ان میں سے دوسری آیت کا ایک ٹکڑا ہماری اس بحث سے متعلق ہے. الفاظ ملاحظہ ہوں: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ (آیت ۲۸۶) ’’اے ربّ ہمارے! اگر ہم سے بھول اور خطا (سے کوئی غلطی سرزد) ہو جائے تو ہماری گرفت نہ کیجیو!‘‘لیکن اگر کسب ہو رہا ہو اور جان بوجھ کر کوئی گناہ کمایا جا رہا ہو اور اُس پر پھر ڈیرہ جما لیا جائے تو اس صورت میں یقینا ایک بڑا گناہ بھی شرک کے درجے کو پہنچ جاتا ہے .ایک شخص سود کو اپنے کاروبار میں مستقلاً شامل کیے ہوئے ہے تو اس میں کسی نسیان اور خطا کا معاملہ نہیں‘ بلکہ اس نے ارادی طور پر اور علیٰ وجہ البصیرت ایک حرام چیز کو اختیار کر رکھاہے اور وہ اُس کے کاروبار کا جزوِ لاینفک ہے تویہ چیز درحقیقت شرک ہے. جان لیجیے کہ اگر منطقی طور پر تجزیہ کریں گے تو ہر گناہ شرک بن جائے گا ‘اس لیے کہ معصیت کادانستہ ارتکاب کرکے ایک شخص نے گویا اپنی خواہشات و جذبات اور دُنیوی مفادات کو اللہ کے احکام پر فوقیت دے دی یا انہیں اللہ کی پسند وناپسند کے برابر لے آیا. لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم اور مہربانی ہے کہ جب تک گناہ ذہول ‘خطا اور نسیان کے درجے میں ہو تو اُس کو شرک قرار نہیں دیا گیا. لیکن میں یہ بات بتکرار و اعادہ عرض کر رہاہوں کہ اگر کوئی غلط کام ’’کسب‘‘ کے درجے میں ہو اور فیصلے‘ شعور اور ارادے کے ساتھ کیا جا رہا ہو اور اس پر انسان مستقلاً ڈیرا جما کر بیٹھ جائے تو وہ شرک کے درجے کو پہنچ جائے گا . البتہ اگر اضطراری حالت درپیش ہو‘ انسان کی جان پر بنی ہو اور وہ بھوک سے مرا جا رہا ہو تو اس حالت میں انسان سؤر بھی کھا لے تو گناہ نہیں ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی :
فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ (البقرۃ:۱۷۳)
’’پس جو مجبور ہو (بشرطیکہ) سرکشی اور حد سے تجاوز نہ ہو تو (مذکورہ بالا حرام اشیاء کھا لینے میں) اُس پر کوئی گناہ نہیں ہے.‘‘
ایسے ہی اگر جان پر بنی ہو اور سود کے علاوہ جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہو تو یہ بھی معاف ہے.
اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۱ ملاحظہ کیجیے. ارشاد ہوا : بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً … ’’کیوں نہیں! جس نے ایک برائی بھی کمائی (کسب کیا) … ‘‘خطا‘ نسیان اور اضطرار اس میں شامل نہیں ہے ‘ بلکہ یہ وہ برائی ہے جو جان بوجھ کر کمائی گئی ہو اور چاہے وہ ایک ہی کیوں نہ ہو. ’’سَیِّئَۃً‘‘ اسم نکرہ ہے. نکرہ میں تفخیم بھی ہوتی ہے کہ کوئی بڑی چیز. یعنی اس میں ’’صغائر‘‘ شامل نہیں ہیں‘ بلکہ صرف ’’کبائر‘‘ ہیں. آگے فرمایا : وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ … ’’اوراس کا گھیرا کر لیا اس کے گناہ نے…‘‘ اس ایک گناہ پر وہ اس طرح ڈیرا جما کر بیٹھا ہوا ہے کہ گناہ نے اُس کواپنے گھیرے میں ایسے لے لیا ہے کہ کوئی جانب ایسی نہیں جہاں گناہ کا غلبہ نہ ہو. فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۱﴾ (البقرۃ) ’’تویہی لوگ جہنمی ہیں. وہ اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے‘‘. یعنی یہ وہ جہنمی نہیں ہیں جو آگ سے بالآخر نکل آئیں گے. یہ خلود فی النار کی سزا ہے جو کفار اور مشرکین کے لیے ہے. معلوم ہوا کہ ایک بڑا گناہ بھی اگر یہ شرطیں پوری کر رہا ہو کہ وہ فیصلے اور ارادے سے کیا گیا ہو اور اُس پر دوام ہو اور اُس نے عاصی کا اس طرح احاطہ کر لیا ہو کہ کوئی جانب ایسی نہ رہی ہو جہاں گناہ کا غلبہ نہ ہو تو وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرک ہے. البتہ اگر کسی سے خطا ہو جائے اور اُس پر اُس کو پشیمانی ہو اور احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور وہ اللہ سے بخشش طلب کرے‘ اس پر ڈیرا نہ جما لے اور اسے اپنی زندگی کا مستقل جزو بنانے کا ارادہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب و کتاب صاف کر دیتا ہے.