بمقام ٹاؤن ہال لوئر مال‘ لاہور
پہلی سالانہ ،سہ روزہ ،۱۴۱۵۱۶ دسمبر۱۹۷۳ء
٭جمعہ ۱۴ دسمبر،اجلاس اول : ۹ بجے صبح تا ۱۲ بجے دوپہر 
عنوان : ’’عظمت قرآن‘‘
زیر صدارت : حضرت مولانا عبیداللہ انور
اجلاس دوم :۲/۱ ۵ بجے شام تا ۹ بجے رات
عنوان :’’قرآن اور سنت رسولؐ ‘ ‘
زیر صدارت:حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ 
٭ہفتہ ۱۵ دسمبر،اجلاس اول : ۹ بجے صبح تا ایک بجے دوپہر 
عنوان : ’’قرآن حکیم اور علامہ اقبال‘‘
زیر صدارت :پروفیسر یوسف سلیم چشتی
اجلاس دوم :۲/۱ ۵ بجے شام تا ۹ بجے رات
عنوان :’’قرآن اور علم جدید‘‘
زیر صدارت:علامہ علاؤ الدین صدیقی
٭اتوار ۱۶ دسمبر،آخری اجلاس : ۹ بجے صبح تا ایک بجے دوپہر 
عنوان : ’’تدبر قرآن مولانا فراہیؒ ‘‘ ’’اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور قرآن حکیم
زیر صدارت :مولانا امین احسن اصلاحی
زیر اہتمام : مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور 

۱۲ .افغانی روڈ ‘سمن آباد لاہور فون:۶۸۲۴۵ ان میں سے چار اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں‘ اللہ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور مراتب عالیہ سے نوازے‘ اور خصوصاً جو تعاون اُن حضرات نے مجھ ایسے بے بضاعت اور حقیر انسان سے کیا تھا اُس کا اجر عظیم عطا فرمائے! پانچویں بزرگ بحمد اللہ بقید حیات ہیں. اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت سے رکھے اور اپنی علمی غلطیوں خصوصاً حد رجم سے متعلق اپنی انتہائی گمراہ کن رائے سے رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین ! ان کے ساتھ اپنے ’’وصل و فصل‘‘ کی طویل داستان راقم نے دسمبر ۱۹۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع کر دی تھی جو بعدازاں میری بعض دوسری تحریروں کے ساتھ یکجا صورت میں ’’حکمت قرآن‘‘ کی خصوصی اشاعت بابت جولائی اگست ۱۹۸۲ء میں دوبارہ شائع ہوئی. اس میں‘ میں نے صراحت کر دی تھی کہ ان کے ساتھ تعلق کی گرم جوشی میں ابتدائی کمی میرے اسی رجحان طبع کی بنا پر ہوئی تھی کہ میں صرف ان ہی کا ہو کر کیوں نہیں رہتا اور دوسرے علماء خصوصاً قائلین تصوف سے کیوں ربط و ضبط بڑھا رہا ہوں. چنانچہ ایک موقع پر تو انہوں نے حسب عادت طیش میں آ کر یہاں تک فرما دیا تھا کہ ’’ان علماء کو سر پر بٹھا کر کیا لینا ہے؟ ان ہی کی تو ہمیں تردید کرنی ہے!‘‘ جس پر میں بھونچکا سا ہو کر رہ گیا تھا. 
بہرحال اس وقت یہ ساری تفصیل اس لیے نوک قلم پر آ گئی کہ ہو سکتا ہے کہ بعض حضرات خود اپنی ذہنیت پر قیاس کرتے ہوئے یہ خیال فرمائیں کہ علماء کرام سے رابطے کی یہ پوری کوشش محض کسی ’’وقتی حکمت عملی‘‘ کا مظہر ہے. واقعہ یہ ہے کہ اس معاملے میں‘ میں پورے انشراح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ 
’’و ما انا من المتکلفین‘‘ اور جس طرح کسی شاعر نے کہا تھا کہ ع ’’مرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے!‘‘ اسی طرح میں بھی یہ بات پورے انشراح صدر کے ساتھ لیکن ’’ وَ لَا فَخْر‘‘ کی قید کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرا مزاج ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ؎

اُحِبُّ الصّالحینَ وَ لَسْتُ مِنْھُمْ لَعَلَّ اللّٰہ یَرْزُقنِی صَلَاحًا!

(۲)
میرے اس ذاتی رجحانِ طبع کو تقویت پہنچانے میں جماعت اسلامی ہی کے ’’سابقین‘‘ کے حلقے کے ایک بزرگ کی مساعی کو جو دخل حاصل ہے میں محسوس کرتا ہوں کہ اُس کا تذکرہ اور ان کا شکریہ مجھ پر واجب ہے! اور وہ ہیں ’’جماعت شیخ الہند‘‘ کے حلقوں کی ایک جانی پہچانی شخصیت یعنی رحیم آباد (ضلع رحیم یار خاں) کے سردار محمد اجمل خاں لغاری. ان کا تذکرہ راقم کی اوّلین تالیف ’’جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں بھی ہے اور ’’میثاق‘‘ کے آج سے چ 
ھ
سات سال قبل کے بہت سے شماروں میں بھی. واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد کسی ’’تشکیل نو‘‘ کی سعی کے ضمن میںراقم کے سب سے زیادہ سفر اولاً لائل پور (حال فیصل آباد) کے ہوئے تھے اور بعد ازاں رحیم آباد ضلع رحیم یار خاں کے! ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے قیام کے ضمن میں اوّلین قرار داد بھی راقم نے رحیم آباد ہی میں سردار صاحب سے طویل بحث و تمحیص کے بعد مرتب کی تھی اور وہ ’’میثاق‘‘ (بابت اگست‘ستمبر ۱۹۶۷ء) میں ’’قرار داد رحیم آباد‘‘ ہی کے نام سے شائع ہوئی تھی. میرا ان سے ۱۹۵۵ء سے نہایت گہرا نیازمندانہ تعلق قائم ہوا تھا جو آج سے چند سال قبل تک نہایت گرمجوشی کے ساتھ برقرار رہا‘ میں انہیں اپنا بزرگ سمجھتا ہوں‘ اس لیے بھی کہ وہ عمر میں مجھ سے لگ بھگ بیس سال بڑے ہیں اور اس لیے بھی کہ وہ میری طرح جماعت اسلامی کے ’’سابقین‘‘ ہی میں سے نہیں ہیں بلکہ اُس کے ’’سابقون الاولون‘‘ میں سے بھی ہیں. اس لیے کہ سابق ریاست بہاولپور میں جماعت سے منسلک ہونے والے پہلے شخص تو تھے مولانا عبد الحق جامعیؒ اور اُن کے پہلے ’’شکار‘‘ تھے سردار صاحب (۱اور اس کے بعد پوری ریاست میں جماعت کی دعوت کی توسیع میں سب سے بڑھ کر حصہ ان ہی کا ہے تاہم وہ ازراہِ شفقت و مروّت مجھے خطاب میں برابر ہی کا درجہ دیتے ہیں. میرے علم کی حد تک غیر عالم لوگوں میں سے جو لوگ جماعت میں شامل ہوئے اُن میں یہ واحد شخص ہیں جن کو جماعت میں شمولیت سے قبل بھی علماء کرام سے حسن ظن اور تعلق خاطر تھا. پھر جماعت کے ساتھ بھرپور اور فعال وابستگی کے دوران بھی علماء کے ساتھ رابطہ برقرار رہا‘ اور جماعت سے مایوسی اور علیحدگی کے بعد سے تو اُن کا کل ربط و ضبط حلقہ ٔدیوبند کے علماء کرام ہی سے ہے! اور انہیں جو حسن ظن اور مخلصانہ و مربیانہ تعلق خاطر مجھ سے ہے اُس کی بنا پر ان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ میرا رابطہ بھی علماء حقانی کے ساتھ پختہ اور گہری بنیادوں پر قائم ہو.

میرے اور اُن کے مابین تعلق میں کچھ عرصہ سے کچھ جمود بھی طاری تھا اور کسی قدر سرد مہری بھی دَر آئی تھی ‘جس کا سبب سوائے میری حد سے بڑھی ہوئی مصروفیت کے اور کچھ نہ تھا. یہ سراسر ان کا بزرگانہ کرم ہے کہ خود انہوں نے پہل کر کے اس جمود کو توڑا اور حسب ذیل گرامی نامہ ارسال فرمایا جو چونکہ از اول تا آخر اس وقت کے زیر بحث موضوع ہی سے متعلق ہے ‘لہٰذا ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے: (۱) بعد میں معلوم ہوا کہ صورتِ واقعہ اس کے برعکس تھی‘ یعنی جماعت سے اولاً منسلک ہونے والے تھے سردار صاحب موصوف اور ان کی دعوت پر لبیک کہی تھی مولانا عبد الحق جامعیؒنے.

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 

رحیم آباد‘۲۱؍ اگست ۱۹۸۵ء
بخدمت مکرم و محترم برادرم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب! زاد لُطفہٗ!

السلام علیکم ور حمۃ اللہ !
آپ صادق آباد تشریف لاتے ہیں. ملاقات کا موقع دیتے ہیں. ہم دعا کرتے ہیں. عرصہ ہوا نہ آپ آئے ‘ نہ ہم نکل سکے. نہ ہی آپ نے نامہ و پیام سے یاد کیا. تاہم دعا کرتے ہیں. میثاق‘بیّنات‘الخیر‘الحق‘تدبر‘البلاغ وغیرہ بالاستیعاب پڑھتا ہوں! ملاقات کے وقت آپ کو عزیز جان کر آپ سے باتیں کر لیتا ہوں. پڑھ کر تبصرہ کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں. اور حق یہ ہے کہ تبصرہ کے لائق نہیں ہوں. 

