دین کی دعوت و تبلیغ یا بالفاظِ دیگر فریضۂ شہادت علی الناس ختم نبوت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے. اگرچہ جب تک نبوت جاری تھی اُس وقت بھی تبلیغ صرف نبیﷺ ہی نہیں کرتے تھے. آپ کو کہیں یہ مغالطہ نہ ہو جائے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمان لانے کے بعد حضورﷺ کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہو جاتے تھے. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ حضورﷺکی دعوت پر ایمان لائے تھے‘لیکن عشرہ مبشرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے چھ حضرات کو ابوبکرؓ دامنِ اسلام میں لائے. حضرات عثمان‘ طلحہ ‘زبیر‘سعد بن ابی وقاص‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعید بن زید رضوان اللہ علیہم اجمعین ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تبلیغی مساعی ہی سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے.
میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں سورۂ یوسف کی یہ آیت تلاوت کی تھی: قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ حضورﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ اے نبی کہہ دیجیے یہ ہے میرا راستہ‘ میں اللہ کی طرف پکار رہا ہوں. عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ میں علیٰ وجہ البصیرت بلا رہا ہوں اور وہ بھی جو میرے پیروکار ہیں. یعنی میں ایسے ہی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہا ہوں‘کوئی سیاسی کھیل نہیں کھیل رہا ہوں‘کوئی پیشہ ورانہ تقاضے پورے نہیں کر رہا ہوں‘اسے کوئی اپنا دنیوی دھندا اور جائیداد بنانے کا ذریعہ بنا کر لوگوں کو دعوت نہیں دے رہا ہوں بلکہ علیٰ وجہ البصیرت اس کام کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر کر رہا ہوں. اور اس کام میں میں تنہا نہیں ہوں‘جو میرا اتباع کرنے والے ہیں وہ بھی میرے اسی مشن میں شریک ہیں. مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ میں سے ہر ایک مبلغ تھا.
نبوت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد اب نبی تو کوئی نہیں آئے گا‘چنانچہ اب دعوت و تبلیغ کا یہ کام تمام تر امتِ مسلمہ پر بحیثیت مجموعی فرض ہو گیا ہے. میں نے یہاں ’’فرض‘‘ کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے‘کیونکہ یہ کوئی نفل نہیں ہے‘ اضافی نیکی نہیں ہے‘بلکہ یہ بنیادی فرض ہے. اس لیے کہ اُمت مسلمہ کو تمام بنی نوع انسانی پر بحیثیت ِمجموعی حجت قائم کرنی ہے تاکہ وہ قیامت کے دن کھڑے ہو کر یہ نہ کہہ سکے کہ اے اللہ تیرے دین کے ٹھیکیدار تو یہ تھے‘تیرے نبیؐ کے ٹھیکیدار بھی یہ بنے پھرتے تھے‘یہ بڑے لہک لہک کر گایا کرتے تھے ؏ ’’سارے نبیوں سے افضل ہمارا نبیؐ . ‘‘ وہ نبیؐ جس کو تو نے ہمارے لیے بھیجا تھا‘پوری نوعِ انسانی کے لیے مبعوث فرمایا تھا‘ یہ اس کو اپنا نبی بنا کر بیٹھے ہوئے تھے. قرآن تو کہتا ہے وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸) یعنی ’’ہم نے نہیں بھیجا (اے محمدﷺ ) آپ کو مگر پوری نوعِ انسانی کے لیے بشیر و نذیر بنا کر‘‘ لیکن یہ اس کے بھی ٹھیکیدار بن گئے تھے‘دین کے بھی ٹھیکیدار بن گئے تھے. ان بدبختوں نے نہ خود دین پر عمل کیا اور نہ اسے ہم تک پہنچایا‘بلکہ اپنے وجود سے‘اپنے طرز عمل سے‘اپنے کردار سے اور اپنے پورے نظامِ زندگی سے ہمارے اور تیرے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے. ہم انہیں دیکھتے یا تیرے دین کو دیکھتے؟ ہم نے تو تیرے دین کو انہی سے پہچانا.
یہ تیرے نبی محمدﷺ کے نام لیوا تھے. دنیا میں تو اصول یہ ہے کہ درخت کو پھل سے پہچا نا جاتا ہے. درخت پر آم کا پھل لگاہوا ہے تو وہ آم کا درخت ہے‘لیموں لگا ہوا ہے تو لیموں کا پودا ہے اور کِنّو لگا ہوا ہے تو کِنّو کا پودا ہے. تو یہ جو پھل ہیں اس دین کے اور رسالتِ محمدیؐ کے یہ ’’بدنام کنندگانِ نکونامے چند‘‘ ہیں‘یعنی نیکوکاروں اور نیک نام لوگوں کو بھی بدنام کرنے والے ہیں. اس طرح قیامت کے دن حجت تو الٹی ہم پر قائم ہو جائے گی‘چہ جائکہ ہم ان پر حجت قائم کرتے.