اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ (الانعام:۷۹)
یہ نعرۂ مؤ منانہ اس ماحول میں دراصل نعرۂ بغاوت ہے کہ ’’ میں تمہارے تمام معبودوں کا انکار کرتا ہوں اور میں نے یک سوـُ ہو کر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے.‘‘ پھر انہوں نے بڑے مٔوثر انداز میں اپنے قوم کی گمراہیوں پر ٹوکا ، جیسا کہ سورۃ الانعام میں مذکورہے:
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۷۴﴾ (الانعام:۷۴) ـ
’’ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا: کیا تو بُتوں کو خدا بناتاہے؟ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں‘‘. سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے:
اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیۡلُ الَّتِیۡۤ اَنۡتُمۡ لَہَا عٰکِفُوۡنَ ﴿۵۲﴾ (الاانبیاء:۵۶)
’’یاد کرو وہ موقع جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟‘‘
غرض مختلف پیرایۂ بیان اور اسالیب سے آپؑ بار بار اپنے والد اور قوم سے کہتے ہیں کہ کیا ہیں یہ مورتیاں جو تم نے گھڑ لی ہیں، جن کا تم دھیان اور گمان کر کے بیٹھے ہو، جن کی تم ڈنڈوت کرتے ہو.
قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَ ﴿ۙ۹۵﴾ (الصّٰفّٰت:۹۵)
’’(ابراہیمؑ نے ) کہا: کیا تم اپنی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو؟‘‘
پھر آخری چوٹ لگاتے ہیں یہ فرما کر کہ:
اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۷﴾ (الانبیاء:۶۷)
’’(تمہیں کیا ہو گیا ہے؟)تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو. کیا تم عقل سے بالکل عاری ہو چکے ہو؟‘‘
پھر پوری جرأت مؤمنانہ کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں:
وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصۡنَامَکُمۡ بَعۡدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ ﴿۵۷﴾ (الانبیاء:۵۷)
’’اور خدا کی قسم ! میں تمہاری عدم موجودگی میں تمہارے ان بتوں کے ساتھ کوئی معاملہ کر کے رہوں گا(ان کی خبر لے کے رہوں گا).‘‘
یہ جو نعرہ ہے ، یہ جو بیداری ہے، یہ جو عزائم ہیں ، ایک ایسے ماحول میں جہاں توحید باری تعالیٰ سے کوئی ادنیٰ سی واقفیت بھی موجود نہیں ہے، تو یہ ان کی فطرت و عقل سلیم کی آزمائش کا پہلہ مرحلہ ہے، پہلہ امتحان ہے،جس میں وہ شاندار طریقے پر کامیابی حاصل کرتے ہیں.