مغربی فلسفہ و فکر کی اس یلغار کے مقابلے میں اسلام کی جانب سے مدافعت کی کوششیں بھی اس دوران میں ہوئیں اور بہت سے درد مند اور دین و مذہب سے قلبی لگاؤ رکھنے والے لوگوں نے ان کے تحفظ کی سعی کی. تحفظ و مدافعت کی یہ کوششیں دو طرح کی تھیں: ایک وہ جن میں محض تحفظ پر قناعت کی گئی ہی. اور دوسری وہ جن میں مدافعت کے ساتھ ساتھ مصالحت اور کسر و انکسار کی روش اختیار کی گئی.

پہلی قسم کی کوشش وہ تھی جسے بقول مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم اصحاب کہف کی سنت کا اتباع کہا جا سکتا ہے اور جس کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ زندگی کی شاہراہ سے ہٹ کر کونوں کھدروں میں بیٹھ جاؤ اور اپنے دین و ایمان کو بچانے کی فکر کرو. اس قسم کی کوششیں اگرچہ بظاہر نری فراریت کا مظہر نظر آتی ہیں لیکن در حقیقت ان کی اساس خالص حقیقت پسندی اور اس اعتراف پر تھی کہ مغرب کی اس یلغار کے کھلے مقابلے کی سکت اس وقت عالمِ اسلام میں نہیں ہے لہذا ایک ہی راستہ کھلا ہے اور یہ کہ اس سیلاب کے راستے سے ہٹ جایا جائے، اور ہر طرح کے طعن و استہزا کو انگیز کرتے ہوئے ایمان کی سلامتی کی فکر کی جائے. اور واقعہ یہ ہے کہ کامیابی بھی تھوڑی بہت اگر کسی کو ہوئی تو صرف اسی طریق کار کے اختیار کرنے والوں کو ہوئی اور اس کے نتیجے میں امت کے ایک حصے کا ایمان بھی سلامت رہ گیا. مادہ پرستی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روحانیت کی شمعیں بھی کہیں کہیں جلتی رہ گئیں اور قال اللہ و قال الرسول کی صداؤں میں دین و شریعت کا ڈھانچہ بھی محفوظ رہ گیا... اس قسم کی کوشش کا مظہر اتم برصغیر میں دار العلوم دیوبند تھا جو کہنے کو تو صرف ایک درس گاہ تھا لیکن واقعۃً اس کی حیثیت ایک عظیم تحریک سے کسی طرح کم نہ تھی ..! 
دوسری قسم کی کوششوں کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ... زمانے کا ساتھ بھی دیا جائے اور اسلام کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے. اس مقصد کے تحت ایک طرف جدید افکار و نظریات کے صحیح و غلط اجزاء کو چھانٹ کر علیحدہ کیا جائے اور دوسری طرف اسلام کی ایسی جدید تعبیر کی جائے جس سے اس کی حقانیت ثابت ہوجائے.

اس قسم کی کوششوں میں اوّل اوّل مرعوبیّت اور شکست خوردگی کے اثرات بہت نمایاں نظر آتے ہیں. چنانچہ مغرب کی عقلیّت پرستی 
(RATIONALISM) کی کسوٹی پر ہندو مصر کے کچھ نیم متکلم قسم کے لوگوں نے اسلامی اعتقادات و ایمانیات کو پرکھنا شروع کیا. نتیجۃً اسلامی عقائد کی کتر بیونت اور ا سکے ماوراء الطبیعاتی اعتقادات کی خالص سائنٹیفک توجیہیں شروع ہوئیں. ہندوستان میں سرسید احمد خاں مرحوم اور ان کے حلقہ اثر کے لوگوں اور مصر کے مفتی محمد عبدہٗ اور ان کے تلامذہ کی نیتیں کتنی بھی نیک رہی ہوں اور انہوں نے کتنے ہی خلوص کے ساتھ اس کی کوشش کی ہو کہ اسلام کی جدید تعبیر اور ماڈرن توجیہ کرکے اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ زمانے کا ساتھ دے سکے اور اس کے حلقہ بگوش اسے اپنے ساتھ لے کر ترقی کی اس راہ پر گامزن ہوسکیں جسے یورپ نے اختیار کیا تھا لیکن یہ بہرحال امرِ واقعہ ہے کہ ان کی ان کوششوں سے دین و مذہب کی جان نکل کر رہ گئی اور مغرب کی مادّہ پرستانہ ذہنیّت کے تحت مذہب کا ایک کم و بیش لا مذہبی ایڈیشن تیار ہوا. جس کا اگر کوئی فائدہ ہوا تو صرف یہ کہ بہت سے ایسے لوگوں کو جو ذہن و فکر کے اعتبار سے ہی نہیں تہذیب و تمدن کے لحاظ سے بھی خالص یورپین بن چکے تھے اپنے اوپر سے اسلام کا لیبل اتارنے کی ضرورت نہ پڑی اور وہ مسلم قومیّت کے حلقے میں شامل رہ گئے اور دین کا یہ جدید ایڈیشن ان کی جانب سے مغرب کی خدمت میں بطور ’معذرت‘ پیش ہوگیا: