قولِ فیصل ’’لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ اْلاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘

قولِ فیصل ’’لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ اْلاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ کی تحقیق کے ضمن میں دو اہم خطوط

’’لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ کا حوالہ اس صدی میں سب سے پہلے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے ۱۹۱۲ء میں ’الہلال‘ میں امام مالکؒ کے قول کی حیثیت سے دیا تھا. مولانا مرحوم کو اس مقولے سے کس درجہ محبت و اُنسیت تھی‘ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تقریباً ۱۰ سال بعد نومبر ۱۹۲۱ء میں لاہور میں منعقدہ جمعیت العلماء ہند کے تیسرے سالانہ اجلاس میں اپنے تحریری خطبہ ٔصدارت میں پھر اس کا حوالہ دیا (جمعیت العلماء ہند‘ مرتبہ پروین روزینہ صاحبہ ‘جلد اول ‘صفحہ ۱۰۲) اور اس بار پھر اُسے امام مالکؒ ہی کے قول کی حیثیت سے نقل کیا. راقم نے بحمد اللہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے گزشتہ بیس سال کے دوران اسے بہت عام کیا ہے. اسی دوران میں ایک بار پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور نے فرمایا تھا کہ یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول ہے. چنانچہ میں نے بعض مواقع پر اس کی یہ نسبت بھی بیان کی‘ لیکن چونکہ نہ چشتی صاحب ہی اس کا حوالہ دے سکے نہ میں خود تلاش کر پایا‘ لہٰذا مَیں نے دوبارہ اسے امام مالکؒہی کی جانب منسوب کرنا شروع کر دیا. راقم بے حد ممنون و مشکور ہے ادارۂ فیوضاتِ مجددیہ‘شیر گڑھ‘ تحصیل و ضلع مانسہرہ کے جناب شمس مجددی کا کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس کی تحقیق کا حق ادا کر دیا‘ بلکہ اس کے جزوِ ثانی کی صورت میں علم و حکمت کا ایک اور گراں بہا موتی ہمیں عنایت فرما دیا. فَجَزَاہُ اللّٰہُ عَنَّا خَیْر الجزائِ . ہم اُن کے شکریے کے ساتھ اُن کا خط ہدیہ ٔقارئین کر رہے ہیں.

اس ضمن میں محترم مکتوب نگار نے جس اہم امر کی جانب راقم کی توجہ منعطف کرائی ہے‘ اس پر ان کے خصوصی شکریے کے ساتھ عرض ہے کہ بحمد اللہ نہ یہ امر راقم پر مخفی ہے نہ یہ حقیقت کہ خود راقم میں یہ صلاحیتیں مطلوبہ معیار کے کسی ہزارویں درجے میں بھی موجود نہیں ہیں‘ البتہ اِس 
سلسلے میں ایک تیسری حقیقت بھی ہے جو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے اور وہ کہ لا ریب یہ کام بالفعل تو اُسی شخص کے ذریعے ہو گا جس کی نشاندہی جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی ہے‘ لیکن اس کے لیے امکانی کوشش ہر صاحب ایمان کا فرض ہے. بالکل ایسے جیسے کسی فردِ واحد کی زندگی میں دعوت و تنظیم‘ تربیت و تزکیہ اور جہاد و قتال کے جملہ مراحل کا اِس حد تک طے پا جانا کہ اللہ کی زمین کے کسی قطعہ پر اُس (تعالیٰ) کا دین بالفعل غالب و قائم ہو جائے‘ تاریخ میں صرف ایک ہی بار ہوا ہے ‘یعنی سید الاولین و الآخرین اور امام الانبیاء و المرسلین  وفداہ آبائُ نا واُمہاتنا کے دست مبارک سے‘ تاہم اس کے لیے کوشش اور جدوجہد جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام نے کی. لہٰذا اگر آج کی کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی یہ ’’زعم‘‘ ہو جائے کہ یہ مہم اس کے ذریعے لازماً سر ہو جائے گی تو یہ بہت بڑا دعویٰ اور سراسر ’’مغالطہ‘‘ ہو گا. رہا خود ان سطور کا عاجز و ناچیز راقم یا اُس جیسے اور لوگ‘ تو اگر ہم اس ’’خبط‘‘ میں مبتلا ہو جائیں تو اسے خلل دماغی کے سوا اور کسی چیز سے موسوم نہیں کیا جا سکتا. ہماری تو بڑی سے بڑی آرزو یہ ہو سکتی ہے کہ ع ’’کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا‘‘ کے مصداق ہمارا شمار ان لاکھوں کروڑوں ستاروں میں ہو جائے جو خورشید کے طلوع ہونے سے قبل اپنی ہستی کو فنا کر لیتے ہیں. گویا ہم حضرتِ یحییٰ علیہ السلام کے الفاظ کے مطابق آنے والے افضلکم مقدرۃً واملکھم لِنفسہٖ‘‘ کے لیے ’’راستہ صاف کرنے والے‘‘ بن جائیں تو یہی عین سعادت ہو گی ! رزقنا اللّٰہ ذٰلک!! 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ 


