انجمن کی تاسیس چونکہ نومبر ۷۲ء میں ہوئی تھی لہٰذا نومبر ۸۲ء میں عشرۂ تقاریب کا اہتمام کیا گیا. اس سلسلہ کی ابتداء ایک مجلسِ مذاکرہ سے ہوئی جو "اصلاح معاشرہ اور قرآن حکیم" کے موضوع پر جناح ہال لاہور میں مولانا سید وصی مظہر ندوی صاحب رئیس بلدیہ حیدر آباد سندھ کے زیر صدارت منعقد ہوئی. اس مجلس کے مہمان خصوصی جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب چیئرمین اسلامک آئیڈیالوجی کونسل پاکستان تھے. ان کے علاوہ پروفیسر حافظ احمد یار، علامہ سید غلام شبیر بخاری،پروفیسر مرزا محمد منور، اور چوہدری مظفر حسین، نے مقالات پیش کیے یا تقریریں کیں، ڈاکٹر اسرار احمد گزشتہ دو ہفتوں سے مسجد دار السلام باغ جناح لاہور میں اصلاحِ معاشرہ کا انقلابی تصور اور قرآن حکیم کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے رہے تھے. چنانچہ اس کے تسلسل میں موصوف نے سب سے آخر میں اسی موضوع پر تقریر کی.
دس سالہ تقاریب کے عشرہ کے پروگرام میں نو دن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے درسِ قرآن کے لیے مختص کیے گئے تھے. چنانچہ تین دن یعنی ۱۳ تا ۱۵ نومبر ۸۲ء مسجد شہداء لاہور میں روزانہ عصر تا مغرب اور بعد مغرب تا عشاء چھ نشستوں میں سورۃ الحج کے آخری رکوع کی چھ آیات کا جو دین کے فلسفہ و حکمت اور اس کے اساسی مطالبات کے موضوع پر قرآن حکیم کے جامع ترین مقام کی حیثیت رکھتی ہیں، ڈاکٹر صاحب نے درس دیا. درس قرآن کا چھ روزہ مزید پروگرام ۱۶ تا ۲۱ نومبر ۸۲ءجناح ہال لاہور میں رکھا گیا تھا. جس میں سورۃ حدید اور سورۃ صف کے درس کا اہتمام تھا. یہ دونوں سورتیں خطاب بہ امت مسلمہ اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے ضمن میں قرآن حکیم کے ذروۂ سنام کا مقام رکھتی ہیں. بعد میں سورۃ جمعہ کا درس بھی شامل کرلیا گیا تھا جو انقلاب محمدی کے اساسی نہج کی رہنمائی کے ضمن میں ایک اہم خصوصیت کی حامل سورۃ ہے. ڈاکٹر صاحب کے سورۃ حدید کے درس سے قبل جناب پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے سورۃ حدید کی خصوصیات پر ایک گھنٹہ خطاب فرمایا. جناح ہال میں یوں تو اس سے قبل بھی ڈاکٹر صاحب کے دروس قرآن حکیم اور خطابات ہوتے رہے ہیں لیکن اس ہال میں مسلسل چھ روز تک ڈاکٹر صاحب کے دروس پہلی بار ہوئے اور الحمد للہ کہ نہایت کامیاب رہے. ہال میں سامعین کا ذوق و شوق دیدنی تھا. تِل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی. ہال کے باہر بھی بہت سے لوگ کھڑے ہوکر سنتے تھے. پورا مجمع اعجازِ قرآنی اور دل سوز و پرتاثیر اندازِ خطاب سے مبہوت و مسحور ہوتا تھا.
قرآن حکیم کی ان سورتوں کے مضامین و مفاہیم اور مطالب و مباحث کی جامعیت تو مسلم ہے ہی. اس پر مستزاد ڈاکٹر صاحب کا اسلوب بیان انداز تعلیم و تفہیم اور پرتاثیر خطابت. گویا سونے پر سہاگہ تھا.