آہ مولانا محمد یوسف بنّوری رحمہ اللہ علیہ
اس دارِ فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے ‘لیکن کچھ لوگوں کے انتقال سے ایک دَم ایک مہیب خلاء پیدا ہوتا محسوس ہوتا ہے اور ایک بار تو دنیا واقعتا اندھیرسی ہوجاتی ہے. مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی وفاتِ حسرت آیات یقینا اسی زمرے میں ہے! اور اس سے پورے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے دینی و علمی حلقے میں جو خلاء پیدا ہوا ہے‘ اس کے پُر ہونے کی کوئی صورت بظاہر احوال تو دُور دُور تک نظر نہیں آتی.
راقم الحروف ۱۹۶۰ء میں لگ بھگ چھ ماہ اور پھر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء تقریباً چار سال کراچی میں مقیم رہا‘ اور اس دوران میں اکثر جمعے جامع مسجد نیو ٹاؤن ہی میں ادا ہوئے اور اس طرح مولانا کے اقتداء کی سعادت بھی نصیب ہوتی رہی اور مدرسہ اسلامیہ نیو ٹاؤن کے تعمیر و ترقی کے مراحل بھی ’’وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ‘‘ کے مانند نگاہوں سے گزرتے رہے‘ جس سے مولانا کی عظمت کا نقش دل پر قائم ہوتا چلا گیا. محب مکرم ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی (کیماڑی‘ کراچی (۱) ) ان دنوں مولانا سے باقاعدہ دورۂ حدیث میں شامل ہو کر استفادہ کر رہے تھے اور ساتھ ہی کچھ علاج معالجے کی خدمت بھی بجا لاتے تھے. اس دوران میں ان کے ساتھ مولانا سے چند بار ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا‘ لیکن زیادہ تر رسمی اور سرسری انداز میں. (۲)
اکتوبر‘ نومبر ۱۹۷۰ء کے دوران رمضان مبارک کا پورا مہینہ راقم کو مدینہ منورہ میں (۱) واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۷۷ء کی ہے. بعد میں ڈاکٹر صاحب نے جو انداز اختیار کیا اس کے باعث اب راقم کا کوئی ربط و ضبط ان سے نہیں ہے!
(۲) تاہم ان سرسری ملاقاتوں میں بھی مولاناؒ سے جو قرب ذہنی و قلبی پیدا ہو گیا تھا اس کا مظہر ہے کہ جب راقم نے ۱۹۶۶ء میں ’’میثاق‘‘ کی ادارت سنبھالی تو مولانا کی ایک تحریر مئی ۱۹۶۷ء کے شمارے میں شائع کی. اور ’’حرمت صحابہؓ ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون اپریل و مئی ۱۹۷۰ء کے مشترک شمارے میں شائع کیا. حضرت مولاناؒ کی یہ دونوں تحریریں نہایت اہم ہیں. اور ان شاء اللہ ’’میثاق‘‘ کی قریبی اشاعتوں میں دوبارہ شائع کی جائیں گی. بسرکرنے کی سعادت ملی تھی. آخری عشرے میں مولانا بنوریؒ بھی تشریف لے آئے تھے اورمسجد نبوی میں معتکف تھے. لہٰذا وہاں چند تفصیلی ملاقاتوں کا موقع میسر آیا. راقم نے اپناکتابچہ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ مولانا کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کیا کہ اسے ایک نظر دیکھ لیں. اور کوئی غلطی ہو تو متنبہ فرما دیں تاکہ اصلاح کر لی جائے. مولانا نے اسے بالاستیعاب دیکھا اور ایک مقام پر عبارت میں اصلاح فرمائی (جو اگلے ایڈیشن میں کر دی گئی). (۱)
عید الفطر کے روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا. راقم مولانا کی خدمت میں غالباً بخاری حضرات کی رباط میں حاضر ہوا. راقم کی اس درخواست پر کہ اسے کچھ علیحدگی میں عرض کرنا ہے‘ مولانا نے فوراً تخلیہ کا اہتمام فرمایا. تب راقم نے عرض کیا کہ ’’مجھے تشویش لاحق ہے کہ مسجد نبویؐ میں تو دل بھی لگتا ہے اور انشراحِ صدر و انبساط کی کیفیت بھی نصیب ہوتی ہے‘ لیکن مسجد حرام میں قطعاً دل نہیں لگتا!‘‘ یہ سنتے ہی مولانا پر رقت طاری ہو گئی اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے فرمایا :’’ڈاکٹر صاحب! آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی دینی و روحانی الجھن کا ذکر کیا ہے ورنہ ہمارے پاس جو بھی آتا ہے دنیوی معاملات ہی کا رونا رونے آتا ہے!‘‘ راقم مولانا کے اس شدتِ احساس سے حد درجہ متاثر ہوا اور یہ واقعہ راقم اور مولانا کے مابین ایک قریبی قلبی تعلق کی تمہید بن گیا. (۱) راقم کی اصل عبارت یوں تھی:
’’لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے تعلیم پر زندگیوں کا اچھا بھلا عرصہ صرف کر دیا ہو اور دنیا کے بہت سے علوم و فنون حاصل کیے ہوں‘ مادری ہی نہیں غیر ملکی زبانیں بھی سیکھی ہوں‘ اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو ان کی یہ تلاوت نہ صرف یہ کہ بے کار اور لاحاصل ہو گی‘ بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ قرآن کی تحقیر و توہین اور تمسخر و استہزاء کے مجرم گردانے جائیں.‘‘
جسے مولا نا نے بدل کر یوں کرا دیا:
’’…… اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو عین ممکن ہے کہ وہ قرآن کی تحقیر و توہین اور تمسخر و استہزاء کے مجرم گردانے جائیں اور اس اعراض عن القرآن کی سزا تلاوت کے ثواب سے بڑھ جائے.‘‘
اس طرح الحمد للہ کہ میری مراد بھی اور زیادہ واضح ہو گئی اور محض لفظی بے احتیاطی کے باعث منکرین حدیث سے جو مشابہت پیدا ہو رہی تھی اس کا بھی ازالہ ہو گیا! ۱۹۷۲ء کے دوران راقم ہر ماہ کراچی جاتا رہا اور گاہے گاہے مولانا کی زیارت سے مشرف بھی ہوتا رہا. اسی زمانے میں ایک بار مولانا نے اپنے دورۂ حدیث کے طلبہ سے خطاب کا موقع بھی عنایت فرمایا اور اگرچہ راقم مولانا کی موجودگی اور ان کے رعب علمی کے باعث کچھ کھل کر بات نہ کر سکا اور اس نے اعتراف بھی کیا کہ: میری حالت اس وقت وہی ہے جس کا نقشہ قرآن مجید کے ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے کہ:’’یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ‘‘ تاہم راقم نے جس طرح بھی بن پڑا ’’اسلام کی نشأۃ ثانیہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی‘ جس کی مولانا نے کھلے دل کے ساتھ تصویب فرمائی. انہی دنوں مولانا نے یہ محبت آمیز پیشکش بھی فرمائی کہ ’’جب بھی کراچی آنا ہو‘ مدرسے ہی میں قیام کیا کرو‘ تمہارے لیے ایک بالکل علیحدہ کمرہ مخصوص کر دیا جائے گا‘‘. راقم کے لیے مولانا کی اس مشفقانہ پیشکش سے فائدہ اٹھانا تو بوجوہ ممکن نہ ہوسکا تاہم دل پر ان کی ان شفقتوں کا بے حد اثر ہوا اور قلب میں مولانا کی عظمت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ محبت بھی جاگزیں ہو گئی.
وسط دسمبر۱۹۷۳ء میں پہلی سالانہ قرآن کانفرنس منعقد ہوئی تو راقم نے مولانا کو اس میں شرکت کی دعوت دی جسے انہوں نے کمال شفقت سے قبول فرما لیا. چنانچہ حسب وعدہ تشریف لائے (۱) اور دو دن راقم کے غریب خانے ہی پر رونق افروز رہے. اس دوران ان کی سادگی اور بے تکلفی کا جو تجربہ ہوا‘ اس سے بھی دل بہت متاثر ہوا. اور ان کا یہ طرزِ عمل تو بہت ہی ’’غیر معمولی‘‘ نظر آیا کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ آمد و رفت کا کرایہ وصول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ جب انجمن خدام القرآن کی کچھ مطبوعات ان کی خدمت میں پیش کی گئیں تو ان کی قیمت بھی (۱) راقم الحروف کو ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۳ء کی اس شام کی کیفیات ابھی تک اچھی طرح یاد ہیں. جب مولانا نے ’’مقام رسالت‘‘ پر اپنی عالمانہ اور جذبہ انگیز تقریر فرمائی تھی. جناح ہال نہ صرف یہ کہ خود پوری طرح کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بلکہ اس کی تمام گیلریاں بھی انسانوں سے پُر تھیں. راقم نے مولاناؒ کی تقریر کے بعد عرض کیا تھا کہ: ’’میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر آج پوری طرح سمجھ میں آیا ہے کہ ؎
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است!!