ادارہ فیوضات مجددّیہ
خانقاہ فضلیہ شیر گڑھ‘ تحصیل و ضلع مانسہرہ
محترم جناب ڈاکٹر صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ
مدت سے خیال تھا کہ جناب کی توجہ عربی عبارت کے ایک مقولہ 
’’لا یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا‘‘ کی طرف مبذول کراؤں‘ جسے آپ امام مالکؒ کی طرف منسوب کرتے ہیں. آپ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپ بغیر کسی دلیل کے ایسی بات کہہ دیں. مگر میرا خلجان اس وجہ سے بھی تھا کہ مرشدی حضرت قاضی محمد حمید فضلی دام برکاتہم نے اس جملہ کو بعینہٖ حضور کی حدیث کے طور پر اپنے کسی مضمون میں تحریر کیا تھا. چنانچہ اپنے کتب خانہ میں دستیاب کتابوں میں یہ جملہ حدیث تو نہ ثابت ہو سکا اور نہ ہی ان میں حضرت امام مالکؒ کا مقولہ. البتہ حضرت امام شعرانی رحمہ اللہ علیہ کی تصنیف ’’طبقات کبرٰی‘‘ صفحہ ۱۵۱‘جلد ۱‘ پر حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ترجمہ (سوانحی تذکرہ) میں ان کی طرف یہ الفاظ منسوب ہیں: 

ان ھذا الامر لا یصلح بہ آخرہ الا بما صلح بہ اوّلہٗ و لا یحتملہ الا افضلکم مقدرۃ و املکھم لنفسہ. 

بالفرض اگر امام مالکؒ کی طرف کسی کتاب میں منسوب آپ کی نظر سے گزرا ہو تو شاید یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قول کے اتباع و روشنی میں ان کا قول ہو گا‘ جس کی ابتدائی اور بنیادی نسبت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف ہونی چاہیے. اس مقولہ کے آخری دو جملے بھی آپ کے غور و فکر کے لیے پیش ہیں‘ تاکہ اصلاحِ امت میں حضرتؓ کی فرمودہ اہلیت احتمالِ اصلاح یعنی اصلاحِ اُمت کا بیڑہ بھی وہی اٹھا سکتا ہے جو طاقت و مقدرت کے لحاظ سے افضل ہو دنیاوی اعتبار سے‘ اور روحی و قلبی اعتبار سے 
املکھم لنفسہ یعنی ضبط نفس کا حامل ہو اور ساتھ ساتھ اس کی خباثتوں پر بھی کنٹرول کر سکنے کی ہمت رکھتا ہو. اُمید کہ جناب ایک دور افتادہ‘ پسماندہ علاقہ کے ایک بھائی کی سچی بات کو قبول کرنے میں بخل نہ برتیں گے. 
والسلام
شمس مجددی

(۲

محترم جناب ڈاکٹر صاحب: زید معالیکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
میثاق فروری ۱۹۸۶ء کے شمارہ میں افکار و آراء کے ذیل میں عزیزی شمس مجددی صاحب کے مکتوب سے خوشی ہوئی کہ انہوں نے آپ کے خطاب میں بالواسطہ اس عاجز کو بھی اپنے ایک مقالہ میں’’لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بھا اوّلھا‘‘ کو حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے پر متنبہ کیا. اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقے میں اس سہو کو معاف فرمائے. یہ عاجز جب ماہنامہ ’’فیض‘‘ کے ’’عشاق رسولؐ نمبر‘‘ کے سلسلہ میں سرخیل محبین حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے حالات کے تفحص کے لیے متعلقہ کتب کی طرف متوجہ ہوا تو یہ کلمات آپ کے ایامِ مرضِ موت کے آخری خطبہ میں ملے جو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنے (پر) بعض صحابہ کی طرف سے ان کی شدتِ طبع پر تشویش کے اظہار کے جواب میں دیا تھا‘ جسے ’’کنز العمال‘‘ صفحہ ۱۴۷‘ جلد ۳‘ اور اسی طرح ’’کنز العمال‘‘ کے حوالہ سے ’’حیات الصحابہ‘‘ عربی‘ ص۳۴.۳۵‘ جلد ۲ (ہمارے پاس ’’حیات الصحابہ‘‘ کا جو ایڈیشن موجود ہے‘ وہ دہلی کا مطبوعہ ہے. اس میں یہ خطبہ ص ۲۷۲۸‘ جلد ۲ پر ہے) میں حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی (امیر تبلیغی جماعت‘ رحمہ اللہ علیہ) نے بھی ’’من یحتمل الخلافۃ‘‘ کے عنوان سے ذکر فرمایا‘ جو یہ ہے: 

