الحمد للّٰہ وکفی والصلوۃ والسلام علی عبادہ الذین اصطفی … امَّا بَعد:
فاعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ صدق اللّٰہ العظیم

خطبۂ مسنونہ ‘ تلاوتِ آیات اور ادعیۂ ماثورہ کے بعد :

جس آیت ِمبارکہ کی میں نے تلاوت کی ہے‘ اس میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں. ایک لفظ ’’جہاد‘‘ جو اِس آیت ِمبارکہ میں دو مرتبہ آیا ہے‘ ایک فعل امر کے طور پر 
’’جَاہِدۡ‘‘ اور دوسرے مفعول مطلق کے طور پر ’’جِہَادًا کَبِیۡرًا‘‘ یعنی نہ صرف جہاد بلکہ شدید جہاد‘ بہت بڑا جہاد. یہاں دوسرا اہم لفظ ’’بِہٖ‘‘ آیا ہے. اس آیت میں حکم دیا جا رہا ہے جناب محمد رسول اللہ  کو وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ’’ آپ ان سے جہاد کیجئے اس (قرآن) کے ذریعے سے بہت بڑا جہاد‘‘.

یہاں ’’بِہٖ‘‘ کا جو چھوٹا سا ٹکڑا آیا ہے‘ میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اکثر و بیشتر ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس کی اہمیت پر غور و فکر کیے بغیر سرسری طور پر گزر جاتے ہیں. میرا مشاہدہ ہے کہ جہاں بھی قرآن کے لیے ’’بِہٖ‘‘ بطور ضمیر مجرور آیا ہے‘ ہمارے اہل ِعلم‘ الا ماشاء اللہ‘ اس کا حق ادا نہیں کرتے. 

اس ’’بِہٖ‘‘ کی اہمیت کے اظہار کے لیے دو مثالیں پیش کرتا ہوں.

پہلی مثال سورۂ بنی اسرائیل سے ہے جہاں فرمایا: 
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ (آیت۷۹’’اور (اے نبی !) کچھ رات جاگتے رہیے اس (قرآن) کے ساتھ یہ بڑھوتری ہے آپ کے لیے‘‘.میرا اندازہ ہے کہ تہجد کی فضیلت‘ اس کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ تو ہمارے یہاں معروف اور مشہور ہے‘ کسی کو اس کی توفیق ملی ہو یا نہ ملی ہو‘ لیکن اس کی عظمت اور برکات سے ہر وہ مسلمان بخوبی واقف ہو گا جس کا تھوڑا بہت بھی دینی مزاج ہے. لیکن یہاں بھی ’’بِہٖ ‘‘ پر اتنی توجہ نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے. تہجد میں اہم ترین شے قیام‘ وہ بھی طویل قیام ‘ اور اس میں ترتیل کے ساتھ تلاوتِ قرآن ہے:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ (المزمل)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو‘ مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو.‘‘

لیکن ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں عموماً وہ عام نوافل کی طرح آٹھ رکعتیں پڑھ لیتے ہیں‘ پھر بیٹھ کر مختلف اور ادو وظائف میں مشغول ہو جاتے ہیں اور زیادہ وقت اس میں صرف کرتے ہیں (الا ماشاء اللہ). یہ بھی بہت غنیمت ہے‘ لیکن اس کی برکات سے کماحقہ ٗ استفادہ تب ہو گا جب اِس میں طویل قیام ہو اور اس میں ترتیل کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت ہو. 

دوسری مثال سورۂ مریم کی ہے جہاں فرمایا:

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷
’’پس یقینا (اے نبی !) اس کلام کو ہم نے تمہاری زبان میں آسان کر کے نازل کیا ہے‘ تاکہ تم اس (قرآن) کے ذریعے پرہیزگاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کواس کے ذریعے سے خبردار کرو.‘‘

یہاں بھی غور فرمائیے کہ تبشیر و انذار کے لیے قرآن مجید ہی کو ذریعہ قرار دیا گیا ہے.لیکن ہوتا کیا ہے! یہ کہ ہمارے یہاں وعظوں اور خطبوں میں اکثر و بیشتر یہ کام اولیاء اللہ کے تذکروں یا مولانا رومؒ کی مثنوی سے لیا جاتا ہے. قرآن کی طرف بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے. بعینہٖ یہی معاملہ زیر نظر آیت ِکریمہ کا ہے: 
وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا معلوم ہوا کہ یہاں جس جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس شد و مد کے ساتھ‘ اس اہتمام کے ساتھ‘ اس تاکید و زور (emphasis) کے ساتھ‘ تو اس کے لیے ایک ذریعہ‘ ایک آلہ‘ ایک ہتھیار ہے جو جناب محمد رسول اللہ  کو عطا ہوا ہے. اس کے لیے بھی ایک تلوار ہے جو آپ کے دست ِمبارک میں تھمائی گئی ہے اور وہ ہے قرآن حکیم. لہذا ارشاد ہوا:’’اور (اے نبی !) ان (مشرکین و کفار) کے ساتھ جہاد کیجیے اس (قرآن) کے ذریعے سے بہت بڑا جہاد‘‘ . 

جہاد اور قرآن : دو مظلوم ترین حقیقتیں

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل یہاں لفظ ’’جہاد‘‘ کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جائے. پہلی بات یہ کہ میرے نزدیک جہاد ہمارے دین کا مظلوم ترین تصور (concept) ہے. مظلوم ہونے کے اعتبار سے اس کے ہم پلہ ّدوسری شے جو آتی ہے وہ قرآن ہے. ہمارے دین کی یہ دو مظلوم ترین حقیقتیں ہیں. جہاد کے بارے میں اتنے مغالطے ذہنوں میں ہیں کہ حد و شمار نہیں. پھر خاص طور پر ہماری تاریخ میں ایک دور وہ بھی آیا کہ جب ہم براہِ راست محکوم ہوئے ‘نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ ذہنی و فکری اعتبار سے بھی. یعنی ہم دو طرفہ غلامی کے پنجے میں گرفتار ہوئے. اُس وقت اہلِ مغرب کی طرف سے ہم پر جہاد کے حوالے سے بڑے جارحانہ حملے ہوئے اور استہزاء و تمسخر کا معاملہ ہوا. انہی کا یہ الزام ہے کہ: ؏ ’’بوئے خوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے!‘‘ چنانچہ اس ضمن میں ہمارا انداز معذرت خواہانہ (apologetic) رہا ہے. میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ اب یہ دَور اصلاً گزر چکا ہے ‘لیکن تاحال اس کے باقیات السیّئات کچھ لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں ‘اور جب تک ہم اُن کو اچھی طرح کھرچ نہیں دیں گے اُس وقت تک دین کی کوئی مثبت‘ پائیدار اور فعال تحریک جو نتیجہ خیز بھی ہو‘ اٹھانا ممکن نہیں ہو گا.

دوسری بات یہ کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلا مغالطہ ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا اور اس کے نتائج بہت دُوررس ہیں کہ جہاد کے معنی ’’جنگ‘‘ ہیں. اس بارے میں میری رائے ہے کہ اغیار اور بیگانوں کی کارستانی کے ساتھ ساتھ یگانوں اور اپنوں کی بھی 
غلطیاں ہیں. اپنوں کی بڑی اکثریت نے بھی جہاد کو ’’جنگ‘‘ ہی قرار دیا جب کہ قرآن مجید مستقل طور پر دو اصطلاحات استعمال کرتا ہے‘ ایک ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ اور دوسری ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘. لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ہمارے دینی لٹریچر میں جنگ کے تمام مدارج و مراحل کے لیے بطورِ عنوان لفظ جہاد استعمال ہو جاتا ہے اور جنگ کو ’’جہاد‘‘ ہی سے موسوم کیا جاتا ہے. چنانچہ ہوتے ہوتے ہمارے ذہنوں میں جہاد اور قتال مترادف کی حیثیت سے جاگزیں ہو گئے اور عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ جہاد کے معنی جنگ ہیں.

تیسری بات یہ کہ ظاہر ہے جنگ ہر وقت اور ہمیشہ تو نہیں ہوتی‘ لہذا جہاد فرضِ کفایہ رہ گیا اور فرضِ عین کی فہرست سے خارج ہو گیا. جب کبھی جنگ کا مرحلہ آتا تھا تو جتنی نفری کی ضرورت ہوتی تھی وہ نکل آتی تو بقیہ لوگوں کی طرف سے وہ فرض ادا ہو جاتا تھا. یہی فرضِ کفایہ کا تصور ہے اور بالکل صحیح تصور ہے. لیکن جہاد و قتال کو مترادف سمجھ لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے یہاں جو فقہی تصورات و معیارات اور سوچ کے جو پیمانے ہیں ان میں جہاد گویا صف ِاوّل کی شے رہا ہی نہیں. اس کا فرضِ عین ہونا پس منظر میں چلا گیا ‘حتیٰ کہ ذہنوں سے اَوجھل اور محو ہو گیا. 
الا ماشاءاللّٰہ 

چوتھی بات یہ کہ اس پر ستم بالائے ستم اور بناء الفاسد علی الفاسد یہ ہوا کہ ہم نے یہ تصور کر لیا کہ مسلمان جب بھی جنگ کرے تو گویا وہ جہاد فی سبیل اللہ کر رہا ہے. حالانکہ ایک مسلمان ذاتی حیثیت سے جہاں فاجر و فاسق ہو سکتا ہے وہاں ظالم بھی ہو سکتا ہے. چنانچہ مسلمانوں کا کوئی بادشاہ یا کوئی سربراہ یا کوئی گروہ ظالم بھی ہو سکتا ہے اور ایک ناحق جنگ بھی شروع کر سکتا ہے‘ صرف اپنے مفادات کے لیے‘ صرف اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لیے‘ اپنی حدودِ سلطنت کی توسیع کے لیے‘ جبکہ اُن کے پیش ِنظر دین کی کوئی خدمت نہ ہو‘ اعلائے کلمۃ اللہ کا کوئی مقصد نہ ہو. ظاہر ہے کہ ایسی جنگ جہاد یا قتال فی سبیل اللہ کیونکر شمار ہو جائے گی‘ جبکہ ہمارے سامنے نبی اکرم کی یہ واضح حدیث موجود ہے:

عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ 
لِیُرٰی مَکَانُہٗ فَمَنْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ : مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
 (۱

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم کے پاس ایک شخص آیا‘ اس نے دریافت کیا کہ حضور! ایک شخص جنگ کرتا ہے مالِ غنیمت کے لیے‘ ایک شخص جنگ کرتا ہے اپنے ذکر اور شہرت کے لیے اور ایک شخص جنگ کرتا ہے اپنی (یا اپنے قبیلہ کی) سربلندی دیکھنے کے لیے ‘تو کس کی جنگ اللہ کے راستے میں ہو گی؟ حضور نے (جواب میں) ارشاد فرمایا: ’’صرف اس کی جنگ فی سبیل اللہ ہو گی جو اس لیے جنگ کرے تاکہ اللہ کا کلمہ سب سے بلند ہوجائے.‘‘ 

خیال رہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے. تو قتال فی سبیل اللہ وہ جنگ ہے جو اللہ کے جھنڈے کی سربلندی کے لیے کی جائے ‘نہ کہ ہر مسلمان کی یا مسلمانوں کی حکومت کی ہرنوع کی جنگ جہاد و قتال فی سبیل اللہ قرار دی جائے گی. بہرحال یہ ہیں وہ مغالطے جوکچھ تواغیار کی کرم فرمائی سے اور کچھ اپنوں کی ستم ظریفی سے تہہ در تہہ ذہنوں میں بیٹھ گئے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تصور کو نکھار کر سامنے لایا جائے کہ جہاد فی سبیل اللہ درحقیقت ہے کیا‘ اور جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ میں فرق کیاہے!

میں نے اس پر بہت غور کیا کہ ایک عام اردو دان کے لیے وہ لفظ کون سا ہو گا جو لفظ جہاد کے مفہوم کو صحیح صحیح ادا کر دے. اہلِ علم جانتے ہیں کہ لفظ جہاد بابِ مفاعلہ سے ہے اور باب مفاعلہ کے اکثر مصادر میں فریقین کی شرکت ہوتی ہے. پھر ایک دوسرے پر غالب آنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہوتا ہے‘ جیسے بحث سے مباحثہ‘جہد سے مجاہدہ اور جہاد‘ اور قتل سے مقاتلہ اور قتال . قتال میں بات دو طرفہ ہو جاتی ہے جبکہ قتل یک طرفہ عمل ہے. کوئی شخص جا رہا ہے‘ کسی نے گولی مار دی یا خنجر گھونپ دیا درآنحالیکہ اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ یہ حادثہ ہو جائے گا‘ یہ قتل ہے .لیکن جب دو فریق آمنے سامنے ہو کر ایک دوسرے کوقتل کرنے کے درپے ہو جائیں تو یہ ان فریقین کے مابین 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا.
وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا … 

قتال یا مقاتلہ ہے. اسی طرح جُہدکا عمل ہے. یہ عام فہم لفظ ہے اور اردو میں کوشش کے معنی میں مستعمل ہے .اس سے جہاد و مجاہدہ کے معنی و مفہوم ہوں گے کوششوں کا تصادم‘ کوششوں کا ٹکراؤ‘ کوششوں کا مقابلہ جس کے لیے ایک لفظ ہو گا ’’کشمکش‘‘ یا’’کشاکش‘‘. انگریزی میں اسے کہیں گےstruggle آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے بعد صلہ (preposition) کے طور پر against کا لفظ آتاہے.یعنی کوئی رکاوٹ ہے‘ کوئی چیز درمیان میں راستہ روکنے والی ہے تو اسے ہٹانے اور دُور کرنے کے لیے اس سے کشمکش کرنا. درحقیقت جہاد یا مجاہدہ کا صحیح صحیح لغوی مفہوم یہی ہے. 