اہالیان لاہور میں سے اکثر کے لیے مولاناؒ سے یہ پہلے تعارف کا موقع تھا. اور اکثر و بیشتر لوگوں کے چہروں پر ایک خوش گوار حیرانی کا تاثر نمایاں تھا! باصرار ادا فرمائی. (۱)
۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو راقم نے مولانا کو اس کے ’’حلقہ مستشارین‘‘ میں شرکت کی دعوت دی تو فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ مجھے بے حد عزیز ہیں‘ آپ کو پوری آزادی ہے کہ جب چاہیں آئیں اور جو مشورہ چاہیں طلب کریں‘ میں کبھی دریغ نہ کروں گا ‘لیکن کوئی باضابطہ ذمہ داری قبول کرنے سے میں اپنی صحت کی کیفیت اور مصروفیت کی شدت کے باعث معذور ہوں‘‘. اس کے بعد ایک اور بات بھی ارشاد فرمائی جو راقم دسمبر ۱۹۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں نقل کر چکا ہے اور اس وقت اس کے اعادے کی نہ ضرورت ہے ‘ نہ افادیت! (۲)
اس کے بعد افسوس ہے کہ مولانا سے صرف چند سرسری ملاقاتیں ہی ہو سکیں‘ جن میں سے ایک میں مولانا نے دسمبر ۱۹۷۶ء کے متذکرہ بالا مضمون کا ذکر تحسین آمیز انداز میں کیا اور اپنی دو تازہ عربی تالیفات بھی عنایت فرمائیں‘ جن میں سے ایک میں بعض وہی موضوعات زیر بحث آئے تھے جن پر راقم نے اپنی مذکورہ تحریر میں اظہارِ رائے کیا تھا. غالباً اسی موقع پر راقم نے مولانا سے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا؟‘‘ تو مولانا نے اس کی توثیق فرمائی اور مزید ارشاد فرمایا کہ: ’’اس سے ایک طرف تو حضرت شیخ الہندؒ کے تواضع و انکسار کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسری طرف چھوٹوں کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کا.‘‘
راقم الحروف کے لیے یہ بات تا زندگی رنج و غم کا باعث رہے گی کہ ماہنامہ ’’بیّنات‘‘ کا (۱) ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اور اس کی نہایت شاندار کامیابی کے ضمن میں ایک طویل اداریہ راقم نے اکتوبر‘ نومبر ۱۹۷۴ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع کیا تھا جس میں اس کی کامیابی کا ایک اہم سبب حضرت مولاناؒ کی قیادت و سیادت کو قرار دیا تھا. راقم کا احساس ہے کہ یہ پورا اداریہ موجودہ حالات کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے.
(۲) حضرت مولاناؒ کی بقیہ بات یہ تھی:’’…ویسے یہ بات بھی ہے کہ آپ مولانا فراہیؒ اور مولانا اصلاحی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ہم ان کے معلم اول امام ابن تیمیہؒ کو علم کا بحر ذخار ماننے کے باوجود اہمیت نہیں دیتے تو ان لوگوں کی تو حیثیت ہی کیا ہے!‘‘ راقم نے اس وقت اس کا ذکر مناسب نہیں سمجھا تھا‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مولانا اصلاحی صاحب کے ساتھ راقم کا ربط و تعلق کم ہوتے ہوتے معدوم کے درجے میں آ چکا تھا. چنانچہ دسمبر ۱۹۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں راقم نے مولانا سے اپنے تعلقات کے انقطاع کا اعلان بھی کر دیا تھا. جو غالباً آخری شمارہ مولانا کے اداریے کے ساتھ شائع ہوا ہے‘ اس میں مولانا نے راقم کی ایک تحریر کے بعض مقامات پر گرفت فرمائی اور راقم سوچتا ہی رہ گیا کہ حاضر خدمت ہو کر بالمشافہ وضاحت پیش کرے یا تفصیلی خط لکھے کہ خبر آ گئی کہ مولانا نے راولپنڈی میں داعی ٔاجل کو لبیک کہہ دیا. اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ . ویسے جن حضرات سے بھی مولانا کی اس گرفت کے بارے میں بات ہوئی وہ گواہی دیں گے کہ راقم کو اس سے ہرگز کوئی تشویش نہیں ہوئی. اس لیے کہ جہاں تک ’’گرفت‘‘ کا تعلق ہے‘ اس کے بارے میں تو راقم کو یقین تھا کہ اس کی بنیاد غلط فہمی پر ہے اور جیسے ہی راقم وضاحت پیش کرے گا‘ مولانا یقینا تسلیم فرما لیں گے‘ اور جہاں تک محبت و شفقت کا تعلق ہے تو وہ مولانا کی اس تحریر سے بھی ٹپک رہی تھی. یہاں تک کہ اپنے لیے مولانا کے قلم سے ’’آں محترم‘‘ کے الفاظ دیکھ کر تو اپنے آپ میں ایک شرمندگی کا سا احساس بھی ہوا. البتہ حسرت ہے تو صرف اس کی کہ کاش مولانا سے ملاقات ہو جاتی‘ اور راقم خود ان ہی کو گواہ بناتا کہ:
٭ راقم کو نہ مفسر بننے کا کوئی شوق ہے! (۱)
٭ نہ ہی وہ جہنم سے نجات پا جانے کو ادنیٰ درجہ کی کامیابی متصور کرتا ہے.
٭ نہ اس کا کسی بھی درجہ میں کوئی تعلق ’’خارجیت‘‘ سے ہے ‘اس لیے کہ وہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو ہرگز کافر نہیں سمجھتا‘ اور اس دنیا میں کسی کے ایمان کے فیصلے کا دارومدار عمل پر نہیں صرف ’’قول‘‘ پر سمجھتا ہے! (۲) (۱) چنانچہ واقعہ ہے کہ راقم نے بیسیوں مرتبہ اس فرمائش کے جواب میں کہ آپ بھی تفسیر لکھیں یہی عرض کیا کہ نہ تو راقم اس کا اہل ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے ‘اس لیے کہ بحمد اللہ اردو زبان میں درجن بھر کے لگ بھگ عمدہ تفاسیر موجود ہیں. میں تو اس کوشش میں ہو ں کہ ان کے پڑھنے والے زیادہ سے زیادہ تعداد میںپیدا ہو جائیں! بلکہ ایک مرتبہ تو ایک کرم فرما مُصر ہوئے کہ اچھا صرف قرآن مجید کا ترجمہ کر دو‘ میں اسے فوراً شائع کر دوں گا. اور اس خدمت کے عوض انہوں نے ایک خطیر رقم کا لالچ بھی دیا‘ اور میری حوصلہ افزائی کے لیے یہ بھی کہا کہ اس میں محنت کچھ درکار نہیں‘ دو چار ترجمے سامنے رکھ کر ترجمہ کر دیں‘ صرف آپ کا نام درکار ہے‘ ان شاء اللہ بہت نسخے فروخت ہوں گے. جس پر راقم نے دل میں لا حول پڑھی اور ان سے مناسب الفاظ میں معذرت کر دی.
(۲) اس مسئلے پر راقم ان شاء اللہ آئندہ تفصیلی گفتگو کرے گا. ہو سکتا ہے کہ بعض حضرات ’’غلط فہمی‘‘ کے لفظ سے مغالطے کا شکار ہو جائیں‘ اس میں ہرگز کوئی دخل مولانا کے سوء فہم کو حاصل نہیں. یہ تو ثابت ہی ہے کہ مولانا نے راقم کی متعلقہ تحریر ’’انجمن خدام القرآن‘‘ کے طبع کردہ کتابچے ’’راہِ نجات: سورۃ العصر کی روشنی میں‘‘ نہیں پڑھی بلکہ ’’ادارہ اشاعت علوم اسلامیہ‘ چہلیک‘ ملتان‘‘ کے ماہانہ سلسلۂ مطبوعات کے شمارہ نمبر ۱۴۴ میں ’’انسان کا اصل سرمایہ‘‘ کے عنوان سے مطبوعہ رسالے میں پڑھی‘ جس میں نہ صرف یہ کہ اس کا اول و آخر غائب ہے بلکہ راقم کا نام بھی ’’ڈاکٹر اسرار محمد خاں‘‘ درج کیا گیا ہے. ثانیاً اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس تحریر کے بعض مقامات نشان زد کر کے مولانا کے سامنے رکھ دیے اور مولانا نے اس پر رائے رقم فرما دی. و اللّٰہ اعلم!!
بہر حال راقم الحروف کے نزدیک مولانا کے ساتھ کم و بیش سات سالہ تعلقات کی انتہائی خوشگوار یادوں کے آخر میں اگر ایک ذرا سی تلخ یاد بھی شامل ہو گئی تب بھی کوئی مضائقہ نہیں. اس لیے کہ اس تلخی میں بھی محبت و شفقت کی چاشنی بدرجہ ٔاتم موجود ہے.
مولانا کو ہماری دعائوں کی ہرگز کوئی حاجت نہیں لیکن ان کے لیے دعا خود ہمارے لیے یقینا اجر و ثواب کا ذریعہ ہے.
اَللَّھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَارْحَمْہُ وَاَدْخِلْہُ فِیْ اَعْلٰی عِلِّیِّیْنَ- بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ!
یہ ایک امر مسلّم ہے کہ اللہ والوں کا اصل ترکہ‘ اور عظیم ترین صدقہ ٔجاریہ صالح اولاد ہوتی ہے‘ راقم کا حضرت مولانا بنوریؒ کے صاحبزادے مولانا محمد بنوری سے مولاناؒ کی وفات کے بعد بہت ہی کم ملنا ہوا‘ لیکن چونکہ انہوں نے مولاناؒ کی مجھ پر شفقت و عنایت کا مشاہدہ کیا ہوا ہے‘ لہٰذا وہ میرا بہت لحاظ کرتے ہیں. پھر داماد بھی بیٹوں ہی کے حکم میں ہوتے ہیں‘ چنانچہ مولاناؒ کے خویش کلاں مولانا محمد طاسین مدظلہٗ کی راقم پر عنایتوں اور شفقتوں کا حال تو سب کے علم میں ہے ہی‘ شاید بعض حضرات کے علم میں یہ نہ ہو کہ وہ ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے حلقہ ٔمستشارین میں بھی باضابطہ شامل ہیں.
مولانا بنوریؒ کا دوسرا عظیم صدقہ ٔجاریہ ’’جامعۃ العلوم الاسلامیہ‘‘ ہے جس کی ایک ایک اینٹ پر مولانا کے عزم مصمم اور محنت و مشقت کے نقوش اسی شان کے ساتھ ثبت ہیں جو نعیم صدیقی صاحب کے ان اشعار میں سامنے آتی ہے ؎
ہیں بالاکوٹ کی مٹی کے ذرے ہماری آرزوؤں کے مزارات
ہیں ہر ذرے کی پیشانی پہ منقوش ہمارے عزم کے خونیں نشانات
اس جامعہ کا ماہانہ مجلہ ’’بیّنات‘‘ بھی مولاناؒ ہی کا صدقہ ٔجاریہ ہے‘ جس کے ’’بصائر و عبر‘‘ کے صفحات سالہاسال تک ان ہی کے رشحاتِ قلم سے مزین ہوتے رہے اور جس کی ادارت ان کی وفات کے بعد مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے سپرد ہوئی‘ جو مولاناؒ کو اپنا ’’شیخ اور مربی‘‘ بھی قرار دیتے ہیں اور ان کے ساتھ ہم نامی کی اضافی نسبت بھی رکھتے ہیں.
مولانا لدھیانوی کے قلم پر راقم الحروف کا تذکرہ پہلی بار آج سے پورے اٹھارہ برس قبل راقم کی تالیف ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ پر تبصرے کے ضمن میں آیا تھا جو فروری ۱۹۶۷ء کے ’’بیّنات‘‘ میں شائع ہوا تھا اور جس کے کل چار میں سے تین صفحات مولانا نے جنوری ۱۹۸۵ء کے ’’بصائر و عبر‘‘ میں بطور اقتباس شائع کیے ہیں ان میں راقم کے بارے میںیہ الفاظ تو شامل ہیں کہ ’’ہماری رائے میں (جو اگر غلط ہو تو حق تعالیٰ ہمیں معاف فرمائیں) مصنف نے جماعت کی ’’بنائے فساد‘‘ کی تشخیص صحیح فرمائی ہے … ‘‘ اور ’’… جس کی شکایت بڑے دردمنددل سے آج ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو کرنا پڑی ہے‘‘ لیکن نہ معلوم کیوں ان جملوں کے نقل سے مولانا نے احتراز فرمایا ہے کہ ’’تاہم ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا تو ایک ایک جملہ ان کے اخلاص اور خیر خواہی کی شہادت دیتا ہے!‘‘ اور ’’ہم مصنف سلّمہ کے قلم کی داد دیے بغیر نہیںرہ سکتے کہ انہوں نے پیچیدہ مسائل و مراحل میں بھی متانت‘ رزانت اور سنجیدگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.‘‘
تاہم یہ تو غیر اہم بات ہے. راقم کے نزدیک اس تبصرے میں شامل اہم تر امور یہ ہیں کہ: (۱) ۱۹۶۷ء تک مولانا لدھیانوی مولانا مودودی مرحوم کی نیک نیتی کی کرامت کے قائل تھے اور (۲) مولانا مودودی سے مولانا لدھیانوی کو اصل شکایت یہ تھی کہ انہوں نے ’’اپنے نظریات اور افکار کے گرد ’’انا أعلم ‘‘ کا حصار کھینچ لیا!‘‘. مولانا کی مکمل عبارت یوں ہے:
’’اس لیے ہمیں اس پر قطعاً تعجب نہیں‘ کہ مولانا کی تحریک میں غلطیاں کیوں پیدا ہوتی گئیں. بلکہ حیرت اور تعجب اس بات پر ہے کہ اتنی کم غلطیاں ہی کیوں پیدا ہوئیں‘ اور وہ اپنے خود رو مطالعہ کے نتیجے میں‘ اہل حق سے نسبتاً قریب کیسے رہ گئے. دوسرے لوگ نہ معلوم اس کی کیا توجیہہ کریں‘ لیکن مجھے تو یہ مولانا کی نیک نیتی کی کرامت معلوم ہوتی ہے.
اور عجلت پسندانہ بے اصولی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا‘ جبکہ مولانا نے اپنے نظریات و افکار کے گرد ’’انا أعلم ‘‘کا حصار کھینچ لیا‘ ان کی کسی غلطی پر جب کبھی تنبیہہ کی جاتی تو انہوں نے اس کی پرواہ کیے بغیر کہ یہ تنبیہہ کتنے بڑے فاضل‘ فقیہہ اور خدا ترس کی جانب سے کی گئی ہے‘ اسے ’’لائق توجہ نہیں‘‘ کہہ کر دل و دماغ کے تمام راستے بند کرلیے. اور نہ جب وہ غیر تربیت یافتہ ذہن کے باوصف اسلامی تحریک کی سربراہی کررہے تھے‘ اگر اس دوران بھی وہ اہل صلاح و تقویٰ اور اصحاب علم و فضل کی ہدایت پرکان دھرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جماعت بالآخر اس سطح پر آ جاتی جس کی شکایت بڑے درد مند دل سے آج ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو کرنا پڑی ہے.‘‘ (ماہنامہ ’’بیّنات ‘‘ شوال ۱۳۸۶ھ)
ہمیں مولانا لدھیانوی کی ان آرا ء سے کامل اتفاق ہے بلکہ ہم انہیں اس وسعت قلب پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے‘ لیکن ساتھ ہی اپنے آپ کو یہ عرض کرنے پر مجبور پاتے ہیں کہ کاش! مولانا اسی وسعت قلب کا مظاہرہ اس خاکسار کے حق میں بھی کر سکتے جسے ’’اَنا أعلم‘‘ تو کجا ’’عالم‘‘ ہونے کا بھی دعویٰ نہیں اور جو علماء کرام کی خدمت میں حاضری اور ان سے استفادے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے. بہر حال اس موضوع پر کسی قدر گفتگو آگے ہو گی.
مولانا لدھیانوی کے قلم پر راقم کا دوسری بار ذکر آج سے تین سال قبل خواتین کے مسئلے پر راقم کے ایک اخباری انٹرویو پر مغرب زدہ خواتین کے احتجاجی جلوس پر تبصرے کے ضمن میں آیا تھا. اور اس میں الحمد للہ کہ ملک بھر کے تمام دینی جرائد کے ساتھ ساتھ مولانا لدھیانوی نے بھی راقم کے موقف کی پوری تائید و تحسین فرمائی تھی اور ایک نہایت عمدہ تحریر اسلام میں عورت کے مقام اور مرتبہ کے موضوع پر سپرد قلم کی تھی (مولانا تقی عثمانی صاحب کا اداریہ بھی اس موضوع پر بہت زور دار تھا اور انہوں نے بھی راقم کی قرآنی حقائق کی تعبیر کی توثیق و تحسین فراخدلانہ انداز میں فرمائی تھی).
اس کے بعد نہ معلوم کیوںمولانا لدھیانوی کے قلم نے راقم کے خلاف مخالفانہ انداز اختیار فرما لیا. یہ معاملہ اگر اس طرح ہوتا کہ مولانا نے راقم کی علمی و فکری لغزشوں پر پے بہ پے ٹوکا ہوتا‘ اور اس کی اختیار کردہ دینی تعبیرات کی غلطیوں پر تنبیہہ کی ہوتی‘ جس پر راقم نے مسلسل ضد اور ہٹ دھرمی کی روش اختیار کی ہوتی اور اس کے نتیجے میں مولانا کے طرز عمل میں وہ تبدیلی رونما ہوتی تو ہمیں شکایت کا کوئی حق نہ ہوتا. لیکن صورتِ واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ آج تک مولانا نے راقم کی کسی علمی یا فکری غلطی کی نشاندہی نہیں فرمائی (صرف ایک بار مجلس احرار اسلام اور ۱۹۵۳ء کی ختم نبوت کی تحریک کے بارے میں راقم کے بعض غیر محتاط الفاظ پر گرفت فرمائی تھی جس کی پوری وضاحت راقم نے تحریراً بھی کر دی تھی اور حاضر خدمت ہو کر بالمشافہ بھی کر دی تھی ‘جس پر انہوں نے اطمینان کا اظہار فرما دیا تھا!) لیکن جنوری اور فروری ۱۹۸۵ء کے شماروں میں ’’اندیشہ ہائے دور و دراز‘‘ کے پیش نظر راقم کو جو مشورہ دیا اس کا حاصل یہ بنتا ہے کہ راقم اپنی جملہ سرگرمیوں اور دینی خدمات کی بساط لپیٹ کر رکھ دے. ہم مولانا کے اس مشورہ کو بھی ان کے خلوص و اخلاص ہی پر محمول کر کے سکوت اختیار کرتے اگر انہوں نے بعض صریح زیادتیاں اپنی اس تحریر میں نہ کی ہوتیں.
ان میں سب سے بڑی زیادتی تو یہ ہے کہ مولانا نے راقم کے کتابچے ’’راہِ نجات: سورۃ العصر کی روشنی میں‘‘پر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کا تنقیدی و تنبیہی تبصرہ تو پورے کا پورا نقل کر دیا ہے لیکن اس پر جو وضاحت راقم نے ’’میثاق‘‘ میں شائع کی تھی (جو اوپر درج کی جا چکی ہے) اس کا تذکرہ تک نہیں کیا. اس ضمن میں یہ بات تو ہرگز قرین قیاس نہیں ہے کہ اس وقت بھی راقم کی وضاحت مولانا لدھیانوی ایسے بیدار و ہوشیار اور محنتی شخص کی نظر سے نہ گزری ہو. البتہ یہ عین ممکن ہے ‘اور ہم یہی حسن ظن رکھتے ہیں کہ اس وقت وہ ان کی یادداشت میں محفوظ نہ رہی ہو‘ اگرچہ یہ بات بھی ان کے منصب کے شایانِ شان نہیں‘ گویا معاملہ وہی ہے کہ:
ان کنت لا تعلم فھٰذا مصیبۃٌ
و ان کنت تعلم فالمصیبتہُ اعظم
بہرحال اب جبکہ حضرت مولانا بنوریؒ کا رقم کردہ وہ شذرہ ’’بیّنات ‘‘ ایسے وقیع مجلے میں دوبارہ شائع ہو گیا ہے تو اپنی سابقہ وضاحت پر مستزاد عرض ہے کہ:
(۱) اس معاملہ کا تعلق اصلاً تو اس حقیقت سے ہے کہ فقہ و قانون اور قضاء و افتاء کی زبان اور دعوت و تبلیغ‘ وعظ و نصیحت اور اخلاقی تلقین کے لیے ترغیب و ترہیب کی زبان میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور اصلاً اسی فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ مخالفین نے شاہ اسمٰعیل شہیدؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کی بعض عبارتوں پر طوفان کھڑے کر دیے. جس کا تلخ ترین تجربہ پورے حلقہ ٔدیوبند کو ہے‘ بلکہ اگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو خود قرآن حکیم اور فرموداتِ نبی کریم ﷺ پر ’’تضاد‘‘ کا الزام عائد ہوتا ہے. مثلاً قرآن اخلاقی و روحانی سطح پر عفو و درگزر کی تلقین کرتا ہے‘ لیکن قانونی و دنیوی نظام کی مصلحتوں کے پیش نظر قصاص کی اہمیت اجاگر کرتا ہے. اسی طرح ایک مقام پر تلقین کرتا ہے کہ ضرورت سے زائد جو کچھ ہو اللہ کی راہ میں دے دو یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ اور دوسری طرف وراثت کا تفصیلی قانون بھی بیان کرتا ہے اور زکوٰۃ کی تلقین بھی کرتا ہے جس کے نصاب اور مقادیر کا معاملہ سنت رسولؐ نے معین فرما دیا ہے! (معلوم رہے کہ اسی اخلاقی اور قانونی تعلیمات میں فرق نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ اشتراکی اس آیۂ مبارکہ کو اپنی تائید کے لیے استعمال کرتے ہیں!)
