اطاعت کے ضمن میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ قرآن مجید نے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ: اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ (التوبۃ:۳۱) اور اس ضمن میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں رسول اللہﷺ نے اس کی جو تشریح فرمائی تھی وہ بھی بیان کی جا چکی ہے. اب اسی کو سامنے رکھ کر ہمارے ہاں جو تقلید کا ایک تصور ہے اس کو سمجھ لیجیے!
دیکھئے تقلید کا ایک تصور ہے ’’عوام‘‘ کے نزدیک اور ایک تصور ہے ’’اہلِ علم‘‘ کے نزدیک . اِن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے. عوام کے ذہنوں میں تقلید کا جو تصور ہے وہ بالعموم شرک ہے. اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ جو بات امام ابوحنیفہؒ کہہ دیں وہ ہم لازماً مانیں گے ‘بغیر کوئی دلیل طلب کیے کہ وہ کس بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں اور کتاب و سنت کی کون سی دلیل اُن کے پاس ہے ‘تو یہ شرک ہے. اسی طرح اگر کوئی بات مجرد اس لیے مان لی جائے کہ یہ امام احمد بن حنبل یا امام شافعی یا امام مالک رحمہم اللہ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی بات ہے تو یہ بلاشک و شبہ شرک ہے. البتہ ہمارے ہاں اہل علم کے نزدیک تقلید کا تصور یہ ہے کہ جن عظیم اور باہمت لوگوں نے کتاب و سنت کا فہم حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری پوری زندگیاں کھپائی ہیں اُن کے فہم پر اعتماد کرتے ہوئے ‘اور انہوں نے کتاب و سنت سے استنباط کر کے جو دلائل پیش کیے ہیں ان کو مدّ نظر رکھ کر اُن کی رائے پر عمل کیاجائے. اس ضمن میں امام ابوحنیفہؒ ‘ کا یہ قول موجود ہے کہ ’’اگر تمہیں میرے کسی قول کے خلاف صحیح حدیث نبویؐ مل جائے تو میری بات کو دیوار پر دے مارو‘‘. اس لیے کہ کسی بات میں وزن محض اس وجہ سے ہرگز نہیں ہے کہ یہ فلاں شخص کی بات ہے‘ بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اُس نے کتاب و سنت سے اپنی بات کو مدلل کیا ہے اور کتاب و سنت کے منشاء کو سمجھ کر اس سے استنباط کیا ہے.
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کے اوّلین شاگردوں قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ نے اپنے استاد امام ابوحنیفہؒ سے اختلاف کیا ہے اور آج دنیا میں جو فقہ حنفی موجود ہے وہ اکثر و بیشتر امام ابوحنیفہؒ کی رائے پر نہیں ہے بلکہ صاحبین یعنی قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کی رائے پر ہے. مثال کے طو رپر امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’مزارعت‘‘ مطلقاً حرام ہے‘ لیکن فقہ حنفی میں اس پر جو فتویٰ ہے وہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے پر نہیں ہے بلکہ صاحبین کی رائے پر ہے .تو اُن کے شاگردوں نے اُن سے اختلاف کیا ہے .ہمارے ہاں جب تک تقلید کے معاملے میں یہی طرزِ عمل رہا تو ایک صحت مند فضا رہی . اس کے بعد ایک دَور آیا کہ علماء نے اس خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ اب علم کی کمی ہو گئی ہے ‘ حرص و ہوا کا زور ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اجتہاد میں خطرات زیادہ ہیں ‘ یہ کہا کہ اب نئے اجتہاد کی بجائے علماءِ سلف کے اجتہاد پر ہی عمل کیا جائے . تو یہ ایک احتیاط ہے جو اِس دَور میں علماء نے اختیار کی ہے .لیکن اس میں بھی اہل علم کے نزدیک کوئی شخص اپنی ذات میں مُطاع ہرگز نہیں ہے‘بلکہ کتاب و سنت کی بنیاد پر ہی اس کی بات مانی جائے گی. چنانچہ یہ تقلید شرک نہیں ہے. البتہ اگر کسی شخص کو اپنی ذات میں مُطاع مان لیا جائے تو اس قسم کی تقلید شرک ہے اور یہ اُسی قسم کا شرک ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اہل کتاب کے بارے میں کہا کہ :
اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ (التوبۃ:۳۱)
’’انہوں نے (یعنی یہود و نصاریٰ نے) اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور صوفیوں کو ربّ بنا لیا‘‘.
اس لیے کہ دو ہی طبقے مذہبی ہوتے ہیں‘ علماء اور صوفیاء. ہمارے ہاں بھی تصوف کے میدان میں یہ گمراہ کن تصور موجود ہے کہ مرشد کواپنی ذات میں مُطاع مان لیا گیا ہے. اس میدان میں شاعری کے ذریعے بہت فتور اور گمراہی پھیلی ہے اور اس طرح کی باتیں زبان زدِ عوام و خواص ہو گئی ہیں کہ ؏’’بہ مَے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِمغاں گوید!‘‘ یعنی ’’اگر تمہارا مرشد تم سے کہے کہ تم اپنی جائے نماز کو شراب سے رنگین کر دو تو کردیا کرو‘‘. انا للہ وانا الیہ راجعون. یہ تصور خالص شرک ہے. کوئی چاہے مرشد ہو‘ عالم ہو‘ حاکم ہو‘ مجتہد ہو‘ کسی کی بات بھی اگر مانی جائے گی تو کتاب و سنت کے دائرے کے اندر اندر مانی جائے گی اور قرآن و حدیث کی دلیل سے مانی جائے گی. اگر طرزِعمل یہی ہے تو یہ توحید ہے. اور اگر اس کو کہیں سے بھی اور کسی پہلو سے بھی مجروح کر دیا جائے تو یہ شرک ہے.