فرائض ِ دینی اور جہاد کی منازل

میں اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے اپنے غور وفکرکے نتائج پیش کرنا چاہتا ہوں. اس مسئلہ پر غور و فکر کے نتیجے میں جہاد کے تین بڑے بڑے درجے اور ہر درجہ کے تین پہلو یا تین قسمیں میرے سامنے آئی ہیں میں ان کو اہل ِعلم کے سامنے ان کی تائید و توثیق یا اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں. میں قرآن مجید کا ادنی ٰ طالب علم ہوں‘ مجھے اہلِ علم کی رہنمائی حاصل ہونے پر دلی مسرت ہو گی. میں خلوصِ دل سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مجھ پر میری غلطی واضح کرد ی جائے تو میں سر تسلیم خم کرنے میں ایک لمحہ کے لیے بھی تردّد نہیں کروں گا‘ بلکہ غلطی کی نشاندہی کرنے والے صاحب کا صمیم ِقلب سے احسان مند ہوں گا.

میرے نزدیک یہ تین بڑے بڑے درجے ان بنیادی فرائض سے متعلق ہیں جو ہمارا دین اپنے ماننے والوں پر عائد کرتا ہے. دین کی طرف سے ہر مسلمان پر جو تین بنیادی فرائض عائد ہوتے ہیں ان کی بنیادی تفہیم کے لیے ایک تین منزلہ عمارت کی تمثیل یا تشبیہہ بہت ہی مفید ہے. 

پہلی منزل :عبادتِ ربّ

فرائض دینی کی پہلی منزل ہے خود اللہ کا بندہ بننا .اور یہ بندگی ہمہ وجوہ‘ ہمہ تن اور ہمہ وقت ہو گی‘ جزوی نہیں ہو گی. قرآن میں فرمایا گیاہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸)
’’اے ایمان والو! اسلام میں داخل ہو جاؤ پورے کے پورے.‘‘

ایک اور جگہ فرمایا:
وَ اَنِیۡبُوۡۤا اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ اَسۡلِمُوۡا لَہٗ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ الۡعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ ﴿۵۴﴾ (الزمر)
’’اور اپنے ربّ کی طرف رجوع کرو اور اس کی فرمانبرداری قبول کر لو (اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دو) اس سے پہلے پہلے کہ تم پر عذاب آ جائے‘ پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی.‘‘

اس رویہ کا دینی اصطلاح میں نام ہے اسلام‘ سرتسلیم خم کرنا‘ گردن نہادن‘ 
to surrender . اسی کے لیے مزید دو اصطلاحات ہیں:اطاعت اور تقویٰ. اطاعت کامفہوم ہے مقاومت و مدافعت ترک کرکے برضا و خوشی فرمانبرداری قبول کر لینا‘ جس کے لیے قرآن مجید میں بار بار حکم دیا گیا: اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول( ) کی‘‘.اسے انگریزی میں یوں کہیں گے:

".To give up all kinds of resistance whole heartedly"

یعنی’’خوش دلی سے ہر نوع کی مقاومت ومزاحمت ترک کر دینا.‘‘
جبکہ ’’تقویٰ‘‘ کا مفہوم ہے اللہ کے احکام کو توڑنے سے بچنا‘ اس کی نافرمانی سے باز رہنا. تقویٰ کا حکم قرآن مجید میں بڑی تکرار اور تاکید سے آیا ہے. اس ضمن میں چوٹی کی آیت ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ (آل عمران)
’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تم پر موت نہ آئے مگر حالت ِفرمانبرداری میں.‘‘

اطاعت اور تقویٰ میں بالترتیب مثبت اور منفی رویہ سامنے آتا ہے. بات ایک ہی ہے. گویاایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں. 
اس پہلی منزل کے لیے چوتھی اور آخری جامع ترین اصطلاح ہے ’’عبادت‘‘. اس میں اسلام‘ اطاعت اور تقویٰ کے تمام مفاہیم آ جاتے ہیں. اس لفظِ عبادت کے سمجھنے کے لیے فارسی کے دو الفاظ کو جو اردو میں مستعمل ہیں‘ جمع کریں گے تو مفہوم ذہن نشین ہوجائے گا. وہ الفاظ ہیں ’’بندگی‘‘ اور ’’پرستش‘‘. بندگی غلامی کو کہتے ہیں اور اس میں اطاعت کا پہلو غالب ہے‘جبکہ پرستش کے معنی ہیں مخلصانہ اور والہانہ محبت. سورۃ الزمر میں نبی اکرم کو مخاطب کرکے فرمایاگیا:فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾ ’’پس (اے نبیؐ !) اللہ کی بندگی کیجیے اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے‘‘. پھر سورۃ البینہ میں ان دونوں کو نہایت حسین و جمیل اسلوبِ بیان میں بایں طور جمع کر دیا گیا: وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ (آیت ۵’’اور اُن کو اِس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین (اطاعت) کو اس (اللہ تعالیٰ) کے لیے خالص کرتے ہوئے ‘بالکل یکسو ہو کر‘‘. قرآن مجید میں جن و اِنس کی تخلیق کی غایت یہی عبادتِ ربّ قراردی گئی ہے‘ ازروئے آیت مبارکہ: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو فقط اپنی بندگی کے لیے تخلیق کیا ہے‘‘.

فرائض دینی کی اس پہلی منزل کو سر کرنے کے لیے ایک بندۂ مؤمن کو سہ گونہ جہاد کرنا پڑے گا‘ یعنی مجاہدہ و کشمکش کرنی پڑے گی. 

پہلی منزل کے تین جہاد

اس پہلی منزل پر سب سے پہلے کشمکش کرنی پڑے گی اپنے نفس سے. نفس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیاہے: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳’’یقینا نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے‘‘. ’’اَمَّارَۃ‘‘ اَمر سے مبالغہ کا صیغہ ہے‘ یعنی بہت ہی زیادہ اکسانے والا‘ نہایت سختی سے حکم دینے والا . لہذا اللہ کا بندہ بننے کے لیے پہلی کشمکش خود اپنے نفس کے ساتھ کرنی پڑے گی. ایک حدیث میں نفس کے خلاف جہاد کو ایک اعتبار سے ’’افضل الجہاد‘‘ قرار دیا گیا ہے. حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اَفْضَلُ الْجِھَادِ اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی (۱)’’افضل جہاد یہ ہے کہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ کا مطیع بنانے کے لیے ان کے خلاف جہاد کرو‘‘.حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ (۲’’اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے‘‘.پس پہلی کشمکش ہر اُس شخص کو اپنے نفس سے کرنا ہو گی جو واقعتاً اللہ کا بندہ بننا چاہتا ہے .اسی نفس کے متعلق مولانا رومؒ نے کیا خوب بات کہی ہے :

نفس ما ہم کمتر از فرعون نیست
لیکن اُو را عون ایں را عون نیست! 

یعنی میرا یہ نفس بھی فرعون سے کم نہیں ہے. فرق بس اتنا ہے کہ فرعون کے پاس لاؤ لشکر تھا لیکن اس کے پاس لاؤ لشکر نہیں ہے‘ورنہ میرا نفس اندر سے وہی کچھ دعویٰ کر رہا ہے جو فرعون نے کیا تھا. اس کا دعویٰ تھا ملک ِمصر کے بارے میں: اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ (الزخرف:۵۱’’کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں ہے؟‘‘اسی طرح میرا نفس میرے وجود پر حکومت کا دعوے دار ہے. پس سب سے پہلا اور سب سے بڑا جہاد ’’مجاہدہ مع النفس‘‘ ہے. جس نے اس منزل کو سر نہیں کیااور وہ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے تو میرے نزدیک اس کے لیے ہلکے سے ہلکا لفظ ’’حماقت‘‘ ہے.
نفس امارہ کو تقویت دینے کے لیے ایک طاقت موجود ہے‘ وہ ہے شیطانِ لعین اور اس کی صلبی و معنوی ذریت. اس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اِس نفس کو تقویت پہنچائے‘ اس میں پھونکیں مارے اور اس میں جتنے بھی سفلی محرکات ہیں انہیں مشتعل کرے. ایک حدیث کی ابتدا میں الفاظ آتے ہیں:

اِنَّ اِبْلِیْسَ لَہٗ خُرْطُوْمٌ کَخُرْطُوْمِ الْکَلْبِ وَاضِعُہٗ عَلٰی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ (۱) رواہ الدیلمی‘ بحوالہ کنز العمال ۴/۲۶۹.
(۲) سنن الترمذی‘ ابواب فضائل الجہاد. 
یُذَکِّرُہُ بِالشَّھَوَاتِ وَاللَّذَّاتِ وَیَاْتِیْہِ بِالْاََمَانِیِّ وَیَاْتِیْہِ بِالْوَسْوَسَۃِ عَلٰی قَلْبِہٖ لِیُشَکِّکَہٗ فِیْ رَبِّہٖ (۱)

’’ابلیس کی بھی تھوتھنی ہے کتے کی تھوتھنی کی طرح .وہ اسے ابن ِآدم کے دل پر رکھ دیتا ہے اور اسے خواہشاتِ نفس اور مرغوب چیزوں پر اُبھارتا ہے‘ وہ اس کو لمبی لمبی امیدیں (wishful thinkings) دلاتا اور اس کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے‘تاکہ اسے اپنے ربّ کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے.‘‘

ایک اور متفق علیہ حدیث ہے:

اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِِ (۲)
’’شیطان انسان کے اندر خون کی مانند دوڑتا ہے.‘‘ 

قرآن مجید میں مختلف اسالیب سے بے شمار مقامات پر شیطان کے اغوا اور فریب سے خبردار اور متنبہ کیا گیا ہے. ایک مقام پر فرمایا: 
اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ (فاطر:۶’’(لوگو! )یقیناشیطان تمہارا دشمن ہے ‘پس تم بھی اسے دشمن سمجھو(دشمن جانو)‘‘. اور سورۃ الکہف میں بڑا پیارا انداز ہے ‘جس میں ایک لطیف سا طنز بھی موجود ہے. فرمایا:

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَ ہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا ﴿۵۰

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ (۱) رفع البأس عن حدیث النفس للشوکانی‘ ح:۴۰‘ راوی : معاذ بن جبلؓ .
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتکاف‘ باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ. 
اس کے علاوہ صحیح بخاری میں یہ حدیث متعدد مقامات پر الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ متعدد طرق سے وارد ہوئی ہے. وصحیح مسلم‘ کتاب السلام‘ باب بیان انہ یستحب لمن رؤی خالیا بامرأۃ وکانت زوجتہ او محرما لہ ان یقول : ھذہ فلانۃ ‘ لیدفع ظن السوء بہ. وسنن ابی داوٗد‘کتاب الصیام‘ باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ. کیا سوائے ابلیس کے. وہ جنوں میں سے تھا‘ سو اُس نے اپنے ربّ کے حکم سے روگردانی کی.کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذریت (صلبی و معنوی) کو اپنا دوست بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں. ایسے ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے.‘‘

چنانچہ کشمکش کرنا ہو گی‘ مجاہدہ کرنا ہو گا شیطان اور اس کی صلبی و معنوی ذریت کے ساتھ اور اس کو شکست دینا ہو گی. اس لفظ ’’شکست‘‘ سے میرا ذہن اچانک علامہ اقبال کے فارسی کلام میں اُن کی نظم ’’نالۂ ابلیس‘‘ کی طرف منتقل ہوا جو مجھے بہت پسند ہے. شیطان اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا ہے کہ پروردگار! یہ انسان تو میری چوٹ کا نہیں‘ میرے مقابلے کا نہیں‘ ایک مشت ِخس ہے جس کے لیے میری ایک چنگاری کافی ہے. اس انسان کو اگر سوکھی گھاس ہی بنانا تھا تو مجھ میں اس قدر تیز و تند آگ رکھنے کا کیا فائدہ ہوا! 

ابن ِآدم چیست؟ یک مشت ِخس است !
مشت ِخس را یک شرار از من بس است
اندریں عالم اگر جز خس نبود
ایں قدر آتش مرا دادن چہ سود؟
نظم کا آخری شعر تڑپا دینے والا ہے ؎ 
اے خدا یک زندہ مردِ حق پرست
لذّتے شاید کہ یابم در شکست!

’’الٰہی! کوئی تو زندہ مردِ حق پرست ایسا ہو جو مجھے شکست دے دے ‘تاکہ میں بھی تو کبھی شکست کا لذت آشنا ہو سکوں.‘‘
تو دوسری کشمکش اور دوسرا مجاہدہ یہ ہو گا.

