لاہور میں راقم نے حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن کا آغاز جس طرح کیا اس کا مختصر تذکرہ عام قارئین کی دلچسپی اور اس راہ کے "تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل" کے مصداق نئے ساتھیوں کی رہنمائی کے لیے مفید ہوگا. 1. تدریس عربی
اسلام پورہ (سابقہ کرشن نگر) کی کوثر روڈ (سابقہ امرت روڈ) پر ایک مکان خرید کر اپنی رہائش اور مطب شروع کرنے کے فورًا بعد میں نے آس پاس کی تین مساجد میں نمازیں ادا کرنی شروع کیں اور نمازیوں میں سے نوجوانوں سے میل جول بڑھانا شروع کیا. اور چند ہی دنوں میں ان میں سے بعض کو آمادہ کرلیا کہ وہ مجھ سے ابتدائی عربی سیکھنے کے لیے بعد نمازِ عشاء وقت نکالیں. پھر ان ہی کے ذریعے ان مساجد یا ان کے قریب کے مکانوں میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا.
اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی یاد آیا. میرے سمن آباد کے درس کے آغاز کے بعد جب لاہور میں چرچا زیادہ ہوا تو پاکستان ریلوے کے بعض سینئر افسروں نے بھی مجھ سے عربی زبان کے ابتدائی قواعد سیکھنے کی خواہش ظاہر کی. چنانچہ میں نے ہفتے میں تین دن کرشن نگر کے نوجوانوں کے لیے مختص کردیے اور تین دن ان حضرات کے لیے . میرا تیسرا بیٹا عزیزم عاطف وحید سلمہٗ ان دنوں دو ڈھائی سال کا تھا اور میرے ہی ساتھ سویا کرتا تھا، نمازِ عشاء کے بعد اسے سونے کی جلدی ہوتی تھی اور میں عربی کی کلاس میں مصروف ہوتا تھا، لہٰذا وہ بار بار آکر دیکھا کرتا تھا کہ طالبعلم رخصت ہوگئے یا نہیں. ایک روز جب اتفاق سے بزرگوں کی باری تھی، اس نے دو تین چکر لگانے کے بعد بالآخر تنگ آ کر کہا: اَبّی بچوں کو چھٹی دیدیں. اس پر پوری محفل زعفران زار ہوگئی. اس لیے کہ ان بچوں میں ایک شاہ محمد ظفر صاحب تھے جن کی نہ صرف داڑھی بلکہ پوری شکل و شباہت ماشاء اللہ بالکل مولانا احمد علی رحمہ اللہ تعالی جیسی تھی، ایک خالد احمد صاحب تھے جو اس وقت پاکستان ریلوے کے ڈپٹی چیف انجینئر تھے اور ان کا چہرہ بھی ماشاء اللہ خاصی طویل اور سفید براق داڑھی سے مزین تھا. اور باقی دو تین حضرات بھی ریلوے کے اعلیٰ افسروں میں سے تھے!
2. مرکزی درس
لاہور کے حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن میں اوّلین دو حلقے کرشن نگر میں قائم ہوئے، ایک جامع مسجد ہرن روڈ (۱) میں اور دوسرا عمر روڈ پر واقع زبیری صاحب مرحوم کے مکان پر! پھر جماعتِ اسلامی کے سابقہ تعلق کے اشتراک کی بنیاد پر تیسرا حلقہ دل محمد روڈ کے علاقے میں مولوی برکت علی صاحب کی بلڈنگ میں قائم ہوا. پھر سمن آباد میں درس شروع ہوا جس نے بعد میں لاہور کے مرکزی درس کی حیثیت حاصل کرلی.