(۲) ثانیاً اس کا تعلق ’’ایمان‘‘ کی تعریف سے ہے جس میں امت کی دو عظیم ترین ہستیاں بظاہر متضاد موقف رکھتی ہیں.چنانچہ فقیہہ اعظم امام ابو حنیفہؒ کا مشہور موقف یہ ہے کہ ’’اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ! ‘‘ جبکہ محدثِ اعظم امام بخاریؒ کا قول ہے کہ ’’اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ وَیَزِیْدُ وَیَنْقُصُ! ‘‘ ان بظاہر متضاد اقوال کے مابین تطبیق کی حسین ترین صورت یہ ہے کہ پہلی تعبیر اس فقہی اور قانونی ایمان کی ہے جو اس دنیا میں معتبر ہے اورجس کی بنا پر کسی شخص کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے‘ جبکہ دوسری تعبیر اس حقیقی ایمان کی ہے جو آخرت میں معتبر ہو گا‘ اور دونوں ہی تعبیریں اپنی اپنی جگہ صد فی صد درست ہیں چنانچہ اس حقیقت کو پیش نظر نہ رکھنے کے باعث خطرناک ٹھوکریں کھائیں ایک جانب خوارج‘ معتزلہ اور اہل تشیع نے اور دوسری جانب ’’مُرجئہ‘‘ نے.
اور یہی حقیقت ہے جس سے وہ ظاہری تضاد رفع ہوتا ہے جو ایمان کے مسئلے میں قرآن حکیم کی بعض آیات میں سامنے آتا ہے ‘مثلاً سورۃ النساء (آیت ۹۴) میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’جب تم جہاد کے لیے نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو شخص تم پر سلام (سلامتی یا اسلام) پیش کرے اس سے یہ مت کہا کرو کہ تم مؤمن نہیں ہو!‘‘ اور سورۃالحجرات (آیت ۱۴) میں بعض بدوؤں کے دعویٰ ایمان کو ردّ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ’’تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یوں کہو ک ہ ہم اسلام لے آئے ہیں یا ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے‘‘. یہاں ظاہر ہے کہ پہلی آیت میں لفظ ’’مؤمن‘‘ قانونی اور شرعی و فقہی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس کے لیے دوسری آیت میں ’’اسلام‘ کی اصطلاح اختیار فرمائی گئی ہے اور ’’ایمان‘‘ کا لفظ حقیقت اور قلبی ایمان کے لیے مختص کر دیا گیا ہے (یہی وجہ ہے کہ اسی آیت میں مزید وضاحت فرمائی گئی ان الفاظ میں کہ ’’ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘. اسی بات کو آنحضور ﷺ نے حدیث معاذ بن جبلؓ میں اس طرح واضح فرمایا کہ کلمہ ٔشہادت‘ اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کے ذکر کے بعد فرمایا:
فَاِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ فَقَدِ اعْتَصَمُوْا وَ عَصَمُوْا دِمَائَ ھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّھَا وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یعنی جب وہ یہ تین شرطیں پوری کر دیں تو ان کی جانیں اور مال محفوظ ہو جائیں گے (یعنی ان کا اسلام قبول کر لیا جائے گا) باقی رہا نیتوں کا معاملہ تو اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے (یعنی یہ معاملہ دنیا میں زیر بحث نہیں آئے گا اور اس کی بنیاد پر کوئی قانونی فیصلے یا اقدامات نہیں ہوں گے) .
اس بنیادی حقیقت کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو اگرچہ بہت سی احادیث میں ’’ایمان‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کو جداگانہ حقیقتوں کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے تاہم انسان بہت سی احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں بھی تضاد کے سوءِ ظن میں مبتلا ہو سکتا ہے‘ مثلاً ایک جانب ’’ترہیب‘‘ اور تنبیہہ و تہدید کے انداز میں فرمایا جاتا ہے کہ ’’خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں‘ خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں‘ خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں‘‘. پوچھا گیا‘ کون؟ تو ارشاد فرمایا: ’’جس کی ایذا رسانیوں سے اس کا پڑوسی چین میں نہ ہو‘‘. اور دوسری جانب ’’ترغیب‘‘ اور دلدہی اور حوصلہ افزائی کے انداز میں فرمایا جاتا ہے کہ ’’اگر تمہیں کوئی اچھا کام کر کے خوشی ہو اور برا کام کر کے افسوس ہو تو تم مؤمن ہو!‘‘
بہر حال جیسے کہ پہلے نقل ہو چکا ہے راقم کا موقف یہ ہے کہ:
میں اس دنیا میں کسی کے دعوائے اسلام و ایمان کی قبولیت کا دارومدار صرف اس کے قول کو قرار دیتا ہوں. عمل کی بنیاد پر کسی کے دعوائے اسلام و ایمان کو رد کر دینا درست نہیں سمجھتا‘ چنانچہ میرے نزدیک گناہِ کبیرہ کے مرتکب کی بھی تکفیر نہیں کی جا سکتی. تکفیر کی صرف ایک صورت درست ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اسلام کی کسی بنیادی بات (مثلاً ختم نبوت) کا انکار کر دے یا اس کی ایسی تعبیر کرے جو انکار کو مستلزم ہو! رہا آخرت کا معاملہ تو وہ اللہ کے حوالے ہے‘ وہ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘ ہے. چنانچہ اپنے علم کامل کی اساس پر فیصلہ کرے گا. البتہ اصولاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں صرف وہی ایمان معتبر ہو گا جو کسی نہ کسی درجے میں ’’تصدیقٌ بالقلب ‘‘یعنی دلی یقین کے ساتھ ہو اور اس مرتبہ پر اعمال صالحہ بھی ایمان کے ذیل ہی میں آ جاتے ہیں !!
جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘راقم کو یقین ہے کہ اگر وہ یہ وضاحتیں مولانا بنوریؒ کی خدمت میں پیش کرتا تو وہ یقینا قبول فرما لیتے. بلکہ راقم اپنا یہ کتابچہ بھی ان کی خدمت میں پیش کر دیتا کہ اس میں جہاں جہاں کسی لفظی بے احتیاطی کے باعث کوئی مخالف مفہوم متبادر ہوتا ہو تو اصلاح فرما دیجیے. اور راقم کو یقین ہے کہ مولانا کی اصلاح سے میرا مفہوم زیادہ نکھرتا (جس کی مثال ’’قرآن مجید کے حقوق‘‘ نامی کتابچے کے ضمن میں پہلے گزر چکی ہے). بہر حال اب بھی اگر مولانا لدھیانوی اس کتابچے کے بالاستیعاب مطالعہ کی تکلیف گوارا فرما کر ایسے مقامات کی نشاندہی فرمائیں تو وہ ان شاء اللہ راقم کو کسی ضد میں مبتلا نہ پائیں گے.
سورۃ العصر کے بارے میں راقم نے جو یہ لکھا کہ ’’یہاں کامیابی کی فرسٹ یا سیکنڈ ڈویژن کا تذکرہ نہیں بلکہ صرف آخری درجے میں پاس ہونے کی شرح کا بیان ہو رہا ہے‘‘ تو اس میں صرف اس سورۂ مبارکہ کے اسلوب کی جانب اشارہ ہے کہ اس میں اصل زور ہے اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ پر جس سے نجات کا ذکر ایک استثناء کے طور پر ہے‘ بمقابلہ سورۃ التین کے ‘ کہ اس میں اصل زور ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍD پر‘ اور ثانیاً آخر میں ذکر صرف نجات کا نہیں بلکہ مثبت طور پر فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرٌ مَمْنُوْنٍE کی نوید جاں فزا ہے. گویا سورۃ العصر پر رنگ غالب ہے ’’انذار‘‘ کا اور سورۃ التین پر رنگ غالب ہے ’’تبشیر‘‘ کا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ’’راہِ نجات‘‘ کے نسخہ کلاں کے صفحات ۸ تا ۱۰) اسی طرح ہر شخص جانتا ہے کہ کسی شے کا اپنی جگہ حقیر یا وقیع ہونا اور ہے اور کسی دوسری چیز کے مقابلے میں کم تر یا برتر ہونا اور! چنانچہ لاکھ اپنی جگہ بہت ہے لیکن کروڑ کے مقابلے میں بہت کم! اسی طرح محض جہنم سے چھٹکارا پا جانا بھی اگرچہ اپنی جگہ بہت بڑی کامیابی ہے ‘لیکن جنت کے اعلیٰ مقامات کے مقابلے میں تو خود اس کے ادنیٰ درجات بھی کم تر ہوں گے (جس کی نسبت و تناسب کا ایک اندازہ ہو سکتا ہے حضورﷺ کے ان الفاظ مبارکہ سے کہ: ایک کم تر درجہ کا جنتی اپنے سے اوپر والے درجہ کے جنتی کو اس طرح دیکھے گا جیسے تم زمین پر بیٹھ کر آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو. (او کما قال ﷺ ) کجا محض جہنم سے چھٹکارا پاجانا!! یہ تقریر چونکہ راقم نے ایچی سن کالج کے طلبہ کے سامنے کی تھی ‘لہٰذا اس میں ان کے ذہن کو پیش نظر رکھا گیا ہے. ایک طالب علم کے نزدیک محض تھرڈ ڈویژن میں پاس ہو جانا بھی کتنی بڑی کامیابی ہے یہ اس سے پوچھئے جو فیل ہو گیا ہو.