تیسری کشمکش ایک بگڑے ہوئے معاشرے کا جو سماجی دباؤ 
(social pressure) ہے‘ اس سے ہو گی. معاشرے کا دباؤ آپ کو ایک خاص رُخ پر دھکیلے گا. اس لیے کہ ایک ہجوم جس سمت میں جا رہا ہو اُس سمت میں چلنا بہت آسان ہے.آپ کو کوئی زور نہیں لگانا پڑے گا‘ وہ آپ کو خود دھکیل کر لے جائے گا. ؏ 

زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ بساز!
’’زمانہ تمہارے ساتھ موافقت نہیں کرتا تو تم اس کے ساتھ موافقت کر لو!‘‘

اس طرح کوئی تصادم نہیں ہو گا‘ کوئی کشمکش نہیں ہو گی‘ کوئی مزاحمت نہیں ہو گی . دُنیوی 
نقطۂ نظر سے عافیت اسی میں ہے‘ چین اور سکون سے زندگی بسر ہو گی کہ زمانہ تم سے موافقت نہیں کر رہا تو تم زمانے کے ساتھ موافقت کر لو. لیکن غیرت و حمیت کا تقاضا بالکل برعکس ہے ؏ 

زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز!
’’ زمانہ تم سے موافقت نہیں کرتا تو تم اس سے لڑو!‘‘

پس دینی فرائض کی پہلی منزل پر تین اطراف و جوانب میں یہ تین کشمکشیں ہیں جو ہر اُس شخص کو کرنی ہوں گی جو واقعۃً اللہ کا بندہ بننے کا ارادہ اور عزم رکھتا ہو. 

دوسری منزل: شہادت علی الناس

فرائض دینی کی دوسری منزل ہے اس دین کو عام کرنا‘ دوسروں تک پہنچانا‘ اسے پھیلانا. اس کے لیے چار اصطلاحات اہم ہیں. پہلی دو اصطلاحات ہیں :’’تبلیغ ‘‘ اور ’’دعوت‘‘. یہ بھی اطاعت و تقویٰ کی طرح تصویر کے دو رُخ اور مثبت و منفی مفہوم کے حامل الفاظ ہیں. تبلیغ سے مراد پہنچانا اور دعوت سے مراد لوگوں کو کھینچ کر راہِ حق پر لے آنا ہے. یہ بھی ایک ہی عمل کے دو رُخ ہیں. تبلیغ کے لیے نبی اکرم  کو یہ تاکیدی حکم ہوا:
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ:۶۷)

’’اے رسول ( )! پہنچایئے جو آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل ہوا ہے. اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (گویا) اپنی رسالت کا حق ادا نہ کیا.‘‘

نبی اکرم نے حجۃ الوداع میں اُمّت کو جو آخری تاکیدی حکم دیا وہ اسی تبلیغ کا تھا. فرمایا: 
فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (۱’’پس جو موجود ہے (مخاطب ہے) اسے چاہیے کہ (یہ پیغام) اس کو پہنچائے جو یہاں موجود نہیں ہے!‘‘مزید برآں آنحضور نے یہ فرما کر ہر مسلمان کے لیے فریضہ ٔتبلیغ آسان ترین فرما دیا: بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ (۱) صحیح البخاری ‘کتاب الحج‘ باب الخطبہ ایام منی. وصحیح مسلم‘ کتاب القسامۃ والمحاربین والقصاص والدیات‘ باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض و الاموال. آیَۃً (۱’’میری طرف سے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو‘‘.دعوت کے لیے نبی اکرم  کو تاکیدی حکم ہوا:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ (النحل:۱۲۵)
’’(اے نبیؐ !) اپنے ربّ کے راستے کی طرف بلایئے حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان (کفار و مشرکین) کے ساتھ مجادلہ کیجیے احسن طریقے سے.‘‘

یہ بڑی مہتم بالشان آیت ہے‘ اس پر میں بعد میں کچھ عرض کروں گا. یہاں اتنا سمجھ لیجئے کہ اس آیت میں دعوت کی تین سطحیں 
(levels) بیان ہوئی ہیں. 

دعوت کے ضمن میں ایک مزید اٹل اور رہنما اصول اس آیت مبارکہ میں بیان کردیا گیا:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ (حمٓ السجدۃ)
’’اور اُس سے بڑھ کر اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اورنیک عمل کرے اور کہے یقینا میں خود بھی فرمانبرداروں (مسلمانوں) میں سے ہوں!‘‘

یعنی دعوت اللہ کی طرف ہو‘ اس کے ساتھ ہی داعی کی سیرت و کردار عمل ِصالح کا مظہر ہو. مزید برآں وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھے‘ مسلمان کہلائے. اس کی دعوت کسی فقہی مسلک کی طرف نہ ہو اور نہ ہی اس کا لیبل چسپاں ہو. جو شخص اللہ کی طرف دعوت دے اس سے بہتر بات اور کسی کی نہیں ہو سکتی. 

اسی دوسری منزل کے لیے دو اصطلاحات مزید ہیں جو بڑی اہم ہیں‘ لیکن ان کا ادراک و شعور قریباً معدوم کے درجے میں آ گیا ہے. ہمارے معاشرے میں ‘الا ماشاء اللہ ‘چند ہی لوگ ہوں گے جو اِن کی اہمیت کو سمجھتے ہوں گے اور ان پر عمل کرتے ہوں گے. ان میں تیسری اصطلاح ہے: 
’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر ‘‘ یعنی نیکیوں کا پرچار‘ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیاء‘ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل. وسنن الترمذی‘ ابواب العلم‘ باب ما جاء فی الحدیث عن بنی اسرائیل. اُن کی تلقین‘ اُن کا حکم اور برائیوں سے‘ بدی سے لوگوں کو روکنا‘ بدی اور برائی کے راستہ میں آڑے آنا. ہماری ایک دینی تحریک میں امر بالمعروف پر ایک درجہ میں عمل بھی ہو رہا ہے تو اس میں نہی عن المنکر سے صرفِ نظر ہے. حالانکہ حدیث شریف میں نہی عن المنکر پر زیادہ زور اور تاکید ہے. صحیح مسلم کی حدیث ہے.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْـکَرًا فَلْیُغَــیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَّـمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَّـمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۱)
’’(اے مسلمانو!) تم میں سے جو کوئی کسی منکرکودیکھے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے روکے‘ اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے (یعنی نصیحت و تلقین کرے)اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو (کم از کم) دل میں اسے برا جانے (اس پر کڑھے اور پیچ و تاب کھائے )اور یہ کمزور ترین ایمان (کی نشانی) ہے.‘‘

ہمارے اس دَور کے لحاظ سے مسلم شریف کی ایک اور حدیث بہت اہم اور قابل التفات ہے. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور نے فرمایا:

مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ اِلاَّ کَانَ لَہٗ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ‘ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ‘ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَ ھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلَیْسَ وَرَآءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ (۲)
’’مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا‘ اس کی امّت میں اس کے ایسے حواری اور ساتھی ہوا کرتے تھے جو اس نبی کی سنت پر عمل کرتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے. پھر اُن حواریین کے بعد ایسے نالائق جانشین آجاتے تھے جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور ایسے کام کیا کرتے تھے جن کا (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان 

(۲) حوالہ سابقہ انہیں (اللہ کی طرف سے) حکم نہیں ہوا کرتا تھا .تو ایسے لوگوں سے جو ہاتھ سے جہاد کرے تو وہ مؤمن ہے ‘ اور جو زبان سے جہاد کرے تو وہ بھی مؤمن ہے‘ اور جو دل سے جہاد کرے تو وہ بھی مؤمن ہے ‘ اور اس کے ورے تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے.‘‘
یہ ہے ہمارے دین میں نہی عن المنکر کی اہمیت.

اس دوسری منزل کے لیے چوتھی جامع ترین اصطلاح ہے ’’شہادت علی الناس‘‘. جیسے پہلی منزل کے لیے جامع ترین اصطلاح میں نے ’’عبادت‘‘ بیان کی تھی‘ دوسری منزل کے لیے ’’شہادت علی الناس‘‘ جامع ترین اصطلاح ہے. جناب محمد  آخری نبی اور آخری رسول ہیں. لہذا آپ کی اُمت بھی آخری اُمت ہے. یہ اُمت اس لیے برپا کی گئی ہے کہ تاقیامِ قیامت نوعِ انسانی پر اپنے قول و عمل سے حق کی شہادت دے. ارشادِ الٰہی ہے :

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اس طرح (اے مسلمانو!) ہم نے تمہیں بہترین اُمت بنایا ہے تاکہ تم نوعِ انسانی پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائیں.‘‘ 
سورۃ الحج کی آخری آیت اس موضوع پر بڑی عظیم آیت ہے. فرمایا:

وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ
’’اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ (اور جتنا کہ) اس کے لیے جہاد کا حق ہے. اس نے تمہیں چن لیا ہے (پسند کر لیا ہے‘ ایک خاص مقصد کے لیے تمہارا انتخاب ہو گیا ہے).‘‘

درمیان میں ایک جملہ معترضہ ہے:

وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا

اس کے بعد اُمت کے اجتباء (چن لیے جانے) کا مقصد بایں الفاظ بیان ہوا:

لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚ
’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم پوری نوعِ انسانی کے لیے گواہ بن جاؤ .‘‘

یعنی لوگوں پر اپنے قول و عمل سے حق کی شہادت دے کر حجت قائم کرو تاکہ قیامت کے دن عدالت ِخداوندی میں گواہی دے سکو‘ 
testify کرسکو کہ پروردگار! ہم نے تیرا دین ان تک پہنچا دیا تھا.سورۃ البقرۃ کی آیت میں پہلے اُمت کا ذکر ہوا اور پھر رسول کا‘ لیکن یہاں پہلے رسول اور پھر اُمت کا ذکر ہے.
 
شہادت علی الناس وہ اصطلاح ہے کہ یہاں آ کر اُمت ِمحمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا تعلق کارِ رسالت سے جڑ جاتا ہے. چونکہ آنحضور آخری نبی اور آخری رسول ہیں لہذا یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے اور اپنے قول و عمل کی ہم آہنگی کی شہادت کے ذریعے’’ دین الحق‘‘ کو بالفعل قائم کرکے اس کی برکات کے ذریعے لوگوں پر حجت قائم کریں. اس شہادت کی اہمیت کا اندازہ سورۃ النساء کی اس آیت سے لگائیے‘ فرمایا:

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ (النساء)
’’اس دن کیا حال ہو گا جس دن ہم ہر اُمت پر ایک گواہ کھڑا کریں گے ‘اور (اے نبی ؐ !) ان سب پر آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے! ‘‘

عدالت ِخداوندی میں رسول دراصل استغاثہ کے گواہ ہوں گے‘ وہ کہیں گے اے پروردگار! میں نے تیرا پیغام اپنے قول و عمل سے شہادت دیتے ہوئے بنی نوعِ انسان تک پہنچا کر اُن پر حجت قائم کر دی تھی. رسول اللہ کے بعد شہادت علی الناس کی یہ ذمہ داری اُمت کے کاندھوں پر ہے.

شہادت علی الناس کی ذمہ داری کی نزاکت کوسمجھ لیجئے. اگر بالفرض رسول اللہ تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچاتے تو اللہ کے یہاں وہ مسئول ہوتے. انہوں نے پہنچا دیا تو وہ بَری 
ہوگئے. اب لوگ جواب دہ ہوں گے. (۱نبی اکرم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سوا لاکھ کے مجمع سے گواہی لے لی: اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ؟ اور پورے مجمع نے بیک زبان ہو کر گواہی دی: قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ تین بار یہ سوال و جواب ہوئے. اس کے بعد حضور نے آسمان کی طرف پھر مجمع کی طرف اپنی انگشت ِمبارک سے اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ’’اے اللہ تو گواہ رہنا! پھر حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا: فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبِ‘‘ اُمت کا اِجتباء جہاں بہت بڑا اعزاز ہے وہاں بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے .اگر اُمت نے اس شہادت علی الناس کا فریضہ انجام نہیں دیا تو بنی نوعِ انسان کی گمراہی کے وبال سے عدالت ِخداوندی میں بچنا محال ہو جائے گا اور نبی اکرم کی گواہی ہمارے خلاف ہو جائے گی.
 

دعوت و تبلیغ کی تین سطحیں

اس تبلیغ و دعوت کی بھی تین سطحیں ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے‘ ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس مغالطہ میں مبتلا رہیں کہ ہم تو تبلیغ کا حق ادا کر رہے ہیں‘ درآں حالیکہ وہ صورتِ تبلیغ ہو‘ حقیقی تبلیغ نہ ہو.میں تسلیم کرتا ہوں کہ الحمدللہ اس دور میں ایک خاص سطح پر تبلیغ و دعوت کے لیے ایک بہت وسیع حرکت ہو چکی ہے.اس کے حجم کا جہاں تک تعلق ہے وہ بڑا متاثر کن ہے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد اس گلوب پر ہر وقت حرکت میں رہتے ہیں. لیکن میں پوری ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ تبلیغ اور دعوت کے لیے اگر ہم نے قرآنی ہدایات کو اپنا امام نہ بنایا اور ان کے مطابق کام نہ کیا جا سکا تو مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوں گے. اس ضمن میں وہی دو آیات دوبارہ ملاحظہ کیجیے جو میں پہلے پیش کر چکا ہوں. پہلی آیت ہے: (۱) یہی بات سورۃ الاعراف میں اس اسلوب سے بیان فرمائی گئی:

فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ 
’’پس یہ لازماً ہو کر رہنا ہے‘ کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور رسولوں سے بھی پوچھیں (کہ انہوں نے ہمارا پیغام پہنچادیا تھا یا نہیں اور ان کو کیا جواب ملا)‘‘. (جمیل الرحمن) یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ:۶۷

اس آیت ِمبارکہ میں نبی اکرم کو جس تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے وہ قرآن مجید ہے. ارشاد ہوا: بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ ’’تبلیغ کیجیے اس کی (یعنی قرآن کی) جو آپ پر اتارا گیا ہے آپ کے ربّ کی جانب سے ‘‘. پس تبلیغ کا اصل محور و مرکز قرآن مجید ہونا چاہیے. پھر حضور کے ارشادِ مبارک نے ہر مسلمان کے لیے قرآن حکیم کی تبلیغ کے کام کو آسان بنا دیا ہے.آپؐ نے فرمایا: بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً ’’پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت پہنچاؤ‘‘. یہاں ’’ عَنِّیْ‘‘ کا لفظ خاص طور پر قابل توجہ ہے. یہ لفظ یہاں جس معنی و مفہوم کا حامل ہے اسے انگریزی میں ادا کیا جائے تو وہ ہو گا

’’on my behalf‘‘ .قرآن مجید کی تبلیغ کی اصلاً ذمہ داری ہے نبی اکرم کی. چنانچہ اسی آیت ِمبارکہ کے اگلے حصہ میں فرمایا: وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ ’’اور اگر آپ( ) نے بالفرض یہ کام نہیں کیا تو آپؐ نے تبلیغ ِرسالت کا حق ادا نہ کیا.‘‘ میں نے ترجمہ میں لفظ ’’بالفرض‘‘ کا اضافہ اس لیے کیا ہے کہ نبی اکرم کے متعلق ذرا سا یہ گمان کہ آپ قرآن حکیم کی تبلیغ میں کوتاہی فرمائیں گے‘ ایمان کے منافی ہو جائے گا. معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ. یہ اسلوبِ بیان درحقیقت امت کے انتباہ (warning) کے لیے اختیار فرمایا گیا ہے کہ کہیں وہ اس ذمہ داری سے غافل نہ ہو جائے جو پوری اُمت پر بحیثیت کُل اور ہر مسلمان پر بحیثیت ِاُمتی ٔ رسولؐ عائد ہوتی ہے.

