كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ﴿7﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا مشرکوں کے لئے (جنہوں نے عہد توڑ ڈالا) خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عہد کیونکر (قائم) رہ سکتا ہے؟ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کے نزدیک عہد کیا ہے اگر وہ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی اپنے قول وقرار (پر) قائم رہو۔ بیشک خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
پابندی عہد کی شرائط 
اوپر والے حکم کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے شرک و کفر کو چھوڑ نے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے والے ہی نہیں۔ ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شریف ٨ ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی۔ رب العالمین نے مکہ آپ کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ کے بس کر دیا۔ وللّٰہ الحمد والمنہ لیکن آپ نے باوجود غلبہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا سب کو آزاد کر دیا انہی لوگوں کو طلقاً کہتے ہیں۔ یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہوگئے ۔ رحمتہ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارماہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں انہی میں صفوان بن اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے انکی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا۔ اللہ تعالٰی اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے۔