میری عین تمنا رہی ہے کہ آپ کے برخوردارانہ تعلقات راسخ العلم علماء اور برحق مشائخ عظام سے ایسے وابستہ ہوں کہ ان کی رہنمائی اور اشیرباد سے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی پُرپیچ اور کٹھن راہیں‘ آپ پر کشادہ ہوتی چلی جائیں. آپ اپنی سمجھ کے مطابق اس کا اہتمام کرتے ہیں. لیکن دعوت و عزیمت کے داعی کے لیے یہ اہتمام ناکافی ہے. آپ محض صحافی‘ایڈیٹر‘مضمون نگار یا کسی عام ادارہ کے سربراہ نہیں ہیں. آپ کے دعوے بلند ہیں. ایسے بلند دعویٰ کا اولین تقاضا تھا جو آپ کی خدمت میں شروع سے پیش کرتا چلا آیا تھا‘ اور اُسی تقاضے کی طرف آپ کی توجہ اس عریضہ میں مبذول کرا رہا ہوں. 

میں فقط خوش اعتقادی کی وجہ سے یہ مشورہ نہیں دیتا رہا اور نہ دے رہا ہوں‘ اور نہ میں ایسے ویسے ہر عالم یا ہر شیخ سے متاثر ہوتا ہوں‘ میں ایمانداری سے اور خلوص سے سمجھتا ہوں کہ اس گئے گزرے وقت میں بھی کچھ لوگ بیٹھے ہیں جن کی راہ نمائی کی آپ کو ایسی ہی حاجت ہے جیسی ایک پیاسے کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے. آپ میں جس ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی تڑپ ہے اُس کا قبلہ تبھی درست ہو سکتا ہے جب آپ کے سوز و ساز اور پیچ و تاب کی باگیں ان لوگوں سے مطلق آزاد نہ ہوں. والسلام
عبدہٗ محمد اجمل لغاری‘‘

اس کا راقم نے جو جواب ارسال کیا وہ درج ذیل ہے :

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 
لاہور. ۴؍ اگست ۱۹۸۵ء 

برادرم مکرم و معظم و امت فیوضکم
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
ایک طویل عرصے بعد آپ کا ’’بدست خویش‘‘ اور ’’بقلم خود‘‘ گرامی نامہ پا کر بہت خوشی ہوئی. اِدھر میرا یہ حال تو آپ کے علم میں ہے ہی کہ میں خط لکھنے کا بہت چور ہوں. یہاں تک کہ طویل سفر کر کے حاضر خدمت ہو جانا‘ میرے نزدیک خط لکھنے کے مقابلے میں آسان ہے‘ اور جیسا کہ آپ نے خود تحریر فرمایا ہے. میرا جب بھی اُدھر گزر ہوتا ہے‘ آپ کی خدمت میں حاضری پروگرام میں لازماً شامل ہوتی ہے. البتہ اِدھر خاصے عرصے سے اُدھر کا چکر ہی نہیں لگا.

علماءِ حق کی خدمت میں حاضری کو میں اپنی ایک ضرورت اور اپنے لیے یقینا موجب سعادت سمجھتا ہوں‘ اور اس ضمن میں یقین کیجیے کہ جان بوجھ کر کوتاہی نہیں کرتا. ضرورت سے زیادہ مشغولیت اور مصروفیت آڑے آ جائے تو دوسری بات ہے. مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس امر کا حق الیقین حاصل ہے کہ میں اور میری بساط تو ہے ہی کیا‘ کوئی بڑی سے بڑی اسلامی تحریک بھی علماء حق کی سرپرستی اور تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی. بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک نیا فرقہ جنم دے سکتی ہے. اس لیے میں اپنی امکانی حد تک اس کے لیے کوشاں ہوں کہ علماء ربانیین میں سے بزرگوں کی اشیر واد اور دعائیں حاصل کروں اور نوجوانوں کا عملی تعاون! اور اگرچہ مجھے اس میں تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی‘ تاہم میں مایوس نہیں ہوں‘ اور مجھے یقین ہے کہ میں جلد اُن کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤنگا. ان شاء اللہ العزیز‘ اس ضمن میں‘ میں نے آپ کی رائے اور مشورے کو پہلے بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا اور اب بھی بسر و چشم حاضر ہوں. آپ جدھر رہنمائی فرمائیں سر کے بل حاضری دوں گا‘ اور اس سلسلے میں اگر آپ کی معیت بھی حاصل ہو تو کیا ہی کہنے. فقط والسلام مع الاکرام 

خاکسار اسرار احمد‘‘ 
بہرحال اس خالص نصح و اخلاص پر مبنی مشورے پر راقم بموجب فرمان نبویؐ ’’من لم یشکر الناس لا یشکر اللّٰہ‘‘ سردار صاحب کا علیٰ رؤس الاشہاد شکریہ ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ وہ راقم کو سردار صاحب کے مشورے پر عمل کی وافر توفیق عطا فرمائے!

(۳)
ویسے پیش نظر تحریر کے آغاز میں غالبؔ کے ایک شعر کے حوالے سے جو مایوس کن صورت بیان ہوئی ہے وہ صرف وقتی اور عارضی سی کیفیت ہے جو صرف اس لیے پیدا ہو گئی کہ اتفاقاً جولائی و اگست ۱۹۸۵ء کے دوران متعدد دینی جرائد میں راقم پر تنقیدی مضامین شائع ہو گئے ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے راقم الحروف کو اس معاملے میں سورۂ مریم میں وارد شدہ حضرت زکریا علیہ السلام کے اس قول کے مصداق کہ: 
وَ لَمْ اَکُنْم بِدُعآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا بالکل محروم نہیں رکھا ہے اور اس کی حالیہ مساعی کے بھی نہایت مثبت نتائج ظاہر ہوئے ہیں. چنانچہ بہت سے بزرگ اور مسلّمہ دینی و علمی مرتبہ کے حامل علماء کرام کی سرپرستی راقم کو حاصل ہے. جن میں ایسے بزرگوں کی تعداد تو اگرچہ بہت محدود ہے جنہوں نے تنظیم اسلامی کے حلقہ ٔمستشارین میں باضابطہ شمولیت بھی اختیار فرما لی ہے‘ تاہم ایک معتدبہ تعداد ایسے حضرات کی ہے جو بوجوہ ’’بے ہمہ اور با ہمہ‘‘ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ بایں ہمہ کسی ضابطے کے تعلق کے بغیر راقم اور اس کی تنظیم و تحریک کی ’’مربیانہ نگرانی‘‘ کا فرض سرانجام دے رہے ہیں. دوسری طرف حال ہی میں ایسے متعدد نوجوان علماء نے تنظیم اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے جو ملک کی مؤقر جامعات سے فارغ التحصیل ہیں اور مختلف مقامات پر مساجد جامع میں خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. ان میں نمایاں ترین مثال مولانا سعید الرحمن علوی کی ہے جن کے خاندانی اور دینی و تعلیمی پس منظر‘فراغت کے بعد سے اب تک کی دینی خدمات اور دینی جماعتوں اور تحریکوں سے عملی تعلق کی تفصیل اور راقم الحروف کے ساتھ ابتدائی تعارف سے لے کر تنظیم میں باضابطہ شمولیت تک کی مفصل روداد پر مشتمل ایک طویل تحریر اسی شمارے میں شائع ہو رہی ہے جو انہوںنے راقم کی فرمائش پر سپرد قلم کی ہے! یہ تحریر اگرچہ قدرے زیادہ طویل ہو گئی ہے تاہم اس کے ابتدائی اور طویل ترین حصے میں ایک خاص مکتب فکر کے اعاظم رجال کا تذکرہ اور ایک خاص خطے کے دینی اور روحانی سلسلوں کا جو تعارف آ گیا ہے وہ بہت مفید ہے‘ اور اس سے خود راقم کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے‘ بنا بریں اُسے من و عن شائع کیا جا رہا ہے!

سعید الرحمن علوی صاحب کے معاملے کو راقم نے خصوصی اہمیت اس لیے دی ہے کہ تعلیمی‘دینی اور سیاسی پس منظر کے اعتبار سے میرے اور ان کے مابین بعد المشرقین پایا جاتا ہے. چنانچہ ایک جانب اسکول و کالج کی تعلیم اور دوسری جانب حفظ قرآن اور درس نظامی کے فرق کو نظر انداز کر دیا جائے تب بھی کہاں اولاً تحریک پاکستان اور ثانیاً جماعت اسلامی سے ذہنی اور قلبی بلکہ فعال عملی تعلق اور کہاں ابتداء ً مجلس احرارِ اسلام اور بعدازاں جمعیت علماء اسلام سے والہانہ وابستگی. اسی طرح کہاں ان کا بقولِ خود ’’متعصب حنفی‘‘ ہونے کا معاملہ اور کہاں راقم کا یہ موقف کہ نہ وہ سکہ بند حنفی ہے نہ عرف عام کے مطابق اہلحدیث‘ بلکہ بقول مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ مسلک ولی اللّہی سے منسلک ہے! گویا اسے ہر اعتبار سے احتجاج ضدین سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. 

لیکن راقم کے نزدیک یہ ایک نہایت نیک فال اور اعلیٰ مثال ہے جو ان شاء اللہ العزیز ’’قران السعدین‘‘ کی تمہید بنے گی. اس لیے کہ اگر احیاء و اقامت دین کے بلند و بالا اور اعلیٰ و ارفع نصب العین کے لیے مختلف فقہی مسالک اور روحانی سلاسل سے منسلک اور ماضی کی شخصیات اور تحریکات کے ضمن میں کسی قدر مختلف نقطہ ٔنظر رکھنے والے لوگ اُس شان کے ساتھ جمع ہوں جس کا نقشہ قرآن حکیم کے حسب ذیل الفاظ میں سامنے آتا ہے: 

تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ 
(آل عمران:۶۴
تو امید کی جا سکتی ہے کہ مختلف مسالک اور مکتبہ ہائے فکر و نظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مابین فاصلوں میں کمی آئے گی اور ذہنی و قلبی قرب پیدا ہو گا. اس لیے کہ ہمارے یہاں اجنبیت کے حجابات اور فکری و جذباتی بعد اور ’’من دیگرم تُو دیگری‘‘ کی کیفیت کے تشویشناک اور مایوس کن حد تک بڑھ جانے کا اصل سبب یہ ہے کہ ہر گروہ اور ہر طبقہ ع ’’اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں‘‘ کے مصداق اپنے ہی حلقے کے بزرگوں کی محبت و عقیدت سے سرشار‘ اپنے ہی مسلک کی مطبوعات و جرائد کے پڑھنے پڑھانے اور اپنے ہی مخصوص فکر کے تانے بانے میں ایسا گم رہتا ہے کہ دوسروں سے تعارف اور واقفیت کی نوبت ہی کبھی نہیں آتی. نتیجتاً 
’’کُلُّ حِزْبٍم بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ‘‘ کی کیفیت کی شدت اور اس کی گہرائی و گیرائی ہی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے! اسی صورتِ حال میں تبدیلی کی ایک کوشش تھی جو راقم الحروف گزشتہ تیرہ سالوں سے کرتا چلا آ رہا ہے ‘یعنی قرآن کانفرنسوں اور قرآنی محاضرات کے پلیٹ فارم پر مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے اصحاب علم و فضل کو جمع کیا جائے تاکہ ذہنی اور قلبی فاصلے کم ہوں اور ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سننے کے مواقع میسر ہوں. اور راقم کو اللہ کے اُس خصوصی فضل و کرم سے امید واثق ہے جو اُس (اللہ تعالیٰ) کے اس حقیر اور عاجز و ناتواں بندے کے شامل حال ہے کہ ان شاء اللہ العزیز اس کی قائم کردہ تنظیم کے ذریعے مختلف ذہنی و فکری پس منظر کے حامل‘ مختلف مسالک فقہ سے وابستہ اور ماضی کی مختلف سیاسی تنظیموں اور تحریکوں سے تعلق رکھنے والے‘ لیکن دین کا درد رکھنے اور اُس کی غربت پر کڑھنے والے اور اُس کی نصرت و اقامت کے لیے تن من دھن لگا دینے کا عزم رکھنے والے لوگ ایک مضبوط تنظیمی سلسلے اور محکم جماعتی رشتے کے ’’بنیان مرصوص ‘‘ میں ضم ہو کر ’’حزبُ اللّٰہ‘‘ کی صورت اختیار کر لیں گے! و ما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز !!

یہاں ضمنی طور پر یہ بھی وضاحت ہو جائے تو مناسب ہے کہ اس کا امکان اگر کوئی ہے تو صرف اس صورت میں کہ تنظیم کی اساس شخصی بیعت پر ہو نہ کہ کسی دستوری یا جمہوری ڈھانچے پر. اس لیے کہ مؤخر الذکر صورت میں تنظیمی فیصلوں اور مناصب کی تفویض کے جملہ معاملات ’’ووٹوں کی گنتی‘‘ کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں‘ لہٰذا منطقی طور پر لازمی ہے کہ ’’ووٹ‘‘ کا حق صرف اُن لوگوں کے پاس ہو جن کے کسی خاص مکتبہ ٔفکر اور نقطہ ٔنظر سے کامل آہنگی اور اصول اور کلیات ہی نہیں فروعات اور جزئیات تک کے بارے میں ذہن و مزاج کے ایک مخصوص رُخ پر ڈھل چکنے اور ایک خاص رنگ میں رنگے جانے کے بارے میں پورا اطمینان حاصل کر لیا گیا ہو. اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ فکر و نظر میں کسی وسعت کے پیدا ہونے کا امکان ہی باقی نہیں رہتا‘ بلکہ اُس خاص ذہن و مزاج ہی کے پختہ سے پختہ تر اور شدید سے شدید تر ہونے کا عمل جاری رہتا ہے جس سے لا محالہ تنگ نظری‘گروہ پرستی اور تحزب و تعصب میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے. جبکہ شخصی بیعت کی بنیاد پر قائم ہونے والی تنظیم میں باہمی مشاورت کی فضا تو بتمام و کمال برقرار رہتی ہے یا رہ سکتی ہے‘ لیکن فیصلوں کا دارومدار ع ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!‘‘ اور ؏ ’’کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید!‘‘ کے مصداق ووٹوں کی گنتی پر نہیںبلکہ ’’صاحب امر‘‘ کی صوابدید پر ہوتا ہے. بنابریں مختلف المزاج‘مختلف المسلک‘مختلف المشرب اور مختلف الرائے لوگوں کے جمع ہونے میں قطعاً کوئی قباحت نہیں ہے. اس لیے کہ یہاں تنظیم میں 
شمولیت کا فیصلہ صرف اس ایک امر پر مبنی ہوتا ہے کہ آیا کسی کو ایک شخص معین کے افکار و نظریات سے بحیثیت مجموعی اتفاق اور اُس کے خلوص و اخلاص پر فی الجملہ اعتماد ہے یا نہیں! اگر ہے تو اس سے بیعت جہاد و سمع و طاعت فی المعروف کے رشتے میں منسلک ہو جائے. پھر ’’اِنَّ السَّمْعَ وَالْـبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً ‘‘ کے مطابق کھلے کانوں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ اور عقل و فہم کی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اُس کا ساتھ دے. کوئی غلطی نظر آئے تو تنقید کرے‘ غلط رجحانات نظر آئیں تو پیشگی متنبہ کرے‘ کسی معاملے میں رائے کا اختلاف ہو تو برملا اظہار کرے اور اس میں کسی کی شخصی عقیدت یا اُس کے ذاتی رعب یا ملامت کے خوف کو آڑے نہ آنے دے. لیکن جب تک وہ ’’بحیثیت مجموعی اتفاق‘‘ اور ’’فی الجملہ اعتماد‘‘ کی کیفیت برقرار رہے ’’اطاعت فی المعروف‘‘ کے دائرے سے باہر نہ نکلے. البتہ جب اُن دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی برقرار نہ رہے تو بیعت فسخ کرنے کا اعلان کرے اور علیحدگی اختیار کر لے!! اور ’’ھَلْ لَّـنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْئٍ‘‘ کی قسم کے قضیے کھڑے کر کے نہ اپنا وقت ضائع کرے نہ دوسروں کا.
اس ضمن میں واقعہ یہ ہے کہ اُس حدیث نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ مبارکہ کی عظمت ‘جامعیت‘ ہیبت و جلالت اور محکمیت و مشیدیت کا جو انکشاف راقم الحروف کے شعور و ادراک پر ہوا ہے اور جو نقش اُس کے قلب پر قائم ہوا ہے اس کے بیان سے وہ از بس قاصر ہے‘ اس لیے کہ اس ایک مختصر حدیث میں ’’اسلامی انقلابی پارٹی‘‘ یا ’’حزب اللہ‘‘ کا پورا دستور موجود ہے. یہ حدیث بخاریؒ و مسلمؒ دونوں نے حضرت عبادہ بن صامت hسے روایت کی ہے جس میں انہوں نے بیعت عقبہ ثانیہ کے الفاظ نقل فرمائے ہیں (حدیث میں الفاظ کی نسبت حضرت عبادہ بن صامتؓکی جانب ہے‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ تلقین خود نبی اکرم  ہی نے فرمائی ہو گی!) 

بَایَعْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لَّا نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 

’’ہم نے نبی اکرم  سے بیعت کی تھی کہ آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے خواہ ہم پر تنگی ہو خواہ آسانی‘ اور خواہ ہمارے دل آمادہ ہوں خواہ اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے ‘اور خواہ دوسروں کو (مناصب اور ذمہ داریوں وغیرہ کی تفویض میں) ہم پر ترجیح دی جائے ‘اور یہ کہ ہم امراء سے نظم کے معاملے میں رسہ کشی نہیں کریں گے. 
البتہ ہم حق بات ضرور کہیں گے خواہ کہیں بھی موقع پیش آئے اور اللہ (اور اس کے دین) کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے.‘‘

اس وقت ظاہر ہے کہ راقم کو نہ ’’بیعت‘‘ کے مسئلے پر مفصل گفتگو کرنی ہے نہ خود اس حدیث کی تفصیلی تشریح‘ بلکہ یہ بات صرف برسبیل تذکرہ قلم پر آ گئی کہ یہی وہ واحد نظام ہے جس میں ع ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘ ‘کے کیفیت کے حامل لوگ جمع ہو سکتے ہیں اور راقم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اُس (اللہ تعالیٰ) نے اُس کی اِس جانب رہنمائی فرمائی اور ایک سنت کو زندہ کرنے کی سعادت بخشی. اور وہ اپنے اس صدمہ اور رنج و غم کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جہاں ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل کا حال یہ ہے کہ ؎

میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں اُلجھ کر اکثر
تم نے اسلاف کی عزت کے کفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے

وہاں ’’حامیانِ دین‘‘ اور ’’خادمانِ شرع متین‘‘ کی بھی اکثریت کا یہ حال ہے کہ اپنی اپنی تنظیموں اور جماعتوں کو اس ’’بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کی اساس پر استوار کرنے کی بجائے مغرب سے درآمد شدہ طریقوں کو اختیار کیے ہوئے ہیں. چنانچہ تشتت و انتشار اور تقسیم در تقسیم کا جو عمل عام غیر مذہبی سیاسی جماعتوں میں نظر آتا ہے بعینہٖ وہی ان کے یہاں بھی موجود ہے. 
فاعتبروا یا اولی الابصار !! 