دوسری آیت جس کی تفصیل میں نے مؤخر کر دی تھی‘ اس کے حوالے سے دعوت کی تین سطحوں کا سمجھنا ضروری ہے. آیت مبارکہ ہے:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ (النحل:۱۲۵)
’’(اے نبیؐ ) دعوت دو اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت و دانائی کے ساتھ‘ اور عمدہ وعظ و نصیحت کے ساتھ‘ اور (ہٹ دھرم‘ ضدی اور حجتی) لوگوں کے ساتھ مجادلہ کرو اس طریق پر جو بہت ہی عمدہ ہو.‘‘

ہر دور اور ہر معاشرے میں آپ کو لوگوں کی تین سطحیں ملیں گی. ایک سب سے بلند سطح کے لوگ ہوتے ہیں‘ یعنی ذہین اقلیت 
(intellectual minority) . اسی کو intelligentsia بھی کہتے ہیں. یہی brain trust کہلاتا ہے. یہ طبقہ اگرچہ قلیل ترین اقلیت میں ہوتا ہے لیکن معاشرے میں مؤثر ترین ہوتا ہے اور معاشرے کا رُخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے. جیسے انسان کے جسم میں دماغ ہے جو وزن کے لحاظ سے کم و بیش آدھ سیر کا ہو گا‘ لیکن یہ اس کے پورے وجود اور پورے تن و توش کو کنٹرول کرتا ہے. ہاتھ پکڑ سکتا ہے‘ لیکن کس شے کو پکڑے‘ کس کو نہ پکڑے ‘اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا‘اس کا فیصلہ دماغ کرتا ہے. ٹانگیں اسے لے کر چل سکتی ہیں‘ لیکن کس سمت میں چلیں‘ کس میں نہ چلیں ‘اس کا فیصلہ دماغ کرتا ہے. اسی طرح معاشرے کا رُخ درحقیقت یہی ذہین اقلیت متعین کرتی ہے. اس کو جب تک دعوت دینے کا تقاضا دلیل کے ساتھ‘ برہان کے ساتھ پورا نہیں کیا جائے گا‘ یہ طبقہ کوئی اثر قبول نہیں کرے گا. جیسے قرآن حکیم یہود کو کھلا چیلنج کرتا ہے:

قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ (البقرۃ) 
’’(اے نبی ! ان سے) کہہ دو کہ اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو.‘‘

اگر اس ذہین اقلیت کو اعلیٰ علمی و فکری سطح پر مدلل طور پر آپ دین کی دعوت پیش نہیں کریں گے اور اسے 
by pass کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ذہین اقلیت دین کے حق میں ہموار نہ ہو سکے گی . اگرچہ by pass دل کے آپریشن میں بہت مفید ہوتا ہے‘ لیکن اسلامی انقلابی عمل میں یہ طرزعمل بہت خطرناک ہوتا ہے. اگرعوامی سطح پر بات پھیلتی چلی جا رہی ہے لیکن ذہین اقلیت میں وہ بار نہیں پا رہی تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا‘ اجتماعی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی. لہذا یہاں ہدایت آئی: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ ’’اے نبی! (لوگوں کو) حکمت کے ساتھ اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوتدیجیے‘‘.اس حکمت کے ساتھ جس کے متعلق ایک مقام پر فرمایا: وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ (البقرۃ:۲۶۹’’اور جس کو حکمت ود انائی ملی‘ اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی (بہت خیر مل گیا)‘‘. مجھے بڑا افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے یہاں ’’حکمت‘‘ کو حکمتِ عملی کے معنی میں لے کر اس آیت ِمبارکہ کی بڑی حق تلفی کی ہے. حکمت ِعملی بالکل دوسری چیز ہے‘ اگرچہ وہ بھی یقینا مطلوب شے ہے‘ لیکن یہاں جس شان کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے‘ درحقیقت اس کا مفہوم حکمت عملی نہیں ہے‘ بلکہ دلائل و براہین کے ساتھ ‘دانائی کے ساتھ ‘اس دعوت کو پیش کرنا ہے. اگر سوسائٹی کی ذہین اقلیت کو اِس وقت اور اس دَور کی اعلیٰ علمی و فکری سطح پر دعوت پیش نہ کی جا سکے تو معاشرہ بحیثیت ِمجموعی کبھی متأثر نہیں ہو سکتا. 

دعوت کی دوسری سطح ’’عوامی‘‘ ہے . عوام کو دعوت عمدہ وعظ اور دل نشین نصیحت کے ذریعے دی جائے گی‘ کیونکہ انہیں کسی دلیل اور حجت کی ضرورت نہیں ہوتی. ان کے لیے ضرورت ہے موعظۂ حسنہ کی‘ وہی ان کے لیے کفایت کرے گی.

اس سطح پریہ بات نہایت اہم ہے کہ سننے والے یہ محسوس کریں کہ جو وعظ کر رہا ہے وہ ہم پر اپنی دین داری‘ علمیت اور شخصیت کی دھونس نہیں جمانا چاہتا‘ بلکہ وہ مخلص ہے اورہماری خیرخواہی کے لیے بات کہہ رہا ہے. اسے کسی دُنیوی اجر اور صلہ کی ضرورت نہیں ہے. ساتھ ہی انہیں یہ اعتماد ہو کہ وہ بہروپیا نہیں ہے‘ 
اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ والا معاملہ نہیں ہے ‘بلکہ جو کچھ یہ کہہ رہا ہے اپنی ذاتی اور نجی زندگی میں اس پر خود بھی عمل پیرا ہے. یہ دو چیزیں جمع ہو جائیں‘ ایک موعظہ ٔحسنہ اور دوسرے واعظ کا اعلیٰ کردار تومعاملہ ہو گا: از دل خیزد بردل ریزد اور ؏ 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے!

یہ ہے عوامی سطح پر دعوت و تبلیغ. میں جانتا ہوں کہ اس دور میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے ایک بڑے طبقے میں عام طور پر وعظ کو ایک گالی کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے. بڑے ہی استحقار کے انداز میں کہاجاتا ہے ’’اجی وعظ کہہ رہے ہیں‘‘. حالانکہ وعظ بڑی 
عظیم اور مؤثر شے ہے اور قرآنی اصطلاح ہے ‘لیکن اس کا ایک مقام اور محل ہے جہاں یہ تأثیر دکھاتا ہے. یہ عمل غیرموقع اور بے محل ہو گا تو غیرمؤثر رہے گا. ظلم کا مطلب ہی یہ ہے: وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ .یعنی ’’کسی چیز کو اپنے اصل مقام کی بجائے کسی اور جگہ رکھنا‘‘. ان عوام کو آپ فلسفہ پڑھائیں گے تو حماقت ہو گی اور intellectuals کو آپ وعظ پلائیں گے تو یہ کام بھی غیرمعقول ہو گا. ہر شے کو اپنی جگہ پر رکھنا ہی عدل ہے.

تیسری سطح جو ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہے‘ وہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو ہٹ دھرم ہوتے ہیں‘جو کبھی مان کر نہیں دیتے‘ جن کے اپنے مفادات ہوتے ہیں‘ جن کی امدادِ باہمی کی انجمنیں بنی ہوتی ہیں ‘جن کے مفادات باطل نظام سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے مفادات کی وجہ سے کور چشم ہو چکے ہوتے ہیں. بلکہ بسااوقات علیٰ وجہ البصیرت لوگوں کو گمراہ کررہے ہوتے ہیں . اگر ان لوگوں کے زہر کا تریاق فراہم نہ کیا جائے تو یہ عوام الناس کو گمراہ کرتے چلے جائیں گے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں مناظرہ کا فن وجود میں آیا.پھر اس نے باقاعدہ ایک خاص تکنیک اور تخصص
(specialization) کی شکل اختیار کی. موجودہ دور میں کچھ لوگوں نے اسے پیشہ ہی بنا لیاتو اس میں چند خرابیاں درآئیں. مثلاًمجمع عام ہے‘ داد مل رہی ہے‘ تحسین ہو رہی ہے‘ تالیاں بج رہی ہیں‘ نعرے لگ رہے ہیں. گویا اتنی بڑی جیوری (Jury) ہے جس کے سامنے دو پہلوان عقلی کشتی لڑ رہے ہیں. یہ مناظرہ اور مجادلہ کا احسن انداز نہیں. قرآن مجید جسے مجادلہ کہتا ہے وہ احسن طریق پر محکم دلائل اور برہان کے ساتھ ہونا ضروری ہے. 

دعوت کی یہ تیسری سطح لازمی ہے. اگر یہ کام آپ نہیں کریں گے تو اغیار سے شکست کھاجائیں گے. کون نہیں جانتا کہ ہمارے معاشرے میں عیسائیت کی تبلیغ ہو رہی ہے. ہم کنویں کے مینڈک کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر لگاتے رہے اور فقہی تعبیرات‘ راجح و مرجوح‘ افضل و مفضول کے ردّ و قبول میں آپس میں ہی مناظرے اور دنگل جماتے رہے اور جما رہے ہیں ‘جبکہ اندر ہی اندر عیسائیت دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو کھاتی چلی جا رہی ہے. اسی طرح دعوتی سطح پر اس دور میں قادیانیت بہت 
فعال ہو گئی ہے. (۱قادیانی مبلغین کا انداز بڑا جارحانہ ہوتا ہے اور ایک عام آدمی تو کجا اچھا بھلا پڑھا لکھا ‘بلکہ عالم ِدین بھی ان کے مناظرین و مبلغین کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا. الاّ ماشاء اللہ. ان قادیانی مناظرین و مبلغین کو جس طرح خاص موضوعات پر تربیت دی گئی ہے ‘ اس کے ردّ اور ابطال کے لیے جب تک ہمارے ذہین و فطین لوگوں کو اسی طرح ٹریننگ نہ ملے یہ مسئلہ حل نہ ہو گا. ایک وقت میں جب یہاں انگریزی حکومت کی سرپرستی میں بڑے زور و شور کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ شروع ہوئی تھی اور پادری فینڈر نے برصغیر میں تہلکہ مچادیا تھا‘ اگر اُس وقت وہ مردِ حق کھڑا نہ ہو گیا ہوتا جس کا نامِ نامی مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہے‘رحمتہ اللہ علیہ‘تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہندوستان میں مسلمان کس طرح عیسائیت کے اس سیلاب کی نذر ہو جاتے. اس پادری فینڈر نے پورے ہندوستان کے علماء کو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر للکارا اور کھلے طور پر دعوتِ مبارزت دی. مولانا کیرانویؒ خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور پادری فینڈر کو میدان چھوڑ کر ہندوستان سے بھاگنا پڑا. پھر وہ ترکی پہنچا اور وہاں بھی اس نے یہی ہتھکنڈے شروع کیے. عثمانی سلطنت نے مولانا کیرانویؒ ‘کو ترکی آنے کی دعوت دی. مولانا جب وہاں پہنچے تو پادری فینڈر وہاں سے بھی فرار ہو گیا. تو دعوت کی یہ بھی ایک سطح ہے .یہ تیسری سطح ہے. کچھ لوگ اس کا تحقیر کے انداز میں ذکر کرتے ہیں ‘حالانکہ یہ بھی کرنے کا کام ہے. البتہ واضح رہے کہ قرآن اس کے لیے ہمیں ایک امتیازی اخلاقی معیار قائم رکھنے کا حکم دے رہا ہے: وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ . یعنی اس مجادلے میں بھی بالکل مخالفین کی سطح پر نہ اتر آؤ ‘ بلکہ تمہارا داعیانہ کردار اور اس کی ایک اخلاقی شان ضرور برقرار رہنی چاہیے. 

