مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام دو سالہ تدریسی کورس کے سالِ اول کی روداد

(ماخوذ از حکمتِ قرآن، مئی ۱۹۸۵ء)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور ۱۹۸۲ء میں قائم ہوئی تھی. 

اس کے پیش نظر جہاں (۱) عربی زبان کی تعلیم وترویج (۲) قرآن مجید کے مطالعے کے عام ترغیب و تشویق اور (۳) علومِ قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت ایسے عمومی مقاصد تھے وہاں (۴) ایسے نوجوانوں کی مناسب تعلیم و تربیت جو تعلیم و تعلمِ قرآن کو مقصدِ زندگی بنا لیں اور (۵) ایک ایسی قرآن اکیڈمی کا قیام جو قرآن حکیم کے فلسفہ و حکمت کو وقت کی اعلی ترین علمی سطح پر پیش کرسکے. ایسے معین منصوبے بھی تھے .

قرآن اکیڈمی کا سنگِ بنیاد ۱۹۷۶ء میں رکھا گیا. 

پانچ سال کے عرصے میں تعمیرات کی معتد بہ حد تک تکمیل اور راقم الحروف اور بعض رفقائے کار کی رہائش اور انجمن کے دفاتر کی منتقلی کے ابتدائی اقدامات کے بعد ۱۹۸۱ میں متذکرہ بالا معین ہدف کی جانب پیشقدمی کا آغاز ہوا. 

چنانچہ ۱۹۸۲ء میں قرآن اکیڈمی فیلوشپ اسکیم کا اجراء ہوا. جس میں ۷ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان تعلیم و تعلم قرآن کے لیے پوری زندگی وقف کرنے کے عزم کے ساتھ شریک ہوئے. 
راقم الحروف کے لیے یہ امر نہایت موجب اطمینان و امتنان ہے کہ قرآن حکیم کی ہدایت 
" قوا انفسکم و اھلیکم نارا" اور اور دعوت و اصلاح کے عمل کے اصل الاصول یعنی "الاقدم فالاقدم" کے عین مطابق اور ایک انگریزی کہاوت "CHARITY BEGINS AT HOME" 
ان نوجوانوں کی دو سالہ تدریس کی تکمیل کے بعد محسوس ہوا کہ جذبہ اور خلوص کے با وصف تخلیقی و تحقیقی کام کی صلاحیت و اہلیت سب لوگوں میں نہیں ہوتی. چنانچہ ان میں سے دو نوجوانوں کو تو ان کی خواہش پر آزاد کردیا گیا کہ وہ اپنے اپنے CAREERS کو جاری رکھتے ہوئے آزادانہ دین کی خدمت اور دعوت و تبلیغ میں اس صلاحیت و استعداد کو بروئے کار لائیں جو انہیں دو سالہ تدریس سے حاصل ہوئی ہے. باقی پانچ نوجوان بحمد اللہ مزید حصولِ علم کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے انجمن کے تحت دعوتی و تبلیغی، تدریسی و تعلیمی اور تنظیمی و انتظامی شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں.

گذشتہ سال فیصلہ کیا گیا کہ پوری زندگی کو وقف کرنے کا عہد 
(COMIITMENT) لیے بغیر ذرا زیادہ تعداد میں نوجوانوں کو ایک دو سالہ تدریسی کورس میں شرکت کی دعوت دی جائے اور ضرورت ہو تو انہیں ان کے تعلیمی معیار کی مناسبت سے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائے. پھر ان میں سے جو لوگ تخلیقی و تحقیق کام کی صلاحیت و استعداد کے حامل نظر آئیں انہیں مستقل فیلوشپ سکیم میں شامل کرلیا جائے. 

اس کے لیے اصلاً تو انہی لوگوں کو ترغیب دلائی گئی جو ایک عرصے سے راقم الحروف کے ساتھ وابستہ ہیں اور انجمن خدام القرآن یا تنظیمِ اسلامی میں سرگرمِ عمل ہیں لیکن ایک دعوتِ عمومی کے لیے اس اسکیم کی تشہیر جرائد کے ذریعے بھی کی گئی. جس کے نتیجے میں اخبارات کے صفحات میں بعض حاسدین اور ناقدین کی جانب سے چہ میگوئی 
(CONTROVERSY) بھی شروع کی گئی جس کا بروقت جواب دے دیا گیا. 