رہی یہ بات کہ ’’عَمِلُوا الصّٰلِحٰت کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اسلام کی کوئی بات باقی نہیں رہی جو اس میں نہ آئی ہو!‘‘ تو یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو خود راقم نے ’’نجات کی راہ‘‘ کے نسخہ ٔکلاں کے صفحات ۲۸ تا ۳۱ تک لکھی ہے جس کے دو مختصر حصے درج ذیل ہیں:
’’واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم صلاح و فلاح کے جس راستے کی جانب رہنمائی کرتا ہے یہ چار چیزیں (یعنی ایمان‘ عمل صالح‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر) اس کے لیے بمنزلہ اساس کے ہیں. پھر جس طرح ایمان کے ابتدائی مراحل سے لے کر صدیقیت کے مقام تک بے شمار مدارج ہیں (اسی طرح) عمل صالح موٹے موٹے اعمال سے شروع ہو کر ایک گھنے اور پاٹ دار درخت کی طرح انسانی زندگی کے جملہ اطراف حتیٰ کہ اس کے بعید ترین گوشوں (remote corners) تک پر محیط ہو جاتا ہے.‘‘
’’لیکن اگر کسی انسان کی شخصیت کو کوئی اخلاقی یا روحانی بیماری گھن کی طرح کھا نہ چکی ہو تو لازم ہے کہ ایمان کا تخم جب اس کی کشت قلب میں جم کر پھوٹے تو اس سے عمل صالح اور تواصی بالحق کی متناسب اور متوازن شاخیں نمودار ہوں.‘‘
مولانا لدھیانوی کی دوسری زیادتی ان کا استہزائیہ انداز ہے جوکسی اخبار کے فکاہی کالموں یا ادبی جرائد کے مزاج سے تو مناسبت رکھ سکتا ہے‘ دینی جرائد اور ان کے بھی ادارتی صفحات کے شایانِ شان ہرگز نہیں ؏ ’’ایں حال نیست صوفی ٔعالی مقام را‘‘. چنانچہ انہوں نے اپنی طویل تحریر کا اختتام تو ان الفاظ سے کیا ہے کہ ’’آخر میں یہ گزارش کرنا بھی ضروری ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے محض خیر خواہی کے جذبہ سے لکھا ہے‘ ڈاکٹر صاحب کی شان کے خلاف کوئی بات نکل گئی تو اس پر پیشگی (؟) معذرت کا طالب ہوں‘‘. لیکن خود اس جملے میں ’’شان‘‘ کے لفظ کی استہزائی شان سے قطع نظر پوری تحریر میں جا بجا طعن و طنز کا انداز موجود ہے مثلاً:
(۱) ’’انہوں نے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے اپنے مداحوں کی ایک جماعت بنا رکھی ہے.‘‘
(۲) ’’موصوف کو شکایت ہے کہ علماء کرام نہ صرف یہ کہ ان کے مبارک سلسلہ سے تعاون نہیں کر رہے بلکہ … ‘‘
(۳) ’’جبکہ ٹیلیویژن پر ان کے ’’الھدٰی ‘‘ کا غلغلہ بلند ہے. سینکڑوں نہیں ہزاروں پڑھے لکھے لوگ ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے کو سعادت سمجھ رہے ہیں.‘‘
(۴) ’’ڈاکٹر صاحب تو اپنی فتوحات پر نازاں ہیں اور ……‘‘
(۵) ’’اس جہاد کے لیے انہوں نے ’’تنظیم اسلامی‘‘ تشکیل دے کر سفر قیادت کا آغاز کر دیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ چشم بد دور انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح ’’سلسلہ ٔبیعت‘‘ بھی جاری فرما دیا ہے (جسے ’’سلسلہ عالیہ احمدیہ‘‘ کے مقابلے میں ’’سلسلہ عالیہ اسراریہ‘‘ کہنا موزوں ہو گا‘‘ (اس پر حاشیہ میں ایک وضاحتی نوٹ ہے: ’’تشبیہہ نفس بیعت میں ہے گو نوعیت کا اختلاف ہو‘‘)
اس ضمن میں راقم نہایت ادب کے ساتھ مندرجہ ذیل گزارشات کی اجازت چاہتا ہے:
(۱) یہ انداز نگارش خواہ اپنی جگہ ادبیت کا شاہکار قرار پائے ‘دینی جرائد خصوصاً ’’بیّنات ‘‘ اور اس کے بھی ’’ادارتی صفحات‘‘ کے شایانِ شان نہیں ہے.
(۲) سورۃ الحجرات کی آیت ۱۱ میں انہی امور سے منع فرمایا گیا ہے یعنی:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾
’’اے ایمان والو! نہ مذاق اڑائیں تم میں سے کچھ لوگ دوسرے لوگوں کا‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ بعض عورتیں دوسری عورتوں کا‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں. اور نہ عیب چینی کرو ایک دوسرے کی‘ اور نہ برے نام رکھو ایک دوسرے کے. ایمان کے بعد برا نام بھی بہت برا ہے. اور جو لوگ باز نہ آئیں تو (اللہ کے نزدیک) وہی ظالم ہیں. ‘‘
(۳) زبان اور قلم راقم کے پاس بھی ہیں‘ اور خواہ یہ مولانا لدھیانوی کی زبان و قلم کے مقابلے میں نہایت حقیر اور بے بضاعت ہوں تاہم کسی نہ کسی درجہ میں ترکی بہ ترکی جواب دیا جا سکتا ہے. خصوصاً جبکہ اس سے نفس کو بھی لذت حاصل ہوتی ہے. پھر ماہانہ جرائد بھی راقم کے پاس ایک چھوڑ دو دو ہیں‘ اور خواہ ڈائجسٹوں کے مقابلے میں ان کا حلقہ اشاعت بہت محدود ہو‘ دینی جرائد کے اعتبار سے ہرگز کم نہیں ہے. لیکن ایک خاص سبب سے راقم یہ صورت اختیار نہیں کر سکتا. گویا بقول شاعر ؎
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کہ نہیں آتی!
(۴) اور وہ ’’خاص سبب‘‘ یہ ہے کہ راقم کی حیثیت اس وقت ’’سائل‘‘ کی ہے. اس نے جس دینی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے وہ آیہ ٔمبارکہ: وَمَنْ جَاھَدَ فَاِنَّمَا یُجَاھِدُ لِنَفْسِہٖ ط (العنکبوت: ۶) کے مطابق سراسر اپنے ہی ’’بھلے‘‘ اور اپنے ہی فائدے کے لیے اٹھایا ہے‘ اس میں جب وہ تعاون کا طلب گار ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ع ’’مانگنے والا گدا ہے‘ صدقہ مانگے یا خراج!‘‘کے مصداق ایک طرح کا ’’سوال‘‘ ہی ہے.
یہ بھی واضح رہے کہ راقم ابھی تو صرف حلقہ ٔدیوبند‘ خصوصاً متوسلین شیخ الہندؒ ہی کے در پر سوالی بن کر حاضر ہوا ہے کہ بزرگ اس کی سرپرستی فرمائیں اور جوان اس کا ساتھ دیں راقم کا ارادہ ہے کہ وقت آنے پر‘ اور اسے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے واثق امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب وہ آگے بڑھ کر دوسرے مسلکوں کے علماء کرام کی خدمت میں بھی سوالی بن کر حاضر ہو گا. اس لیے کہ حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے میں جمعیت علماء ہند ‘ جملہ مسالک کے علماء کا مشترک پلیٹ فارم تھی اور جس طرح آنحضور ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ’’نَسِیٔ ‘‘ کا رواج منسوخ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ: اِسْتَدَارَ الزَّمَانُ کَھَیْئَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ راقم کے نزدیک قدرتِ خداوندی سے یہ ہرگز بعید نہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں بھی ساٹھ پینسٹھ سال پہلے کی فضا پھر لوٹ آئے اس ضمن میں مولانا لدھیانوی ہی نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کا ایک سبق آموز واقعہ سنایا تھا کہ مولانا محمد علی جالندھریؒ جب بریلوی مکتب فکر کے علماء کا تعاون حاصل کرنے کی غرض سے مولانا سید ابو الحسنات قادریؒ کے ہاں گئے اور انہوں نے سخت غیظ و غضب کے عالم میں گفتگو تک سے انکار کر دیا تو مولانا جالندھریؒ نے اٹھتے اٹھتے یہ جملہ کہا: ’’حضرت ہم اپنے کسی کام کے لیے حاضر نہیں ہوئے تھے‘ آپ ہی کے نانا (ﷺ ) کے ناموس کی حفاظت کے ضمن میں تعاون درکار تھا!‘‘ تو مولانا قادریؒ کا رنگ ایک دم تبدیل ہو گیا اور انہوں نے پوری توجہ سے بات سنی اور تحریک میں شمولیت اختیار کر لی.
تو راقم بھی بحمد اللہ اپنی کسی ذاتی غرض سے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دین حق کے غلبہ و اقامت کے لیے کھڑا ہوا ہے اور اس کے ضمن میں وہ اگر سرپرستی اور تعاون کا سوال کر رہا ہے تو اس کی حیثیت بھی ایک ’’سائل‘‘ کی ہے. لہٰذا مولانا لدھیانوی ایسے حضرات کو اگر ابھی کچھ شکوک و شبہات ہیں تو بیشک سوالی کو خالی ہاتھ لوٹا دیں لیکن کم از کم ’’قَوْلٌ مَعْرُوْفٌ وَ مَغْفِرَۃٌ ‘ ‘ ’’وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْ ‘‘ اور ’’فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلاً مَیْسُوْراً ‘‘ کی قرآنی ہدایات کو تو پیش نظر رکھیں.