اس کی تقریب یوں ہوئی کہ میرے پھوپھی زاد بھائی شیخ نصیر احمد صاحب نے اپنے مکان میں کچھ تعمیری تبدیلیاں اور اضافے کیے. جس سے ایک کمرہ اتنا بڑا نکل آیا کہ اس میں ستر اسی آدمی بیٹھ سکتے تھے. میں نے جب پہلی مرتبہ اسے دیکھا تو بے اختیار زبان سے.؏ . ایں خانہ بایں خوبی آتش کدہ بائیستے" کے مصداق یہ الفاظ نکل گئے: یہاں تو قرآن مجید کا درس ہونا چاہیے.میرے پھوپھا شیخ نثار احمد نے جو میرے والد مرحوم کے حقیقی تایازاد بھائی ہونے کے ناطے میرے تایا بھی تھے میرے الفاظ کو فوراً پکڑ لیا. کہ "پھر دیر کس بات کی ہے، فورًا شروع کردو" اور اس طرح اتوار کی صبح کا ہفتہ وار درس ۲۱۱- این، سمن آباد میں شروع ہوگیا. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلے ایک دو دروس میں تیس پینتیس افراد شریک تھے، پھر یہ تعداد پچاس تک پہنچی، اور چند ماہ کے اندر اندر یہ درس کمرے کی وسعت سے نکل کر باہر لان تک پہنچ گیا جس کے لیے لاؤڈ سپیکر خریدنا پڑا. (۲) اور جب بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی تو مسجد خضراء سمن آباد کی انتظامیہ کے ذمّہ دار حضرات نے جو خود (۱) جہاں میں کئی سال تک رمضان المبارک میں اعتکاف بھی کیا. اور چونکہ سلسلۂ نقشبندیہ کے بزرگ سید علاؤ الدین شاہ بھی وہیں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور اس کے دوران ان کے مسترشدین کا وہاں اجتماع ہوتا تھا اور وہ سلوک کے مسائل بیان فرمایا کرتے تھے لہٰذا میں بھی براہ راست نہ سہی بالواسطہ مستفید ہوتا رہا.
(۲) ان سطور کی تحریر کے وقت تک پھوپھی صاحبہ اور پھوپھا صاحب کا بھی انتقال ہوچکا ہے اور نہ صرف یہ کہ پھوپھی زاد بھائی شیخ نصیر احمد بھی انتقال فرما چکے ہیں بلکہ ان کے چھوٹے بھائی شیخ بشیر احمد بھی داغِ مفارقت دے چکے ہیں، جو میرے بہنوئی بھی تھے. لیکن راقم کے شعور اور حافظہ میں ان محبت بھری مجلسوں کی یاد ابھی تک تازہ ہے جو کئی سال تک ۲۱۱ این سمن آباد میں ہر جمعہ اور اتوار کو منعقد ہوتی رہیں، اس لیے کہ ہر جمعہ کی نماز اور اتوار کے درس کے بعد مسجدِ خضراء سے کرشن نگر واپسی کے دوران راستے میں وہاں لازماً ٹھہرنا ہوتا تھا اور پھوپھی صاحبہ اور پھوپھا صاحب کی شفقت بھری تواضع اور بھائی نصیر احمد صاحب کی پرخلوص مدارات کے ساتھ چائے کا (مع لوازمات) دور چلتا تھا... اور واضح رہے کہ اس سے استفادہ میں تنہا نہیں کرتا تھا . بلکہ ان دونوں مواقع پر میرے کل اہل و عیال بھی ساتھ ہوتے تھے. اس لیے کہ میں اپنے بیٹوں کو تو دوسرے تمام دروسِ قرآن میں بھی ساتھ لے جاتا تھا، جمعہ کے اجتماع اور اتوار کے درس میں تو میری اہلیہ اور بچیاں بھی لازماً شریک ہوتی تھیں. (جس کا اسی دنیا میں نقد صلہ مجھے یہ ملا ہے کہ میرے کل اہل و عیال بحمد اللہ میرے مشن میں میرے ساتھ شریک ہیں) بہرحال پھوپھا صاحب مرحوم، پھوپھی صاحبہ مرحومہ اور بھائی نصیر احمد و بشیر احمد مرحوم کا حق اس دعوت و تحریکِ قرآنی کے جملہ وابستگان اور استفادہ کنندگان (BENEFICIARIES) پر یہ ہے کہ وہ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہا کریں!
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَھُمْ وَارْحَمْھُمْ وَ اَدْخِلْھُمْ فِیْ رَحْمَتِکَ وَ حَاسِبْھُمْ حِسَابًا یَّسِیْرًا (آمین)
اور اور جب حق کی ادائیگی کا معاملہ زیرِ بحث آ ہی گیا ہے تو یقینا حق تلفی ہوگی اگر یہ ذکر نہ ہوجائے کہ جب تک میرے پاس اپنی گاڑی نہ تھی، میاں محمد رشید صاحب رسول پارک اچھرہ سے اپنی گاری پر کرشن نگر جاتے تھے اور ہم سب کو لے کر سمن آباد آتے تھے. اور پھر واپس بھی پہنچایا کرتے تھے. فجزاہ اللہ احسن الجزاء بھی پابندی سے درس میں شریک ہوتے تھے اصرار کیا کہ اس درس کو مسجد میں منتقل کردیا جائے، میں مساجد کے معاملے میں خائف تھا کہ وہاں چوہدریوں کے درمیان رسّہ کشی ہوتی ہے، لہٰذا ابتداء میں تو میں نے معذرت کی. لیکن بعد میں اس مجبوری کے باعث ان کی دعوت قبول کرلی کہ شرکاء درس اب کسی طور مکان میں نہ سما سکتے تھے اور اس طرح آٹھ دس سال کے لیے مسجد خضراء سمن آباد اس دعوت و تحریکِ قرآنی کا مرکز بن گئی.
