میری آنکھوں پہ چھا گیا کوئی
میرے دل میں سما گیا کوئی
دردِ دل کِس طرح چھپاتے ہم
آنکھوں آنکھوں میں پا گیا کوئی
ہم غریبوں کی کُچھ نہیں سُنتا
دل کو یہ کیا سِکھا گیا کوئی
پھر تصوّر نے بھُولنا چاہا
پھر تصوّر میں آ گیا کوئی
آنکھ بس خواب، دل فقط جذبہ!
پردے پردے میں آ گیا کوئی
بخش کر دل کو، ایک اپنی یاد
دل سے سب کچھ بھلا گیا کوئی
دیدۂ شوق کا خدا حافظ
خواب بن کر سما گیا کوئی
دل جسے بھولنا نہ چاہتا تھا
دل سے وہ کچھ بُھلا گیا کوئی
سنگدل ہونے پر یہ حالت تھی
میرے دل کو لُبھا گیا کوئی
دِلِ ناداں کا قصّہ کیا اختر
دلِ ناداں کو بھا گیا کوئی