اس گلہ اور شکوہ سے قطع نظر مولانا لدھیانوی نے ’’قرآن حکیم کے نام پر اُٹھنے والی تحریکات اور ان کے بارے میں علماء کرام کے خدشات‘‘ پر تبصرہ کے ضمن میں راقم کی تشخیص کو ’’سطحی‘‘ قرار دیتے ہوئے جو اصل تشخیص خود کی ہے وہ مختصر الفاظ میں تو یہ ہے کہ:
’’ان تحریکات کے قائد و بانی‘ علم و عمل اور صلاح و تقویٰ کے اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے‘ جو کسی دینی تحریک کے قائد و بانی کے لیے ناگزیر ہے.‘‘
اور مزید شرح ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ:
’’پس جو شخص کہ علمی رسوخ میں لائق اعتماد نہ ہو‘ جس کا عملی معیار مستند نہ ہو‘ جس نے اہل قلوب اور اربابِ باطن کی صحبت میں رہ کر اپنے اخلاق کا تزکیہ اور اپنی باطنی کیفیات کی تصحیح نہ کی ہو‘ اس کے بارے میں کیسے باور کر لیا جائے کہ وہ کسی دینی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے نیابت نبوت کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کر سکے گا‘ اور وہ کسی افراط و تفریط‘ خود رائی و کجروی کا شکار نہیں ہو گا ایک ایسا شخص جس نے علوم نبوت کو کسی ماہر سے نہیں سیکھا‘ جس نے کسی مردِ کامل کی صحبت میں رہ کر اپنا تزکیہ باطن نہیں کرایا‘ جس نے لائق اعتماد مشائخ سے حکمت دین کا درس نہیں لیا‘ جس نے کتاب و سنت کے اسرار و حقائق کو کسی جاننے والے سے نہیں سمجھا‘ جس نے اپنے علم و عمل‘ عقائد و نظریات اور سیرت و اخلاق کو اُسوۂ نبویؐ میں ڈھالنے کی محنت و ریاضت نہیں کی‘ اور جس کا فہم دین جنگل کی خود رو گھاس ہے‘ وہ دینی قیادت کا منصب سنبھالتا ہے ……‘‘
بنا بریں ان کی ’’تجویز‘‘ یہ ہے کہ:
’’میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ ان سے عرض کیا جائے کہ آپ ایک نئی جماعت بنا کر اور بیعت کی نئی طرح ڈال کر امت کو کسی نئی آزمائش میں مبتلا نہ کریں. یہ امت نئی نئی اصطلاحات اور دین کے نام پر وجود میں آنے والی نئی نئی تنظیموں کے چرکوں سے پہلے ہی چور چور ہے. خدارا اس پر رحم کیا جائے ‘ اس کو کسی نئی تنظیم ‘نئی بیعت اور نئی اصطلاحات کی آزمائش سے معاف رکھا جائے.‘‘
گویا ان کا راقم کو مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ راقم اس پورے کام کی بساط لپیٹ کر رکھ دے جس کے لیے اس نے عمر عزیز کے پورے بیس سال تو اس کیفیت کے ساتھ کھپائے ہیں کہ ؎
واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریت ِجاں ‘ راحت ِتن ‘ صحت ِداماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ِہوس کی!
اس سے پہلے بھی کم و بیش پندرہ سال اسی کیفیت میں گزرے تھے کہ ’’دعوت و تحریک اسلامی‘‘ ہی اس کی زندگی میں اہم ترین اور مقدم ترین شے تھی !!
راقم خدا کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہے کہ اسے مولانا لدھیانوی کے خلوص و اخلاص پر ہرگز کوئی شبہ نہیں ہے. اسی طرح اسے مولانا تقی عثمانی صاحب کے متذکرۃ الصدر فتویٰ کے بھی مبنی بر اخلاص ہونے میں کوئی شک نہیں اور راقم کے علم میں ہے کہ دوسرے بہت سے مخلص علماء کرام کو بھی راقم سے اسی بنا پر اندیشے اور خدشے لاحق ہیں (چنانچہ کراچی کے مولانا عبد البر سکھر گاہی صاحب بھی راقم کے پاس ان ہی دلائل پر مشتمل طویل خط کے ساتھ تشریف لائے تھے!) یہی وجہ ہے کہ راقم اس مسئلہ پر کھل کر بات کرنا چاہتا ہے.
اس دلیل کا لب لباب یہ ہے کہ خدمت دین کا بیڑا اٹھانے والوں کو دو شرطوں پر پورا اترنا چاہیے: ایک یہ کہ وہ باضابطہ اور مستند عالم دین ہوں‘ اور دوسرے یہ کہ متقی اور مزکی ہوں! ان میں سے دوسری چیز تو کسی ناپ تول میں آنے والی نہیں ہے اور اس کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا آخری تجزیے میں شرطِ واحد یہ رہ جاتی ہے کہ علم دین کا حصول مروجہ معیارات کے مطابق کیا ہو اور مسلّمۃ المقام علماء سے سند فراغت حاصل کی ہو.
اس پر سب سے پہلی گزارش تو راقم کی یہ ہے کہ کسی ایک ہی ایسے بڑے فتنے کا نام بتا دیا جائے جس کا آغاز کرنے والے مستند عالم دین اور مسلّم حیثیت کے مالک علماء کرام کے فیض یافتہ نہ ہوں. چنانچہ کیا مسلم انڈیا کی تاریخ کے سب سے بڑے فتنے یعنی ’’دین الٰہی‘‘ کے مصنف ابو الفضل اور فیضی مسلم عالم دین نہ تھے؟ اسی طرح عہد حاضر کے عظیم فتنوں کے بانیوں میں سے کیا سر سید احمد خان مرحوم وقت کے اعلیٰ ترین معیارات کے مطابق عالم دین اور بہترین علماء کے فیض یافتہ نہ تھے؟ کیا حکیم نور الدین بھیروی نے وقت کے چوٹی کے علماء سے کسب ِعلم نہیں کیا تھا (اور واضح رہے کہ غلام احمد قادیانی کی گمراہی میں اصل دخل اسی شخص کو حاصل تھا!) کیا مولوی عبد اللہ چکڑالوی اور علامہ اسلم جیراج پوری علماء میں سے نہ تھے؟ (غلام احمد پرویز کا ذکر چھوڑ دیجیے کہ وہ ان ہی اصحاب ثلاثہ یعنی سر سید‘ علامہ جیراجپوری اور مولوی چکڑالوی کا خوشہ چین ہے‘ خود کچھ نہیں!) مزید قریب آ کر دیکھئے! کیا مولانا امین احسن اصلاحی مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ کے سند یافتہ فارغ التحصیل اور پھر علامہ فراہیؒ ایسے محقق قرآن اور محدث مبارکپوریؒ ایسے عالم و شارح حدیث نبویؐ کے فیض یافتہ نہیں ہیں؟ اس سے بھی زیادہ قریب کی مثال درکار ہو تو کیا ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی باضابطہ سند یافتہ ’’فاضل علوم دینیہ‘‘ اور خود حضرت مولانا بنوریؒ کے فیض یافتہ نہیں ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت کا دارومدار ’’علم‘‘ پر نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف دو چیزوں پر ہے: ایک انسان کی اپنی نیت و ارادہ اور دوسرے اللہ کی توفیق و تیسیر!! اگر انسان کے اپنے دل میں کجی اور نیت میں فتور ہو اور اللہ تعالیٰ بھی اپنی سنت کے مطابق کہ ’’فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ‘‘ اس سے توفیق خیر سلب فرما لے تو ایسا انسان جتنا بڑا عالم و فاضل ہو گا اتنا ہی بڑا فتنہ اٹھائے گا بلکہ بڑے فتنے تو بڑے علماء و فضلاء ہی اُٹھا سکتے ہیں غریب عامی و اُمی انسان فتنہ اٹھانا چاہے گا بھی تو کوئی بڑا فتنہ کیسے اٹھائے گا. یہی بات علماء کرام مولانا رومؒ کے اسی شعر کے حوالے سے بیان کیا کرتے ہیں کہ ؎
علم را بر دِل زنی یارے بود علم را برتن زنی مارے بود!
اور یہی بات آنحضورﷺ کے اس قول میں وارد ہوئی ہے کہ ’’ایک زمانہ آئے گا کہ مسلمانوں کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی‘ آسمان تلے کی بد ترین مخلوق (نام نہاد) علماء ہوں گے‘ فتنے ان ہی کے اندر سے اٹھیں گے اور ان ہی میں لوٹ جائیں گے!‘‘ (او کما قال ﷺ )
اس ضمن میں ۵۲-۱۹۵۱ء کا ایک واقعہ یاد آیا. راقم اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن اور میڈیکل کا طالب علم تھا. برادرم خرم جاہ مراد نے جو اس وقت جماعت اسلامی کے صف دوم کے رہنمائوں میں بہت نمایاں ہیں ‘راقم سے ایک ’’آٹو گراف‘‘ کی فرمائش کی تو راقم نے یہ الفاظ لکھے:
’’کبھی کبھی میرا دل ان لوگوں کے تصور سے کانپ اٹھتا ہے جو کبھی تحریک اسلامی کی اولین صفوں میں تھے لیکن اب اسی نسبت سے دور جا چکے ہیں.میں خود ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَاط وَ مَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ‘‘ کے بعد ’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًط اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ‘‘ کا سہارا لیا کرتا ہوں اور اسی کا مشورہ اپنے عزیز ترین دوستوں کو دیا کرتا ہوں.‘‘
یہ آج سے ثلث صدی قبل کی بات ہے راقم کو یقین ہے کہ یہ انہی مبارک دعائوں کا ثمرہ ہے کہ راقم نے چوبیس برس کی عمر میں مولانا مودودی مرحوم ایسی عظیم شخصیت سے صرف اختلاف ہی نہیں کیا‘ ماچھی گوٹھ کے عظیم اجتماع میں ان کے رُو در رُو اپنی دانست کے مطابق ’’احقاقِ حق‘‘ اور ’’ابطالِ باطل‘‘ کی سعی کی. اور وہ کتاب تالیف کی جس پر خراج تحسین خود مولانا لدھیانوی نے ادا فرمایا تھا اور جس پر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے لکھا تھا:
’’میں نے آپ کی کتاب آتے ہی پڑھ ڈالی میرے لیے سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جس شخص کے ذہن و فکر پر کوئی دوسرے اثرات نہیں تھے‘ جس کا تمام دینی شعور جماعت اسلامی ہی کی گود میں پلا بڑھا اور تمام تربیت اسی کے سانچے میں ہوئی‘ اس کا ذہن اس قابل ہوا کیسے کہ جماعت کی پالیسی سے اتنی جلدی بے اطمینانی محسوس کرنے لگے! میرے خیال میں شاید اس کی دوسری مثال جماعت میںموجود نہیں ہے …‘‘ (طبع شدہ ’’میثاق‘‘ و مشمولہ کتاب ’سرافگندیم‘ صفحہ ۱۳۳)
پھر یقینا یہ بھی ان ہی دعائوں کا ثمرہ ہے کہ ابتدا میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے حد درجہ متاثر بلکہ مرعوب ہونے کے باوجود‘ اور ان کے ساتھ طویل ترین اور قریب ترین تعلقات کے باوصف راقم نے اولاً تصوف کے ضمن میں ان کی رائے سے اختلاف کیا‘ اور ان کی برہمی کے باوجود عین اس دور میں جبکہ ’’میثاق‘‘ ان کے ’’زیر سرپرستی‘‘ شائع ہوتا تھا‘ تصوف کی حمایت میں مضامین شائع کیے اور بالآخر رجم کے مسئلے پر ان کے ساتھ آخری تعلق کا تسمہ بھی توڑ ڈالا . (اس ’’وصل و فصل‘‘ کی پوری داستان‘ راقم ’’میثاق‘‘ دسمبر ۱۹۷۶ء میں شائع کر چکا ہے).