مسجد خضراء سمن آباد کے اتوار کی صبح کے اس ہفتہ وار درسِ قرآن کی شہرت بہت جلد پورے لاہور میں اور پھر اس سے باہر دور دور تک پہنچ گئی. چنانچہ اس میں لاہور کے کونے کونے ہی سے نہیں، بیرونِ لاہور سے باضابطہ شدِّ رحال کرکے بھی لوگ شرکت کے لیے آتے تھے. لہٰذا بہت جلد اس کی حاضری دو ڈھائی سو، اور پھر تین ساڑھے تین صد تک پہنچ گئی جو بعض خاص خاص مواقع پر پانچ سو تک بھی ہوجاتی تھی (۱) ... پھر یہ درسِ اوسطاً ڈھائی گھنٹے پر محیط ہوتا تھا. اور الحمد للہ کہ اس میں سے کسی شخص کو کبھی اٹھتے نہیں دیکھا گیا. اس طرح لاہور کی دینی فضا میں یہ درس ایک دھماکےسے کسی طرح کم نہ تھا. جس سے ایک خوشگوار حیرت کا تاثر پورے لاہور اور اس کے گرد و نواح پر طاری ہوگیا کہ .؏ .
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
3. خطباتِ جمعہ
مسجدِ خضراء کے خدام اور منتظمین کا تعاون بھی اس پورے عرصے کے دوران نہایت مثالی رہا. انہیں اس پر خوشی بھی تھی کہ ان کی مسجد پورے لاہور کی توجہات کا مرکز بن گئی ہےتھوڑے ہی عرصے کے بعد ان حضرات کی طرف سے اصرار ہوا کہ جمعہ میں خطاب بھی آپ ہی فرمائیں. چنانچہ ابتداءً خطبۂ مسنونہ سے قبل خطاب... اور اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد باضابطہ خطیبِ مسجد کی ذمہ داری بھی میرے کندھوں پر آگئی... اور میں نے اس خطبۂ جمعہ کو بھی اکثر و بیشتر درسِ قرآن کی صورت ہی دی، چنانچہ خود مجھے بھی اپنے ذاتی سرور اور کیف کا عالم یاد ہے، اور بہت سے دوسرے احباب بھی آج تک ان تاثرات کا ذکر کرتے ہیں جو اس وقت پیدا ہوئے تھے جب میں نے ایک خطابِ جمعہ میں پوری سورۃ القیامۃ کا درس کھڑے ہوکر خطیبانہ انداز میں دیا تھا. بہرحال اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتوار کی صبح کے درس ہی کی مانند، جمعہ کا خطاب بھی پورے لاہور میں مشہور ہوگیا. اور اس کے لیے بھی دور دور سے لوگ آنے لگے یہاں تک کہ مسجد اپنی وسعت کے باوجود تنگ پڑگئی! (۱) جن میں سے کبھی کبھی ایک شخصیت مرحوم ضیاء الحق کی بھی ہوتی تھی.
