اگر وُہ اپنے حسین چہرے کو بُھول کر بے نقاب کر دے
تو ذرّے کو ماہتاب اور ماہتاب کو آفتاب کر دے
تری محبّت کی وادیوں میں مری جوانی سے دور کیا ہے
جو سادہ پانی کو اِک نشیلی نظر میں رنگیں شراب کر دے
حریمِ عشرت میں سونے والے، شمیمِ گیسُو کی مستیوں سے
مری جوانی کی سادہ راتوں کو اب تو سرشارِ خواب کر دے
مزے وہ پائے ہیں آرزو میں کہ دل کی یہ آرزو ہے یارب
تمام دُنیا کی آرزوئیں مرے لئے اِنتخاب کر دے
نظر نہ آنے پہ ہے یہ حالت کہ جنگ ہے شیخ و برہمن میں
خبر نہیں کیا سے کیا ہو دُنیا جو خود کو وہ بے نقاب کر دے
مرے گناہوں کی شورشیں اس لئے زیادہ رہی ہیں یارب
کہ ان کی گُستاخیوں سے تو اپنے عفو کو بے حساب کر دے
خدا نہ لائے وہ دن کہ تیری سنہری نیندوں میں فرق آئے
مجھے تو یُوں اپنے ہجر میں عُمر بھر کو بے زارِ خواب کر دے
میں جان و دل سے تصوّر حُسن دوست کی مستیوں کے قرباں
جو اِک نظر میں کسی کے بے کیف آنسوؤں کو شراب کر دے
عُروسِ فطرت کا ایک کھویا ہوا تبسّم ہے جس کو اختر
کہیں وہ چاہے شراب کر دے، کہیں وہ چاہے شراب کر دے