الغرض مولانا لدھیانوی اور جملہ علمائے حقانی کے کرنے کا ’’اصل کام‘‘ یہ ہے کہ خود انہیں اللہ تعالیٰ نے جو خیر کثیر عطا فرمایا ہے اس پر اُس (اللہ تعالیٰ) کا شکر بجا لائیں اور راقم کے حق میں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے شیطان اور نفس کے فتنوں سے اپنی حفاظت میں رکھے اور اگر اپنے وقت اور صلاحیت کا ایک حصہ اس کام کے لیے بھی وقف کر دیں کہ مجھ پر‘ میری سرگرمیوں پر‘ اور میری تحریروں پر نظر رکھیں اور جہاں کجی نظر آئے‘ تعین کے ساتھ متنبہ فرما دیں تو اسے تو راقم ان کا اپنے اوپر ذاتی احسان سمجھے گا! (چنانچہ یہی فلسفہ ہے تنظیم اسلامی کے ’’حلقہ مستشارین‘‘ کا‘ جس میں شمولیت کی دعوت راقم نے حضرت مولانا بنوریؒ کو دی تھی‘ لیکن انہوں نے کچھ اپنی مصروفیات اور کچھ مولانا اصلاحی سے راقم کے قرب کے باعث قبول نہ کی تھی!) اس ضمن میں ایک واقعہ اور یاد آیا. چند سال قبل کی بات ہے کہ مشفق مکرم سردار اجمل خان لغاری (رحیم آباد‘ ضلع رحیم یار خان) کی موجودگی میں مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی مدظلہٗ نے راقم کے بارے میں کچھ تنقیدی کلمات ارشاد فرمائے ‘جس پر لغاری صاحب نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کی اس سے کبھی ملاقات ہوئی؟ یا کیا آپ نے کبھی اس کی تقریر سنی؟ یا کیا آپ نے کبھی اس کی کوئی تحریر پڑھی؟
اور جب تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ملا‘ تو انہوں نے باصرار عرض کیا کہ میرے ساتھ ابھی لاہور چلیے‘ میں اس سے آپ کی ملاقات کراتا ہوں! جس پر حضرت مفتی صاحب نے حامی بھر لی. چنانچہ یہ حضرات لاہور تشریف لے آئے‘ اور گلبرگ میں لغاری صاحب کے بھانجے کے مکان پر مقیم ہوئے. لغاری صاحب نے فون پر راقم کو حکم دیا کہ فوراً آئو‘ چنانچہ راقم حاضر ہو گیا. گفتگو کا آغاز ہوا تو قبلہ مفتی صاحب نے فرمایا: ’’ہم کسی ایسے شخص کو درسِ قرآن کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں جس نے نہ باقاعدہ علم حاصل کیا‘ نہ علمائے حقانی اور اہل اللہ کی صحبت اٹھائی؟‘‘ اس پر راقم نے قدرے توقف کے بعد عرض کیا: ’’حضرت! اوّل تو یہ آپ کی اجازت پر منحصر نہیں‘ دوسرے فرض کیجیے میں آپ کے حکم کی تعمیل میں درس بند کر دوں تو غلام احمد پرویز تو نہیں کرے گا! تو بتائیے کہ اس سے دین کا نفع ہو گا یا نقصان؟‘‘ الحمد للہ کہ راقم کی اس دلیل کو مفتی صاحب نے کھلے دل سے قبول فرما لیا اور صرف اس قدر اضافہ فرمایا کہ ’’لیکن یہ لازم ہے کہ علماء کے ساتھ ربط ضبط رکھا جائے‘‘ جس پر میں نے عرض کیا کہ ’’میں نہ صرف یہ کہ اس کے لیے انتہائی دلی آمادگی اور رغبت کے ساتھ تیار ہوں بلکہ پہلے سے اس پر عمل پیرا ہوں‘‘. (۱) امید ہے کہ مولانا لدھیانوی اور ان کی طرز پر سوچنے والے علماء کرام معاملہ زیر بحث کے اس پہلو پر بھی سنجیدگی سے غور فرمائیں گے.
جہاں تک ’’تقلید‘‘ یا عدم تقلید‘‘ یا ’’نیم تقلید‘‘ کی بحث کا تعلق ہے‘ اس پر اصل مقدمہ تو مولانا عبد القیوم حقانی (اکوڑہ خٹک) اور مولانا محمد ازہر (مدیر ’’الخیر‘‘ ملتان) نے قائم فرمایا تھا‘ (۱) چنانچہ راقم اپنے اسی طرزِ عمل کے لیے استشہاداً پیش کرتا ہے ’’قرآن کانفرنسوں‘‘ اور محاضراتِ قرآنی میں علماء کرام کی شرکت اور شمولیت کو. اور خود ان کی خدمت میں حاضری کو جس پر مولانا لدھیانوی نے یہ معارضہ کر دیا کہ اس سے یہ کہاں لازم آیا کہ تم ’’مستند‘‘ ہو گئے؟ اس پر اس کے سوا اور کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ ع ’’خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے!‘‘ اور راقم اپنی امکانی حد تک اس کے ضمن میں اپنی وضاحت پیش کر چکا ہے. راقم مولانا لدھیانوی کا ممنون اور شکر گزار ہے انہوں نے میری ابتدائی تحریر اور بعد کی وضاحت دونوں کو پیش نظر رکھ کر میری وضاحت کو قبول فرماتے ہوئے یہ جملے تحریر فرمائے ہیں:
(۱)’’امید ہے کہ موصوف کی یہ توضیحات ان کے ناقدین کے لیے بڑی حد تک اطمینان اور تسلی کا موجب ہوں گی.‘‘ (۱) (’’بیّنات ‘‘ فروری ۱۹۸۵ء‘ صفحہ ۷)
(۲) ’’ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد بھی بالکل بجا ہے کہ: ’’جنس اجتہاد یا نفس اجتہاد کے بقا و تسلسل کا معاملہ میرے نزدیک ان مسائل میں ہے جو سائنسی ترقی اور عمرانی ارتقاء کے نتیجے میں بالکل نئی صورتِ معاملہ کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں !‘‘
البتہ اس معاملے میں جس حزم و احتیاط کی ضرورت ہے اس کے ضمن میں نہایت عمدہ باتیں مولانا نے ارشاد فرمائی ہیں جو اپنی جگہ سب صد فی صد درست ہیں لیکن راقم سے ہرگز متعلق نہیں ‘ اس لیے کہ وہ اپنے بارے میں اہلیت اجتہاد کا مدعی ہی نہیں ہے.
اس ضمن میں مسالک اربعہ میں سے کسی کو ’’اختیار‘‘ کرنے پر ’’اجتہاد‘‘ کے لفظ کا اطلاق زیادتی ہے. اور مولانا لدھیانوی نے تو نہیں‘ البتہ مولانا محمد ازہر صاحب نے ستم بالائے ستم کا معاملہ اس طرح کیا ہے کہ اسی کو مبنیٰ اور مدار بنا کر ایک مکمل مضمون سپرد قلم کر دیا ہے جو ’’الخیر‘‘ کے فروری کے شمارے میں شائع ہوا ہے جس میں اجتہاد کی جملہ شرائط کو بالوضاحت بیان فرمایا ہے (ساتھ ہی راقم کو ایک ذاتی خط بھی تحریر فرمایا ہے جس کے لیے راقم ان کا ممنون ہے). راقم کا سوال ان سے صرف یہ ہے کہ آیا ائمہ اربعہ بھی ان کے معیار اجتہاد پر پورے اترتے تھے یا نہیں؟ اور اگر پورے اترتے ہیں تو ان کے فیصلے گویا اجتہاد کی جملہ شرائط کی چھلنیوں میں سے چھن کر آئے ہیں اور انہوں نے اجتہاد کے تمام کڑے امتحانات پاس کر لیے ہیں‘ اب ان میں سے کسی کے اختیار کرنے کے لیے از سر نو ان تمام شرائط کو پورا کرنا اور ان تمام امتحانات میں سے گزرنا کس دلیل سے لازم ٹھہرتا ہے؟
ایک دوسری زیادتی اس بحث کے ضمن میں مولانا لدھیانوی نے یہ کی ہے کہ راقم کو بالجزم ’’اہلحدیث‘‘ قرار دے دیا ہے‘ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ راقم اگر سکہ بند ’’حنفی‘‘ نہیں تو (۱) یاد ہو گا کہ بالکل اسی کے لگ بھگ الفاظ مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہٗ نے تحریر فرمائے تھے کہ: معروف اور متداول معنوں میں ’’اہلحدیث‘‘ بھی ہرگز نہیں ہے. چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ سکہ بند اہلحدیث راقم کو اہلحدیث تسلیم نہیں کرتے (ابھی حال ہی میں فاتحہ خلف الامام ہی کے مسئلے میں راقم کے موقف پر نہایت جارحانہ تنقید اپنے ہفت روزہ پرچے کی کئی اشاعتوں میں مولانا عبدالقادر روپڑی صاحب نے کی ہے!) گویا راقم کا معاملہ وہی ہے کہ ؎
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں!
