معاصر’الخیر‘ کے مدیر گرامی مولانا محمد ازہراور موقر مضمون نگار مولانا عبد القیوم حقانی بلکہ وہ تمام علماء کرام جن کی نگاہوں سے ہماری یہ گزارشات گزری ہوں گی ہماری وضاحتوں سے پوری طرح مطمئن ہو گئے ہوں گے!

گزشتہ ماہ کی گزارشات کے اختتام پر عرض کیا گیا تھا کہ ’’البتہ ایک بات ایسی ہے کہ جس پر آئندہ کسی صحبت میں تفصیلی گفتگو ہو گی. اور وہ ہے ’’مولانا مودودی مرحوم اور تحریک جماعت اسلامی کے بارے میں میری رائے اور اُن کے ساتھ میرے تعلق کی نوعیت‘‘ اس 
(۱) الحمد للہ کہ اپریل ۸۴ ۱۹ء میں راقم الحروف کو دہلی میں نہ صرف یہ کہ مدرسہ حسین بخش کی اُس تاریخی جامع مسجد میں خطاب جمعہ کا موقع ملا ‘جہاں کبھی سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلویؒ وعظ فرمایا کرتے تھے اور اب مولانا قاسمی مدظلہ‘ خطابت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں بلکہ مدرسہ رحیمیہ کی زیارت اور اس کے ساتھ خانوادئہ ولی اللہیؒ کے قبرستان میں حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی! سلسلے میں ارادہ تو یہی تھا کہ اسی شمارے میں یہ قرض ادا ہو جائے لیکن ایک طرف تو یکم دسمبر ۱۹۸۴ ء سے لاہور میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ایک چالیس روزہ تربیتی پروگرام جاری ہے جس میں راقم کی بھی شدید مصروفیت رہی‘ دوسری طرف یہ موضوع ایسا ہے کہ جس کے ضمن میں اختصار غلط فہمیوں کا باعث بن سکتا ہے‘ اور ضرورت ہے کہ بات مفصل اور پوری طرح کھل کر کی جائے تاکہ اس مسئلے میںراقم کے طرز فکر میں اگر کوئی غلطی ہو تو وہ بھی پوری وضاحت کے ساتھ ان علماء کرام کے سامنے آ جائے جنہیں راقم کے کام سے فی الجملہ دلچسپی اور ہمدردی ہے تاکہ وہ اس غلطی کے ازالے میں میری مدد کر سکیں. یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں میں از خود بھی تفصیل کے ساتھ لکھنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا. چنانچہ ۱۹۸۲ء میں میں نے ’’مولانا مودودی مرحوم اور میں‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ ٔمضامین شروع کیا تھا لیکن افسوس کہ اُن ہی اسباب کی بنا جن کی تفصیل گزشتہ شمارے میں عرض کی جا چکی ہے وہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا. بہر حال اب ان شاء اللہ راقم اپنی پہلی فرصت میں نہ صرف اُس کی تکمیل کی کوشش کرے گا‘ بلکہ مولانا مرحوم کے‘ فکر‘ اور زندگی کے مختلف ادوار میں اُن کے اختیار کردہ ’طریق کار‘ کے بارے میں اپنی رائے تفصیلاً پیش کرے گا. اللہ سے دُعا ہے کہ وہ راقم کو اس ارادے کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے!

نومبر ۱۹۸۴ء کے میثاق میں ’’مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم‘‘ جمعیت علماء ہند اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے عنوان سے میری ایک تحریر پر کہروڑ پکا ضلع ملتان سے ایک عالم دین مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی کے دو خطوط اور اُن کا وہ ملخص جو معاصر ’الخیر‘ ملتان میں شائع ہوا تھا‘ راقم کے تفصیلی جواب کے ساتھ ہدیہ ٔناظرین کیا گیا تھا. اس پر ایک تو تفصیلی گرفت حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ‘ نے فرمائی ہے جو اس پرچے میں شائع کی جا رہی ہے. اُس کے ضمن میں ہماری گزارشات ان شاء اللہ آئندہ شمارے میں پیش کی جائیں گی.

