اجتماعی سطح پر ’’شرک فی المحبت‘‘ کی صورت

اجتماعی سطح پر دیکھئے کہ ’’توحید فی المحبت‘‘ کیا ہے اور ’’شرک فی المحبت‘‘ کیا ہے. اس دَور کے جو اجتماعی تصورات ہیں ان میں ایک تصور وطن کی بنیاد پر قوم پرستی (nationalism) کا ہے. پچھلے زمانے کی قوم پرستی اکثر و بیشتر نسل کی بنیاد پر ہوتی تھی اور جو تصادم ہوتا تھا وہ بھی نسلی بنیاد پر ہوتا تھا‘جبکہ انیسویں اور بیسویں صدی کا جو سب سے بڑا سیاسی تصور یورپ نے دیا ہے وہ وطنی قوم پرستی کا تصور ہے کہ ایک وطن کے اندر رہنے والے سب ایک قوم ہیں اور مذہب ہر ایک کا ذاتی مسئلہ ہے‘ چاہے کوئی ہندو ہو‘ سکھ ہو‘ پارسی ہو‘ عیسائی ہو ‘اس سے حکومت کو بحث نہیں ہے. ریاست سیکولر ہے ‘ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں. ہاں جو بھی اس حدود کے اندر رہنے والے ہیں ان کو قومیت (nationality) مل جائے گی کہ وہ اس وطن کے رہنے والے ہیںاور اس ریاست کے شہری ہیں. اب ظاہر بات ہے کہ ہر اجتماعیت کو لازماً کوئی چیز ایسی چاہیے جو مرکزِ محبت بن جائے. اس لیے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ جذباتی لگاؤ نہیں ہو گا تو اس کے ساتھ کیسے جڑیں گے‘ کیسے بنیانِ مرصوص بنیں گے‘ خطرات کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ لہذا اِس دَور میں جو اصل معبود تراشا گیا ہے وہ وطن ہے. وطن کی محبت اور عظمت کے گن گائے جاتے ہیں‘ وطن کی آن پر کٹ مرنے کا درس دیا جاتا ہے‘ وطن کا نعرہ لگایا جاتا ہے. وطن کے جھنڈے کے سامنے باادب کھڑے ہو کر اسے سلامی دی جاتی ہے. وطن کا ایک ترانۂ حمد بھی ہوتا ہے جس کو قومی ترانہ کہا جاتا ہے. یہ مذہبِ وطنیت ہے جس کے یہ مراسمِ عبودیت ہیں. یہ اِس دَور کا نیا شرک ہے اور اس کو ہمارے علماء میں سے کوئی نہیں سمجھ پایا. میں علامہ اقبال کی عظمت ِ فکر کا اسی لیے قائل ہوں کہ اِس حقیقت کو سمجھنے والے اِس دَور میں صرف علامہ اقبال تھے. جس طرح انہوں نے حاکمیت ِاعلیٰ کے نظریے کو واضح کیا ہے ‘ اسی طرح انہوں نے ’’وطنیت‘‘ کے بُت پر کاری ضرب لگائی ہے. ملاحظہ ہو : ؎

اِس دَور میں مے اور ہے ‘ جام اور ہے ‘ جم اور
ساقی نے بِنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اقبال کے جذبے اور احساس کی شدت کا عالم دیکھئے!اس لیے کہ اُن کا مشاہدہ بہت گہرا تھا‘ انہوں نے سمجھ لیا تھاکہ کتنا پانی دریائے راوی کے پل کے نیچے سے گزر چکا ہے. اب لات‘ منات‘ عزیٰ اور ہبل کی پوجا کا زمانہ گزر چکا ہے‘ اِن بُتوں کے پجاری آج نہیں ملیں گے ‘آج پوجا کسی اور شے کی ہو رہی ہے ‘اوراس جگہ پر سب سے بڑا بُت وطن ہے. اب ہمارے ہاں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے. اس لیے کہ ہم نے اِن چیزوں کی حقیقت پر غور نہیں کیا. یہ جھنڈے کی سلامی چہ معنی دارد؟یہ دراصل وطن کے مراسمِ عبودیت میں سے ہے کہ جب قومی ترانہ گایا جا رہا ہو تو آپ جھنڈے کے سامنے ساکت و صامت کھڑے ہو جائیں. یہ گویا وطن کی نماز ہے جو پڑھی جا رہی ہے اور ہم نے اسے سمجھا نہیں ہے. ہر مذہب میں اپنے معبود کے ساتھ محبت کے اظہار او راُس کی عظمت کے اقرار کے لیے کچھ شکلیں اختیار کی جاتی ہیں ‘اسی طرح وطن کی محبت کے اظہار اور اس کی عظمت کے اقرار کے لیے اس کے جھنڈے کو عاجزی کے ساتھ سلامی دی جاتی ہے . یہ مذہبِ وطنیت جو یورپ کا ایجاد کردہ تھا‘ اس کی تمام مذہبی رسومات (rituals) کو ہم نے جوں کا توں قبول کر لیا ہے. یہ اُس مذہب کی رسومات ہیں جس کا معبود وطن ہے. اس کے بارے میں اقبال نے مزید کہا : ؎

یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے!
اے مصطفوی خاک میں اِس بُت کو ملا دے! 

وطن کے اس بُت کو خاک میں ملا دینا علامہ اقبال کا پیغام ہے. دیکھئے وطن آپ کا معبود کیسے ہوا؟اس لیے کہ آپ کی محبت کا مرکز وطن بن گیا ہے. اب آپ کے نزدیک جو شے وطن کے لیے اچھی ہے وہ اچھی ہے‘ چاہے فی نفسہٖ وہ جائز ہو یا ناجائز ہو. وطن کے لیے آپ کو دوسروں پر ظلم کرنا پڑ رہا ہے تو آپ کر رہے ہیں. اپنے وطن کی جے بولی جا رہی ہے. کبھی اعلیٰ ہبل کے نعرے لگا کرتے تھے ‘لیکن اب وطن کے نعرے ہیں.اس زمین نے درحقیقت آج دیوتا کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کی بنیاد میں قومیت کا تصورہے جو آج کے اجتماعی تصورات میں اہم ترین تصور ہے.

بہرحال ’’توحید فی المحبت‘‘ یہ ہے کہ محبت کا اصل مرکز ذاتِ باری تعالیٰ ہو‘ تمام محبتیں اس کے تابع ہو جائیں اور ’’شرک فی المحبت‘‘یہ ہے کہ کسی شخص یاکسی ادارے یا کسی شے کی محبت اللہ کی محبت کے ہم پلہ ہو جائے یا اس سے بالا ترہوجائے.