(۴)
راقم یہ عرض کر چکا ہے کہ غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد میں تعاون اور سرپرستی کی درخواست کے ضمن میں اس کے ذہن میں اولیت ان حلقوں کو حاصل ہے جن کا (راقم کے فہم کے مطابق) براہِ راست یا بالواسطہ تعلق حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جماعت سے ہے‘ البتہ اس سلسلے میں وہ ان شاء اللہ العزیز برصغیر پاک و ہند کے علم و فضل کے جملہ سلسلوں اور خانوادوں کے دروازوں پر دستک دے گا. اس سلسلے میں اس کے نزدیک دوسرے نمبر پر وہ سلسلے اور خانوادے ہیں جو ۱۹۲۰ء میں جمعیت علماء ہند کے اجلاس دہلی کے پلیٹ فارم پر حضرت شیخ الہندؒ کی زیر صدارت جمع تھے یا بعد میں کم از کم تحریک خلافت میں شریک تھے. ان میں سے تین سلسلوں کے ساتھ راقم کے ربط و تعلق کا تذکرہ اس مقام پر بے محل نہ ہو گا. 
اہل حدیث حضرات میں سے اس اجلاس میں مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ بنفس نفیس شریک تھے. ان سے راقم کا تعلق ۵۶-۱۹۵۵ء میں بالکل اتفاقاً قائم ہوا اور پھر ان کے انتقال تک قائم رہا. اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ۱۹۶۲ء میں جب راقم کو پہلی بار والدین کی معیت میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی تو اسی سال رابطہ عالم اسلامی کا تاسیسی اجلاس ہوا جس کے لیے پاکستان سے دو علماء مدعو کیے گئے تھے. ایک مولانا مودودی مرحوم و مغفور اور دوسرے مولانا داؤد غزنویؒ . میری ملاقات حرم شریف میں اتفاقاً مولانا غزنویؒ سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ تم رابطے کے تاسیسی اجلاس میں میرے سیکریٹری کی حیثیت سے شرکت کرو. میرے لیے تو یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی. اس طرح میں اس اجلاس کا مستقل شریک اور نتیجتاً بہت سے راز ہائے درون پردہ کا عینی شاہد ہوں. تاہم یہ موقع ع ’’مصلحت نیست کہ از پردہ بروں آید راز!‘‘ کے مصداق ان امور پر بحث کا نہیں ہے (مولانا داؤد غزنویؒ سے اپنے تعلق کی تفصیلی داستان میں نے مولانا محی الدین سلفی مرحوم کے اصرار پر ’’الاعتصام‘‘ کے لیے سپرد قلم کی تھی جو بعد میں مولانا سید ابو بکر غزنوی مرحوم نے اپنی تالیف ’’سیدی و ابی‘‘ میں بھی شامل کی تھی. ان شاء اللہ ’’میثاق‘‘ کی کسی قریبی اشاعت میں اسے ہدیۂ قارئین کروں گا. اس لیے کہ اس میں بعض سبق آموز باتیں شامل ہیں). 

برصغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف خیر آبادی مکتب فکر کے گل سر سبد مولانا معین الدین اجمیریؒ بھی اس اجلاس میں شریک تھے‘ اور ان ہی کے ایک نہایت محکم لیکن خالص فنی اعتراض کی بنا پر اس اجلاس عام میں مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی امامت ہند کا مسئلہ کھٹائی میں پڑا تھا. ان کے شاگرد رشید اور اس سلسلہ علمیہ کے ’’خاتم‘‘ مولانا منتخب الحق قادری ہیں جن سے میرا رشتہ تلمذ۶۵-۱۹۶۴ء میں قائم ہوا تھا جبکہ میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے (اسلامیات) کر رہا تھا. ان کے برادر نسبتی تھے مولانا افتخار احمد بلخی مرحوم جو ہماری ہی طرح جماعت اسلامی کے ’’سابقین‘‘ میں سے تھے اور ان کا رشتہ ٔتلمذ بھی مولانا معین الدینؒ سے تو تھا ہی‘ غالباً مولانا منتخب الحق سے بھی تھا. مجھ پر وہ حد درجہ شفیق تھے اور انہوں نے ہی زبردستی مجھے ایم اے میں داخلہ لے کر دیا تھا (وہ خود بھی شعبہ اسلامیات میں لیکچرار تھے). ادھر مولانا معین الدینؒ کے بھتیجے ہیں مولانا حکیم محمد نصیر الدین ندوی مدظلہٗ مالک نظامی دواخانہ‘شاہراہ لیاقت‘کراچی. قارئین ’’میثاق‘‘ میں سے بہت سے حضرات کے علم میں ہو گا کہ جب راقم مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی امامت ہند کے ضمن میں ایک قول جو اس نے پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم سے سنا تھا 
’’میثاق‘‘ میں نقل کر کے مخمصے میں پھنس گیا تھا تو اس سے نکلنے میں جہاں اولاً ملک نصر اللہ خاں عزیز مرحوم اور ثانیاً مولانا منتخب الحق قادری مدظلہٗ نے مدد فرمائی تھی وہاں اصل فیصلہ کن مواد حکیم صاحب موصوف ہی سے حاصل ہوا تھا. میرا ان سے نیازمندانہ تعلق تو اسی وقت سے ہے لیکن گزشتہ چار پانچ ماہ کے دوران اس نے بڑھ کر نہایت مضبوط قلبی رشتے کی صورت اختیار کرلی ہے. دو ماہ قبل انہوں نے بایں پیری و ضعیف العمری (ان کا سن غالباً ۷۵ سے بھی متجاوز ہے‘ اگرچہ دیکھنے میں اتنا محسوس نہیں ہوتا!) میری ’’شام الھدٰی‘‘ کراچی کی ڈھائی تین گھنٹے کی تقریر جم کر سنی‘ اور بعد ازاں اسے بہت سراہا. اور اب شاذ ہی ہوتا ہے کہ میرا کراچی جانا ہو اور ان کی معیت میں کم از کم ایک مرتبہ کسی نہ کسی مقام پر دعوت طعام میں شرکت نہ ہو.

جس میں بعض اوقات استاذی المکرم مولانا منتخب الحق مدظلہٗ بھی موجود ہوتے ہیں. اسی دوران ان میں اس سلسلے کی ایک اور اہم شخصیت سے بھی تعلق قائم ہوا ہے اور وہ ہیں مولانا معین الدین اجمیریؒ کے استاذ گرامی مولانا حکیم برکات احمد ٹونکیؒ کے پوتے مولانا حکیم محمود احمد صاحب برکاتی. اور قارئین ’’میثاق‘‘ کے لیے یہ اطلاع یقینا موجب مسرت ہو گی کہ ان شاء اللہ العزیز اکتوبر ۱۹۸۵ء کے اواخر میں غالباً ۲۵ تا ۲۷؍ قرآن اکیڈمی لاہور میں ایک خاص اجتماع خیر آبادی مکتب فکر ہی کے موضوع پر منعقد ہو گا جس میں شرکت کا حکیم محمد نصیر الدین صاحب ندوی اور حکیم محمود احمد صاحب برکاتی نے تو حتمی وعدہ کر لیا ہے‘ مولانا منتخب الحق قادری مدظلہٗ نے بھی کوشش کا وعدہ کیا ہے! (۱(یادش بخیر پروفیسر یوسف سلیم چشتیؒ نے اس مکتب فکر کی بعض امہاتِ کتب کا درس مولانا منتخب الحق صاحب سے لیا تھا اور وہ ان کے لیے نہایت شاندار الفاظ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں نے یہ علم ان کی جوتیاں سیدھی کر کے حاصل کیا ہے‘‘). 

برصغیر پاک و ہند کی بیسویں صدی عیسوی کی عظیم دینی شخصیات میں ایک مولانا عبد العلیم صدیقی میرٹھیؒ (والد ماجد مولانا شاہ احمد صاحب نورانی) بھی تھے جنہوں نے تبلیغ اسلام کے لیے متعدد بار پوری دنیا کا دورہ کیا اور جن کی تبلیغ سے بالخصوص جزائر غر ب الہند میں اسلام کو بہت فروغ حاصل ہوا. راقم کو یہ تو معلوم نہیں ہے کہ وہ ۱۹۲۰ء کے جمعیت العلماء ہند کے 
(۱) الحمد للہ کہ مارچ۱۹۸۶ء میں خیر آبادی مکتب فکر کے موضوع پر یہ اجلاسِ عام قرآن اکیڈمی میں پوری آب و تاب کے ساتھ منعقد ہوا اور اس میں استاذی مولانا منتخب الحق قادری مدظلہٗ نے بھی تمام تر ضعف و علالت کے باوجود شرکت کی جس کے لیے راقم خاص طور پر حکیم نصیر الدین صاحب ندوی کا ممنونِ احسان ہے. اجلاس میں شریک تھے یا نہیں‘ اس لیے کہ اس اجلاس کا کھلم کھلا بائیکاٹ خانوادہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے کیا تھا اور مولانا میرٹھی کو خرقہ ٔخلافت وہیں سے عطا ہوا تھا. تاہم مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہٗ کی تالیف (جس کا حوالہ ’’میثاق‘‘ کی کسی گزشتہ اشاعت میں آ چکا ہے) سے معلوم ہوا کہ تحریک خلافت میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا تھا. حالانکہ خانوادۂ بریلی نے اس سے بھی لا تعلقی کا فتویٰ دیا تھا. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی تعلق کے باوصف مولانا میرٹھی آزاد ذہن و فکر کے انسان تھے. بہرحال ان کا تذکرہ اس وقت اس لیے ہوا کہ ان کے دامادِکلاں ڈاکٹر فضل الرحمن انصاریؒ بھی میری طالب علمی کے زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ معارف اسلامیہ سے وابستہ تھے. اس طرح میرا تلمذ کا رشتہ ان سے بھی قائم ہوا. کراچی کے گزشتہ تین چار دوروں کے دوران ان کے داماد ڈاکٹر عمران حسین صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں. یہ ویسٹ انڈیز ہی کے رہنے والے ہیں‘ اردو سمجھتے اچھی طرح ہیں لیکن بولتے دقت سے ہیں. نہایت سلیم الفطرت اور ذہین و فہیم نوجوان ہیں. چند ماہ سے وہ میرے دروسِ قرآن اور خطاباتِ عام میں جس التزام اور پابندی سے شرکت کر رہے ہیں اس کا میرے دل پر بہت اثر ہے. اس بار بہت اصرار سے وہ مجھے اپنے مکان پر لے گئے‘ جہاں ان کی خوش دامن یعنی مولانا عبد العلیم میرٹھیؒ کی سب سے بڑی صاحبزادی صاحبہ کی خدمت میں بھی سلام نیاز پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور مولانا میرٹھیؒ کی نواسی اور استاذی ڈاکٹر انصاریؒ کی صاحبزادی کی نہایت پر تکلف مہمان نوازی سے بھی (اپنے معالجین کی ہدایات کے بالکل برعکس) بھرپور طور پر لطف اندوز ہونے کا موقع ملا. 