بحمد اللہ اس دو سالہ تدریسی کورس کا پہلا تعلیمی سال اس شعبان المعظم میں مکمل ہوگیا ہے. لہذا اس کا ایک جائزہ پیشِ خدمت ہے. 

(۱). اس کورس کا آغاز چالیس شرکاء سے ہوا تھا. لیکن دورانِ سال مختلف اسباب کی بنا پر نو شرکاء ہمت ہار گئے. ایک صاحب ایک ماہ کی تاخیر سے شامل ہوئے اس طرح پہلے تعلیمی سال کی تکمیل کرنے والے شرکاء کی تعداد بتیس ہے. 
(۲). ان میں ایک تقسیم اس اعتبار سے ہے کہ چالیس سال سے زائد عمر کے شرکاء چھ ہیں، تیس اور چالیس سال کے مابین گیارہ اور تیس سال سے کم عمر کے پندرہ. 
(۳). ایک دوسری تقسیم اس اعتبار سے ہے کہ بیس خود کفیل اور غیر مؤظف تھے. جبکہ صرف بارہ شرکاء کو مختلف مقدار میں ماہانہ وظیفہ دیا گیا. 
(۴). ان کی تعلیمی قابلیت کا چارٹ حسب ذیل ہے: 
ایم بی بی ایس ۲ بی ڈی ایس ۱
بی وی ایس سی ۱ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ۱
بی ایس سی انجینئرنگ (مکینکل) ۲ بی ایس سی، اے ایم آئی ،سی (سول) ۱
ایم ایس سی ۲ ایم اے ۳ 
بی ایس سی ۲ بی اے ۸
ایف اے ۴ مختلف ڈپلومہ ہولڈرز ۵
دو سالہ تدریسی کورس کے سالِ اول کی تکمیل کرنے والے شرکاء میں سے بعض کا معاملہ واقعۃً قابلِ ذکر ہی نہیں قابلِ رشک اور قابل تقلید بھی ہے لہذا ان کا ذکر کیا جا رہا ہے. 

(۱). ڈاکٹر نسیم الدین خواجہ کی عمر ۵۰ برس ہے. اور وہ وسن پورہ اور شادباغ کے علاقے کے مصروف ترین میڈیکل پریکٹیشنر ہیں لیکن انہوں نے اس کورس کے دوران صرف شام کا مطب کرنے اور صبح کا پورا وقت خالص طالب علمانہ انداز میں حصولِ علم میں مشغول رہنے کی جو مثال قائم کی ہے وہ یقینا قابل رشک ہے. 

(۲). بالکل یہی معاملہ میرے برادرِ خورد وقار احمد سلمہٗ کا ہے کہ انہوں نے بھی ۴۴ سال کی عمر میں اور ایک مصروف کاروباری زندگی گزارنے کے باوصف (وہ کئی تعمیراتی ٹھیکے لینے والی اور تعمیراتی سامان بنانے والی کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں) بالکل طالب علمانہ انداز میں عربی زبان کے ابتدائی قواعد یاد کیے. اور ثقیل تعلیم کو خندہ پیشانی سے پوری پابندئ وقت کے ساتھ نباہا اور امتحانات میں اکثر اعلیٰ پوزیشن حاصل کرتے رہے. 

(۳). ایک اعتبار سے ان دونوں سے بھی بڑھ کر مثال قائم کی ہے. میاں محمد رشید صاحب نے کہ ساٹھ برس کی عمر میں پوری پابندی کے ساتھ تحصیلِ علم میں لگے رہے اور بہت سوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال بن گئے. 

(۴). ایک اور اہم مثال میاں محمد نعیم صاحب کی ہے. (عمر ۲۹ سال) جو جیالوجیکل سروے آف پاکستان میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں اور کوئٹہ میں تعینات ہیں. انہوں نے بلا تنخواہ رخصت حاصل کی. اہل و عیال سمیت شدِّ رحال کیا اور خالص طالب علمانہ انداز میں علمِ حاصل کیا. 
(۵). اسی سے ملتا جلتا معاملہ میرے دامادِ کلاں محمود عالم میاں کا ہے جو ایم ایس سی کیمسٹری ہیں اور پی سی ایس آئی آر میں کام کرتے ہیں. انہوں نے بھی رخصت حاصل کی اور اپنی اہلیہ (میری بڑی بچی) سمیت اس کورس میں شرکت کی. الحمد للہ کہ دونوں کا ریکارڈ بہت اچھا رہا بلکہ میری بچی نے بفضلہٖ تعالیٰ تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود حیرت انگیز ترقی کی اور بہت سے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کی. 