البتہ اُسی سلسلہ میں کچھ اختصار اور کچھ روا روی میں نکلے ہوئے چند الفاظ سے ایک وسیع حلقے میں جو بد گمانی پیدا ہوئی ہے اُس کا ازالہ فوری طور پر ضروری ہے. وہ بد گمانی راقم کے ان الفاظ سے پیدا ہوئی ہے: 

’’(۲)پھر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ طبقہ علماء کی وہ آخری شخصیت تھے جنہوں نے جو کام بھی کیا‘ اپنے بل بوتے پر کیا. جس کا اصل نقشہ کار بھی ان ہی کے 
ذہن کی پیداوار تھا اور اس پر عملی جدوجہد کی قیادت و رہنمائی بھی خود ان ہی کے ہاتھ میں تھی. ان کے بعد سے برصغیر میں قومی اور عوامی سطح پر علماء کرام کی مختلف تنظیموں کی حیثیت عظیم تر اور سیکولر مزاج سیاسی تحریکوں کے ضمیموں کی رہی ہے. چنانچہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ جیسی عظیم شخصیت کی قیادت کے باوصف جمعیت العلماء ہند کی حیثیت کانگریس کے ضمیمے سے زیادہ نہ تھی. اسی طرح مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ایسی نابغہ شخصیت کی قیادت کے باوصف جمعیت علماء اسلام کی حیثیت مسلم لیگ کے ضمیمے سے زیادہ نہ تھی. اور یہی صورت حال آج تک جاری ہے کہ اس وقت بھی حلقہ ٔدیوبند کے سیاسی اور عوامی مزاج کے حامل علماء کرام اپنی تمام تر جلالت شان اور مرتبہ و مقام کے باوصف یا موجودہ فوجی آمریت کا ضمیمہ ہیں یا ایم آر ڈی کا .اور یا پھر جماعت اسلامی کے مانند’’ نیمے دروں نیمے بروں‘‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ’نہ ادھر نہ ادھر‘ کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں اور کم و پیش یہی حال بریلوی مکتبہ فکر اور اہل حدیث حضرات کی قیادت کا ہے.‘‘
ان الفاظ پر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے عقیدت مند اور اُن کے سیاسی موقف کے حامی حضرات کی جانب سے تو کوئی ردّ عمل راقم کے علم میں نہیں آیا البتہ مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے حلقہ ٔارادت و عقیدت سے وابستہ اور اُن کی سیاسی حکمت عملی سے اتفاق رکھنے والے حضرات کی جانب سے شدید ردِ عمل ظاہر ہوا ہے .چنانچہ اس ضمن میں متعدد حضرات نے مولانا سید حامد میاں مدظلہ کے نام شکایتی خطوط تحریر فرمائے ہیں کہ ’’آپ ڈاکٹر اسرار احمد کے سرپرست اور اُس کی قائم کردہ ’تنظیم اسلامی‘ کے مستشارین میں سے ہیں اور اس نے مولانا حسین احمدمدنی ؒ اور جمعیت علماء ہند کو ’’کانگرس کا ضمیمہ‘‘ قرار دیا ہے. جبکہ آپ نہ صرف یہ کہ ذہناً اور قلباً ’’مدنی‘‘ ہیں بلکہ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے خلیفہ ٔمجاز بھی ہیں!‘‘ 
(۱چنانچہ مولانا نے کمالِ شفقت کے ساتھ بعض خطوط بھی راقم کے حوالے کر دیے اور یہ ہدایت بھی فرما دی کہ اس ضمن میں مناسب وضاحت راقم الحروف خود ہی کر دے!
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ: 

(۱) راقم کے نزدیک مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ دونوں ہی (بقول مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ‘) ’’حضرت شیخ الہند ؒ کی جماعت‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں. اور دونوں کا خلوص و اخلاص‘ تقویٰ و تدین اور للہیت‘ و فی اللہیت‘ ہر شک و شبہ سے بالا‘ 
(۱) یہ ترجمانی ہے‘ اقتباس نہیں‘ گویا روایت بالمعنی ہے باللفظ نہیں! اور دونوں کا علم و فضل کے اعتبار سے مقام و مرتبہ ہر معیار اور پیمانے سے نہایت اعلیٰ وارفع ہے.