اور یہ ظاہر ہے کہ مجھے بہت بعد میں خود ضیاء الحق مرحوم ہی کے بتانے سے معلوم ہوا، ورنہ اس وقت چار پانچ صد افراد میں کون کون شامل ہیں اس کے جاننے کا کوئی ذریعہ میرے پاس موجود نہیں تھا. مسجدِ خضراء سمن آباد میں اس دعوتِ قرآنی کو جو پذیرائی حاصل ہوئی اس پر میں خود، اور میرے قریبی ساتھی سب کے سب، شدید حیران تھے.. لیکن بالآخر اس کا راز ایک روز کھل ہی گیا. آج کے عقلیت زدہ بلکہ گزیدہ لوگ تو شاید اس بات پر ناک بھوں چڑھائیں. لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسجد خضراء کی اس استثنائی کیفیت کا اصل راز جو مجھے ایک دن اچانک معلوم ہوا یہ تھا کہ اس کا سنگِ بنیاد اس مردِ درویش نے رکھا تھا جسے دنیا مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تعالی کے نام سے جانتی ہے اور جس نے خود بھی پورے چالیس سال تک ارضِ لاہور پر درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا تھا. گویا معاملہ وہی تھا جو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ ؎
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثبات و دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
4. مسجدِ شہداء
افسوس ہے کہ خود ہمیں لوگوں کی سہولت، اور اس قرآنی دعوت و تحریک کی مصالح کے پیشِ نظر اس درس کو لاہور کے سب سے زیادہ مرکزی مقام یعنی مسجدِ شہداء ریگل چوک میں منتقل کرنا پڑا، اس لیے کہ شہر سے سمن آباد جانے والے تمام راستے ٹریفک کی اصطلاح میں بوتلوں کی گردنوں (BOTTLE-NECKS) کی حیثیت رکھتے تھے جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی! چنانچہ مسجدِ شہداء میں درس کی حاضری مسجدِ خضراء سے بھی بڑھ گئی. وہاں بھی راقم نے پہلے مطالعۂ قرآنِ حکیم کا منتخب نصاب ہی بیان کیا. بعد ازاں جب وہاں قرآن حکیم کا آغاز سے سلسلہ وار درسِ قرآن شروع ہوا اور سورۃ الفاتحہ زیرِ درس آئی اور ایک صاحبِ خیر کی جانب سے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر آیت بسم اللہ و سورۃ الفاتحہ ہدیۃً تقسیم ہوئی تو معلوم ہوا کہ درس میں سات سو افراد شریک تھے. (اس لیے کہ کتاب کے سات صد نسخے تقسیم ہوئے!)
لاہور کے اتوار کی صبح کے اس مرکزی درسِ قرآن کی یہ رونقیں ۱۹۷۷ء تک لگ بھگ دس سال تک روز افزوں رہیں. لیکن ۱۹۷۷ء میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کے خاتمے کے قریب اتوار کی بجائے جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا تو اس درس کی رونقیں رفتہ رفتہ ختم ہوگئیں. اس لیے کہ جمعہ کے دن خطبہ و نمازِ جمعہ کے ساتھ کسی اضافی پروگرام کا معاملہ ناقابل عمل ہے. چنانچہ کچھ عرصہ تو یہ بھی ہوا کہ جمعہ ہی کو صبح 9 بجے سے گیارہ بجے تک درس کی نشست رکھی گئی. اور پھر وہیں سے شرکاء درس براہِ راست جمعہ کی نماز کے لیے روانہ ہوئے. پھر کچھ عرصہ یہ کوشش کی گئی کہ اسی مسجد میں جہاں جمعہ کا خطاب ہوتا تھا پہلے باضابطہ چوکیاں لگا کر درس کی نشست ہوتی تھی اور پھر معمول کے مطابق خطابِ جمعہ اور خطبۂ مسنونہ و نماز ، لیکن رفتہ رفتہ یہی محسوس ہوا کہ یہ ایک تکلف ہے. چنانچہ خطابِ جمعہ ہی پر قناعت کرنی پڑی. چنانچہ اب لاہور کے اتوار کی صبح کے مرکزی درس قرآن کی صرف سہانی یادیں باقی رہ گئی ہیں.