الغرض! راقم کسی ایک کنوئیں کا مینڈک ہے نہ کسی ایک گھر کا ملازم‘ بلکہ ؏ ’’ہر ملک ملکِ ماست کے ملک ِ خدائے ماست ‘‘کے انداز میں اور فرمانِ نبویؐ 
’’اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ ھُوَ اَحَقُّ بِھَا حَیْثُ وَجَدَھَا‘‘کے بموجب راقم حق و صداقت کا جویا اور علم و حکمت کا متلاشی ہے اور اسے معلوم ہے کہ یہ چیزیں ہمارے یہاں ؎

اڑائے کچھ ورق لالہ نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

اور ؎

اڑا لی طوطیوں نے قمریوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری

کے مصداق مختلف حلقوں اور گروہوں میں منقسم و منتشر ہو گئی ہیں اور اب انہیں پھر ؏ ’’کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو!‘‘ کے انداز اور ؏ ’’ڈھونڈ اب ان کو چراغ رُخ زیبا لے کر!‘‘ کی شان کے ساتھ جمع کرنا ہو گا. اسی طرح غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد کسی ایک گروہ کے بس کا روگ نہیں ہے. اس کے لیے امت کے زیادہ سے زیادہ مکاتب فکر کو اسی طرح ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہو گا جس طرح وہ ۱۹۲۰ء میں دہلی میں جمع تھے. اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی ازمنہ قدیمہ کی بات نہیں ہے. کل پینسٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے تو پھر مایوسی کیوں! اور بد دلی کس بنا پر؟؟ 

(۵)
راقم کو اس دوران میں امید کی دو کرنیں اور بھی نظر آئی ہیں جن سے اس کا حوصلہ بڑھا ہے اور راقم اس کیفیت میں اپنے رفقاء و احباب اور جملہ قارئین ’’میثاق‘‘ کو بھی شامل کرنا ضروری سمجھتا ہے.

ایک ایبٹ آباد میں مولانا غلام النصیر چلاسی مدظلہٗ سے ملاقات جس کے دوران ہم دونوں نے بالکل وہ کیفیت محسوس کی کہ ؎

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

مولانا علاقہ کوہستان کے‘ جو پاکستان کے ’’شمالی علاقہ جات ‘‘ میں محل وقوع سمیت ہر اعتبار سے نہایت مرکزی اہمیت کا حامل ہے‘ ایک نہایت مقبول اور مقتدر دینی اور روحانی رہنما ہیں. نسلی اور لسانی اعتبار سے ’’شین‘‘ ہیں‘ اردو لکھنا پڑھنا دقت کے ساتھ ہے‘ البتہ اپنی مادری زبان اور پشتو کے علاوہ عربی اور فارسی دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں. اور ان چاروں زبانوں میں ان کی ۳۵ ہزار اشعار سے زائد پر مشتمل کتابیں طبع ہو چکی ہیں. میں نے لاہور میں تنظیم کے رفقاء کے اجتماع میں اپنا جو تاثر بیان کیا تھا‘ سردست صرف اسی کے نقل پر اکتفا کرتا ہوں اور وہ یہ کہ ’’میں نے آج تک کسی دینی شخصیت کو اپنے مزاج اور خیالات و نظریات کے جملہ پہلوؤں سے اس درجہ ہم آہنگ نہیں پایا جتنا مولانا غلام النصیر چلاسی کو!‘‘ (میرے اس تاثر کی بنا پر میرے چند قریبی رفقاء نے جا کر ان سے ملاقات کی اور میرے اس احساس کی حرف بحرف توثیق کی!). خود انہوں نے راقم کے بارے میں اپنا جو تاثر بیان فرمایا ہے وہ راقم کے لیے 
حد درجہ شرمندگی بلکہ شرمساری کا موجب ہے. لیکن جبکہ راقم کو بہت سے دینی حلقوں کی جانب سے ’’دھتکارا‘‘ جا رہا ہے جس سے اس کے رفقاء بد دلی محسوس کر رہے ہیں میری رائے میں ایک ہمت افزا قول کا نقل کر دینا مفید ہو گا. اور وہ یہ کہ ’’آپ کو دیکھ کر میرا یقین نبی اکرم  کی اس حدیث پر مزید گہرا ہو گیا ہے کہ میری امت میں ہمیشہ کم از کم ایک گروہ ضرور حق پر قائم رہے گا!‘‘ اللہ تعالیٰ انہیں اس حسن ظن اور ہمت افزائی پر اجر عظیم عطا فرمائے اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو ان کی ان نیک توقعات پر کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے ہی میں سہی‘ پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے. و ما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز!! 
میں نے ان کی خدمت میں اپنی جملہ مطبوعات کا جو سیٹ ارسال کیا ‘اس پر ان کا جو والانامہ موصول ہوا‘ وہ من و عن درج ذیل ہے:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم 
۱۰؍ اگست ۱۹۸۵ء
محترم و مکرم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

آپ کے ارسال کردہ تمام کتب اور خط موصول ہوئے. فرصت کے اوقات میں آپ کے چند رسائل کا اجمالی جائزہ لیا‘ جس سے آپ کی تنظیم کا عزم مصمم کا بخوبی علم ہوا. آپ کے کتب و رسائل جو مجھے موصول ہو چکے ہیں لوگوں میں تقسیم کر دوں گا تاکہ عامۃ الناس استفادہ کر سکیں. میں چند اپنی کتب آپ کو مطالعہ کے لیے پیش کرنا چاہتا تھا جو کہ دستیاب نہ ہو سکیں. ’’تحائف قدسیہ‘‘ اور ’’ینابیع الحکمت‘‘ بڑی ضخیم کتب تھیں‘ ابتداء ً مطالعہ کے لیے بہتر تھیں. فی الحال جو کتابیں دستیاب ہیں ارسال خدمت ہیں جن کے بالترتیب مطالعہ سے آپ ہمارے عزائم کی کیفیت سے آگاہ ہوں گے. سب سے پہلے ’’خیابانِ چلاسی‘‘ کا مکمل مطالعہ کریں. پھر ’’معدنِ توحید‘‘ ’’گنجینۂ معرفت‘‘ اور ’’گلدستہ عشاق‘‘. دوسری کتب دستیاب ہونے پر یا دوسری ملاقات میں آپ کو دیں گے. چند حروفِ پریشاں بطور تحفہ درویشاں آپ کی خدمت میں بھیج رہے ہیں.

بہ مطلب می رسی اسرارِ احمد
اگر محکم بگیری تارِ احم
د
مرادِ احقر از محکم گرفتن بود اخلاص در ہر کارِ احمد
صداقت حل ہر یک مشکلے ہست ہمی دانست یارِ غارِ احمد
دِگر عرض اینکہ از گفتار بگذر بہ میدان آ بہ آن کردارِ احمد
امید ماست باشی ابر نیساں بہ کم مدت پئے گلزارِ احمد
خدایا آور آں ساعت کہ بینیم دوبارہ گرم تر بازارِ احمد
بہ سعی ایں رجالِ پاک فطرت بہ ہر جا تازہ کن آثارِ احمد
چلاسیؔ را سر و مال است حاضر برائے یاریٔ ہر یارِ احمد

فقط والسلام
منجانب: غلام النصیر چلاسیؔ

ایک دوسری امید کی کرن اسلام آباد سے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر (میجر) صاحب کی صورت میں نظر آئی جو اسلام آباد کی ایک مسجد میں روزانہ درس قرآن دیتے ہیں اور اپنی زندگی کو اسی کام کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں. بالکل راقم کے ہم عمر اور راقم ہی کی طرح ’’عالم‘‘ نہیں بلکہ ’’عامی‘‘ انسان ہونے کے ناطے مجھے اپنے اور ان کے درمیان ’’کند ہم جنس …‘‘ کی کیفیت کا شدت سے احساس ہوا اور اسی بنا پر شدید کشش محسوس ہوئی. چنانچہ راقم نے ان کے ایک درسِ قرآن میں بھی جزوی شرکت کی اور محسوس کیا کہ ان کا درس ’’تذکیر بالقرآن‘‘ کا نہایت عمدہ نمونہ اور ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کی نہایت اعلیٰ مثال ہے. مزاج کی جامعیت‘ کا حال بھی یہ ہے کہ ذہناً جماعت اسلامی کے بہت قریب ہیں. عملاً تبلیغی جماعت کے ساتھ طویل عرصہ فعال انداز میں لگایا ہے اور ان کے چوٹی کے اصحابِ مشورہ میں سے رہے 
ہیں اور ادھر راقم کے ساتھ بھی کم از کم اتنا اُنس ضرور ہے کہ ایک روز کھانے پر مدعو فرمایا‘ جس میں مولانا ظفر احمد انصاری اور جسٹس ریٹائرڈ محمد افضل چیمہ سمیت متعدد اہم شخصیات سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی. حال ہی میں تنظیم اسلامی کا جو علاقائی اجتماع راولپنڈی میں ۵تا ۸؍ اگست منعقد ہوا اس کے دوران ان کی شدید خواہش تھی کہ میں ان کے یہاں قیام کروں اور ایک رات کے لیے میں وہاں گیا بھی‘ لیکن بعد میں بعض رفقاء کے چہروں پر بد دلی کے آثار دیکھ کر میں نے اپنی طبیعت کی خرابی کے علی الرغم میجر صاحب کے آراستہ پیراستہ گھر کی سہولتوں کو خیر باد کہا اور اپنے ساتھیوں ہی کے ساتھ آ ڈیرا لگایا. میجر صاحب کا اسم گرامی ہے میجر محمد امین منہاس اور ان کا درس اسلام آباد کے سیکٹر6 F میں واقع جامع مسجد مؤتمر عالم اسلامی میں روزانہ بعد نماز مغرب ہوتا ہے. میجر صاحب کے قول کے مطابق ان کے پاس راقم کے دروس و خطابات کے تین صد سے زیادہ کیسٹ موجود ہیں‘ اور ان سب پر مستزاد اس اجتماع کے موقع پر انہوں نے لگ بھگ پانچ ہزار روپے کے کیسٹ مزید خرید فرمائے ہیں. 

(۶)
اس تحریر کے ابتدائی حصہ میں ۱۹۷۳ء کی پہلی سالانہ قرآن کانفرنس کے ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا ذکر بھی آیا تھا اور حدّ رجم کے بارے میں ان کی ’’انتہائی گمراہ کن‘‘ رائے کا بھی. اس ضمن میں میرے رویے کے بارے میں بعض احباب اور بزرگوں کے ذہنوں میں کچھ اشکال ہے جسے میں اس موقع پر رفع کر دینا چاہتا ہوں (چنانچہ مولانا سید وصی مظہر ندوی صاحب نے بھی اپنے ایک خط میں اس سلسلے میں ایک شبہ کا اظہار کیا تھا اور حال ہی میں مولانا عبد الغفار حسن مدظلہٗ نے بھی الحمد للہ کہ کوئی شبہ وارد کرنے یا فیصلہ صادر کرنے کی بجائے ’’استفسار‘‘ کیا ہے اور وضاحت طلب فرمائی ہے) شبہ یہ ہے کہ مولانا اصلاحی کے بارے میں میری رائے میں شدت پیدا ہونے کے اصل اسباب کوئی اور ہیں اور حد رجم کے بارے میں ان کی رائے کو میں نے صرف بہانہ بنایا ہے. 

واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ میں ’’میثاق‘‘ کے اول یوم اشاعت سے اس کا خریدار ہی نہیں‘ اس کے ’’معاونین‘‘ اور ’’سرپرستوں‘‘ میں شامل تھا‘ تاہم اس میں شائع ہونے والی تفسیر کو کبھی شاذ ہی پڑھتا تھا (اس لیے کہ اس طرح بالاقساط شائع ہونے میں تسلسل قائم نہیں رہتا). بہر حال جب ۱۹۶۶ء میں‘ میں لاہور منتقل ہوا اور میں نے ’’میثاق‘‘ کی ادارت بھی سنبھال لی اور 
’’دارالاشاعت الاسلامیہ‘‘ بھی قائم کیا تو اس وقت تک ’’تدبر قرآن‘‘ کی جلد اول تسوید و تبییض کے جملہ مراحل طے کر کے مولانا کے ایک دوست کے پاس ’’رہن‘‘ تھی (اس لیے کہ مولانا نے اپنی کسی ضرورت کی بنا پر ان سے پانچ ہزار روپے قرض لیے تھے‘ اور جب وہ قرض واپس نہ کر سکے تو انہوں نے تفسیر کا مسودہ اٹھا کر ان کے حوالہ کر دیا کہ یہ ’’متاعِ فقیر‘‘ حاضر ہے. ادھر وہ صاحب مسلکاً مولانا سے اختلاف رکھتے تھے‘ لہٰذا تفسیر کو شائع بھی نہیں کر رہے تھے!) بہرحال میں نے اسے ان سے واگزار کرایا اور شائع کر دیا. جسے اس وقت مولانا نے اپنی ذات پر میرا ’’احسان عظیم‘‘ قرار دیا. اس کے بعد دوسری اور پھر تیسری جلد کی بالاقساط اشاعت ’’میثاق‘‘ میں ہوتی رہی. چنانچہ جلد دوم کی کتابی صورت میں اشاعت بھی ’’دارالاشاعت‘‘ کے زیر اہتمام ہوئی. البتہ تیسری جلد کی کتابی صورت میں اشاعت سے پہلے پہلے ’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ کا قیام عمل میں آ گیا اور میں نے ’دار الاشاعت‘‘ کو بند کر دیا اور جملہ اشاعتی سلسلہ انجمن کو منتقل کر دیا. چنانچہ تیسری جلد مکتبہ انجمن کے زیر اہتمام طبع ہوئی. مزید یہ کہ اس وقت تک مولانا کے پاس جلد چہارم کا مسودہ بھی تیار ہو چکا تھا. چنانچہ جلد چہارم میں شامل سورتوں میں سے سوائے ایک یعنی سورئہ کہف کی تفسیر کے اور کسی کی ’’میثاق‘‘ میں اشاعت کی نوبت ہی نہیں آئی. یہ براہِ راست کتابی صورت ہی میں منصہ شہود پر آئی اور اس میں سورۃ النور کی تفسیر شامل ہے. جس کی پہلی تین آیات ہی کے ضمن میں حد رجم سے متعلق مولانا کی رائے پہلی بار سامنے آئی. 

ادھر راقم کا حال یہ رہا کہ ’’میثاق‘‘ میں تفسیر کا مطالعہ اس نے نہ کبھی اشاعت سے پہلے کیا نہ بعد میں‘ اس کے مطالعہ ٔتدبر قرآن کا سلسلہ اس درس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا جو اس نے مسجد خضراء سمن آباد میں اپنے مرتب کردہ منتخب نصاب کا دو بار درس دے چکنے کے بعد مصحف کی ابتدا سے تسلسل کے ساتھ شروع کیا تھا. یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ’’تدبر قرآن‘‘ کی جلد چہارم ۱۹۷۶ء کے دوران کسی وقت شائع ہو گئی تھی‘ لیکن راقم کے علم میں حد رجم کے ضمن میں مولانا کی رائے مئی ۱۹۷۸ء میں آئی. اس لیے کہ الحمد للّٰہ اس کی وہ ذاتی ڈائری محفوظ ہے جس میں درج ہے کہ سورۃ النور کی آیات ۱ تا ۳ کا درس راقم نے مسجد خضراء میں جمعہ ۵؍ مئی ۱۹۷۸ء کو دیا تھا. چنانچہ راقم کو اب تک یاد ہے کہ راقم نے لاہور میں اپنے درس قرآن کی دس بارہ سالہ تاریخ کے دوران پہلی بار نام لے کر ایک جانب مولانا اصلاحی پر شدید تنقید کی‘ اور ان کے 
مقابلے میں نام لے کر مولانا مودودی کی رائے کی بھرپور تحسین کی اور اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اس جلد کی اشاعت پہلی بار تو میری لا علمی میں ہو گئی ہے جس میںجو حصہ بھی میرا ہے اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوں لیکن دوبارہ کم از کم یہ جلد میرے یا انجمن کے اہتمام میں شائع نہیں ہو گی. یہی وجہ ہے کہ چونکہ اس وقت تک اس کتاب کی ایک مارکیٹ بن چکی تھی چنانچہ جلد اول دوسری بار انجمن کے زیر اہتمام تین ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی تھی اور جلد دوم اور غالباً جلد سوم کے بھی دوسرے ایڈیشن طبع ہو چکے تھے. چنانچہ جلد چہارم جیسے ہی بازار میں آئی ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور فوراً ختم ہو گئی‘ اور جلد ہی اس کے طبع ثانی کا شدید تقاضا پیدا ہو گیا. لیکن راقم نے کسی صورت اسے دوبارہ شائع نہیں کیا (یہ دوبارہ شائع ہوئی تو ۱۹۸۲ء میں‘ گویا پورے چھ سال بعد‘ اور وہ بھی ’’فاران فاؤنڈیشن‘‘ کے زیر اہتمام!).
ساتھ ہی یہ بھی نوٹ کر ایا جائے کہ مولانا سے میں نے ملاقات کا سلسلہ مارچ ۱۹۷۶ء میں منقطع کر دیا تھا. اس کا مفصل پس منظر میں نے دسمبر ۱۹۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں درج کر دیا تھا (جو دوبارہ ’’حکمت قرآن‘‘ کے جولائی‘اگست ۱۹۸۲ء کے شمارے میں شائع ہوا) وصل و فصل کی اس طویل داستان کا اختتام راقم نے ان الفاظ پر کیا تھا:

’’اسی پس منظر میں راقم نے مارچ ۱۹۷۶ء میں تیسری سالانہ قرآن کانفرنس میں شرکت کی دعوت مولانا کو دی اور حسب سابق اسے بھی مولانا نے منظور فرما لیا. لیکن بعد میں اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کے اصرار پر شرکت سے انکار کر دیا. یہ گویا ان دوطرفہ تعلقات کے ضمن میں اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا‘ اور راقم نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ مولانا کی خدمت میں حاضری کا سلسلہ بھی بند کر دیا جائے تاکہ وہ بار بار اس طرح کی پریشان کن صورتِ حال سے دوچار نہ ہوں‘ اور اس طرح ربع صدی پر پھیلے ہوئے وہ تعلقات اختتام پذیر ہو گئے جو پورے بیس سال نہایت گرم جوشی کے ساتھ قائم رہے اور بعد ازاں ؏ ’’کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی‘‘ کے مصداق پورے پانچ سال میں رفتہ رفتہ کم ہو کر اس حد کو پہنچے کہ اب آٹھ ماہ سے صورت وہی پیدا ہو چکی ہے کہ ؎

بس اتنا سا تعلق اب ان سے رہ گیا ہے 
وہ مجھ کو جانتے ہیں‘ میں ان کو جانتا ہوں!‘‘

آج بھی ہر شخص اس پوری داستان کو حرفاً حرفاً پڑھ کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ ’’انقطاعِ تعلق‘‘ 
کے شدید ترین فیصلہ کے باوصف اس وقت تک میری مولانا کے بارے میں رائے میں ہرگز کوئی شدت موجود نہ تھی اور میں نے وہ پوری داستان مولانا کے ادب اور مقام و مرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے سپرد قلم کی تھی (جس پر مجھے باضابطہ سند ہی نہیں باقاعدہ داد سردار محمد اجمل خاں لغاری نے دی تھی). میری رائے میں ’’شدت‘‘ جو بھی پیدا ہوئی وہ کل کی کل مولانا کی اس رائے اور اس سے بڑھ کر ان کے اس طرزِ استدلال اور انداز تحریر پر مبنی ہے جو انہوں نے حد رجم کے ضمن میں اختیار کیا ہے اور جسے میں ’’انکارِ سنت‘‘ سے کم تر کوئی نام دینے کو ہرگز تیار نہیں! یہی وجہ ہے کہ ’’حکمت قرآن‘‘ کے محولہ بالا شمارے کے آخر میں ’’پس نوشت‘‘ کے عنوان سے جو جلی حاشیے کے ساتھ چوکھٹا شائع کیا تھا وہ حسب ذیل ہے:

مولانا امین احسن اصلاحی سے ’’وصل و فصل‘‘ کی داستان کے آخر میں عرض کیا گیا تھا کہ: ’’مولانا کے ساتھ تعلق کا جو تسمہ اب لگا رہ گیا ہے وہ صرف مصنف اور ناشر کے تعلق کی نوعیت کا ہے اور وہ بھی راقم اور مولانا کے مابین نہیں بلکہ انجمن خدام القرآن اور مولانا کے مابین ہے ‘‘

قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب یہ تعلق بھی ختم ہو چکا ہے. اور انجمن نے اپنی ادا کردہ رقم واپس لے کر مولانا کو ان کی جملہ تصانیف کے حقوقِ اشاعت واپس لوٹا دیے ہیں. 

