اس موقع پر یہ وضاحت مناسب ہو گی کہ اس مسئلے پر ہمارے لیے قرآن مجید و حدیث میں بہت کم راہنمائی موجود ہے. اس لیے کہ قرآن مجید کی رُو سے انسان کی اصل ’’کمائی‘‘ نیکی یا بدی کی ہے‘ چنانچہ اس میں اصل زور ’’کسب خیر‘‘ کی ترغیب اور ’’کسب شر‘‘ سے اجتناب پر ہے‘ یعنی قرآن کا اصل زور(emphasis) معاش پر نہیں بلکہ ’’معاد‘‘ پر ہے. بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سوائے ایک آدھ استثنائی مثال کے ’’کسب‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں رزق کے لیے استعمال ہی نہیں ہوا. الغرض از رُوئے قرآن انسان کی اصل کمائی وہ خیر و شر یا بھلائی یا برائی ہے جو وہ آخرت کے لیے کما رہا ہے‘ یہ اصل کسب ہے.
اس کے برعکس رزق کے لیے قرآن مجید کی اصل اصطلاح ’’فضل‘‘ ہے ‘یعنی قرآن جو تصور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو جوکچھ ملتا ہے وہ اس کی محنت کا حاصل یا صلہ نہیں بلکہ فضل خدا وندی ہے. قرآن کے نزدیک یہ قارونیت ہے کہ انسان اس مغالطے یا زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جو دنیوی ساز و سامان یا مال و متاع اسے حاصل ہے وہ اس کا اپنا پیدا کردہ ہے‘ جیسے کہ قارون نے کہا تھا: اِنَّمَاۤ اُوۡتِیۡتُہٗ عَلٰی عِلۡمٍ عِنۡدِیۡ ؕ یعنی یہ سب کچھ تو مجھے اپنے علم کی وجہ سے حاصل ہوا ہے .گویا یہ میرے علم و فہم‘ میری ذہانت و فطانت‘ میری پیش بینی و پیش بندی‘ میری پلاننگ اور دوراندیشی (foresight) کا نتیجہ ہے. قرآن مجید اس کی نفی کرتا ہے. اس کی تعلیمات کی رُو سے محنت انسان ضرور کرتا ہے ‘مگر جو کچھ اس کو ملتا ہے وہ سرا سر اللہ کا فضل ہے نہ کہ اس کی محنت کا حاصل یا صلہ. اسلام کے اخلاقی نظام کے لیے اصل بنیاد یہی تصور فراہم کرتا ہے ‘جبکہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کی اصل بنیاد ہے ’’قارونیت‘‘.