ظاہر بات ہے کہ ایک شخص ان تینوں سطحوں پر کام نہیں کر سکتا. ہر کام کے اپنے اپنے تقاضے ہیں. جو سب سے اونچا کام ہے اس کے لیے اس دور میں ’’علم کو مسلمان بنانے‘‘ کی ضرورت ہے.آج علم ملحد ہو چکا ہے. اس کے بارے میں بڑی پیاری بات علامہ اقبال نے کہی ہے ؎ 
(۱) یہ تقریرقادیانیوں کے بارے میں صدارتی آرڈیننس سے قبل کی ہے. (مرتب) 

عشق کی تیغِ جگر دار اڑا لی کس نے؟
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی!

معرفتِ خداوندی کی تلوار اس علم کی نیام میں سے نکل گئی ہے. یہ نرا خول ہے‘ اور محض خالی نہیں ہے ‘بلکہ اس میں الحاد کا خنجر اس تلوار کی جگہ پیوست کر دیا گیا ہے. اس علم کو مسلمان بنانا آسان نہیں ہے. لوگ نظامِ تعلیم کی بات کیا کرتے ہیں. میں یہ کہا کرتا ہوں کہ نظام اتنی بڑی بات نہیں ہے ‘یہ تو تعلیم دینے کا ایک ذریعہ ہے. سوال یہ ہے کہ اسلامی علم کہاں ہے جسے پہنچایا جائے؟ محض دینیات کا ایک پیریڈیا اسلامیات کا ایک شعبہ قائم کرنے سے کام نہیں چلے گا ‘جبکہ طبیعیات‘ معاشیات‘ عمرانیات‘ سیاسیات اور جو دوسرے علوم ایک طالب علم حاصل کر رہا ہے‘ ان کے رگ و پے میں الحاد اور مادہ پرستی سرایت کیے ہوئے ہے. اسی لیے علامہ ا قبال نے کہا تھا ؎ 

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ اِلا اللہ! 

توحید کی بنیاد پر جب تک پورے علم کی تدوین ِنو نہیں ہو گی‘ تمام علوم کو جب تک مسلمان نہیں بنایا جائے گا‘ ہماری نئی نسل کے اذہان کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ممکن نہیں. ظاہر بات ہے کہ یہ آسان کام نہیں ہے. جب تک سینکڑوں اور ہزاروں اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے نوجوان خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (۱کو اپنا اصولِ عمل (motto) بنا کر میدان میں نہیں آئیں گے اور ان کو اداروں اور حکومت کی جانب سے مناسب ذرائع مہیا نہیں کیے جائیں گے اُس وقت تک یہ کام کیسے ہو گا! ہاں وعظ کی سطح پر ہمیں زیادہ جوہر قابل (talent) مل سکتا ہے. رہا مجادلہ کی سطح پر افراد کی ضرورت تو اس کے لیے خصوصی تربیت گاہوں کی ضرورت ہے. 

دعوت کی تینوں سطحوں پر کام کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ. وسنن الترمذی‘ ابواب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی تعلیم القرآن. باصلاحیت نوجوان جن کے دل میں واقعی دین کا کام کرنے کی تڑپ ہے‘ ولولہ ہے‘ اُمنگ اور جذبہ ہے‘ وہ آگے بڑھیں‘ ان اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے اپنا دُنیوی کیریئر قربان کریں اور اپنی جانیں ان مقاصد کے حصول میں کھپائیں ‘تب جا کر ہی یہ کام ہو گا. اور یہ ہے جہاد فی سبیل اللہ کی دوسری منزل دین کی تبلیغ اور دعوت کے لیے مال و جان کو ان تینوں سطحوں پر کھپانا.
عجب حسنِ اتفاق ہے کہ میں نے نہی عن المنکر سے متعلق جو دو حدیثیں بیان کی ہیں ان میں نہی عن المنکر کے کا م کی انجام دہی کے لیے تین سطحوں ہی کا بیان ہوا ہے. پہلی سطح یہ ہے کہ بدی اور برائی کو ہاتھ یعنی قوت و طاقت سے روک دینا. دوسری یہ کہ اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے‘ وعظ سے اور تلقین و نصیحت سے اس کو روکنا‘ اس کی مذمت کرنا.اور تیسری سطح یہ ہے کہ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا جاننا‘ اس پر گھٹن محسوس کرنا‘ اس پر پیچ و تاب کھانا. اور یہ آخری سطح ایمان کے کمزور ترین ہونے کی دلیل ہے. دوسری حدیث میں ان تینوں سطحوں کے لیے نبی اکرم نے ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا. 

اس دوسری منزل کے لیے ایک دوسرا عنوان ’’نظریاتی کشمکش‘‘ یا ’’فکری تصادم‘‘ ہے. اگر آپ توحید کو پھیلانا چاہتے ہیں تو مشرکانہ اوہام رکھنے والے موجود ہیں‘ ان سے نظریاتی سطح پر تصادم اور مقابلہ ہو گا. آپ کو 
walk over نہیں مل جائے گا. کس قد ر اہم بات ہے کہ قرآن مجید نے یہی لفظ ’’جہاد‘‘ مشرک والدین کے ضمن میں دو جگہ استعمال کیا ہے‘ ایک سورۃ لقمان میں اور دوسرے سورۃ العنکبوت میں. جو نوجوان نبی اکرم پر ایمان لے آئے تھے تو ان کے مشرک والدین ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ واپس اپنے آ بائی دین پر آ جائیں. سورۃ لقمان میں ارشاد ہے: 

وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا (آیت ۱۵)
معلوم ہوا کہ مشرک بھی مجاہد تھے. وہ مجاہد فی سبیل الشرک اور مجاہد فی سبیل الطاغوت تھے اور نبی اکرم  اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی مجاہد تھے اور وہ تھے مجاہد فی سبیل اللہ اور مجاہد فی التوحید. یہ جہاد اور یہ کشمکش آپ کو ہر دور میں ملے گی اور یہ بات بغیر استثناء کے حقیقت ِنفس الامری ہے ؎ 

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!

تیسری منزل : غلبہ و اقامت ِدین

جہاد کی تیسری منزل سب سے کٹھن‘ سب سے بھاری اور سب سے مشکل ہے. اور یہ ہے دین کو غالب کرنے ‘ قائم کرنے اور نافذ کرنے کے لیے‘ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے‘ اس مقصد کے لیے کہ دین کا تجزیہ اور اس کے حصے بخرے کیے بغیر وہ کل کاکل ُاللہ کے لیے ہو جائے‘ جہاد کرنا. جیسے انفرادی سطح پرفرمایا گیا: وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ ویسے ہی اجتماعی سطح پر دین کے غلبہ کے لیے جہاد و قتال کا حکم دیا گیا. فرمایا: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ . یہ ہے جہاد کی بلند ترین چوٹی اور سب سے کٹھن اور مشکل مرحلہ. اس کی وجہ بھی اظہر من الشمس ہے. پہلی منزل پر ذاتی سطح پر نفس کے ساتھ کشمکش تھی. دوسری منزل پر اہل زیغ کے ساتھ نظریاتی اور فکری سطح پر کشمکش تھی. اس تیسری منزل پر طاغوتی نظام کو ہٹانے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے‘ اس لیے کہ دو نظام کسی حال میں بھی co-exist نہیں کر سکتے. پچاس مذاہب بھی ایک بالاتر نظام کے تحت اکٹھے رہ سکتے ہیں. مذاہب باہمی اختلافات کے علی الرغم پُرامن طور پر پہلو بہ پہلو زندگی گزار سکتے ہیں. یہ بالکل قابل ِعمل ہے اس لیے کہ دنیا کا غالب تصور یہی ہے کہ مذہب تو لوگوں کے انفرادی اور نجی مسائل و معاملات سے تعلق رکھتا ہے.

اجتماعیات کے تمام امور میں مذہب کا عمل دخل اِس دور میں تسلیم ہی نہیں کیا جاتا. یہ سیکولر فیلڈ ہے. جیسا کہ انگریز کے دور میں ہندوستان میں اصل نظامِ اجتماعی (Law of the Land) سرکارِ انگلشیہ کا تھا. ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی تھی کہ وہ اپنے شخصی معاملات میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کریں. انگریزی حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا. جیسے دستوری اور نظری طور پر موجودہ بھارت میں بھی یہ بات تسلیم شدہ ہے اور تمام مذاہب کے حقوق دستور میں معین ہیں. بہرحال ایک ملک میں دین یعنی نظامِ اجتماعی ایک ہی رہ سکتا ہے. دو نظام نہ رہ سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں. جس طرح ایک نیام میں بیک وقت دو تلواریں نہیں سما سکتیں‘ اسی طرح ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے. ایک گدڑی میں بہت سے درویش سما سکتے ہیں‘ لیکن ایک شال میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے. معلوم ہوا کہ ہر نظام اپنا غلبہ چاہتا ہے اور اگر اسلام محض مذہب نہیں ‘بلکہ دین ہے ‘جیسا کہ فی الواقع وہ ہے: اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ تو اس کو غلبہ درکار ہے. یہ منزل انگریزوں کی دو سو سالہ غلامی کی وجہ سے ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہو گئی تھی اور اب بھی بڑی مشکل سے یہ تصور لوگوں کے ذہنوں کے سامنے آ رہا ہے. چونکہ غلامی کے تقریباً دو سو سال کے درمیان اسلام دین نہیں رہا تھا‘ صرف مذہب بن گیا تھا‘ لہذا ہمارا سارا تصور اکثر و بیشتر تو پہلی منزل تک محدود ہے ‘یعنی عبادات اور حلال و حرام کے موٹے موٹے احکام ہم جانتے ہیں. دوسری منزل کی طرف بھی پیش رفت ہوئی‘ یعنی تبلیغ‘ دین کو پہنچانا‘ اسے عام کرنے کی کوشش کرنا. لیکن یہ بات ذہنوں سے اوجھل ہو گئی کہ ہمارا دین اپنا غلبہ چاہتا ہے. اَلْحَقُّ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی عَلَیْہِ.اسلام دین ہے اور دین ہوتا ہی وہ ہے جو غالب ہو. علامہ اقبال کا بڑا پیارا شعر ہے ؎ 

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی! 

میں بڑے جزم کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام جب غالب ہوتا ہے تو دین ہوتا ہے اور جب مغلوب ہوتا ہے تو صرف مذہب رہ جاتا ہے. ہماری دو سو سالہ سیاسی اور فکری غلامی نے اس مذہبی تصور کو اس طریقے سے ہمارے ذہنوں میں نقش اور راسخ کر دیا ہے کہ اگر بڑی محنت کے بعد کسی کے سامنے یہ تصور واضح ہوتا ہے کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے تو تھوڑے عرصہ کے بعد مضمحل ہو کر ذہنوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر توجہ اس کے مذہبی تصور تک محدود ہو جاتی ہے. ہمارا اسلام کا محض مذہبی تصور انگریزی دَور میں اتنا راسخ ہوچکا تھا کہ ہمارے بعض زعماء نے انگریز حکومت کی بھی بڑی مدح کی تھی کہ اس نے ہمیں بڑی مذہبی آزادی دے رکھی ہے. لہذا حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانا یا اس میں حصہ لینا مسلمانوں کے لیے قطعی نامناسب ہے. اسی پر مردِ قلندر اقبال نے یہ پھبتی چست کی تھی ؎ 

ملا کو جوہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد! 

اسلام کا غلبہ اور اسلام کا ایک دین کی حیثیت سے بالفعل قائم و نافذ کرنا‘ یہ ہے ہمارے فرائض دینی کی تیسری اور بلند ترین منزل. 

اقامت ِدین کا مرحلہ اور تصادم

اب آئیے ایک قاعدہ کلیہ اور اٹل اصول کی طرف! وہ یہ کہ آپ اپنا نظام لانا چاہتے ہیں تو فی الوقت نافذ و قائم نظام کو ہٹانا ہو گا. جیسا کہ مولانا رومؒ نے کہا ؎ 

گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
می ندانی اوّل آں بنیاد را ویراں کنند 

انقلاب کے لیے یہ عمل لازم و لابدی اور ناگزیر ہے. سیدھی سی بات ہے کہ جو نظام بھی کہیں قائم ہوتا ہے‘ اس کے ساتھ کچھ لوگوں کے مفادات‘ چودھراہٹیں‘ سیادتیں اور قیادتیں وابستہ ہوتی ہیں. یہ مراعات یافتہ طبقات جن کو اپنے حق سے زیادہ مل رہا ہے‘ جو دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ‘جن کے پاس اختیارات اور حقوق کا ناجائز ارتکاز ہو گیا ہے‘ وہ کبھی گوارا نہیں کر سکتے کہ کوئی اس نظام کو چھیڑے‘ اسے ہاتھ لگائے. وہ تو اس کے تحفظ کے لیے فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے کہ ؏ 

’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب میں ہے‘‘ 
ہوش میں آؤ‘ اپنی قوتوں کو مجتمع کرو‘ یہ ایک آندھی آ رہی ہے جو تمہارے مفادات اور تمہاری مراعات کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر لے جائے گی. یہ کشمکش بڑی شدید ہے. قرآن مجید میں تین مقامات پر یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ 
(التوبۃ:۳۳‘الفتح:۲۸‘الصف:۹اور ان میں سے دو مقامات پر آیت کا خاتمہ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ کے الفاظ پر ہوا ہے. یعنی یہ ایک اٹل قانون ہے کہ مشرک کبھی دین ِحق کا غلبہ برداشت نہیں کرسکیں گے. تصادم ہو کر رہے گا. اب نظریاتی تصادم اگلے مرحلہ میں داخل ہو گا اور بالفعل (Physical) تصادم ہو گا. اب طاقت‘ طاقت سے ٹکرائے گی.