(۶). ایسی ہی ایک قابل تقلید مثال چوہدری رحمت اللہ بٹر صاحب کی ہے وہ اے جی آفس میں سپرنٹنڈنٹ ہیں لیکن انہوں نے بھی طویل رخصت حاصل کی اور اپنی بچی سمیت اس کورس میں شرکت کی. ان دونوں باپ بیٹی نے بھی بحمد اللہ نمایاں استعداد حاصل کی. 
(۷). میرے دوسرے داماد ڈاکٹر عبدالخالق بی ڈی ایس ڈینٹل سرجن نے بھی اپنا مطب صرف شام 
کے اوقات میں کرلیا اور اس کورس میں باضابطہ شرکت کی. 

(۸). ایک اور بہت شاندار مثال اشفاق احمد صاحب کی ہے کہ وہ تازہ تازہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنے ہیں، اور حال ہی میں ایک معقول ملازمت کا آغاز ہوا تھا. میں نے ایک بار ان سے سرسری طور پر کہہ دیا کہ کیوں نہ آپ بھی اس کورس میں شرکت کرلیں. اس اللہ کے بندے نے فوراً اپنی فرم سے بات کرکے اپنے کام کے لیے شام کے اوقات طے کرالیے اور اگرچہ ان کی تمام کی تمام تعلیم انگریزی سکولوں میں ہوئی تھی اور عربی کجا اردو تک سے بہت کم شناسائی تھی تاہم انہوں نے شدید محنت کرکے اس کلاس کے ساتھ قدم ملا کر دکھا دیے! اللہ مزید ہمت عطا فرمائے اور دین کے لیے ہمہ تن قبول فرما لے!

(۹). ایسی ہی ایک اور شاندار مثال محمد صادق صاحب کی ہے. یہ تینتیس سالہ نوجوان بی ایس سی ہیں اور سعودی عرب میں ایک تعمیراتی فرم میں میٹرل انسپکٹر کی حیثیت سے کئی ہزار ریال ماہانہ پر ملازم تھے. انہوں نے جیسے ہی میثاق میں اس کورس کا اعلان پڑھا فوراً ملازمت کو خیر باد کہی اور کورس میں آ شامل ہوئے. اگرچہ وہاں کے معاملات کو نبٹانے میں کچھ وقت لگ گیا. چنانچہ ان کی کورس میں شمولیت ایک ماہ تاخیر سے ہوئی. 

(۱۰). اسی طرح جاوید اسلم صاحب نے جو بی ایس سی مکینکل انجینئر ہیں اور ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں اپنی ڈیوٹی مستقلاً شام کی شفٹ میں لگوائی. اور اس کورس میں شرکت کرلی. 

. کراچی کے محمد یامین صاحب کی مثال بھی قابلِ رشک ہے. وہ ایم اے اسلامیات کے علاوہ آٹو موبائل میں ڈپلومہ رکھتے ہیں اور پاکستان کی فضائی فوج میں ملازم ہیں. انہوں نے بھی وہاں سے بلا تنخواہ رخصت حاصل کی ، بمع اہل وعیال لاہورآئے اور کورس میں شرکت کی!
(۱۲). ایسی ہی مثال ایک پٹھان نوجوان محمد سلیمان کی ہے، جو مردان کے رہنے والے ہیں اور مرکزی حکومت کے کسی محکمے میں سٹینو ٹائپسٹ ہیں انہوں نے بھی بلا تنخواہ رخصت حاصل کی اور کورس میں شریک ہوگئے. 

(۱۳). صوبہ سرحد کے ایک اور نوجوان اختر منیر نے ایم اے اسلامیات کے بعد کراچی میں ایل ایل بی داخلہ لے لیا تھا اور پڑھائی شروع کردی تھی کہ اچانک اخباری اعلان نظر سے گذرا. اور وہ ایل ایل بی کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے اس کورس میں آ شریک ہوئے. 