سبب اس کا یہ ہوا کہ ’’تدبر قرآن‘‘ کی جلد چہارم میں سورۃ النور کی تفسیر کے ضمن میں مولانا نے حدّ رجم کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے اُس نے کم از کم اس مسئلے میں انہیں اہل سنت کی صفوں سے نکال کر منکرین حدیث کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جس وقت یہ جلد چھپی‘ راقم نے ابھی اسے پڑھا نہیں تھا. بعد میں جب یہ بات راقم کے علم میں آئی تو سخت صدمہ ہوا کہ اس رائے کی اشاعت میں راقم الحروف اور اُس کی قائم کردہ ’’انجمن خدام القرآن‘‘ بھی شریک ہے. تاہم جو تیر کمان سے نکل چکا تھا اُس پر تو اب سوائے استغفار کے اور کچھ نہ کیا جا سکتا تھا. البتہ اس جلد کی دوبارہ اشاعت پر طبیعت کسی طور سے آمادہ نہ ہوئی. ادھر یہ بھی کسی طرح مناسب نہ تھا کہ ایک مصنف کی تصنیف کی اشاعت صرف اس لیے رُک جائے کہ وہ اُس کے حقوقِ اشاعت کسی ادارے کے ہاتھ فروخت کر چکا ہے. بنابریں تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کی بقیہ چار جلدوں کے ناشر برادرم ماجد خاور صاحب نے جیسے ہی مولانا کی جملہ تصانیف کے حقوقِ اشاعت کی واپسی کے سلسلہ میں گفتگو کی‘ راقم نے فوری آمادگی کا اظہار کر دیا اور الحمد للہ 
کہ خاور صاحب کی مساعی جمیلہ اور مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی مجلس منتظمہ کی منظوری سے یہ معاملہ بغیر کسی تلخی کے باحسن وجوہ طے پا گیا. الغرض مولانا سے اب یہ رشتہ بھی بالکلیہ منقطع ہو گیا ہے!
اسرار احمد 

(۷)
’’تفسیر تدبر قرآن‘‘ کے ضمن میں ایک واقعہ اور بھی ہے جو میرے بہت سے بزرگوں اور احباب و رفقاء کے علم میں ہے . لیکن آج میں اسے بھی برملا ریکارڈ پر لے آنا چاہتا ہوں‘ اور وہ یہ کہ بالکل آغاز میں جب میں نے ’’میثاق‘‘ کی ادارت سنبھالی ہی تھی اس میں سورۃ النساء کی تفسیر شائع ہونی شروع ہوئی. اتفاقاً اس کی بھی بالکل ابتدائی آیات کے ضمن میں مولانا نے ایک بات سلف کے مجمع علیہ موقف سے ہٹ کر کہی جس سے منکرین سنت اور متجددین کے طبقے کو تقویت حاصل ہوتی تھی (اور وہ یہ کہ سورۃ النساء کی آیت ۳ میں وارد شدہ لفظ ’’النساء‘‘ کو عموم پر برقرار رکھنے کی بجائے ’’امہاتِ یتامٰی‘‘ کے مفہوم میںخاص قرار دے دیا تھا) حسب عادت میں نے اسے پڑھا بھی نہیں تھا. لیکن منٹگمری میں میرے ایک عمر کے اعتبار سے بزرگ ویسے بے تکلفی کے اعتبار سے مشفق دوست مولانا برکات احمد خاں نامی تھے جن کا تعلق ٹونک 
(۱ہی سے تھا (جہاں کے مشہورعالم دین مولانا حکیم برکات احمد صاحب ٹونکیؒ استاذِ گرامی مولانا معین الدین اجمیری ؒ تھے) انہوں نے فرمایا کہ یہ تفسیر تو سلف کی رائے کے خلاف ہے. میں نے عرض کیا کہ آپ تفصیلی خط لکھ دیں میں مولانا اصلاحی صاحب کی خدمت میں پہنچا دوں گا. اس خط کو پڑھ کر مولانا نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’یہ صاحب کون ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ایک جید عالم دین ہیں‘ کبھی نواب صاحب ٹونک کے مصاحب خاص اور ناک کے بال تھے‘ اب صرف ایک ہائی سکول میں عربی ٹیچر ہیں‘‘. اس پر مولانا نے ان کا خط پھینک دیا اور فرمایا کہ ’’اگر کوئی بڑا شخص لکھے گا تو میں غور کروں گا‘ ہر ایرے غیرے کا جواب دینے کا وقت میرے پاس نہیں ہے!‘‘ ان ہی دنوں میرا جانا کراچی ہو گیا اور وہاں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی خدمت میں بھی حاضری ہوئی تو خیال آیا کہ کچھ ہی عرصہ قبل حضرت مفتی صاحب‘ مولانا اصلاحی‘ حکیم عبد الرحیم اشرف اور جناب کوثر نیازی نے مل جل کر ایک ’’مجلس اصلاح و دعوت‘‘ تشکیل (۱) مولانا برکات احمد خاں مرحوم مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی کے قریبی اعزہ میں سے تھے اور ان سے ملاقا ت پر معلوم ہوا کہ ان کے علم میں یہ سارا واقعہ موجود ہے. دی تھی.

گویا مفتی صاحب کے اس وقت قریبی مراسم مولانا اصلاحی سے ہیں تو کیوں نہ ان سے درخواست کروں. جب میں نے حضرت مفتی صاحب کے سامنے اصلاحی صاحب کی رائے بیان کی تو انہوں نے فرمایا :’’یہ تو بڑی گمراہی ہے!‘‘ اس پر میں نے عرض کیا کہ ’’حضرت آج کل آپ کے ان سے قریبی مراسم ہیں اگر آپ متنبہ فرمائیں تو شاید اصلاح ہو جائے. اس لیے کہ ابھی تفسیر صرف ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوئی ہے. کتابی صورت میں نہیں آئی!‘‘ اس پر مفتی صاحب نے اپنی علالت اور مصروفیات کا عذر پیش کیا تو میں نے اپنی روایتی بے تکلفی کے ساتھ عرض کیا: ’’حضرت! جب کوئی فتنہ شروع ہوتا ہے تو اس وقت اس کی سرکوبی کے لیے آپ حضرات کے پاس وقت نہیں ہوتا‘ اور جب وہ جڑ پکڑ جاتا ہے اور تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو آپ لوگ تیشے اور کلہاڑیاں لے کر آتے ہیں اور پھر آپ کے کیے کچھ نہیں ہوتا!‘‘ اس پر مفتی صاحب نے وعدہ فرمایا‘ لیکن افسوس کہ کم از کم تین بار کی یاددہانی کے باوجود وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے. میں اس وقت بھی شدید متردد تھا کہ جلد دوم شائع کروں یا نہ کروں‘ لیکن مفتی صاحب کے اس واقعہ کے بعد میں نے غلط یا صحیح یہی گمان کیا کہ میں اب بریٔ الذمہ ہوں. اللہ کے یہاں جواب دہی علماء کرام کے ذمے ہو گی. چنانچہ میں نے جلد دوم شائع کر دی. بہرحال راقم کا مزاج جو بھی ہے اس کی ایک جھلک اس واقعہ میں بھی نظر آ سکتی ہے.

(۸)
جولائی اور اگست ۱۹۸۵ء کے دوران ’’بیّنات ‘‘ کراچی ‘ ’’الخیر‘‘ ملتان اور ’’تعلیم القرآن ‘‘ راولپنڈی میں جو مضامین راقم کے بارے میں شائع ہوئے ہیں ان پر راقم کا پہلا تاثر تو یہ تھا کہ ؏ ’’اک بندۂ عاصی کی اور اتنی مداراتیں‘‘. اور دوسرا وہ جو غالبؔ کے شعر کی صورت میں اس تحریر کے آغاز میں درج ہو چکا ہے. تاہم راقم کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ ان مباحث میں مزید وقت ضائع نہیں کرے گا. ان تحریروں میں اکثر و بیشتر باتیں وہی پرانی دہرائی گئی ہیں جو اس سے پہلے زیر بحث آ چکی ہیں اور راقم ان کے ضمن میں اپنا موقف شرح و بسط کے ساتھ بیان کرچکا ہے. اب تو دونوںجانب سے دعا یہ ہونی چاہیے کہ ؎

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دل اور دے ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور!

چنانچہ 
اپنے عالم یا عامی ہونے کے بارے میں‘ میں تفصیلاً عرض کر چکا ہوں. یہاں تک کہ میں تو ’’عصمت بی بی است بے چادری‘‘ کے مصداق اپنی کم علمی اور ہیچ مدانی کے اعتراف کو اپنے لیے حفاظت اور عافیت کا حصار سمجھتا ہوں (ویسے اس ضمن میں مولانا غلام النصیر چلاسی د امت فیوضہم کا ایک جملہ افادۂ عام کے لیے نقل کیے دیتا ہوں کہ جب میں نے ان سے عرض کیا کہ میں عالم نہیں ہوں تو انہوں نے فرمایا: ’’اصل علم توحید ہے. جسے یہ حاصل ہے اسے کل علم حاصل ہے‘‘. واللّٰہ اعلم!

٭ اسی طرح تقلید یا عدم تقلید یا نیم تقلید یا ’’مسلک اعتدال‘‘ یا مسلک ولی اللّٰہی کے ضمن میں بھی میں اپنی بات بیان کر چکا ہوں. اور زیر تذکرہ مضامین میں اس ضمن میں بھی کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی.

البتہ صرف ایک وضاحت اور ایک احتجاج ریکارڈ پر لے آنا ضروری سمجھتا ہوں: 
٭ وضاحت اس کی کہ میں نے اگر حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو ’’جماعت شیخ الہندؒ ‘‘ سے خارج قرار دے کر انہیں ایک ’’متوازی شخصیت‘‘ قرار دیا تھا تو اس میں خدا شاہد ہے کہ ان کی کوئی توہین یا تنقیص مقصود نہیں تھی بلکہ میرے نزدیک وہ عمر اور رتبے ہر اعتبار سے حضرت شیخ الہندؒ کے جملہ شاگردوں کے مقابلے میں امتیازی شان رکھتے ہیں. البتہ سیاسیات اور اجتماعیات میں ان کا ایک اپنا مستقل اور جداگانہ مسلک تھا جس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا. ویسے ذاتی حیثیت میں میرے نزدیک ان کا مقام حضرت شیخ الہندؒ سے نیچے اور ان کے باقی تمام شاگردوں سے بلند تر ہے.