(۲) جہاں تک سیاسی حکمت علمی کا تعلق ہے اُس کے اعتبار سے راقم کو مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے موقف سے اتفاق اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے موقف سے اختلاف ہے. راقم کے نزدیک مولانا مدنی ؒ نے اپنی خود نوشت سوانح ’’نقش حیات‘‘ میں اپنے سیاسی موقف کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ یہ تحریک شہیدینؒ کا تسلسل ہے تو یہ بات صد فی صد درست ہے‘ لیکن ایک پوری صدی گزر جانے کے باعث حالات میں مختلف اعتبارات سے جو تبدیلی آ گئی تھی اُس کے پیش نظر اس میں تبدیلی کی ضرورت تھی‘ جس کے آثار حضرت شیخ الہندؒ کے خطبہ ٔصدارت‘ اجلاس جمعیت علماء ہند‘ نومبر ۱۹۲۰ء میں موجود ہیں. اور راقم کی رائے یہ ہے کہ اگر حضرت شیخ الہندؒ کو اللہ مزید زندگی عطا فرماتا تو اُن کی سیاسی حکمت علمی میں وہ تبدیلی لازماً آتی اور اس صورت میں برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی ملی نشاۃ ثانیہ کے ‘قائداعظم‘ لازماً وہی ہوتے. لیکن 
’’ماشاء اللّٰہ کان و ما لم یشاء لم یکن!‘‘ 

(۳) بایں ہمہ مولانا مدنی ؒ کے خلوص و اخلاص اور علم و فضل بلکہ ’مجاہدانہ کردار‘ کی عظمت کا جو نقش راقم کے دل پر قائم ہے سیاسی حکمت عملی کے ضمن میں اس اختلاف رائے کا اُس پر ہر گز کوئی اثر نہیں ہے. اور اگرچہ سیاسی موقف کے ضمن میں اتفاق اور خصوصاً حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمہ قرآن پر جو حواشی مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے تحریر فرمائے ‘اُن سے پورے ثلث صدی کے مسلسل استفادے کی بنا پر اُن کی ذات سے ایک خصوصی احسان مندی‘کا تعلق راقم کو اضافی طور پر حاصل ہے. تاہم جہاں تک میرے دل کا تعلق ہے اُس پر مولانا مدنی ؒ کے ’عظمت کردار‘ کا نقش مقابلتاً بہت زیادہ گہرا ہے. گویا اگر میں یہ کہوں کہ میں ذہناً’ عثمانی‘ لیکن قلباً ’مدنی‘ ہوں تو یہ کیفیت واقعی کی غلط تعبیر نہ ہو گی. (اس ضمن میں میں اس وقت کچھ زیادہ عرض نہیں کرنا چاہتا اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ بعض ناقدین اسے وقتی سخن سازی سے تعبیر فرمائیں.

ان شاء اللہ جلد ہی میں میثاق میں شائع شدہ اپنی بیس سال کی تحریروں کے متعلقہ اقتباسات پیش کر دوں گا)