(۱۴). اس کورس کے بقیہ شرکاء میں سے بھی ہر ایک کا معاملہ کسی نہ کسی اعتبار سے قابلِ ذکر ہے لیکن بغرضِ اختصار بقیہ حضرات کے صرف نام اور تعلیم کوائف درج کیے جا رہے ہیں:. 
حافظ خالد محمود ایم اے اسلامیات میانوالی
اسد الرحمن فاروقی بی ایس سی انجینئرنگ مکینکل کراچی
محمد اسلم قاضی بی وی ایس سی لاہور
عبدالرزاق بی اے لاہور محمد اشرف. بی اے. لاہور 
جاوید رفیق بی اے لاہور مختار احمد خان بی اے لاہور
کلیم الرحمن بی اے لاہور غلام سلطان بی اے آزاد کشمیر
محمد غوری صدیقی ڈپلوما ان سول انجینئرنگ لاہور
شکیل احمد ایف اے لاہور محمد افتخار تاج ایف اے لاہور
نعیم اختر ایف اے لاہور محمد ارشد چیمہ ایف اے لاہور
شعیب الرحیم انصاری ایف اے کراچی
میاں ساجد حمید ڈپلوما ان الیکٹرانکس لاہور
محمد اشرف بیگ ڈپلوما ان کامرس لاہور

(۱۵). چونکہ رفاقت سکیم کے ضمن میں آیت قرآنی 
قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ کا ذکر ہوا تھا، لہذا یہاں مناسب ہے کہ تحدیثاً للنعمۃ یہ ذکر بھی ہوجائے کہ اس دو سالہ کورس کے ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ کی ایک حقیر سی مثال پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی. اس ضمن میں بھائی، بیٹی اور دو دامادوں کا ذکر اوپر آ چکا ہے. اس لسٹ کی تکمیل ہوتی ہے میرے ایک اور داماد اور حقیقی بھتیجے عزیزم حمید احمد سلمہٗ کے ذکر پر جو بی ایس سی ہیں اور متعدد تعمیراتی لمیٹڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں لیکن بحمد اللہ کہ اس کورس میں بھی پوری تندہی اور پابندی سے شریک رہے ہیں اور ان کے والد اور میرے برادر خورد اقتدار احمد سلمہٗ کا ارادہ ہے کہ اپنی اولاد میں سے انہیں دین کی خدمت کے لیے بالکلیہ وقف کردیں. اللہ تعالیٰ قبول حسن سے نوازے. (آمین) 

افسوس صد افسوس کہ ہمارے خاندان کا یہ گلِ نوشگفتہ قضاء الہی کو کچھ زیادہ ہی پسند آگیا. اور. ع. چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا. کے مصداق اسے تقدیر کے دستِ حنائی نے چن لیا. اور اللہ نے اسے ہمارے لیے توشۂ آخرت کے طور پر قبول فرمالیا. چنانچہ ۲۷ ستمبر ۸۶ء کو آں عزیز اپنے بہنوئی اور ہمارے بھانجے عبداللہ طاہر کے ساتھ ایک سڑک کے حادثے میں راہئ ملک بقا ہوگئے. 

انا اللہ و انا الیہ راجعون.

ہم ان تمام ادھیڑ عمر اور نوجوان شرکاء کورس کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرنے میں اور دعا کرتے ہیں کہ جو استعداد انہوں نے اس محنت و مشقت اور ایثار و قربانی سے حاصل کی ہے وہ دین کی خدمت میں باحسن و جوہ استعمال ہو.

یہ تذکرہ بھی نامکمل رہے گا اور شدید حق تلفی بھی ہوگی اگرہم یہاں استاذ مکرم حافظ احمد یار صاحب کا شکریہ ادا 
نہ کریں. جنہوں نے نہایت جانفشانی و تن دہی اور دلی لگن کے ساتھ تدریس فارسی و عربی کے فرائض سر انجام دیے. اور اپنے شاگردوں کے دلوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے اور صحت و عافیت سے رکھے تاکہ وہ انجمن خدام القرآن اور قرآن اکیڈمی کے ساتھ اپنا عملی تعاون اسی طرح جاری رکھ سکیں. 
حافظ صاحب محترم سے انجمن خدام القرآن سے دلچسپی رکھنے والے اکثرحضرات بخوبی واقف ہیں اس لیے کہ وہ انجمن کے زیر اہتمام جملہ قرآن کانفرنسوں اور تمام محاضرات قرآنی میں بلا استثناء واحد حصہ لیتے رہے ہیں. غیر متعارف حضرات کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ حافظ صاحب پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامیہ میں اسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں علومِ دینی میں مہارت کے علاوہ فنِ تدریسی میں خصوصی ملکہ عطا فرمایا ہے اور ان شاء اللہ وہ ہمارے اس تدریسی پروگرام کے مستقل مدرِّس رہیں گے. 

