اگلے مرحلے میں اس انقلابی جماعت کی قیادت جب یہ محسوس کرے کہ اب ہم مضبوط ہیں‘ ہماری تعداد بھی کافی ہے‘ کارکنوں کی تربیت بھی صحیح ہوئی ہے‘ انہوں نے اپنے نفس کو قابو میں کر لیا ہے‘ ان کی نیتیں بالکل خالص ہو چکی ہیں‘ ان کی جدوجہد خالصتاً لوجہ اللہ ہے اور وہ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ کا مصداق بن چکے ہیں‘ ان کی کیفیت یہ بن گئی ہے کہ وہ منظم ہیں‘ سمع و طاعت پر کاربند ہو چکے ہیں اور بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں‘ تو اب اقدام کیا جائے اور آگے بڑھ کر اس نظامِ باطل کو چھیڑا جائے. چھیڑنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں.رسول اللہﷺ نے ان کی تجارتی شاہراہ کو‘ جس پر ان کے قافلے آتے جاتے تھے‘ مخدوش بنا دیا اور اس طرح ان کی معاشی ناکہ بندی کی. دوسری طرف ان کی سیاسی ناکہ بندی کا انتظام اس طرح فرمایا کہ آپؐ نے مختلف قبائل سے معاہدے شروع کر دیے. چنانچہ و ہ قبائل جو پہلے قریش کے حلیف تھے اب یا تو حضورﷺ کے حلیف ہو گئے یا پھر غیر جانب دار ہو گئے کہ ہم نہ ان کا ساتھ دیں گے نہ آپؐ کا ساتھ دیں گے. اس کے نتیجے میں رسول اللہﷺ کے سیاسی اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھتا گیا اور قریش کا دائرہ گھٹتا رہا. میں سمجھتا ہوں کہ قریش کی طرف سے تنگ آمد بجنگ آمد کا معاملہ ہوا ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر ان کا ایک ہزار کا لشکر نکلا ہے. اس معاملے میں پہل یقینا رسول اللہﷺ کی طرف سے ہی ہوئی تھی. اس لیے کہ جو اللہ کے دین کو غالب کرنا چاہتے ہیں ان کا کام ہے کہ وہ باطل کو چھیڑیں گے‘ کیونکہ وہ باطل سے ٹکر لینا چاہتے ہیں. وہ اس درخت کو جڑ سے اکھیڑنا چاہتے ہیں‘ لہذا اسے ہلانا شروع کریں گے. جب ہی تو اس کا امکان ہو گا کہ اسے اُکھیڑا جا سکے.
اب یہ باتیں واضح طور پر سامنے آنی چاہئیں. اب علامہ شبلی اور ان سے پہلے کا زمانہ گزر گیا جب ہمارے سیرت نگاروں کو اہل یورپ کے سامنے معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنا پڑتا تھا. مغرب کی طرف سے جہاد اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ ع ’’بوئے خون آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے!‘‘ اور یہ کہ اسلام کی ساری تبلیغ تلوار سے ہوئی ہے. اس پر ہمارے علماء کا انداز یہ ہوتا تھا کہ نہیں نہیں‘ حضورﷺ نے جنگ شروع نہیں کی‘ بلکہ جنگ ان پر ٹھونسی گئی تھی‘ آپ نے تو مدافعانہ جنگ کی تھی. حالانکہ یہ بالکل غلط ہے. اللہ کا دین تو غالب ہونے کے لیے آیا تھا اور رسول اللہﷺ اسے غالب کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے . ’’اَلْحَقُّ یَعْلُوْا وَلَا یُعْلٰی عَلَیْہِ‘‘ (حق غالب ہو کر رہتا ہے‘ اسے مغلوب نہیں کیا جا سکتا.) جب تک طاقت موجود نہیں اس وقت تک تو باطل کے غلبے کو برداشت کرنا پڑے گا‘ لیکن طاقت ہونے کے باوجود آپ باطل کے غلبے کو برداشت کر لیں تو آپ کے دین و ایمان کی نفی ہو جائے گی. اس حوالے سے جان لیجیے کہ صبر محض (Passive Resistance) کے بعد اقدام (Active Resistance) درحقیقت تیسری منزل کے جہاد کا دوسرا مرحلہ ہے.