اسلامی زمانہ (۶۲۲ء سے ۷۵۰ء مطابق ۱ھ سے ۱۳۲ھ ’’رسول اللہ صلعم خلفائے راشدین اور بنو اُمیہ کا زمانہ )

رسول اللہ صلعم اور خلفائے راشدین کا زمانہ زمانہ جاہلیت کے آخری دور میں اور اسلام کے آنے سے تھوڑے پہلے تک عرب قوم بدستور اپنی فطری بدوی زندگی گزارتی تھی۔  چنانچہ ان کے معاشرہ میں نہ علوم و فنون کا رواج تھا اور نہ کوئی بندھا ٹکا ملکی اور سماجی قانون تھا۔  قبیلہ کے دستور اور رواج قانون تھے اور شیخِ قبیلہ حاکمِ مطلق۔  نہ صنعت تھی نہ حرفت نہ تجارت تھی اور نہ زراعت انتقام اور بدمعاملگی اور لاقانونیت نے ایک طرف نراج کا سا عالم طاری کر رکھا تھا تو دوسری طرف علمی و ادبی افلاس کا دور دورہ تھا۔  اس حالت میں اسلام کا ظہور ہوا اور اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں عربوں کی ایسی کایا پلٹ کر دی کہ وہ ایک عظیم الشان سلطنت کے مالک بن گئے اور تیر اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے انہوں نے ایک ایسا صالح اور پاک سماج تعمیر کیا جس میں روحانی غذا کے ساتھ مادی وسائل کی بھی حریت ناک فراوانی ہوئی اور علم و فضل نے بے مثال پیش رفت کی۔  سیاسی اور سماجی اعتبار سے اسلام نے ساری قوم کو ایک جھنڈے ، ایک رہبر، ایک نظامِ حکومت، ایک زبان اور ایک ایسی بامعنی زندگی کے قابل میں ڈھال دیاجس کی بنیاد قرآن اور سنت رسول پر تھی۔  قرآن کریم قرآن مجید میں ۱۱۴ سورتیں ہیں۔  ان میں سے ۹۱ مکہ میں نازل ہوئیں اور ۲۳ مدینہ میں۔  مکی سورتوں میں اسلام کی دعوت دی گئی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا بلا شرکت غیر ے ایک ہے ، وہ قادرِ مطلق ہے ، زمینوں اور آسمانوں میں اسی کا حکم کی کارفرمائی ہے۔  اسی لیے صرف وہی عبارت اور بندگی کے لائق ہے وہی پیدا کرتا اور وہی مارتا ہے۔  ہر آدمی کو مر کر دوبارہ زندہ ہو کراس کے سامنے جانا ہے اور دنیا میں جو کچھ کیا ہے۔  اس کا حساب و کتاب دینا ہے اور اس کے مطابق اچھے کام کا انعام اور برے کام کی سزا پانی ہے۔  مدینہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں اسلام کے ارکان دینی مثلاً نماز روزہ حج زکوٰۃ اور ان کے ادا کرنے کے طریقوں کا بیان ہے۔  اور چوں کہ یہاں سے ایک نئے معاشرہ اور نئی مملکت کی ابتدا ہو رہی تھی اس لیے معاشرہ کی تعلیمات اور ملکی و سیاسی قواعد و ضوابط کے اصول اور بنیادی باتیں بھی یہیں نازل ہونا شروع ہوئیں۔  قرآن کریم کا ایک ایسا دل نشین، معجز نما مؤثر انداز بیان ہے جس کی مثال وہ خود آپ ہے۔  عرب شعرا و ادبا میں سے کوئی بھی باوجود کوشش کے اس جیسی ایک آیت بھی نہ لکھ سکا۔  قرآن کریم اپنی فنی امتیاز خصوصیات کی بنا پر عربی زبان و ادب کی کسوٹی بن گیا اور آج تک اس کا یہ امتیاز باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔  قرآن کریم کی بدولت عربی زبان میں بہت سے نئے معانی نئی تعبیریں اور نئے الفاظ کے ساتھ بہت سے نئے علوم و فنون پیدا ہوئے اور بعض پرانے الفاظ کے معانی نئے سرے سے متعین ہوئے۔  اس کے لکھے جانے کی وجہ سے فن کتاب کو بڑا فروغ ہوا اور اس نے تاریخ کے بہت سے بھولے بسرے ابواب سے دنیا کو روشناس کرایا۔  قرآن کی بدولت تمام ممالک اسلامیہ میں عربی زبان مسلمانوں کی واحد مذہبی زبان کی حیثیت سے مانی جاتی ہے۔  قرآن مجید کو زبانی یاد کرنے کا رواج شروع سے چلا آ رہا ہے اور آج بھی دنیا میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو پورا قرآن زبانی یاد ہے اور ہر سال رمضان کے مہینہ میں پورا قرآن تراویح میں سنایا جاتا ہے۔