اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات یہ ہیں (اگرچہ مختلف علماء ‘ محققین اور متکلمین کے ہاں یہ مختلف ہیں) : (۱) وجود(۱) (۲) حیات‘ (۳) قدرت‘ (۴) علم‘ (۵) ارادہ‘ (۶) کلام. وہ الحی ّ ہے‘ زندہ ہے‘ اس کا وجود حیات والا ہے. وہ صاحب قدرت ہے‘ صاحب علم ہے‘ صاحب ارادہ ہے‘ متکلم ہے ‘ کلام کرتا ہے. اِن تمام صفات کے ساتھ جب آپ تین چیزیں جوڑ لیں گے کہ اس کی یہ صفت مطلق ہے‘ ذاتی ہے اور قدیم ہے تو یہ توحید ہے. اور اگر مطلق ہونے میں‘ قدیم ہونے میں اور ذاتی ہونے میں کسی اور کو کسی پہلو سے شامل کر لیاگیا تو یہ شرک ہے.اللہ تعالیٰ کی حیات مطلق ہے‘ ذاتی ہے اور قدیم ہے‘ جبکہ ماسوی اللہ کی حیات ذاتی نہیں عطائی (اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ)ہے‘ مطلق نہیں مقید اور محدود ہے‘ قدیم نہیں حادث ہے. اگر یہ چیزیں پیشِ نظر رہیں تو توحید میں کوئی خلل نہیں آئے گا. لیکن اگر ان میں سے کسی ایک چیز کو کسی ایک پہلو سے مجروح کر دیا گیا تو یہ شرک بن جائے گا.
اسی طرح علم کے بارے میں توحید یہ ہے کہ اللہ کا علم ذاتی ہے جبکہ ماسوی اللہ کا علم عطائی ہے. ماسوی میں سب شامل ہیں.جب فرشتوں سے کہا گیا کہ بتاؤ ذرا ان چیزوں (۱) اللہ تعالیٰ کی صفت ’’وجود‘‘ کے بارے میں علماء و محققین اور متکلمین کے ہاں ایک باریک سی بحث ہے کہ ’’وجود‘‘ صفت ہے یا نہیں. کے نام تو اُن کا جواب تھا : سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ (البقرۃ:۳۲) ’’تو پاک ہے (اے پروردگار!) ہمیں کوئی علم حاصل نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں سکھایا (عطا کیا) ہے‘‘.تو معلوم ہوا کہ فرشتے ہوں‘ انبیاء ہوں‘ رسول ہوں‘ اولیاء اللہ ہوں ‘ کوئی بڑے سے بڑا علّامہ ‘ فھّامہ ہو‘ کسے باشد‘ سب کا علم عطائی ہے ذاتی نہیں‘ حادث ہے قدیم نہیں‘ محدود ہے مطلق اور لامتناہی نہیں.یہ تینوں قیود اگر موجود ہیں تو شرک نہیں ہے‘ اور اگر ان میں سے ایک قید بھی ہٹ گئی تو شرک ہو جائے گا.