اس بالفعل تصادم 
(Physical Collision) کے بھی تین مرحلے ہیں. اس کے پہلے مرحلہ کو ہم کہیں گے ’’صبر محض‘‘ کہ ماریں کھاؤ مگر اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ نہ اٹھاؤ . بارہ برس مَکّہ میں یہی حکم رہا کہ اگر تمہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ننگی پیٹھ لٹایا جا رہا ہے تو لیٹ جاؤ‘ مگرجوابی کارروائی نہیں کر سکتے. اس کو جدید اصطلاح میں کہیں گے: Passive Resistance یعنی کلمۂ توحید اور کلمۂ طیبہ پر قائم رہو‘ لیکن ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے. 

اس تصادم کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اگر طاقت اتنی فراہم ہو گئی ہے کہ اقدام کیا جا سکتا ہے تو آگے بڑھو اور باطل کو للکارو اور چیلنج کرو. اس نظام کی کسی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑو. اسے جدید اصطلاح میں کہا جائے گا 
Active Resistance یعنی اقدام. 
اس کا تیسرا اور آخری مرحلہ ہے 
Armed Conflict یا مسلح تصادم یعنی اب ہاتھ بھی کھول دیے گئے ہیں اور اذنِ قتال دے دیا گیا ہے: 

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ (الحج)
’’(آج سے) ان لوگوں کو اجازت دے دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور اللہ یقینا ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے.‘‘ 

مکی دور صبر ِمحض کا دور تھا. مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد نبی اکرم نے اقدام فرمایا اور چھاپے مار دستے بھیج کر قریش کی تجارت کے دونوں راستوں کو‘ جو مکہ سے یمن اور مکہ سے شام کی طرف جاتے تھے ‘مخدوش بنا دیا. گویا قریش کی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑ دیا‘ کیونکہ ان کی معاش کا بہت بڑا انحصار ان ہی راستوں کے ذریعہ تجارت پر تھا. 
صبر محض کے بعد ہر انقلابی عمل میں ’’مسلح تصادم‘‘ کا لازمی اور آخری مرحلہ آتا ہے.یہ انقلابی دعوت وقت کے جن فراعنہ کے مفادات کو چیلنج کرتی ہے‘ وہ جب اس دعوت کو توسیع پذیر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کو کچلنے کے لیے اپنی عسکری طاقت کو میدان میں لاتے ہیں اور اس طرح مسلح تصادم کا تیسرا اور آخری مرحلہ شروع ہو جاتا ہے. ہر انقلابی دعوت کو لازماً اس آخری مرحلہ سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے. اس لیے کہ یہ انقلابی دعوت وقت کے رائج و نافذ نظام کے ساتھ retaliate کرتی ہے. اب تک تو وہ جھیل رہی تھی‘ برداشت کر رہی تھی‘ لیکن جب وہ اقدام کا مرحلہ شروع کرتی ہے تو نظامِ باطل اس کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ بڑھتا ہے اور آخری مرحلے پر مسلح تصادم کا آغاز ہو جاتا ہے. اسلامی انقلاب کی صورت میں یہی مسلح تصادم جہاد کی آخری چوٹی ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ بن جاتا ہے. چنانچہ نبی کریم کی انقلابی جدوجہد میں ایک وقت وہ تھا کہ اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی‘ لیکن آخری مرحلے پر وہ وقت بھی آیا کہ جس کے متعلق حکم ِالٰہی آتا ہے:

کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ (البقرۃ)
’’(مسلمانو!) تم پر جنگ فرض کر دی گئی ہے‘ اور وہ تمہیں ناپسند ہے‘ اورہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز ناپسند ہو درآنحالیکہ اسی میں تمہارے لیے خیر ہو‘ اور ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں پسند ہو درانحالیکہ اس میں تمہارے لیے شر ہو. اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے.‘‘ 

اس قتال کا ہدف 
(target) یہ ہے کہ مسلمانو! اب جبکہ تمہاری تلوار نیام سے باہر آ گئی ہے‘ تو یہ اُس وقت تک نیام میں نہیں جائے گی جب تک فتنہ و فساد بالکل فرو نہ ہو جائے اور اللہ کے خلاف بغاوت بالکل کچل نہ دی جائے اور دین کل کاکل ُاللہ ہی کے لیے نہ ہوجائے. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹یہاں فتنہ سے مراد کیا ہے‘ اس کی ہمارے اکثر اصحابِ علم مختلف تشریحات و توجیہات کرتے ہیں. میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ چونکہ ہمارا دین کا تصور غیرانقلابی بن گیا ہے لہذا جہاں کہیں بھی انقلابی بات آتی ہے تو پہلو بچا کر نکلنے کی کوشش ہوتی ہے. اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فتنوں کا شمار مشکل ہے‘ استحصال بھی فتنہ ہے‘ ناانصافی بھی فتنہ ہے‘ لیکن وہ اصل فتنہ کیا ہے جو اِس آیت میں مراد ہے اور جو اُمّ الفتن ہے؟ وہ یہ ہے کہ یہ زمین اللہ کی ہے‘ اس کا جائز حاکم صرف اُس کی ذات ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ اگر زمین پر تشریعی معاملات اور اجتماعی نظامِ حیات میں اللہ کے سوا کسی اور کا حکم چل رہا ہے تو یہ اس کے خلاف صریح بغاوت ہے. یہی سب سے بڑا فتنہ ہے.

یہاں فتنہ سے اصلاً یہی فتنہ مراد ہے. اسی کے متعلق ایک مقام پر فرمایا گیا: 
وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ (البقرۃ:۱۹۱اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا: وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ (البقرۃ:۲۱۷غور کیجئے وہاں قتال و مقاتلہ کن کے خلاف تھا! اپنی ہی قوم اور اپنے قبیلہ کے لوگ‘ اپنے ہی بھائی بند‘ اپنے ہی اعزہ و اقارب مدمقابل تھے‘ لیکن وہ طاغوتی نظام کے علمبردار تھے اور اُمت ِمحمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اس بات پر مامور کی گئی تھی کہ اجتماعی نظام خالصتاً توحید کے انقلابی نظریے پر قائم ہو. جیسے فرمایا گیا: اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ (الزمر:۳اور: اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ (الشوریٰ:۱۳سورۃ التوبۃ اور سورۃ الصف میں جہاں خاتم النبیین والمرسلین  کی بعثت کی امتیازی شان یہ بیان ہوئی ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ تو دونوں مقامات کے آخر میں فرمایا گیا: وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ’’اور چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوارہو!‘‘ 
جن لوگوں کے مفادات اور جن کی قیادت و سیادت نظامِ باطل سے وابستہ ہو وہ اس بات کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کا طاغوتی نظام بیخ و بن سے اکھاڑ کر توحید پرمبنی نظامِ عدل و قسط قائم کیا جائے. وہ تو مزاحمت کریں گے‘ مخالفت کریں گے اور اپنی 
پوری طاقت دین اللہ کے قیام و نفاذ کو روکنے کے لیے صرف کر دیں گے. لہذا اللہ کے فرماں برداروں کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اللہ کے باغیوں سے پنجہ آزمائی کریں‘ ان سے نبردآزما ہوں اور اللہ تعالیٰ کی تشریعی حکومت کو قائم کرنے کے لیے اپنا تن‘ من‘ دھن سب کچھ قربان کر دیں ‘تاکہ ’’حق بحق دار رسید‘ ‘والا معاملہ ہو جائے. جو لوگ یہ قربانی دیں تو وہ سرخرو ہیں .ازروئے الفاظ قرآنی:

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾ (الاحزاب)
’’اہل ِایمان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے (اس کی راہ میں گردنیں کٹا کر سرخرو ہو چکے ہیں) پس ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی اپنی باری آنے کا منتظر ہے‘ اور ان اہل ایمان نے اپنے اس رویے اور طرز عمل میں ذرّہ برابر تبدیلی نہیں کی.‘‘

لیکن اگر ایمان کے دعوے دار بیٹھے رہیں‘ باطل کے ساتھ کوئی کشمکش نہ کریں ‘بلکہ اس کے زیر ِعافیت چین کی بانسری بجائیں‘ اپنے معیارِ زندگی کی بلندی ہی مقصود و مطلوب بن جائے تو یہ طرزِعمل دُنیوی قانون میں بھی اعانت ِجرم ہے. یہ باغیوں کے ساتھ ایک نوع کا تعاون قرار دیا جاتا ہے. 
ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ کا سب سے بڑا سبب یہی بغاوت ہوتی ہے. کائنات کے تکوینی نظام پر جس اللہ کی حکومت قائم ہے‘ یہ زمین اُ سی اللہ کی ہے‘ لہذا اس پر اس کی تشریعی حکومت بھی قائم ہونی چاہیے. اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ حکم دینے کا اختیار صرف اسی کو حاصل ہے. لیکن اس اصل الاصول کو چھوڑ کر خواہ کوئی فردِ واحد ہو‘ کوئی قوم ہو‘ عوام ہوں‘ کسے باشد‘ کوئی بھی ہو‘ وہ اگر اپنا حکم چلوا رہا ہے تو درحقیقت وہ خدائی کا مدعی ہے اور اللہ کا باغی ہے. مسلمان تو وہ ہے جوصرف اللہ کا وفادار ہو. اس موقع پر اچانک میرا ذہن اس مقدمۂ بغاوت کی طرف منتقل ہوا جو ہمارے ہی شہر کراچی کے خالق دینا ہال میں ہمارے چند اکابر کے خلاف پہلی جنگ عظیم کے دوران قائم ہوا تھا. یہ مقدمہ اس امر کی شہادت دیتاہے کہ ہماری تاریخ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے ذکر سے ہمیں کسی درجے میں سہارا ملتا ہے کہ انہوں نے وہی طرزِعمل اختیار کیا جو ایک مسلمان کے شایانِ شان ہے.ان اکابر نے پہلی جنگ عظیم کے اس ٹربیونل کے سامنے جو انگریزی حکومت نے بغاوت کے مقدمہ کے لیے قائم کیا تھا ‘برملا کہا تھا کہ ہاں ہم انگریزی حکومت کے باغی ہیں‘ اس لیے کہ مسلمان صرف اللہ کا وفادار ہو سکتا ہے ‘وہ کبھی غیر اللہ کا وفادار نہیں ہوسکتا! 

ایمان اور جہاد لازم و ملزوم ہیں

بہرحال یہ ہیں جہاد کے تین درجے. ان کو مزید پھیلائیں گے تو نو(۹) درجے بن جائیں گے اور نویں منزل پر جا کر یہ جہاد قتال بنتا ہے جو اس کی چوٹی اور اس کا نقطۂ عروج ہے. یہی وجہ ہے کہ سورۃ الصف میں جہاں جہاد کی بات ہوئی وہاں یہ بات صراحت سے سامنے آتی ہے کہ جہاد تو ایمان کی بنیاد (base) ہے. جہاد نہیں کرو گے تو عذابِ جہنم سے چھٹکارا پانے کی امید محض امید ِموہوم ہے. تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ’’یہ محض تمہاری خوش فہمیاں ہیں‘‘.اس کی کوئی برہان اور دلیل تمہارے پاس نہیں ہے. عذابِ الیم سے رُستگاری کے لیے ایمان اور جہاد لازم و ملزوم ہیں. چنانچہ اسی سورۂ مبارکہ میں فرمایا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ (الصف)
’’اے اہل ایمان! میں بتاؤں تمہیں وہ تجارت جو تم کو عذابِ الیم سے نجات دلادے؟ (وہ یہ ہے کہ) ایمان (پختہ) رکھو اللہ اور اُس کے رسول پر اور جہاد کرو اُس کی راہ میں اپنے مالوں سے اوراپنی جانوں سے ‘یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.‘‘ 

معلوم ہوا کہ ایمان کے ساتھ جہاد ناگزیر ہے. اس سے تو مفر ہے ہی نہیں. یہ تو نجات کی شرطِ لازم ہے. قرآن مجید تو یہ بتاتا ہے کہ جہاد نہیں تو ایمان نہیں. دلیل کے لیے سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ دیکھئے! فرمایا: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡاْ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 
’’مؤمن تو صرف وہ لوگ ہیں جواللہ اور اس کے رسول پر اس شان سے ایمان لائے کہ ان کے قلوب تشکیک اور خلجان میں نہیں پڑے (بلکہ ان کو یقینِ قلبی حاصل ہو گیا) اور جنہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں. بس صرف یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘ 

اس آیتِ مبارکہ میں حصر کے دو اسلوب آئے ہیں‘ ایک 
اِنَّمَا اور دوسرے اُولٰٓـئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ. اسی لیے میں نے ترجمانی میں اس اسلوب کو پیش نظر رکھا ہے.