خطابِ جمعہ کے سلسلے میں بھی ۱۹۷۷ء کی قومی اتحاد کی تحریک کے دوران جس نے رفتہ رفتہ عوامی احساسات و جذبات کے اعتبار سے تحریکِ نظامِ مصطفٰے ﷺ کی صورت اختیار کرلی تھی، چونکہ میں نے اسے ایک خالص سیاسی تحریک قرار دیا اور اس میں شمولیت اختیار نہ کی، مسجدِ خضراء میں کچھ صورتِ حال خراب ہوئی. اور بعض بد اندیشوں کو ریشہ دوانی کا موقع مل گیا. چنانچہ خطابِ جمعہ بھی اوّلاً پنجاب یونیورسٹی کے نیوکمپس کی مسجد میں اور بالآخر مسجد دارالسلام، باغِ جناح میں منتقل ہوگیا. یہاں یہ سلسلہ بحمد اللہ، ان سطور کی تحریر کے وقت تک بخیر و خوبی جاری ہے، آئندہ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ
5. مسجد دارالسَّلام باغِ جناح
مسجدِ خضراء کی طرح مسجد دار السلام کا بھی ایک خاص تاریخی پس منظر ہے، جو قارئین کی دلچسپی کا موجب ہوگا. جس مقام پر اب یہ خوبصورت مسجد بنی ہوئی ہے، وہاں بہت پہلے سے صرف ایک کچا چبوترا (پنجابی "تھڑا) ہوتا تھا. جہاں اکثر و بیشتر شام کو باغ کی سیر کے لیے آنے والوں میں سے چند، اور اسی طرح صبح کی سیر کرنے والے بعض حضرات نماز ادا کرلیا کرتے تھے. راقم الحروف کو اب تک یاد ہے کہ ۵۲.۵۱ء میں فرسٹ اور سکینڈ پرافیشنل ایم بی بی ایس کی تیاری کے لیے راقم بھی کبھی کبھی مسجد سے متصل گلستان فاطمہ میں مطالعے کے لیے بیٹھتا تھا تو ظہر کی نماز اسی چبوترے پر ادا کیا کرتا تھا. بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں بھی اتوار کی صبح مولانا محمد علی قصوری درس دیتے ہیں، ایک بار میں بھی کسی طرح وقت نکال کر شریک ہوا تو میرے اور مدرس سمیت کل سات آدمی اس چبوترے کی زینت تھے. اس چبوترے پر باضابطہ مسجد کی تعمیر کرنل سلامت اللہ مرحوم کا وہ کارنامہ ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ اس مسجد کے نمازیوں کے شکریے اور دعائے خیر کے مستحق رہیں گے. وہ خود ریٹائرڈ فوجی، اور نہایت دبنگ انسان تھے اور انہوں نے ان تمام مغرب زدہ سول افسروں سے بھرپور جنگ لڑی جو اس خوبصورت سیر گاہ کے حسن کو مسجد کے وجود سے بدنما بنانے پر تیار نہیں تھے.
(چنانچہ ایک بار تو انہیں ایک کمشنر صاحب کے چہرے پر باضابطہ تھپڑ بھی رسید کرنا پڑا) بہرحال انہوں نے بڑی محنت و مشقت اور جانفشانی وہ صرفِ کثیر سے "ادارۂ دار السلام" جو ایک مسجد اور ایک لائبریری پر مشتمل ہے تعمیر کرایا. اور ا سکے بعد ۷۷ء میں مجھ سے کہنا شروع کیا کہ مسجد دار السلام میں اپنے مشن کو جاری رکھوں . میں اب چونکہ مساجد کے بارے میں پھر بد دل ہوگیا تھا لہٰذا معذرت کرتا رہا تا آنکہ ایک روز وہ ستر پچھتر سالہ، طویل القامت، اور قوی الجثہ انسان جس کی آواز بھی بھاری اور دبنگ تھی میرے مکان کے باہر کرسی بچھا کر انتہائی مسکینی کے انداز میں یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھوں گا جب تک تم میری فرمائش قبول نہیں کروگے. چار و ناچار میں نے حامی بھر لی. چنانچہ وہ دن اور آج کا دن مسجد دارالسلام، باغِ جناح، لاہور کا اجتماعِ جمعہ. ونماز عیدین پاکستان بھر میں تو مشہور ہیں ہی، بیرونِ ملک بھی جانے پہچانے جاتے ہیں. یہاں تک کہ ۸۳.۸۲ کے دوران جبکہ مغربی تہذیب کی دلدادہ خواتین کی جانب سے میری شدید مخالفت، اور مرحوم ضیاء الحق صاحب کی مجلسِ شوریٰ سے میرے استعفے کے باعث میرا نام بیرون ملک بھی بہت اچھل گیا تھا، مسجد دار السلام کے اجتماعِ جمعہ. کا ذکر اور اس کے فوٹو وال اسٹریٹ جرنل نیویارک، ٹورنٹو اسٹار کینیڈا، اور لاس اینجلز ٹائم کیلیفورنیا تک میں شائع ہوئے.
6. حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن
لاہور میں حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن کہاں کہاں قائم رہے، اس کا کوئی ریکارڈ نہ تو محفوظ ہے، نہ ہی اس کی چنداں ضرورت ہے. یہ حلقے جیسے کہ آغاز میں عرض کیا گیا تھا، کرشن نگر سے شروع ہوئے اور پھر دل محمد روڈ، ساندہ، ڈھولنوال، پنجاب یونیورسٹی اسٹاف کالونی، انجینئرنگ یونیورسٹی کے ہاسٹلز، ایم اے او کالج، میڈیکل کالج ہاسٹل کی مسجد، گڑھی شاہو میں حاجی عبدالواحد مرحوم کا مکان، اقبال کالونی، علامہ اقبال روڈ کی مسجد، رفاہِ عام ہال شادباغ، برکت علی اسلامیہ ہال مسجد بیرون شاہ عالمی گیٹ، آل پاکستان اسلام ایجوکیشن کانگریس کے آفس واقع ۷ فرینڈز کالونی، ملتان روڈ اور نمعلوم کہاں کہاں قائم رہے. گویا کم از کم لاہور کی حد تک تو ؎
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
والا معاملہ ہوگیا.
ان میں سے بعض کے اجتماعات ہفتہ وار ہوتے تھے اور بعض کے پندرہ روزہ، چنانچہ جمعہ اور اتوار کے روز تو اکثرتین تین درس یا خطاب ہوجاتے تھے! پھر ان میں سے اکثر میں تو مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب مکمل بیان ہوا. بعض میں اس کی بھی تلخیص ہی بیان ہو پائی.
بہرحال ان میں راقم کی جو توانائیاں صرف ہوئیں ان کے ضمن میں راقم کو تو اس وقت بھی پورا اطمینان تھا اور آج بھی کامل اطمینان ہی نہیں انشراح و انبساط ہے کہ ...؎ "جان دی دی ہوئی اسی کی تھی. حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا". کے مصداق وہ توانائیاں اور قوتیں اللہ ہی کی عطا کردہ تھیں اور اگر اس ہی کے کلام کے اِفشا (حدیثِ مبارک میں الفاظ وارد ہوئے ہیں (وَاَفْشُوْہُ) و اشاعت میں صرف ہوگئیں تو ان کا اس سے بہتر اور کیا مصرف ممکن تھا! البتہ بعض بزرگوں نے جو تنبیہ کی تھی اس کی صداقت بہت جلد ظاہر ہوگئی. مثلاً شیخ سلطان احمد صاحب، کراچی، نے انگریزی محاورے کے حوالے سے متنبہ کیا تھا کہ آپ تو اپنی شمع صرف دونوں اطراف ہی سے نہیں بیچ میں سے بھی جلا رہے ہیں. اور مولانا جعفر شاہ پھلواروی مرحوم نے فرمایا تھا کہ: "آپ کیا غضب کر رہے ہیں! ہم تو جب جمعہ پڑھایا کرتے تھے تو معمول یہ ہوتا تھا کہ پورا جمعرات کا دن یا آرام کرتے تھے یا جمعہ کے خطاب کے بارے میں سوچ بچار، اور پھر نہ صرف یہ کہ جمعے کے دن نہ صبح کوئی کام کرتے تھے نہ شام کو، بلکہ ہفتہ کا دن بھی کامل آرام کرتے تھے!.
بہرحال میری اعتدال سے بڑھی ہوئی جانفشانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۷۰ء میں صحت نے ایک دم جواب دے دیا، جس کی تفصیل میں اپنی دوسری تحریر میں درج کر چکا ہوں. قصہ مختصر یہ کہ اواخر ۷۰ء میں میں اس دوراہے پر کھڑا تھا کہ چناں کن یا چنیں کے مصداق یا تو یہ دعوت و تحریکِ قرانی جس حد تک آگے بڑھ آئی ہے اس سے بھی قدرے پسپائی اختیار کرکے اسے SEAL کردیا جائے کہ بس اس سے زیادہ نہیں، یا پھر میڈیکل پریکٹس کو خیر باد کہہ کر "ہمہ تن اور ہمہ وقت" اسی میں لگ جایا جائے. اور الحمدللہ کہ فروری ۷۱ء میں حج کے موقع پر ارضِ مقدس میں حتمی طور پر مؤخر الذکر فیصلہ کرکے راقم واپس آیا اور آتے ہی مطب بند کردیا اور جملہ اوقات اور کل توانائیاں اسی ایک کام پر مرتکز کردیں تو مارچ ۷۱ء سے اس دعوت و تحریک کی رفتار پہلے سے ایک دم کئی گنا بڑھ گئی . چنانچہ ایک جانب تو اس کا لاہور سے باہر دائرہ اثر جو اس وقت تک صرف میثاق اور دوسری مطبوعات یا گاہے گاہے بیرونی اسفار تک محدود تھا ایک دم بہت وسعت اختیار کر گیا (اس کا تفصیلی ذکر اس دعوت و تحریک کے دورِ ثانی کی روداد کے ضمن میں آئے گا) اور دوسری جانب ۲۱مارچ ۱۹۷۲ء کو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام عمل میں آ گیا اور یہ دعوت و تحریک اپنے دوسرے دور میں داخل ہوگئی.
