چنانچہ نفس امّارہ کو بھی مارو گے تو قرآن کی تلوار سے مارو گے‘ویسے یہ نہیں مرے گا. اورشیطان سے لڑنے کے لیے بھی یہی تلوار کام آئے گی جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ میں قرآن مجید کی صورت میں دی ہے اور جو محمدٌ رسول اﷲ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے‘جسے ہم نے ’’کتابِ مقدس‘‘ بنا کر طاقوں میں رکھ چھوڑا ہے. تویہ جہاد کی دوسری سطح ہوئی. یعنی فکری و نظریاتی سطح پر کشاکش اور تصادم. حق کا بول بالا کرنا‘یعنی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے جان و مال سے سعی و جہد کرنا. اس کے لیے زبان بھی استعمال ہوگی اور قلم بھی. اس میں تمام ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے تمام وسائل استعمال ہوں گے اور ان سب کے ذریعے قرآن مجید کی دعوت اور اس کے پیغام کو پھیلایا جائے گا. (۳) قتال فی سبیل اﷲ:
تیسری سطح یعنی اﷲ کے دین کو بالفعل قائم و نافذ کرنے کے مرحلے پر یہ جہاد بھی اپنی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور یہ جہاد کا تیسرا اور بلند ترین مرحلہ ہے. اس مرحلہ میں باطل کے علمبرداروں کے ساتھ کشاکش اور تصادم ہوگا. دعوت و تبلیغ کے مرحلے میں کشاکش اور تصادم باطل نظریات کے ساتھ تھا‘ لیکن جب دین کو قائم کرنے کا مرحلہ آئے گا تو یہ کشاکش اور تصادم محض باطل نظریات سے نہیں بلکہ باطل کے علمبرداروں اور باطل کی قوتوں کے ساتھ ہوگا. اس لیے کہ وہ اس راستے میں مزاحم ہوں گے. وہ ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ ٹھیک ہے ہم ہٹ جاتے ہیں‘آپ آئیے اور اپنا دین قائم و نافذ کردیجیے! ع ایں خیال است و محال است و جنوں!ہر نظامِ باطل کے ساتھ مراعات یافتہ طبقات (privileged classes) کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں. ایسے طبقات کے ہاتھوں میں ملک کے معاملات کی زمامِ کار ہوتی ہے. تو کیا ایسے تمام طبقات کبھی یہ گوارا کریں گے کہ آپ وہ رائج نظام جس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں‘ہٹا کر دین کا نظام مکمل طور پر قائم کردیں؟ اس بات کو وہ لوگ ٹھنڈے پیٹوں ہرگز برداشت نہیں کریں گے. چنانچہ ان کے ساتھ لازماً پنجہ آزمائی کرنی پڑے گی. اس پنجہ آزمائی کی بھی مختلف سطحیں ہیں. پہلی سطح صبرو مصابرت اور استقامت (Passive Resistance) کی ہے. دوسری سطحاقدام (Active Resistance) کی ہے‘ جبکہ تیسری سطح مسلح تصادم (Armed Conflict) کی ہے. اہل حق اگر کمزور ہوں تو جب تک طاقت حاصل نہ ہو جائے انہیں صبر محض کی روش پر عمل کرنا ہوگا. وہ مار کھائیں گے لیکن ہاتھ نہیں اُٹھائیں گے‘کیونکہ حکمت اسی میں ہے. مکہ مکرمہ میں اسی حکمت پر عمل ہوا. وہاں اہلِ ایمان کو یہی حکم تھا کہ مصائب جھیلو‘ظلم و تعدی برداشت کرولیکن ہاتھ نہ اُٹھاؤ. یہ ہے صبر و مصابرت‘یعنی Passive Resistance لیکن جب طاقت حاصل ہو جائے تو پھر انہیں اجازت ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں. چنانچہ وہی مسلمان جو مکہ میں ہاتھ نہیں اُٹھا رہے تھے‘مدینہ میں ان کے ہاتھ کھول دیے گئے. انہیں اذنِ قتال دے دیا گیا. ازروئے الفاظِ قرآنی:
اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ ‘ (الحج)
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف (کفار کی طرف سے) جنگ کی جارہی ہے‘کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور بے شک اﷲ ان کی مدد پر قادر ہے.‘‘
تو جان لیجیے کہ اس کشمکش کا آخری مرحلہ مسلح تصادم (Armed Conflict) ہے‘یعنی قتال فی سبیل اﷲ. اور یہ جہاد کی چوٹی ہے. سورۃ الصف میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ یہی چوٹی محبوبیت ربّ کا مقام ہے. ارشاد ہوا:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾
’’بلاشبہ اﷲ کو تو اپنے وہ بندے محبوب ہیں جو اُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اس طرح صفیں باندھ کر گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘
اس موقع پر میں صحیح مسلم کی ایک حدیث شریف کا حوالہ دے رہا ہوں. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ (۱)
’’جو شخص اس حال میں مرگیا کہ نہ تو اس نے (اﷲ کی راہ میں) جنگ کی اور نہ اس کے دل میں اس کی تمنا ہی پیدا ہوئی تو وہ ایک قسم کے نفاق پر مرا.‘‘
چنانچہ دل میں یہ تمنا ضرور رکھنی چاہیے. اگر دل میں فی الواقع ایمان موجود ہے تو یہ آرزو ضرور رہے کہ کوئی وقت آئے کہ خالصتاً اﷲ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ہم اﷲ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو. کی راہ میں اپنی گردنیں کٹا کر سرخرو ہوجائیں. اگر اس تمنا سے سینہ خالی ہے تو اس سینے میں نفاق ہے. میں پھر عرض کردوں کہ یہ جناب محمدٌ رسول اﷲﷺ کا فتویٰ ہے.