یٰــآیُّھَا النَّاسُ! اُحْذُرُوا الدُّنْیَا وَ لَا تَثِقُوْا بِھَا‘ (فَاِنَّھَا) غَرَارَۃٌ وَ آثِرُوا الْاٰخِرَۃَ عَلَی الدُّنْیَا فَاَحِبُّوْھَا فَبِحُبِّ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِّنْھُمَا تُبْغَضُ الْاُخْرٰی‘ وَ اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ الَّذِیْ ھُوَ اَمْلِکُ بِنَا لَا یَصْلَحُ آخِرَہٗ اِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہٖ أوَّلَہٗ فلَاَ یَحْمِلُہٗ اِلَّا اَفْضَلُکُمْ مَقْدِرَۃً وَاَمْلَکُکُمْ لِنَفْسِہٖ اَشَدُّکُمْ فِیْ حَالِ الشِّدَّۃِ وَ اَسْلَسُکُمْ فِیْ حَالِ الشِدَّۃِ وَ اَعْلَمُکُمْ بِرَأْیِ ذَوِی الرَّأْیِ‘ لَا یَتَشَاغَلُ بِھَا بِمَالَا یَعْنِیْہِ وَلَا یَحْزَنُ بِمَا لَا یَنْزِلُ ِبہٖ وَ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ التَّعَلُّمِ وَ لَا یَتَحَیَّرُ عِنْدَ الْبَدِیْہَۃِ‘ قَوِیٌّ عَلَی الْاَحْوَالِ‘ وَ لَا یَخُوْنُ بِشَیْئٍ مِّنْھَا حِدَۃً لِعُدْوَانِ وَ لَا یَقْصِرُ وَ یَرْصَدُ بِمَا ھُوَآتٍ‘ عِتَادُہٗ مِنَ الْحَذْرِ وَ الطَّاعَۃِ وَھُوَ عُمَرَ بْنَ الْخَطابؓ . 

’’اے لوگو! دنیا سے ڈرو اور اس پر بھروسہ مت کرو‘ یہ دھوکہ باز ہے‘ آخرت کو دنیا پر ترجیح دو اور اُسے پسند کرو ‘کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی محبت دوسری سے نفرت کا باعث ہوتی ہے. یہ معاملہ جو اس وقت ہمارے لیے انتہائی اہم ہے‘ اس کا آخر اسی چیز سے اصلاح پذیر ہو سکتا ہے جس سے اس کے اول نے اصلاح پائی اور اس کی برداشت اور اس ذمہ داری کو وہی شخص نباہ سکتا ہے جو تم میں طاقت و مقدرت کے لحاظ سے بہتر ہو‘ جو ضبط نفس کے لحاظ سے پختہ تر ہو اور کسی بھی سختی کے وقت تاثر نہ لینے میں وہ سخت ہو‘ یعنی اعصابی لحاظ سے مضبوط ہو اور نرمی کے زمانہ میں وہ خوش مزاج ہو‘ مردم شناس ہو‘ اپنے اردگرد خوشامدی ٹولے سے زیادہ عقل مندوں کو ترجیح دیتا ہو. جس کے اوقات 
تعمیری ہوں اور جو اندیشہ ہائے فردا سے غم حال کی تعمیر میں منہمک ہو‘ اور جو کسی سے حصولِ علم میں حیا نہ محسوس کرتا ہو‘ جو اچانک حادثات میں ڈانواڈول نہ ہوتا ہو ‘جو معاشی استحکام کا ذہن رکھتا ہو. اپنے غصہ کی سرکشی و ظلم میں قومی دولت کی خیانت و تقصیر کا مرتکب نہ ہوتا ہو. اس کے ذہن میں سفر آخرت کی تیاری کے سامان کا خیال رہتا ہو‘ جو اللہ کا ڈر اور اس کی اطاعت ہے. ان صفات کا حامل عمر بن الخطاب ( رضی اللہ عنہ) ہے.‘‘

یہ عاجز مناسب موقع پر تلاش میں تھا کہ اپنی اس غلط نسبت کے تدارک میں کچھ لکھے اور احباب سے اپنی غلطی کا برملا اعتراف کرے. 

یہ میری خوش قسمتی ہوئی کہ مجھے بھی موقعہ مل گیا کہ میں اپنی غلطی کی تلافی کر سکوں. 
الحمد لِلّٰہ علٰی ذٰلِک کہ عزیز کے مکتوب کے سلسلہ میں جناب نے جو ذاتی وضاحت فرمائی‘ آج کے اس ماحول میں بقول حضرت مجدد علیہ الرحمۃ‘ جو اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں:

گوئے توفیق و سعادت درمیاں افگندہ اند
کس بمیداں در نمی آید‘ سواراں را چہ شد!

ہرچند سلامتی در زاویہ است اما دولت عز و شہادت در معرکہ است‘ کنج و زاویہ باہل سر و ضعف مناسب است. در حدیث آمدہ: 
اَلْمُؤْمِنُ القَوِیُّ خَیْرٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ. کار مردان اقویا‘ مبارزت و معرکہ کبری است. 

قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلًا 
(مکتوب ۵۶ ‘دفتر سوم‘ص: ۱۲۸
ہم زاویہ نشینان‘ ضعیفان بجز دعا اور کیا کر سکتے ہیں. اللہ جو دلوں کا حال جانتا ہے اپنے دین کو سربلند فرمائے. (آمین!) 
والسلام
عاجز حمید فضلی