اس تمہیدکے بعد اب میں آپ کے سامنے وہ دینی فرائض رکھ رہا ہوں جو میں نے سمجھے ہیں. میں مکرر عرض کر رہا ہوں کہ اس ضمن میں مَیں علامہ اقبال اور مولانا مودودی کا ممنونِ احسان ہوں. واقعہ یہ ہے کہ اگر مولانا مودودی مرحوم کی تحریریں زندگی کے ایک خاص مرحلے میں سامنے نہ آ گئی ہو تیں تو نہ معلوم زندگی کا رخ کیا ہوتا. حدیثِ نبویؐ کے الفاظ ہیں: مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَا یَشْکُرُاللّٰہَ یعنی جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرے گا. تو فرائض دینی کا وہ تصور جس کا بنیادی خاکہ اولاً علامہ اقبال سے ملا اور جس میں تفصیلات کا رنگ مولانا مودودی کی تحریروں نے بھرا‘اس پر میں ۱۹ برس کی عمر سے لے کر آج ۶۳ برس کی عمر تک‘یعنی ۴۴ برس سے عملاً کاربند ہوں‘الحمدللہ! اور قرآن حکیم‘حدیث ِ نبویؐ اور سیرتِ مطہرہ کے مطالعے اور سوچ بچار سے اس تصور کے اندر نہ صرف یہ کہ وثوق بڑھاہے‘ اعتماد زیادہ ہوا ہے اور اس کی گہرائی و گیرائی میں اضافہ ہو ا ہے بلکہ اس کی حقانیت زیادہ سے زیادہ منکشف ہوتی چلی گئی ہے. تو آیئے دیکھیں کہ دینی فرائض کا وہ تصور کیا ہے.