قتادہ بصریؒ جن کا مختصر حال امام صاحب کے اساتذہ کے ذکر میں ہم لکھ آئے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ کوفہ آئے اور اعلان کرا دیا کہ "مسائلِ فقہ میں جو پوچھنا ہو پوچھو میں ہر مسئلہ کا جواب دونگا۔" چونکہ وہ مشہور محدث اور امام تھے بڑا مجمع ہوا۔ ابو حنیفہؒ بھی موجود تھے فرمایا"آپ اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کئی برس اپنی بیوی اور بال بچوں سے دور رہا اس کی بیوی کو اس کے موت کی خبر دی گئی تو بیوی نے سمجھا کہ وہ مر گیا۔ عدت گزارنے کے بعد اس کی بیوی نے دوسرا نکاح کرلیا اور اس سے اولاد ہوئی چند روز کے بعد وہ شخص واپس آیا۔ پہلے شوہر نے کہا میرا لڑکا نہیں ہے اور دوسرے نے کہا میرا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ آیا دونوں اس عورت پر زنا کا الزام لگاتے ہیں، یا صرف وہ شخص جو ولدیت سے انکار کر تا ہے، حضرت قتادہ جواب نہ دے سکے تو فرمایا "یہ صورت ابھی پیش آئی ہے؟" امام صاحب نے کہا "نہیں لیکن علماء کو پہلے سے تیار رہنا چاہئے کہ وقت پر تردد نہ ہو۔"

قتادہ کو فقہ سے زیادہ عقائد میں دعویٰ تھا بولے کہ ان مسائل کو رہنے دو عقیدہ کے متعلق جو پوچھنا ہوپوچھو۔" امام صاحب نے کہا"آپ مومن ہیں؟" قتادہ نے فرمایا"امید رکھتا ہوں" امام ابو حنیفہؒ نے قتادہ سے پوچھا "آپ نے یہ امید کی قید کیوں لگائی؟" انہوں نے جواب دیا "حضرت ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ مجھ کو امید ہے کہ خدا قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف کر دے گا۔" امام ابو حنیفہ نے کہا"اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے سوال کیا کہ اولم تومن تو انہوں نے جواب میں "بلیٰ" کہا تھا یعنی ہاں میں مؤمن ہوں۔ آ پ نے حضرت ابراہیمؑ کے اس قول کی کیوں تقلید نہ کی؟ قتادہؒ ناراض ہو کر اُٹھے اور گھر چلے گئے۔ (تاریخِ بغداد)

امام ابو حنیفہؒ کا کہنا یہ ہے کہ ایمان اعتقاد کا نام ہے جو شخص خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہو وہ قطعاً مؤمن ہے اور اس کو سمجھنا چاہیے کہ میں مؤمن ہوں البتہ اگر اس میں شک ہے تو قطعی کافر ہے۔