٭ احتجاج اس پر کہ بیعت ایسے اہم دینی و علمی مسئلے پر کیا ’’البینات ‘‘اور ’’الخیر ‘‘ جیسے وقیع اور موقر علمی جرائد کے پاس بھی صرف ایک مجھ جیسے غیر عالم اور ہر اعتبار سے عامی انسان عبد المجیب صاحب ہی کی تحریر ’’حرفِ آخر‘‘ کا درجہ رکھتی ہے؟ یہ تحریر جو ملک کے ہفتہ وار جرائد کے لیے تو موزوں ہو سکتی تھی. چنانچہ ’’تکبیر‘‘ میں بھی چھپ چکی تھی اور ’’حرمت‘‘ میں بھی. کیا اس کی ان علمی اور دینی جرائد میں اشاعت کچھ لوگوں کے نزدیک ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کا مصداق قرار نہ پائے گی. اور کیا اس سے ان جرائد کے مدیران گرامی نے ان اداروں کے مؤسسین حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا خیر محمد جالندھری کے مقام اور مرتبے کو نقصان نہیں پہنچایا. میری درخواست ہے کہ اس خالص دینی اور علمی موضوع پر کوئی مسلّمہ علمی حیثیت والی شخصیت 
کلام کرے تاکہ ہمیں بھی روشنی حاصل ہو سکے. اس لیے کہ اب یہ مسئلہ زندہ ہو چکا ہے‘ اور ملک کے طول و عرض میں زیر بحث ہے اور اس سے نہ ’’صَرفِ نظر‘‘ ممکن ہے نہ ’’غض بصر‘‘. اور ظاہر ہے کہ میرے اسلامی جمعیت طلبہ کے زمانے کے برادرِ خورد عزیزم عبد المجیب سلمہٗ کا نہ یہ مقام ہے کہ وہ اس پر قلم اٹھائیں نہ یہ حیثیت ہے کہ ان کے جواب میں وقت ضائع کیا جائے. 

رہ گیا محترم مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی کا مضمون‘ تو ایک شدید مخمصے میں مبتلا ہوں کہ کیا کہوں کیا نہ کہوں. ایک جانب ان کا مقام و مرتبہ اور ان کا ادب و احترام ہے جو زبان کھولنے میں مانع ہے‘ دوسری جانب ان کی تحریر ہے جو سراسر غلط مفروضات اور احتیاطاً عرض ہے کہ جھوٹی اطلاعات پر مبنی ہے .وہ مولانا اشرف علی تھانوی کے داماد کی حیثیت رکھتے ہیں (اس لیے کہ اگرچہ مولانا تھانویؒ تو لا ولد ہی فوت ہوئے تاہم ان کی دوسری اہلیہ کی اپنے سابقہ شوہر سے ایک صاحبزادی تھیں ‘یعنی مولانا تھانویؒ کی ربیبہ جو مفتی صاحب کے گھر میں ہیں) اور غالباً اس وقت حلقہ دیوبند کے معمر ترین مفتیوں میں سے ہیں! انہیں تو اپنی عمر کی بنا پر ’’مرفوع القلم‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے. لیکن حیرت ہوتی ہے ان حضرات پر جو ان کی تحریریں شائع کر کے نقصان مایہ اور شماتت ہمسایہ کا سامان فراہم کر رہے ہیں. بہرحال میں ان کے مضمون کے بھی صرف مغالطوں کو دور کرنے کے لیے وضاحت کیے دیتا ہوں کہ: 

٭ میں نے کبھی نکاح کے خطبہ ٔمسنونہ کو ’’جنتر منتر‘‘ نہیں کہا‘ البتہ اسے جیسے بالعموم پڑھا جاتا ہے اسے ضرور جنتر منتر پڑھنے سے تشبیہہ دی ہے.

٭ میں نے خود بلا مبالغہ سینکڑوں نکاح پڑھائے ہیں (اور دوسرے نکاح خوانوں کے برعکس آج تک ایک پیسہ نہ بطور فیس لیا ہے نہ بطور ہدیہ) اور سب میں نکاح کا وہی خطبہ مسنونہ پڑھا ہے جو جملہ علماء پڑھتے ہیں. البتہ خطبہ سے قبل یا بعد خطبہ میں شامل آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ کا کبھی صرف ترجمہ بیان کر دیتا ہوں کبھی قدرے مزید وضاحت بھی‘ تاکہ خطبہ کا اصل مقصد کسی درجے میں حاصل ہو سکے.

٭ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نکاح صرف مسجد میں ہو سکتا ہے کہیں اور ہو ہی نہیں سکتا! البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ ترمذی شریف کی روایت کی روسے یہ کم از کم افضل ضرور ہے کہ عقد نکاح 
کی محفل مسجد میں منعقد ہو.

٭ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ لڑکی والوں کی طرف سے دعوت حرام ہے. البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ اس کا ثبوت کوئی نہیں ہے. اور خود اپنے اوپر پابندی عائد کی ہے کہ میں نہ کبھی ایسے نکاح میں شریک ہوں گا جو مسجد میں نہ ہو نہ لڑکی والوں کی جانب سے کسی دعوت طعام میں شریک ہوں گا (اس میں سے مؤخر الذکر پابندی کا اپنے اوپر عائد کر لینا حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے ثابت ہے). 

٭ جہیز کی رسم کو البتہ میں قطعاً غیر اسلامی قرار دیتا ہوں اور اس ضمن میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی سے ثبوت لانے والوں کی عقلوں پر ماتم کرتا ہوں کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس شادی میں آنحضور  کی حیثیت دوہری تھی: ایک طرف آپؐ دلہن کے والد ماجد تھے اور دوسری جانب دولہا کے ولی. پھر یہ صراحت بھی بعض روایات میں ملتی ہے کہ جو چند ضرورت کی چیزیں آنحضور نے اس وقت فراہم فرمائی تھیں وہ مہر کی اس رقم کے ایک حصے سے تیار کی گئی تھیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ادا کیا تھا. مزید برآں ذرا غور کیا جانا چاہیے کہ آنحضور  کی دو بیٹیاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ان کے جہیز کا ذکر بھی کہیں ملتا ہے؟ اور خود آنحضور  کے حجلۂ عروسی میں آنے کی متعدد ازواجِ مطہرات lکو سعادت حاصل ہوئی وہ کون سا جہیز لے کر تشریف لائی تھیں؟

٭ یہ ایک سراسر بہتان ہے کہ میں عیسائیوں کی نقل کرتے ہوئے دلہنوں کو بھی بے پردہ محفل نکاح میں لانا چاہتا ہوں. دوسروں کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی تلقین کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس صریح بہتان طرازی پر خود ان امور کا اہتمام فرمائیں. اس ملک میں پردہ کے ضمن میں کیا راقم ہی تجدد پسندوں کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض اور مغرب پرست بیگمات کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت انسان نہیں ہے؟ راقم نے کراچی کی ایک مسجد میں جہاں اپنی ایک عزیزہ کے نکاح کے موقع پر صدرِ مملکت جناب ضیاء الحق صاحب پہلی صف میں تشریف فرما تھے. تقریر قبل از خطبہ نکاح میں برملا سوال کیا تھا کہ جو لوگ پردہ کے قائل نہیں ہیں اور مرد اور عورت کے شانہ بشانہ ہونے کے فلسفے کے سب سے بڑے داعی ہیں وہ مجھے جواب دیں کہ اس محفل میں لڑکی کیوں موجود نہیں ہے؟ یہ اس کی زندگی بھر کا معاملہ ہے جو یہاں طے ہو رہا ہے اور ایک اتنا بڑا 
معاہدہ ہے جس کی کوئی نظیر بین الانسانی معاہدات میں پیش نہیں کی جا سکتی. پھر ایسا کیوں ہے کہ یہاں معاہدے کا صرف ایک فریق (دولہا) اصالتاً حاضر ہے‘ اور دوسرا فریق یعنی (دلہن) صرف وکالتاً حاضر ہے؟

خاص اس معاملے میں تو میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت مفتی صاحب قبلہ کو مجھ سے تو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں‘ وہ صرف اشارہ کر دیں میں خود ان کی قدم بوسی کو حاضر ہوجائوں گا ‘لیکن اللہ تعالیٰ سے ضرور استغفار کریں اور معافی کے خواستگار ہوں.

٭ اسی طرح آج تک جتنے نکاح میرے اہتمام میں مسجد میں ہوئے ان میں سے کسی میں فوٹو گرافی نہیں ہوئی‘ اور نہ ہی خواتین مسجد میں آئی ہیں. قرآن اکیڈمی کی جامع مسجد کے ساتھ ایک ہال تعمیر کیا گیا ہے جو مسجد کے حکم میں نہیں ہے. اس کے نیچے تین رہائشی کوارٹر ہیں اور اوپر بھی طلبہ کی رہائش گاہیں ہیں. خواتین صرف اس ہال میں آتی ہیں. اسی طرح مسجد دار السلام باغ جناح کے ساتھ ہی ایک لائبریری بھی ہے‘ خواتین کا اہتمام اس کے برآمدے میں ہوتا ہے یا اس سے متصل لان میں ہوتا ہے جو مسجد میں شامل نہیں ہے (اور یہ کام مفتی صاحب برا نہ مانیں‘ سالہاسال سے کراچی کی مسجد خضراء میں جہاں کے امام و خطیب تھانوی سلسلہ ہی کے ایک اہم بزرگ مولانا شمس الحسن تھانوی مدظلہٗ ہیں‘ وہاں بھی ہوتا ہے کہ مسجد سے متصل گھاس کے پلاٹ میں شامیانے لگ جاتے ہیں اور خواتین وہاں جمع ہوتی ہیں). 

بہرحال راقم اس ضمن میں تھانوی سلسلہ سے منسلک جملہ بزرگ اور نوجوان حضرات سے اپیل کرتا ہے کہ وہ حضرت مفتی صاحب کو سمجھائیں کہ وہ بزرگوں کی عزت کو اس طرح چوراہے میں لا کر رسوا کرنے سے باز رہیں. (’’میثاق‘‘ ستمبر ۱۹۸۵ء)