اس ضمن میں غالباً مولانا لدھیانوی کی توجہ ’’میثاق‘‘ دسمبر ۱۹۸۴ء کے شمارے میں شائع شدہ مولانا سید حامد میاں مدظلہٗ کے ان الفاظ پر نہیں ہوئی کہ:
’’ہاں البتہ اگر کوئی غیر مقلد ہو اور وہ ان ائمہ کو مقتدا مان کر بلا خواہش نفس مسئلہ کو راجح سمجھتے ہوئے ایسا کرنے لگے (یعنی راقم کے الفاظ میں ’’نیم مقلد‘‘ بن جائے) تو شاید اس کے لیے مطلقاً غیر مقلد بنے رہنے سے بہتر ہو گا … ‘‘
مزارعت کے ضمن میں میری رائے پر جو اشکال مولانا لدھیانوی کو ہوا ہے وہ اسی پر تھوڑا سا مزید غور فرما لیتے تو یہ بات واضح ہو جاتی کہ راقم سکہ بند اہلحدیث نہیں ہے! اس مسئلے میں مزید زیادتی مولانا لدھیانوی نے یہ کی ہے کہ راقم کی رائے کو مولانا طاسین مدظلہٗ کے مقالے سے تاثر کا نتیجہ قرار دیا ہے. حالانکہ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راقم مولانا کے مقالے کا حد درجہ مداح ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس نے اسے ’’حکمت قرآن‘‘ کی پندرہ اشاعتوں میں قسط وار شائع کیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ راقم کی رائے اس سے بہت پہلے کی ہے اور مولانا کے مقالے سے اسے صرف مزید تقویت حاصل ہوئی ہے. پھر نہ معلوم کیوں مولانا لدھیانوی نے اس کے ضمن میں صرف فقہ حنفی کے ’’مفتیٰ بہ‘‘ قول کا ذکر کیا اور امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کا تذکرہ نہیں کیا. حالانکہ میں نے اپنی رائے کے لیے باضابطہ ان کا حوالہ دیا تھا. یہاں یہ تذکرہ بھی ہوجائے تو نامناسب نہ ہو گا کہ مزارعت کے باب میں میری سب سے زیادہ زور و شور کے ساتھ مخالفت اہلحدیث حضرات ہی کی جانب سے ہوئی. چنانچہ حافظ احسان الٰہی ظہیر صاحب نے اس پر میرے خلاف ایک غیظ و غضب سے مملو تقریر اجتماعِ جمعہ میں کی. اسی طرح مولانا عبد الغفار حسن مدظلہٗ اور ان کے صاحبزادے برادرم صہیب حسن سلّمہ نے بھی اظہارِ ناپسندیدگی کیا‘ لیکن میں نے ان سب حضرات کو مولانا طاسین صاحب کے مکمل مقالے کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں پیش کر کے عرض کیا کہ اس پر علمی تنقید فرمایئے میں شائع کروں گا جس کا آج تک کسی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا!!
مولانا لدھیانوی کو ایک اور بہت بڑا مغالطہ یہ لاحق ہوا ہے کہ شاید میرے ’’جہادبالقرآن‘‘ کا ہدف صرف ’’فرقہ واریت‘‘ ہے‘ اور مغالطہ در مغالطہ یہ کہ فرقہ واریت سے میری مراد مسالک فقہیہ ہیں! راقم پہلی بات کے ضمن میں وضاحت اور دوسری سے کامل اعلان برا ء ت کرتا ہے. راقم کے نزدیک مسلمانوں میں حقیقی فرقے تو دو ہی ہیں: ایک سنی اور دوسرے شیعہ‘ اور ان کے مابین اختلاف صرف فقہ کا نہیں بلکہ بنیادی عقائد اور اصولوں کا ہے. دوسری جانب صورت واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں (اور اسی طرح ہندوستان میں) اصل محاذ آرائی اور ’’فرقہ واریت‘‘ دیوبندیوں اور بریلویوں کے مابین ہے جو ایک ہی فقہ کی پیروی کرتے ہیں! راقم مولانا لدھیانوی سے اس بات پر شدید احتجاج کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اسے اتنا کودن سمجھا کہ یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ: ’’اس ’’فرقہ واریت‘‘ سے ان کی مراد ائمہ مجتہدین کا فقہی اختلاف اور اس سے پیدا ہونے والے مذاہب یا مسالک ہیں!‘‘ مولانا اگر ذرا غور فرمائیں تو اس ضمن میں میری تقریر یا جو اقتباس انہوں نے ’’بیّنات ‘‘ بابت فروری ۱۹۸۵ء کے صفحہ ۳ پر دیا ہے‘ اسی میں اس کی کامل تردید موجود ہے.
رہا جہاد بالقرآن کے ’’اہداف‘‘ کا معاملہ تو مولانا نے راقم کی جس تقریر پر اظہارِ رائے کے لیے دو اقساط پر مشتمل مفصل تحریر سپرد قلم کی ہے اسی میں راقم نے پانچ ’’محاذ‘‘ گنوائے ہیں: (۱) جاہلیت قدیمہ: جس میں مشرکانہ اوہام‘ بدعات اور شفاعت باطلہ کے تصورات شامل ہیں (۲) جاہلیت جدیدہ یعنی الحاد اور مادہ پرستی اور فحاشی و اباحیت(۳) بے یقینی اور تذبذب (۴)فرقہ واریت اور(۵) نفس پرستی اور شیطان کی وسوسہ اندازی راقم کے نزدیک ان پانچوں محاذوں پر جہاد قرآن کی سیف قاطع سے ہو گا‘ بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
خوشترآں باشد مسلمانش کُنی کشتۂ شمشیر قرآنش کُنی!
لیکن چونکہ قرآن کے نام پر اُٹھنے والے بہت سے گروہ ’’ضَلُّوْا و اَضَلُّوْا ‘‘ کا مصداق بن گئے ‘لہٰذا راقم نے پانچ احتیاطوں کا ذکر بھی کیا یعنی:
(۱) اسلاف کے ساتھ دلی محبت اور عقیدت و احترام کا رشتہ کسی صورت ٹوٹنے نہ پائے.
(۲) تقلید جامد اور اجتہاد مطلق کے مابین معتدل راہ اختیار کی جائے (یہ ہے وہ مسئلہ جس پر ’’الخیر‘‘ میں بحث چھڑی تھی اور راقم نے وہ وضاحتیں کی تھیں جنہیں مولانا اخلاق حسین قاسمی اور مولانا لدھیانوی نے تو تسلی بخش قرار دیا ہے‘ لیکن مولانا محمد ازہر مطمئن نہیں ہوئے).
(۳) تمسک بالقرآن کے ضمن میں: (i) آیاتِ احکام کی وہی تعبیر صحیح قرار دی جائے جو سنت رسول‘ سنت خلفاء راشدین ؓ ‘ اجماع صحابہؓ اور سلف صالحین خصوصاً ائمہ اربعہ کے اجتہادات کے دائرے کے اندر اندر ہو. (ii) البتہ تاریخی اور سائنسی مباحث میں جدید انکشافات کو مد نظر رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے!
(۴) علماء حقانی کے ساتھ ربط و ضبط اور ان کی خدمت میں طالب علمانہ حاضری اور
(۵) علماء حق کا اعتماد حاصل کرنے کی پوری کوشش!!
مولانا لدھیانوی اگر تنقید کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان جملہ نکات کو پیش نظر رکھ کر تنقید فرمائیں. راقم اور اس کے ساتھی انشاء اللہ العزیز حتی الامکان استفادہ کریں گے.
آخر میں ایک غیر اہم سی بات جسے مولانا لدھیانوی کی تعبیر نے بہت اہم بنا دیا ہے. اور وہ یہ کہ راقم کا اپنے آپ کو اور اپنے بعض رفقاء کو ’’اُمی نبی کا اُمی اُمتی‘‘ لکھنا نہ کسی مبالغہ آمیز انکسار پر مبنی تھا نہ کسی ارادی ’’مدح خود‘‘ پر. بلکہ صرف اس اعتراف کے طور پر تھا کہ راقم باضابطہ فارغ التحصیل عالم دین نہیں ہے. اور راقم اس اعتراف کو ’’عصمت بی بی است از بے چادری‘‘ کے مصداق اپنے حق میں حفاظت کا ایک ذریعہ اور گویا ایک ’’ڈھال‘‘ سمجھتا ہے. (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’میثاق‘‘ ستمبر ۱۹۸۴ء صفحہ۵۸). لیکن اس کے بارے میں مولانا لدھیانوی کا یہ خیال ہے کہ اس میں ’’آنحضرت ﷺ کے حق میں سوءِ ادب کا پہلو نکلتا ہے‘‘
تو اگرچہ راقم مولانا کی اس رائے سے متفق نہیں ہے تاہم اس کے امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے راقم عہد کرتا ہے کہ آئندہ یہ الفاظ کبھی استعمال نہ کرے گا! ؎
ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا
الَلّٰھُمَّ اِنِّیْ اعوذبک مِن الشَّکّ و الشرک. واعوذ بک من النفاق والریائ. واعوذ بک من ھمزات الشیاطین واعوذ بک ربّ اَن یحضرون. واعوذ بک من شرور نفسی ومن سیاٰت اعمالی. و اعوذبک من خزی الدنیا و عذاب الآخرۃ اَللّٰھُمَّ اھدنی ورُفقائیِ کُلَّھم فی جمعیۃ خدام القرآن والتنظیم الاسلامی. اَللّٰھُمَّ اغفر لنا وارحمنا ووفّقنا لما تحبّ وترضٰی. اَللّٰھُمَّ وفقنا ان نجاھد فی سبیلک باموالنا وانفسنا. اَلّٰلھُمَّ ارزقنا شھادۃً فی سبیلک‘ آمین. یا ارحم الرّاحمین!!
(’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور ‘مارچ ۱۹۸۵ء)