قرآن مجید کی اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی نجات کو چار شرائط سے مشروط کیا ہے. ظاہر ہے کہ یہ چاروں شرائط ناگزیر اور ضروری ہیں‘ ان میں سے کسی ایک شرط کو بھی ساقط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں. یہ بات اس پہلو سے بہت اہم ہے کہ اس وقت اُمت مسلمہ عملی اعتبار سے جس تنزّل اور انحطاط کا شکار ہے اس کا ایک بڑا سبب بھی یہی ہے کہ ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ صرف ایمان ہی نجات کے لیے کافی ہے‘ بلکہ ایمان کا بھی صرف قانونی پہلو جو اقرارٌ باللِّسان سے متعلق ہے‘ انسان کو جنت کا حق دار بنانے کے لیے کافی ہے. یہ مغالطہ آج اُمت مسلمہ کی ایک عظیم اکثریت کے ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے کہ کلمہ گو بہرحال نجات پا جائے گا‘ خواہ اس کلمے کے لیے جو اُسے وراثتاً مل گیا ہے‘ اس نے نہ تو کوئی محنت کی ہو ‘نہ ترک و اختیار کے کسی مرحلہ سے اسے گذرنا پڑا ہو اور نہ ہی کلمے کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کی جانب اس نے کبھی کوئی توجہ دی ہو.جب انسان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ وہ تو بخشا بخشایا ہے اور نجات و کامیابی اس کا موروثی حق ہے اور اسے از خود حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ پھر عملی کھکھیڑ مول لینے اور مشکلات اور دینی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالنے کی کوئی ضرورت اسے محسوس نہیں ہوتی. اسی مغالطے نے اُمت مسلمہ کو عمل سے یکسر فارغ کر دیا. بقول علامہ اقبال : ؎ خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی؟
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ!
جہاں تک تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے حوالے سے عائد ہونے والی
ذمہ داریوں کا تعلق ہے‘ اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی انہیں یکسر فراموش کر چکی ہے. دعوت الی اللہ‘ تبلیغ دین‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ جہاد فی سبیل اللہ‘ شہادت علی الناس‘ یہ تمام فرائض تو گویا مسلمانوں کے تصورِ دین سے بالکل خارج ہو چکے ہیں. ان کے بارے میں تو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید یہ صرف ایک مخصوص طبقہ کی ذمہ داری ہے‘ عام مسلمان پر اس کا کوئی بوجھ ہے نہ وہ اس کے لیے مکلف ہے. ان تمام تصورات کی ایک بھرپور نفی اس سورۂ مبارکہ کے چند الفاظ کے ذریعے کی گئی ہے.فرمایا:
وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾
یعنی زمانہ اس پر گواہ ہے کہ تمام انسان خسارے اور گھاٹے سے دوچار ہوں گے‘ ماسوائے ان کے کہ جو چار شرطیں پوری کریں : ایمان‘ عمل صالح‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر.
یہی وجہ ہے کہ امام رازیؒ نے اپنی مشہورِ زمانہ تفسیر میں سورۃ العصر کے ضمن میں یہ جامع الفاظ تحریر فرمائے ہیں :
اِعْلَمُوْا اَنَّ ھٰذِہِ الْآیَۃَ فِیْھَا وَعِیْدٌ شَدِیْدٌ‘ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی حَکَمَ بِالْخَسَارِ لِجَمِیْعِ النَّاسِ‘ اِلاَّ مَنْ کَانَ آتِیًا بِھٰذِہِ الْاَشْیَاءِ الْاَرْبَعَۃِ: وَھِیَ الْاِیْمَانُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ وَالتَّوَاصِیْ بِالْحَقِّ وَالتَّوَاصِیْ بِالصَّبْرِ‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی اَنَّ النَّجَاتَ مُعَلَّقَۃٌ بِمَجْمُوْعِ ھٰذِہِ الْاُمُوْرِ ’’جان لو کہ اس آیت میں بڑی شدید وعید وارد ہوئی ہے ‘اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خسارے ‘ گھاٹے اور تباہی کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے پوری نوعِ انسانی کے لیے ‘سوائے اُن کے جو اِن چار چیزوں کا اہتمام کریں( ان چار شرائط کو پورا کریں) یعنی ایمان‘ عمل صالح‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر.چنانچہ اس سے اس جانب رہنمائی ملتی ہے کہ نجات کا دار و مدار اِن چاروں چیزوں کے مجموعہ پرہے‘‘.