۶. آغاز سے سلسلہ وار درسِ قرآن
لاہور کے ان حلقہ ہائے مطالعۂ قرآن اور مرکزی درس کے ضمن میں اس بات کا بھی ذکر ہوجائے تو اچھا ہے کہ مسجد خضراء میں راقم نے آغاز میں منتخب نصاب کا درس دیا تھا، اس کی تکمیل پر شروع سے مسلسل درسِ قران شروع ہوا. پھر اک بار کسی سبب سے قدرے وقفہ ہوا تو دوبارہ پھر ایک بار منتخب نصاب کا اعادہ کیا. اور اس کے بعد مسلسل درس جاری کیا. پھر مسجد شہداء میں بھی اولاً منتخب نصاب ہی بیان ہوا، اس کے بعد وہاں بھی آغاز سے مسلسل درس شروع کردیا. اس طرح ایک زمانے میں لاہور میں ان دو مقامات پر مسلسل درس جاری تھا. (بعد میں مسجد خضراء کا درس مسجد دار السلام میں منتقل ہوگیا.) لیکن افسوس کہ اتوار کی صبح کی نشست کے ختم ہوجانے کے باعث اس مسلسل درس کا سلسلہ بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ سکا. چنانچہ ان سطور کی تحریر کے وقت تک یہ درس اٹھائیسویں پارے کے اختتام تک پہنچ سکا ہے. مزید افسوس کی بات یہ کہ اگرچہ بہت سے حصوں کے دروس ٹیپ میں محفوظ ہیں، اس کی مکمل اور مسلسل ریکارڈنگ محفوظ نہیں ہے. اور اگرچہ بہت سے احباب کا شدید تقاضہ ہے کہ ایک بار از سرِ نو سورۃ الفاتحہ سے آغاز کرکے پورے قرآن حکیم کے درس کو ٹیپ میں محفوظ کرلیا جائےاور فی الوقت "قرآن آڈیٹوریم" کا جو عظیم منصوبہ زیر تکمیل ہے اس کی بنیاد میں بھی یہی خواہش یا آرزو کار فرما ہے. لیکن اپنی عمر اور صحت کی کیفیت کے پیش نظر اس کی امید بہت ہی کم ہے. الا ان یشاء اللہ. اور ظاہر ہے کہ اس کی شان یقیناً یہ ہے کہوَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰۤی اَمۡرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱﴾ اور ہمارا ایمان بھی یہ ہے کہ ہوگا وہی جو وہ چاہے گا! اور ہمارے شایانِ شان تو یہی ہے کہ اس کی رضا پر راضی رہیں!
۸. کچھ ذاتی، اور بعض ناقدین کے تاثرات
دوسرے ان دروس کے بارے میں خود میرے اپنے اور دو دیگر حضرات کے تاثرات کے ذکر پر مشتمل میری تحریر. جو دسمبر ۱۹۷۶ کے میثاق میں اس وقت شائع ہوئی تھی جب مولانا امین احسن اصلاح سے میرے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے، اور ان کی جانب سے میری مخالفت کی مہم شدت کے ساتھ جاری تھی.
