جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ اس میٹنگ کے بعد جب میں واپس جا رہا تھا تو انہوں نے پھر مجھ سے کہا کہ پرسوں کنونشن ہے‘آپ اس میں بھی شریک ہو جائیں‘میں اپنا فالکون بھیج دوں گا جو آپ کو کراچی چھوڑ آئے گا. میں نے کہا کہ فالکون کے مقابلے میں مَیں بہت چھوٹی شے ہوں‘البتہ کراچی سے میری فلائٹ چونکہ رات کی ہے لہٰذا میں کنونشن میں شرکت کے بعد یہاں سے شام کی فلائٹ سے کراچی چلا جائوں گا. تو میں ۲۰ اگست ۱۹۸۰ء کے اس کنونشن میں بھی شریک ہو گیا. وہاں مجھے اظہارِ خیال کے لیے جو موضوع دیا گیا وہ تھا ’’اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل‘‘. وہاں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ آج ہمارے پاس اس کیسوا اور کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ ہمارے یہاں جتنے بھی مسالک و مذاہب ہیں‘انہیں ہم تسلیم کریں. آپ کتنا ہی چاہیں کہ اسلام میں مختلف مسالک نہیں ہونے چاہئیں‘سب ایک ہوں‘لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ہے. ان مسالک کی بار بارہ سو اور چودہ چودہ سو برس کی تاریخیں ہیں. سوچئے تو سہی کہ شیعہ سنی تاریخ کب سے شروع ہو رہی ہے! یہ میرے کہنے سے تو ختم نہیں ہو جائے گی‘شیعہ ختم ہو جائیں گے نہ سنی ختم ہو جائیں گے. اسی طرح سے حنفی‘شافی اور مالکی فقہوں کی بارہ بارہ سو برس کی تاریخیں ہیں. یہ ختم ہونے والی چیزیں نہیں ہیں. آپ ان کو باقی رکھتے ہوئے کتاب و سنت کی بالادستی کا اعلان کیجیے اور ہر مسلک کو کھلی آزادی دیجیے. اور میں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہر مسلک کی رجسٹریشن کروایئے. مردم شماری میں ہر شخص بتائے کہ اس کا تعلق کس مسلک سے ہے‘تاکہ اگر کوئی فقہی معاملہ پیش آئے تو اسے اس کے مسلک کے مطابق طے کیا جائے. ایک مسئلہ یہ بھی پیش آ سکتا ہے کہ اگر شیعہ اور سنی باہم شادی کریں تو اس پر کس فقہ کا اطلاق ہو گا. اہل تشیع کے ہاں ایک وقت میں دی گئیں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں جبکہ احناف کے ہاں اس طرح طلاق مغلظ واقع ہو جاتی ہے. تو زمین اور آسمان کا فرق واقع ہو گیا. اس کا ایک حل یہ ہے کہ اگر سنی لڑکا اور شیعہ لڑکی یا شیعہ لڑکا اور سنی لڑکی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہتے ہیں تو ان میں سے ایک کو قربانی دینا پڑے گی. شادی کے وقت وہ نکاح فارم میں لکھوا دیں کہ اس شادی سے جملہ معاملات کون سی فقہ کے تحت طے پائیں گے. چنانچہ اگر کوئی جھگڑا ہو تو وہ اسی فقہ کے تحت طے کیا جائے.