آگے چلیے. اگر کوئی دُنیوی محبت اللہ کی راہ میں جہاد سے روکنے کے لیے پاؤں میں بیڑی بن کر پڑ گئی تو قرآن مجید کا فتویٰ کیا ہے! اس کے لیے سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴ ملاحظہ کیجیے:

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ 

اللہ کی محبت‘ اس کے رسول ( ) کی محبت اور اللہ کی راہ میں جہاد کی محبت کی عظمت و اہمیت پر قرآن حکیم کی یہ بڑی جامع اور مہتم بالشان آیت ہے. اس آیت میں مسلمانوں کے سامنے ایک معیار اور کسوٹی رکھ دی گئی ہے .ان سے فرمایا گیا ہے کہ اپنے باطن میں ایک ترازو نصب کر لو اور پھر جائزہ لے لو کہ تمہاری اصلی دلی محبتوں کا کیا حال ہے. فرمایا کہ اے نبی ! ان مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے دل میں نصب شدہ میزان کے ایک پلڑے میں آٹھ محبتیں ڈ الو. یعنی اپنے باپوں کی محبت‘ اپنے بیٹوں کی محبت‘ اپنے بھائیوں کی محبت‘ اپنی بیویوں کی محبت اور اپنے رشتہ داروں اور اعزہ ّو اقارب کی محبت. ماں ‘بیٹی‘ بہن اور شوہر کی محبتوں کا بھی ان میں احاطہ ہو گیا. یہ پانچ محبتیں علائقِ دُنیوی سے متعلق ہیں. پھر ان کے ساتھ چھٹی محبت اس مال کی جو بڑے چاؤ کے ساتھ تم نے جمع کیا ہے‘ ساتویں اس کاروبار کی محبت جو تم نے بڑی محنت سے جمایا ہے ‘ جس میں تم نے خون پسینہ ایک کیا ہے ‘جس کے متعلق تم کو اندیشے لاحق رہتے ہیں کہ کہیں کساد بازاری نہ آ جائے‘ کہیں گھاٹا نہ ہو جائے ‘اور آٹھویں ان مکانوں کی محبت جو تم نے بڑے ارمانوں سے تعمیر کیے ہیں‘ جن کی زیبائش و آرائش پر تم نے پانی کی طرح پیسہ لگایا ہے. یہ تین محبتیں اسباب و سامانِ دُنیوی سے متعلق ہیں. اب تقابل کے لیے دوسرے پلڑے میں تین محبتیں ڈالو. ایک اللہ کی محبت‘ دوسری اس کے رسول ( ) کی محبت اور تیسری اس کی راہ میں جہاد کی محبت. اب دیکھو کون سا پلڑا بھاری پڑا‘ کون سا جھکا! اگر ان آخر الذکر محبتوں کا پلڑا ہلکا رہ گیا اور علائق وسامانِ دُنیوی کی محبتوں والا پلڑا بھاری پڑ گیا تو جاؤ گومگو کی حالت میں مبتلا رہو اور انتظار کرو! میں محاورے کے طور پر فَتَرَبَّصُوۡا کا صحیح مفہوم ادا کرنے کے لیے کہا کرتا ہوں کہ ’’جاؤ دفع ہو جاؤ‘‘ حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ ’’حتیٰ کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے ‘اور اللہ ایسے فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

یہاں فاسق کا لفظ انتہائی قابل توجہ ہے. جس مسلمان کا دل جہاد کی محبت سے خالی اور اس کی اہمیت و عظمت سے غافل ہے اس کا شمار بھی فاسقوں میں ہوتا ہے. میرا ظن غالب ہے کہ اسی آیت مبارکہ سے متاثر ہو کر اقبال نے یہ شعر کہا تھا: ؎ 

یہ مال و دولت دُنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ!

معلوم ہوا کہ جہاد سے تو مفر ہے ہی نہیں. سورۃ الحجرات کی متذکرہ بالا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے ‘ بلکہ میرے غور و فکر کی حد تک نص ِقطعی ہے کہ ایمانِ حقیقی کے دو رکن ہیں : ایک ہر نوع کے ریب و تشکیک اور ذہنی خلجان سے مبرا یقین ِقلبی اور دوسرا اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد.
بلاشبہ کلمۂ شہادت‘ اقامت ِصلوٰۃ‘ ایتائے زکو ٰۃ‘ حج اور صومِ رمضان‘ پانچ ارکانِ اسلام ہیں. ان میں شہادتَین کو بنیاد اور دوسرے چار کو ستون کا مقام حاصل ہے. بنیاد اور ستون کے بغیر کسی عمارت کی تعمیر کا تصور ممکن ہی نہیں‘ لہذا میں فرائض دینی کے جامع 
تصور کو ظاہر کرنے کے لیے جو تین منزلہ عمارت کی مثال پیش کیا کرتا ہوں اس کی ہر منزل کے لیے یہ ارکانِ اسلام ناگزیر ہیں. لیکن ایمانِ حقیقی کے دو رکن ہیں. ایک قلبی یقین اور دوسرا جہاد فی سبیل اللہ. جہاں تک میں نے غور و فکر کیا ہے‘ نجات کا کوئی دوسرا راستہ اس جہاد کے بغیر مجھے نظر نہیں آتا. سورۃ العصر میں نجاتِ اُخروی کے جو ناگزیر لوازم بیان فرمائے گئے ہیں ان میں تیسرا لازمہ اور تیسری ناگزیر شرط’’ تواصی بالحق‘‘ قرار دی گئی ہے. سورۂ ھود کی پہلی آیت مبارکہ میں یہ اصول بیان فرمایا گیا ہے: 

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾ 

’’ا ل ر . یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں‘ پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے.‘‘
چنانچہ قرآن حکیم اسی تواصی بالحق کی شرح کے لیے مزید کئی اصطلاحات بیان کرتا ہے. جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح بھی اس کی توضیح و تشریح اور تفصیل ہے.

جہاد کی چوٹی : قتال فی سبیل اللہ

قتال فی سبیل اللہ اسی جہاد فی سبیل اللہ کی چوٹی اور اس کا ذروۂ سنام ہے. یہ مقامِ محبوبیت ہے .ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصّف) ’’یقینا اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں صفیں باندھ کر گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘ 

سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ اُنہیں مردہ مت کہو‘ وہ زندہ ہیں‘ مگر تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہوتا.‘‘

اور سورۂ آل عمران میں فرمایا:

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙ

’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں اُ نہیں مردہ نہ سمجھو‘ وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں‘ اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں.‘‘
یہ وہ اعلیٰ و ارفع مرتبہ ہے کہ خود نبی اکرم اس کی تمنا اور آرزو فرمایا کرتے تھے. ارشادِ نبوی ہے:

لَوَدِدْتُ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ (۱)
’’میرے دل میں بڑی آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں‘ پھر مجھے زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں.‘‘

کتب ِاحادیث میں نبی اکرم کی یہ دعائیں منقول ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ 

اور :

اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ 

لیکن سورۃالمجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ سنت بیان فرمائی ہے:

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۲۱

’’اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے (یعنی طے فرما دیا ہے) کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے. یقینا اللہ ہی زور آور اور زبردست ہے.‘‘ 
رسولوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تحفظ حاصل ہوتا ہے اور وہ مقتول نہیں ہوتے. اس لیے کہ عالم ِظاہری میں اس طرح رسول کے مغلوب ہونے کا پہلو نکلتا ہے‘ البتہ انبیاء علیہم السلام کو یہ خصوصی تحفظ نہیں دیا گیا. چنانچہ ان میں سے بعض قتل بھی کیے گئے‘ جس کی سب سے بڑی مثال حضرت یحیی علیہ السلام کا قتل ہے. 

ضمناً یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رفعِ آسمانی کی یہ بھی ایک دلیل ہے ‘کیونکہ وہ بھی ایک رسول تھے . پھر اللہ تعالیٰ کی یہ سنت بھی ہے کہ جس قوم کی طرف رسول مبعوث کیا جاتا ہے وہ قوم اگر رسول کا انکار کر دے‘ اس پر صرف 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب التمنی‘ باب ما جاء فی التمنی ومن تمنی الشھادۃ. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب فضل الجھاد والخروج فی سبیل اللہ. معدودے چند لوگ ہی ایمان لائیں تو اہلِ ایمان کو بچا کر اس قوم کو عذابِ استیصال کے ذریعہ اسی دنیا میں ہی تباہ و برباد اور ہلاک کر دیا جاتا ہے. حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے تھے. وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ بنی اسرائیل نے آنجناب ؑکا انکار کیا لیکن انہیں عذابِ استیصال سے نیست و نابود نہیں کیا گیا. یہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے لیے دلیل ہے. حضرت مسیحؑ قربِ قیامت میں جناب محمد  کے اُمتی کی حیثیت سے نزول فرمائیں گے اور ان شاء اللہ انہی کے ہاتھوں تمام یہودی عذابِ استیصال و ہلاکت کا مزہ چکھیں گے.

میں عرض کر چکا ہوں کہ ایمان اور جہاد لازم و لزوم ہیں اور جہاد کی چوٹی قتال ہے. البتہ قتال ہر وقت نہیں ہوتا‘ موقع و محل کے اعتبار سے ہوتا ہے. اگر کوئی اسلامی حکومت بالفعل قائم ہو اور اسے غیرمسلموں سے فی سبیل اللہ جنگ کا مرحلہ درپیش ہو اور حالات کے لحاظ سے حسب ِضرورت فوج موجود ہو یا مزید ضرورت کے لیے لوگ جنگ کے لیے نکل آئیں تو قتال فرضِ عین نہیں فرضِ کفایہ ہو جائے گا. لیکن ’’جہاد‘‘ وہ چیز ہے جو ایک مسلمان پر شعور کی عمر کو پہنچتے ہی فرض ہو جاتا ہے. اس جہاد کے مختلف مدارج ہیں‘ جن میں سے بعض کا میں قدرے تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں اور بعض کی طرف میں نے محض اشارات پر اکتفا کیا ہے. ’’قتال‘‘ اس جہاد کے عمل کی آخری چوٹی اور اس کا ذروۂ سنام ہے. اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے جو صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : مَنْ مَّاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاقٍ (۱)

رسول اللہ  نے فرمایا :’’جو شخص اس حال میں مر جائے کہ نہ تو اُس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی ہو اور نہ ہی اس کے دل میں اس کا خیال آیا ہو (اس کی تمنا اور آرزو بھی پیدا نہ ہوئی ہو)تو ایسے شخص کی موت ایک نوع کے نفاق پر ہوگی‘‘. (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب ذم من مات ولم یغزولم یحدث نفسہ بالغزو. بقول اقبال ؎ 

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت‘ نہ کشور کشائی!

جہاد کے لیے جدید اصطلاح : انقلابی عمل

اگرچہ میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ ہمیں حتی الامکان جدید اصطلاحات سے احتراز کرنا چاہیے اور کتاب وسنت کی اصل اصطلاحات سے چمٹے رہنا چاہیے‘ عافیت اسی میں ہے‘ ورنہ بالکل غیرشعوری اور غیرمحسوس طور پر غلط نظریات اذہان میں رینگ کر آجاتے ہیں اور پیوست ہو جاتے ہیں .لیکن اس کے ساتھ ہی ایک یہ دشواری بھی پیش آتی ہے کہ ہر دَور کی اپنی زبان ہوتی ہے‘ ہر دور کی چند مخصوص اصطلاحات ہیں جو بات کی تفہیم کے لیے ضروری ہوتی ہیں. اگر اس زبان میں ان اصطلاحات کے ساتھ بات نہیں کی جائے گی تو ابلاغ کا حق ادا نہیں ہو گا. لہذا میرے نزدیک درمیانی راہ یہ ہے کہ وقتی طور پر ابلاغ اور افہام کے لیے ان اصطلاحات کو استعمال ضرور کیا جائے لیکن اپنے فکر کو مستقلاً اُن اصطلاحات کے حوالے سے استوار کیا جائے جو کتاب و سنت کی ہیں. اسی مقصد کے پیش نظر میں یہ بات عرض کرنے کی جرأت کر رہا ہوں کہ ’’جہاد‘‘ کے لیے آج کے دور کی اصطلاح ہے ’’انقلاب‘‘ .انقلابی عمل ہی دراصل جہاد ہے. البتہ اس میں تھوڑا سا فرق واقع ہوتا ہے. میں نے جہاد کے حوالے سے جو تین سطحیں (levels) بیان کی ہیں‘ انقلابی عمل میں ان کی ترتیب بدل جائے گی. جب ہم انقلاب کی بات کریں گے تو سب سے پہلے دعوت کا مرحلہ آئے گا. اس لیے کہ ہر انقلابی فکر کیpropagation اس کی نشرواشاعت‘ اس کو پھیلانا‘ اس کو عام کرنا‘ اسے ذہنوںمیں اُتارنا‘ اس کو دلائل کے ساتھ حق ثابت کرنا‘ اس انقلابی عمل کا نقطہ ٔ آغاز ہوتا ہے. لہذا اس طرح درمیانی منزل اب پہلی ہو گئی ہے.