اور اس عاجز پر اللہ کا یہ بڑا فضل ہے ... اور سب سے بڑھ کر اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اس دعوت کا آغاز نہ کسی مصنف کی تصانیف سے ہوا نہ کسی خطیب کے خطبات و تقاریر سے بلکہ بحمد اللہ درسِ قران سے ہوا. اور اللہ کی کتاب کی ترجمانی اور افہام و تفہیم میں بھی بفضلہ تعالیٰ وعونہٖ، کسی ایک لکیر کی فقیری نہیں بلکہ ابوالکلام اور ابو الاعلی کی دعوتِ جہاد کا عنصر بھی شامل ہے اور فراہی اور اصلاحی کے تفکر و تدبرکا (۱) جوہر بھی، اور شیخ الہند اور شیخ الاسلام کے احوالِ باطنی و نکاتِ روحانی کی چاشنی بھی موجود ہے اور ڈاکٹر اقبال کے جذبۂ ملی کی حرارت (۱) یہ بات اب تو یقیناً مولانا اصلاحی اور ان کے بعض شاگردوں کو بہت ناگوار ہوگی. لیکن غالباً مولانا بھولے نہ ہوں گے جناب وحید الدین خاں صاحب، مؤلفِ تعبیر کی غلطی اور مدیر مجلہ الرسالہ دہلی کی شہادت جو انہوں نے راقم کے بعض دروس میں شمولیت کے بعد مولانا کے سامنے دی تھی کہ راقم کے درس میں فکرِ فراہی کے اثرات سموئے ہوئے ہیں اور اگر یہ یاد نہ ہو تو بھی مولانا کے اپنے وہ الفاظ تو مطبوعہ موجود ہیں جو انہوں نے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق پر تقریظ میں تحریر فرمائے تھے کہ . اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے قلم میں برکت دے کہ وہ ایسی بہت سی چیزیں لکھنے کی توفیق پائیں. ہماری بہت سی عزیز امیدیں ان سے وابستہ ہیں. عجب اتفاق ہے کہ اسی کے لگ بھگ الفاظ مولانا سید سلیمان ندوی نے مولانا حمید الدین فراہی کی وفات پر تعزیتی مضمون میں ان کے تلامذہ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا اصلاحی کے بارے میں لکھے تھے کہ جن میں قابل ذکر مولوی امین احسن اصلاحی ہیں، ہماری آئندہ توقعات ان سے بہت کچھ وابستہ ہیں. اور ان کی اور ڈاکٹر رفیع الدین کی علومِ جدید اور فکر جدید پر قرآن حکیم کی روشنی میں جرح و تنقید کی کڑوی کونین بھی! یہی وجہ ہے کہ ناقدین نے تو یہ کہا ہے کہ آپ کے درس کے بارے میں یہ بات بہرحال ماننی پڑتی ہے کہ اس سے ہر شخص کچھ نہ کچھ ضرور لے کر اٹھتا ہے اور احباب کا کہنا یہ ہے کہ اس میں حد درجہ جامعیت ہوتی ہے. اگر ان کا خیال کسی بھی درجے میں صحیح ہے اور جامعیت سے کوئی حصہ راقم کو فی الواقع ملا ہےتو یہ سراسر فیض ہے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی سے انسِ قلبی، مناسبتِ ذہنی اور کسی درجے میں نسبتِ روحانی کا. اور اگر ان کا خیال مطابقِ واقعہ نہیں تب بھی راقم رب العزت سے خواست گار ہے کہ وہ اسے اس جامعیت کبریٰ میں سے قدر قلیل ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ حصہ ضرور عطا فرما دے جس کا مظہر اتم تھے بارہویں صدی ہجری میں امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی اور چودھویں صدی ہجری میں شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ تعالی ... گویا بقول اقبالؔ
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
اور ظاہر ہے کہ اللہ کی شانِ کریمی سے یہ بعید بھی نہیں.؏ .
شاہاں چہ عجب گر بنوا زند گدارا
۹. مولانا اصلاحی کا درسِ قرآن و حدیث
کرشن نگر میں جیسے ہی میرے حلقۂ درس شروع ہوئے، میں نے ایک ہفتہ وار درس، قرآن و حدیث مولانا امین احسن اصلاحی کا بھی شروع کرا دیا. جو ابتداءً میرے ہی مکان پر ہر اتوار کی سہ پہر کو ہوتا تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد ہیرن روڈ کی مسجد میں منتقل ہوگیا. اس درس میں ابتداءً تو حاضری اچھی رہی لیکن جلد ہی محسوس ہوا کہ مولانا کے علمی مقام اور سامعین کی ذہنی سطح کے مابین فرق و تفاوت بہت زیادہ ہے لہٰذا لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی چلی گئی. ادھر کچھ عرصہ کے بعد مولانا شدید علیل ہوگئے. اور یہ علالت بھی کچھ اعصابی اور کچھ ذہنی تھی. لہٰذا یہ سلسلۂ درس بھی منقطع ہوگیا. یہ الفاظ ہیں مولانا اصلاحی کے شاگردِ رشید. خالد مسعود صاحب کے برادرِ نسبتی ڈاکٹر انوار احمد بگوی کے جو راقم کے کرم فرماؤں، اور شدید ناقدوں میں سے ہیں.