(8) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کو صحیح سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی، اس بناء پر اسے حدیث کے خلاف سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ وہ حدیث کے عین مطابق ہو تا ہے۔ اس قسم کی غلطیوں میں بعض مشہور اہلِ علم بھی مبتلاء ہو گئے ہیں مثلاً مشہور اہلِ حدیث عالم حضرت مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ نے تعدیلِ ارکان کے مسئلہ میں حنفیہ کے موقف پر اعتراض لکھا ہے!"حدیث شریف میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت ؐ کے سا منے نماز پڑھی، اس نے رکوع و سجود اطمینان سے نہیں کیا، آنحضرتﷺ نے اسے تین دفعہ فرمایا صلِ فانک لم تصل(تم نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی) یعنی شرعاً تمہاری نماز کا کوئی وجود نہیں، اسی حدیث کی بناء پر اہلِ حدیث اور شوافع وغیرہم کا بھی یہی خیال ہے کہ اگر رکوع و سجود میں اطمینان نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی، احناف فرماتے ہیں رکوع و سجود کے معانی معلوم ہو جانے کے بعد ہم حدیث کی تشریح اور نماز کی نفی قبول نہیں کر تے" ( تحریکِ آزادیِ فکر ص32)۔

حالانکہ یہ حنفیہ کے مسلک کی غلط ترجمانی ہے، واقعہ یہ ہے کہ حنفیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ رکوع اور سجدہ تعدیل کے ساتھ نہ کیا جائے تو نماز واجب الاعادہ ہو گی لہٰذا وہ "صل فانک لم تصل" پر پوری طرح عمل پیراہیں، البتہ حقیقت صرف اتنی ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک "فرض" اور"واجب" میں فرق ہے جبکہ دوسرے ائمۂ مجتہدین ان دونوں اصطلاحوں میں فرق نہیں کر تے، امام ابو حنیفہؒ یہ فرماتے ہیں کہ نماز کے فرائض وہ ہیں جو قرآنِ کریم یا متواتر احادیث سے قطعی طریقہ پر ثابت ہوں، جیسے رکوع و سجدہ وغیرہ۔ اور واجبات وہ ہیں جو اخبارِ احادیث سے ثابت ہوں، عملی طور پر اس لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں کہ جس طرح فرض کو چھوڑنے سے نماز دوہرائی جائے گی اسی طرح واجب کو چھوڑ نے سے بھی دوہرائی جائے گی، لیکن دونوں میں یہ نظری فرق ہے کہ فرض کو چھوڑ نے سے آدمی تارکِ نماز کہلائے گا اور اس پر تارک نماز کے احکام جاری ہونگے اور واجب کو چھوڑ نے سے تارکِ نماز نہیں کہلائے گا۔ بلکہ نماز کے ایک واجب کا تارک کہلائے گا، بالفاظِ دیگر فرض نماز تو ادا ہو جائے گی، لیکن اس پر واجب ہو گا کہ وہ نماز کو لوٹائے اور یہ بات حدیث کے مفہوم کے خلاف نہیں، بلکہ اس بات کی تصریح خود اسی حدیث کے آخر میں موجود ہے، جامع ترمذی میں ہے کہ جب آنحضرتؐ نے ان صاحب سے یہ فرمایا کہ "صل فانک لم تصل" ( نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی)تو یہ بات صحابہؓ کو بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں تخفیف کرنے والوں کو تارکِ نماز قرار دیا جائے، لیکن تھوڑی دیر بعد جب آپﷺ نے ان صاحب کو نماز کا صحیح طریقہ بتاتے ہوئے تعدیلِ ارکان کی تاکید فرمائی، تو ارشاد فرمایا:۔

فاذا فعلت ذالک فقد تمت صلٰوتک وان انتقصت منہ شےئاً انتقصت من صلاتک(جب تم یہ کام کرو گے تو تمہاری نماز پوری ہو گی اور اگر اس میں تم نے کمی کی تو تمہاری نماز میں کمی واقع ہو جائیگی۔

حضرت رفاعہؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں فرماتے ہیں! وکان ہذا اہون علیہم من الاولیٰ انہ من انتقص من ذالک شےئاً انتقص من صلاتہ ولم تذہب کلہا(جامع ترمذی) اور یہ بات صحابہؓ کو پہلی بات سے زیادہ آسان معلوم ہوئی کہ ان چیزوں میں کمی کرنے سے نماز میں کمی تو واقع ہو گی لیکن پوری نماز کالعدم نہیں ہو گی۔

حدیث کا یہ جملہ صراحتاً وہی تفصیل بتا رہا ہے جس پر حنفیہ کا عمل ہے، حنیفہ حدیث کے ابتدائی حصہ پر عمل کرتے ہوئے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ تعدیلِ ارکان چھوڑ نے سے نماز کو دہرانا پڑے گا اور آخری حصہ پر عمل کرتے ہوئے اس کے بھی قائل ہیں کہ اسکو چھوڑنے سے آدمی کو تارکِ نماز نہیں کہیں گے بلکہ نماز میں کمی اور کوتاہی کر نے والا کہیں گے۔

اس تشریح کے بعد غور فرمائیے کہ حنفیہ کے موقف کی یہ ترجمانی کہ وہ "حدیث کی تشریح قبول نہیں کر تے" ان کے مسلک کی کتنی غلط اور الٹی تعبیر ہے۔ بہر حال مقصد یہ تھا کہ بعض اوقات حنفی کے کسی مسلک پر اعتراض کا منشاء یہ ہو تا ہے کہ مسلک کی قرار واقعی تحقیق نہیں کی جاتی۔

یہ چند اصولی باتیں ذہن میں رکھ کر حنفیہ کے دلائل پر غور کیا جائیگا تو انشاء اللہ یہ غلط فہمی دور ہو جا ئے گی، کہ حنفیہ کے استدلال ضعیف ہیں یا وہ قیاس کو حدیث پر ترجیح دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ایک مجتہد کو یہ تو حق ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ کے کسی استدلال سے اختلاف کرے، یا انکے کسی قول سے متفق نہ ہو، لیکن انکے مذہب پر علی الاطلاق ضعف کا حکم لگا دینا یا کہنا کہ وہ قیاس کو حدیث پر ترجیح دیتے ہیں ظلمِ عظیم سے کم نہیں۔