(۴) راقم نے ان دونوں بزرگوں اور ا ان کی جمعیتوں کے ضمن میں’’ضمیمہ‘‘ کا لفظ ان کی شخصیتوں‘ یا اُن کی نیتوں‘ یا اُن کے اپنے نقشہ ہائے کار کے اعتبار سے نہیں بلکہ برصغیر کی 
سیاسی صورت حال کے واقعی اور معروضی مطالعے اور نتائج کار کے اعتبار سے استعمال کیا ہے. یعنی اس واقعہ کے اظہار اور اس حقیقت کی تعبیر کے لیے کہ سیاسی میدان میں برصغیر کے مسلمانوں پر علماء کرام کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی. اور بالخصوص جہادِ حریت اور تحریک استخلاصِ وطن کے میدان میں حضرت شیخ الہند ؒ کے براہ راست جانشین یعنی حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ اور اُن کی زیر قیادت جمعیت علماء ہند‘ کا اثر ورسوخ دن بدن کمزدر سے کمزور تر ہوتا چلا گیا تاآنکہ واقعات و نتائج کے اعتبار سے اُن کی حیثیت کانگریس کے ’’ضمیمے‘‘ سے زیادہ نہ رہی واضح رہے کہ اس پہلو سے اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی حکمت عملی بالفعل کامیاب رہی‘ لیکن چونکہ مسلم لیگ کی قیادت میں اُن کا مقام بھی ثانوی و ضمنی تھا‘ لہٰذا راقم نے خود انہیں اور ان کی جمعیت علماء اسلام کو بھی مسلم لیگ کا ’’ضمیمہ‘‘ ہی قرار دیا ہے. 

بہر حال یہ معاملہ واقعات اور نتائج کے اعتبار سے ہے نہ کہ ان کی ’ذوات‘ اور ’نیات‘ کے اعتبار سے!
اُمید ہے کہ ہماری اس وضاحت سے وہ بد گمانی رفع ہو جائے گی جو اُس حلقے میں پیدا ہو گئی ہے جس سے راقم کو نہایت گہرا قلبی تعلق ہے‘ 
واللّٰہ علی ما اقول شہید (۱

حال ہی میں ماہنامہ ’بینات‘ کراچی کے ادارتی صفحات میں ایک مفصل تبصرہ تحریر فرمانا شروع کیا ہے مدیر گرامی مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب نے‘ اس کی تا حال پہلی قسط شائع ہوئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مضمون طویل ہو گا. لہٰذا اس کے ضمن میں بہتر یہی ہے کہ مضمون پورا شائع ہو جائے تب ہی اپنی گزارشات پیش کی جائیں. 
(۱) اس ضمن میں تفاصیل تو ان شاء اللہ بعد میں آ ہی جائیں گی. ایک واقعہ کا اظہار موقع کی مناسبت سے مفید رہے گا اور وہ یہ کہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور نے جو ایک طویل تحریر ’’مولانا مدنی ؒ کی شان میں بے ادبی اور گستاخیوں پر توبہ نامہ‘‘ کے طور پر تحریر کی تھی وہ سال بھر سے زیادہ عرصہ تک خدام الدین کے دفتر میں پڑی رہی اور اسے شائع کرنے کی ادارہ خدام الدین کو ہمت نہ ہوئی یا اس وقت کے حالات کے پیش نظر اسے مناسب نہ سمجھا گیا. 

لیکن اسے شائع کیا پوری آب و تاب کے ساتھ راقم الحروف نے ’میثاق‘ میں جہاں سے بعد میں نقل کیا’انوارِ مدینہ‘ نے! سر دست مولانا موصوف کی خدمت میں صرف اس قدر عرض ہے کہ وہ یہ ہر گز خیال نہ فرمائیں کہ ان کے بعض ’تیکھے‘ جملوں کے باوصف ہمیں اُن سے اس تبصرے پر کوئی ملال ہوا ہے یا ہو گا‘ ہمیں یقین ہے کہ وہ یہ کام للہ و فی اللہ اور خالصۃً ہماری خیر خواہی کے جذبے سے کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ جیسے انہوں نے راقم کی زبان کی ایک غلطی پکڑی ہے (جس پر راقم ان کا ممنون ہے) اُس طرح راقم کی سوچ میں بھی جس کجی کی نشان دہی وہ کریں گے اُس سے ہم حتی المقدور استفادہ کریں گے. اور کوئی جوابی وضاحت پیش کریں گے تو وہ بھی بغرضِ اصلاح ہی ہو گی.