اس معاملے میں حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت عظمت کا ایک روشن مینار ہے. آپؒ حالانکہ صوفیاء کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں‘تصوف کے میدان کے مجدّد ہیں‘ آپؒ کا اصل تجدیدی کارنامہ تصوف کے میدان ہی میں ہے‘ لیکن یہ شخص سجدۂ تعظیمی کے باب میں حکومتِ وقت سے ٹکرا گیا. بقول اقبال : ؎
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمی ٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
واقعہ یوں ہے کہ سجدۂ تعظیمی مغل دربار کے اندر رائج تھا. مجدد الف ثانی ؒ نے فتویٰ دیا کہ یہ ناجائز ہے اور شرک ہے. اب علماءِ سوء یعنی سرکاری درباری علماء جو حاسدین تھے بہت خوش ہوئے کہ اب یہ شخص صحیح گرفت میں آیا ہے‘ اس کی بادشاہ کے سامنے پیشی کرائی جائے. یہ سجدہ نہیں کرے گا تو بادشاہ کو خود بخود پتا چل جائے گا کہ اس کے دل میں باغیانہ خیالات ہیں. چنانچہ بادشاہ کو حضرت مجدّد ؒ کے خلاف بھڑکایا گیا اور اُن کی بادشاہ کے سامنے پیشی طے ہو گئی.