اسی طرح کا ایک شکریہ واجب ہے علامہ سید غلام شبیر بخاری صاحب کے لیے جنہوں نے گاہے گاہے تکلیف فرما کر ان طالبان علم کو فارسی کی ادبیات عالیہ بالخصوص مولانا رومی اور علامہ اقبال مرحوم کے کلامِ ترجمان القرآن سے متعارف کرایا.

اسی طرح حدیث رسول اللہ  کے مطابق سخت نا انصافی اور حق تلفی ہوگی اگر ان حضرات کا بھی شکریہ ادا نہ کیا جائے جنہوں نے اس دو سالہ تدریسی اسکیم کے ضمن میں انجمن کے ساتھ خصوصی مالی تعاون کیا. 

اس موقع پر یاد آیا کہ لگ بھگ چھ ماہ قبل جب پاکستان کے اخبارات میں اس دو سالہ تدریسی کورس پر چہ میگوئی کا سلسلہ جاری تھا اور بعض حضرات کی تحریروں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سخت اچنبھے میں ہیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد ایسے درویش کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آگیا کہ وہ ایک ایک ہزار اور آٹھ آٹھ سو روپے وظیفہ دینے کو تیار ہے. چنانچہ کچھ لوگوں نے "حسبِ عادت" کچھ اشارے کنایے میں امریکی، یا سعودی امداد کی بات (یعنی ڈالر اور پیٹرو ڈالر کی بات) بھی کی تھی تو اس کے ضمن میں ذہن بے ساختہ منتقل ہوا تھا سورۃ المنافقون کی اس آیۂ مبارک کی جانب: 

ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا ؕ وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۷﴾ تاہم یہ بات تو برسبیل تذکرہ قلم پر آگئی، اصل میں عرض یہ کر رہا تھا کہ ان دنوں محترم ڈاکٹر شیر بہادر خان پنّی (ایبٹ آباد) کا ایک خط راقم کے نام آیا تھا جس میں انہوں نے تحریر فرمایا تھا کہ "تم مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کے قائم کردہ "دار الارشاد" کا نام تو لیتے ہو لیکن کیا انہوں نے بھی وظائف دیے تھے. اور کیا معاوضے اور تنخواہ پر ایسا عظیم الشان اور جلیل القدر کام ہوسکتا ہے" (روایت بالمعنی) اس وقت تو میں نے ان کے ادب و احترام کے باعث انہیں اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن. آج ان کی اور ان کی طرز پر سوچنے والے دوسرے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ دیکھ لیجیے! ہماری اس اسکیم ۳۲ بلکہ (دو بچیوں سمیت) ۳۴ شرکاء میں سے صرف ۱۲ مؤظف ہیں اور بیس بلکہ ۲۲ غیر مؤظف . اس میں ہرگز کوئی شک نہیں ہے کہ اصل بات یہی ہے کہ لوگوں میں اس درجہ جذبہ پیدا کردیا جائے کہ وہ ایثار اور قربانی سے کام لیں. اور حتی الامکان رضاکارانہ بلا معاوضہ خدمات سر انجام دیں. لیکن اس تصور پسندی، یعنی (DEALISM) کے ساتھ ساتھ ہمیں واقعیت پسندی یعنی (REALISM) کے دامن کو بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑ دینا چاہیے. ہمارے یہاں کے معاشی و معاشرتی حالات میں کتنے نوجوانوں کے لیے یہ بالفعل قابل عمل ہے کہ وہ اپنی کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کی تکمیل کے بعد خالص دین کے علم کی تحصیل بھی اپنے ذاتی اخراجات خود برداشت کرتے ہوئے کرسکیں. ظاہر ہے کہ اکثر حالات میں قابل عمل (PRACTICABLE) شکل یہی ہے کہ اس کام کی ابتداء کو آسان بنایا جائے پھر ان میں سے جو واقعۃً اپنے اندرونی جذبہ سے متحرک (MOTIVATE) ہوجائیں گے. وہ ان شاء اللہ فاقے برداشت کرکے بھی کام کرتے رہیں گے.