قاضی ابن ابی لیلیٰ بڑے مشہور فقیہ اور صاحب الراء تھے۔ تیس برس کوفہ میں منصبِ قضا پر مامور رہے۔ ایک دن قاضی صاحب اپنے کام سے فارغ ہو کر مجلسِ قضا سے اٹھے۔ ایک پاگل عورت کو دیکھا کہ کسی سے جھگڑ رہی ہے دورانِ گفتگو عورت نے اس شخص کو "یا ابن الزانیتین یعنی "زانی اور زانیہ کے بیٹے" کہہ کر گالی دی۔ قاضی صاحبؒ نے حکم دیا کہ عورت گرفتار کر لی جائے۔ پھر قاضی صاحب مجلسِ قضا میں واپس آئے اور حکم دیا کہ عورت کو کھڑا کر کے درّے لگائیں اور دو حدیں ماریں ایک ماں کو زنا کی تہمت لگانے کے وجہ سے اور ایک باپ کو۔ امام ابو حنیفہ نے سنا تو فرمایا اس حد لگانے میں قاضی ابن ابی لیلیٰ نے چھ غلطیاں کیں۔

اول یہ کہ وہ مجنونہ یعنی پاگل تھی اور مجنونہ پر حد نہیں۔ دوسری مسجد میں حد لگوائی حالانکہ رسولﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ تیسری اسے کھڑا کر کے حد لگوائی جبکہ عورتوں پر حد بیٹھا کر لگائی جاتی ہے۔ چوتھی اس پر دو حدیں لگوائیں جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک لفظ سے اگر کوئی پوری قوم پر تہمت لگائے تو بھی ایک ہی حد واجب ہوتی ہے۔ پانچویں حد لگانے کے وقت اس آدمی کے ماں باپ موجود نہیں تھے حالانکہ ان کا حاضر ہونا ضروری تھا کیونکہ انہیں کی طلب پر حد لگ سکتی تھی، قاضی صاحب کو مقدمہ کر نے کا کیا اختیار تھا؟ چھٹی دونوں حدوں کو جمع کر دیا حالانکہ جس پر دو حد واجب ہوں، جب تک پہلی خشک نہ ہو جائے دوسری نہیں لگا سکتے۔

قاضی ابن ابی لیلیٰ نہایت برہم ہوئے اور گورنر کوفہ سے جا کر شکایت کی کہ ابو حنیفہ نے مجھ کو تنگ کر رکھا ہے۔ گورنر نے امام ابو حنیفہؒ کو فتویٰ دینے سے روک دیا۔ چند روز کے بعد گورنر کوفہ کو اتفاق سے فقہی مسائل میں مشکلات پیش آئیں اور امام ابو حنیفہؒ کی طرف رجوع کرنا پڑا جس کی وجہ سے امام صاحبؒ کو پھر فتویٰ دینے کی عام اجازت ہو گئی۔