اسی طرح نئے نوجوان ساتھیوں کے اس تعلیم و تعلم قرآن کے مبارک کام میں عملاً شریک ہونے اور گویا تنظیم اسلامی کی داغ بیل پڑنے پر راقم کے جو تاثرات تھے ان کا اندازہ میثاق دسمبر ۷۶ء کے تذکرہ و تبصرہ (جس کے بعض اقتباسات پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں) کا حسبِ ذیل اقتباس مفید ہوگا:
ویسے اب راقم بحمد اللہ حضرت اکبر کے اس شعر کہ ؎
دیوانۂ چمن کی سیریں نہیں ہیں تنہا
عالم ہے ان گلوں میں پھولوں میں بستیاں ہیں
اور فیض کے اس شعر کہ : ؎
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیم صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے، اشکوں سے منور جاتی ہے
اور اقبالؔ کے اس شعر کہ ؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں!
کے مصداق بالکل یکہ و تنہا نہیں ہے. بلکہ اسے اللہ نے ہمراہیوں اور ہم سفروں کی ایک معتد بہ تعداد اور اعوان و انصار کی اچھی بھلی جمعیت عطا فرما دی ہے اور اس کی دس سالہ مساعی کو رب العالمین نے اس درجہ بار آور کیا ہے اور ایسا شرف قبول عطا فرمایا ہے کہ راقم خود حیران ہے. واقعہ یہ ہے کہ راقم پر علامہ اقبال کے ان اشعار کی صداقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ ؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں.
اور ؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
چنانچہ لاہور، کراچی اور سکھر تو راقم کی دعوتِ قرآنی اور درس قرآن کے بڑے سے مراکز رہے ہی ہیں، گزشتہ دس سالوں کے دوران راقم اس پیغام کو لے کر ایک جانب گوجرانوالہ، شیخوپورہ، وزیر آباد ، گجرات، جہلم، سرگودھا، جوہر آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، واہ، ٹیکسلا اور تربیلا تک گیا ہے اور دوسری جانب ساہیوال، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خاں، صادق آباد، حیدر آباد اور کوئٹہ تک. اور نہ صرف یہ کہ تین عظیم الشان سالانہ قرآن کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں بلکہ لاہور اور کراچی میں دو دو بار، اور کوئٹہ اور راولپنڈی میں ایک ایک بار قرآنی تربیت گاہیں قائم کی جا چکی ہیں. اور ان پر مستزاد ہیں سلسلۂ مطبوعات کے ذریعے دعوتِ قرآنی کی توسیع اور دوسرے ذرائع نشر و اشاعت کے ذریعے لوگوں کی توجہات کو قرآن حکیم کی جانب منعطف کرنے کی کوششیں. مثلاً لاہور کے عوامی میلوں، رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات اور یومِ اقبال کی تقریبات میں اخباری اشتہاروں ، پوسٹروں اور ہینڈ بلوں کے علاوہ دس دس ہزار کی تعداد میں دعوت الی اللہ اور راہ نجات ایسے کتابچوں کی تقسیم اور آخری مگر کمترین نہیں،قرآن اکیڈمی کی تعمیر کا آغاز جس پر ان سطور کی تحریر کے وقت تک کم و بیش پانچ لاکھ روپیہ صرف ہوچکا ہے.. اور ان سب کا حاصل یہ کہ درس قرآن کا چرچا تو بحمد اللہ دور دور تک ہے ہی کم از کم پاکستان کے طول وعرض میں راقم کا نام "دعوتِ رجوع الی القرآن" کی علامت بن گیا ہے! ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء.
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