انقلابی عمل کے لیے تنظیم ناگزیر ہے

انقلابی عمل کا دوسرا مرحلہ کیا ہوتا ہے! یہ کہ جو لوگ اس فکر کو قبول کریں انہیں منظم کیا جائے. اس لیے کہ انقلاب بغیر جماعت کے نہیں آتا. میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ انفرادی طور پر دین کا کوئی کام نہیں ہو سکتا.انفرادی سطح پر تبلیغ ہو سکتی ہے. میرے نزدیک اس کی سب سے اعلیٰ اور درخشاں مثال حضرت نوح علیہ السلام کی ہے کہ ساڑھے نو سو برس دعوت دیتے رہے. سورۂ نوح کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب علیہ السلام نے کس کس طور اور طریقے سے دعوت و تبلیغ کے فریضہ کی انجام دہی کے لیے مساعی کیں اور پھر کتنی حسرت کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا :

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ دَعَوۡتُ قَوۡمِیۡ لَیۡلًا وَّ نَہَارًا ۙ﴿۵﴾فَلَمۡ یَزِدۡہُمۡ دُعَآءِیۡۤ اِلَّا فِرَارًا ﴿۶﴾وَ اِنِّیۡ کُلَّمَا دَعَوۡتُہُمۡ لِتَغۡفِرَ لَہُمۡ جَعَلُوۡۤا اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَ اسۡتَغۡشَوۡا ثِیَابَہُمۡ وَ اَصَرُّوۡا وَ اسۡتَکۡبَرُوا اسۡتِکۡبَارًا ۚ﴿۷﴾ثُمَّ اِنِّیۡ دَعَوۡتُہُمۡ جِہَارًا ۙ﴿۸﴾ثُمَّ اِنِّیۡۤ اَعۡلَنۡتُ لَہُمۡ وَ اَسۡرَرۡتُ لَہُمۡ اِسۡرَارًا ۙ﴿۹

’’اے میرے ربّ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز تیری طرف بلایا‘ مگر میری دعوت نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا. اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے‘ انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے مُنہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا. پھر میں نے انہیں بآوازِ بلند دعوت دی. پھر میں نے عَلانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا.‘‘

لیکن قوم مردہ ہو چکی تھی. اس نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتِ توحید کو قبول نہیں کیا‘بلکہ اس سے اعراض و انکار کیا. ساڑھے نو سو برس کی دعوت و تبلیغ کا جو نتیجہ نکلا اس کو سورۂ ہود کی آیت ۴۰ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے: 
وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ’’اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اس (نوحؑ) کے ساتھ ایمان لائے تھے‘‘. یہاں ’’قلیل‘‘ وہ معنی دے رہا ہے جو انگریزی میں a little دیتا ہے‘ یعنی بہت ہی کم‘ معدودے چند. قرآن حکیم میں تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؑ پر ان کے گھر والے ہی ایمان لائے تھے اور ان میں سے بھی ایک بیٹے نے دعوتِ حق قبول نہیں کی تھی‘ وہ کفر پر ہی اڑا رہا تھا. ممکن ہے کہ انگلیوں پر گنے جانے والے چند اورلوگ بھی ایمان لائے ہوں‘ بہرحال ساتھی نہ ملے‘ جمعیت فراہم نہیں ہوئی‘لہذا اگلا قدم کیسے اٹھتا!اعوان و انصار نہ ہوں تو اگلی منزل کی طرف پیش رفت کیسے ہو! لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی استقامت و مصابرت دیکھئے کہ ساڑھے نو سو برس دعوت و تبلیغ میں کھپا دیے اور اپنا فرضِ منصبی ادا کر دیا. ہمارے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ ایک مخلص شخص اپنی پوری زندگی اس کام میں لگا دے‘ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو اور کامیاب ہو گا. معاشرہ اگر مر چکا ہے‘ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت معدوم ہو چکی ہے تو کوئی مثبت جواب نہیں ملے گا‘ ساتھی میسر نہیں آئیں گے. اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں. چونکہ اگلا قدم اٹھانے اور اگلی منزل کی طرف پیش رفت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا‘ لہذا وہ بریٔ الذمہ ہے. 

اسی طرح تربیت و تزکیہ‘ تدریس و تعلیم اور تصنیف و تألیف یہ سارے کام دین کے ہیں اور یہ انفرادی طور پر بھی ہو سکتے ہیں اور بحمداللہ ہمارے یہاں یہ سب ہی کام ہو رہے ہیں.لیکن جب آخری منزل اور اصل ہدف کی بات ہو گی جس کو میں اب انقلاب سے تعبیر کر رہا ہوں‘ یعنی دین کا غلبہ‘ دین کا قیام‘ دین کا نفاذ‘ دین کی سربلندی‘ توکوئی احمق شخص ہی ہو سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ یہ کام انفرادی طور پر ممکن ہے. بلکہ ایسا خیال رکھنے والا شخص فاترالعقل ہی ہو سکتا ہے. میں کہا کرتا ہوں کہ تنظیم کے بغیر کوئی اجتماعی کام نہیں ہوسکتا‘چاہے وہ خیر کے لیے ہوچاہے شر کے لیے ہو .جو اشخاص لوگوں کی جیبیں کاٹتے ہیں‘ ان کی بھی تنظیم ہوتی ہے .ڈاکوؤں کے بھی گروہ 
(gangs) ہوتے ہیں‘ تنظیم ہوتی ہے. تخریب کاری کے لیے بھی تنظیمیں قائم ہیں. لہذا اقامت ِدین اور اظہارِ دین کے لیے تنظیم اور جماعت ناگزیر ہے‘ اس سے مفر نہیں. بقول فیض احمد فیضؔ ؎ 

جز دار اگر کوئی مفر ہو تو بتاؤ
ناچار گنہگار سوئے دار چلے ہیں!

حضرت نوح علیہ السلام کے بالکل برعکس دوسری مثال میں حضرت محمد رسول اللہ  کی دیا کرتا ہوں. سورۃالشوریٰ کی آیت ۱۳ میں جن پانچ اولوالعزم رسولوں کا ذکر ہوا ہے‘ ان میں زمانی ترتیب کے لحاظ سے اوّلین ہیں حضرت نوح علیہ السلام اور آخری ہیں جناب محمد . درمیان میں تین رسول ہیں‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام. اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام بالکل وسط میں آتے ہیں. اب دیکھئے ‘اوّل و آخر میں کتنی متضاد کیفیت ہے کہ ایک نے ساڑھے نو سو برس دعوت دی‘ لیکن کوئی اعوان و انصار نہیں ملے. جمعیت ہی فراہم نہیں ہوئی تو اگلا قدم کیسے اٹھے! اور دوسرے کا معاملہ یہ ہے کہ کل بیس برس میں دنیا کا عظیم ترین صالح انقلاب برپا فرما دیا. میں بیس سال فتح مکہ اور اس کے بعد غزوۂ حنین کی کامیابی کے اعتبار سے کہہ رہا ہوں‘ کیونکہ اس کے ساتھ ہی جزیرہ نمائے عرب کی حد تک انقلابِ اسلامی کی تکمیل ہو گئی تھی. محمد رسول اللہ کی جدوجہد میں مابہ الامتیاز اور فیصلہ کن چیز کیا ہے! اسے سورۃالفتح کی آیات ۲۸‘ ۲۹ کے حوالے سے سمجھئے. فرمایا:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ …

’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کاملہ اور دین ِحق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے ‘اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے.محمد( ) اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں…‘‘
بقول شاعر مشرق ؎ 

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!

محمد رسول اللہ کی جمعیت اور تنظیم کو تصور میں تولائیے. وہ لوگ کہ جن کی دین سے وابستگی اور دین کے لیے ایثار کا یہ عالَم تھا کہ وہ اس شان سے نبی اکرم کے اعوان و انصار بنے ہیں کہ ؏ ’’ہر چہ بادا باد ما کشتی درآب انداختیم‘‘ والا نقشہ ہے. جو غزوۂ بدر سے قبل ایک مشاورت میں کہہ رہے ہیں کہ ’’اے اللہ کے رسول ( )! آپ ہم سے کیاپوچھ رہے ہیں! بسم اللہ کیجیے جو بھی آپ کا ارادہ ہو‘ کیا عجب کہ اللہ ہمارے ذریعے آپ کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے. جو کہہ رہے ہیں کہ حضور ! آپ ہمیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) کے ساتھیوں پر قیاس نہ فرمائیے جنہوں نے کہا تھا:

فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (المائدۃ) 
’’پس (اے موسیٰ!) تم جاؤ اور تمہارا ربّ جائے اور دونوں جنگ کرو‘ ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے .‘‘

جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں اپنا خون بہانا ہمارے لیے سعادت ہوگی. حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جملہ یاد کیجیے جو کہہ رہے ہیں کہ حضور  ! آپ ہم سے کیا مشورہ لے رہے ہیں‘ 
اِنَّا اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ. ہم آپ پرایمان لا چکے ہیں‘ ہم آپؐ کی تصدیق کر چکے ہیں‘ ہم آپؐ کو اللہ کا رسول تسلیم کر چکے ہیں. اب خدا کی قسم !اگر آپؐ ہمیں حکم دیں گے تو ہم اپنی سواریاں سمندر میں ڈ ال دیں گے. اگر آپؐ ہمیں حکم دیں گے تو ہم اپنی اونٹنیوں کو دبلا کر دیں گے لیکن برک الغماد تک جا پہنچیں گے( جو عرب کا ایک دوردراز علاقہ ہے جس کی راہ میں لق و دق صحرا پڑتا ہے. )

یہ ہے وہ فیصلہ کن اور مابہ الامتیاز بات کہ اگر جمعیت نہ ہو‘ اس میں بنیانِ مرصوص کی کیفیت نہ ہو‘ اس میں سمع و طاعت کا وصف و جوہر نہ ہو‘ اس میں نظم و ضبط نہ ہو‘ وہ تربیت یافتہ نہ ہو‘ اس کو اللہ کی رضا ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہو‘ اس کو زندہ رہنے سے زیادہ اللہ کی راہ میں جان دینا عزیز نہ ہو تو اگلی منزلوں کی طرف پیش رفت اور پیش قدمی کے مراحل آئیں گے ہی نہیں. حضرت نوح علیہ السلام کو ایسے ساتھی نہ ملے‘ لہذا اگلے مرحلے کا معاملہ درپیش ہی نہ ہوا. لیکن آنحضور کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے اعوان و انصار مل گئے جنہوں نے دعوتِ توحید پر لبیک کہا‘ دعوتِ حق کو قبول کیا‘ اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا اور انہوں نے دعوت الی اللہ‘ اعلائے کلمۃ اللہ‘ شہادت علی الناس اور اقامت ِدین کے لیے شدائد و مصائب‘ فقر و فاقہ‘ کشمکش و تصادم‘ جہاد و قتال کے مراحل میں جاں نثاری‘ 
قربانی و ایثار‘ صبر و تحمل اور استقامت کی وہ مثالیں قائم کیں کہ ان کی نظیر تاریخ انسانی نہ آج تک پیش کر سکی ہے اور نہ آئندہ پیش کر سکے گی. اللہ کی طرف سے حضور کو ایسے جاں نثار اصحاب کا ملنا اس لیے بھی تھا کہ اظہار دین الحق آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا‘ بفحوائے لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہ . چونکہ آپ  آخری نبی اور رسول ہیں لہذا بنفس نفیس دین ِحق کو ایک نظامِ اجتماعی کی حیثیت سے قائم اور نافذ کرکے تاقیامِ قیامت نوعِ انسانی پر حجت قائم کرنا بھی آپؐ کے فرائض منصبی میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا. 

اب آئیے سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ کی طرف. اولوالعزم من الرسل میں سے بالکل وسط میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے. آنجنابؑ کی بعثتیں بھی دو نوعیتوں کی حامل تھیں. ایک آنجنابؑ آلِ فرعون کی طرف رسول تھے. 
اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿٪۲۴﴾ (طٰہٰ) اور دوسرے آپؑ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے. آنجنابؑ کی دعا پر آپ کی معاونت کے لیے آپؑ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت سے سرفراز فرمایا گیا تھا. مصر میں دونوں حضرات دعوت و تبلیغ اور بنی اسرائیل کی تربیت و تزکیہ میں ہمہ وقت و ہمہ تن لگے رہے‘ حتیٰ کہ فرعون کے اعراض‘ سرکشی ‘دشمنی اور انکار کے باعث ہجرت کا مرحلہ آ گیا اور آپؑ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکل جائیں. آپؑ کے ساتھ لاکھوں کی جمعیت تھی. جب آپؑ بنی اسرائیل کے ہمراہ صحرائے سینا پہنچے تو اگلا اور آخری مرحلہ دین کے قیام اور غلبہ کے لیے قتال کا درپیش ہوا اور وحی ٔ الٰہی کے ذریعے حکم ہوا کہ ارضِ مقدس (فلسطین) میں داخل ہو جاؤ . چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا:

یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ ﴿۲۱﴾ (المائدۃ)
’’اے برادرانِ قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے‘ اور پشت پھیر کر پیچھے مٹ پلٹو ‘ورنہ ناکام و نامراد لوٹو گے.‘‘

لیکن قوم بزدل اور تھڑدلی نکلی اور اس نے کورا جواب دے دیا:

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (المائدۃ)
’’انہوں نے کہا: اے موسٰی! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ (زبردست لوگ) وہاں موجود ہیں. بس تم اور تمہارا ربّ‘ دونوں جاؤ اور لڑو‘ ہم یہاں بیٹھے ہیں.‘‘

نتیجہ یہ نکلا کہ انقلابی عمل وہیں رک گیا .اگر اقامت ِدین کا کام اجتماعی قوت اور منظم جمعیت کے بغیر ممکن ہوتا تو اللہ کے دو جلیل القدر پیغمبروں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیٰ نبینا و علیہما الصلوٰۃ والسلام) کے مبارک ہاتھوں سے تکمیل پاجاتا. لیکن ساتھیوں کی بزدلی اور پیٹھ دکھانے کے باعث انقلابی عمل تکمیل تک نہ پہنچ سکا. حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو اللہ کی طرف سے بشارت دی تھی کہ ارضِ مقدس تمہارے لیے لکھی جاچکی ہے‘ اب تمہاری ہمت درکار ہے‘ پیٹھ دکھاؤ گے تو ناکام و خاسر ہو جاؤ گے. حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کی اس ڈھٹائی‘ نافرمانی‘ بزدلی اور کورے جواب سے اتنے آزردہ اور دل گرفتہ ہوئے کہ ان کی زبان پر آ گیا:

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ (المائدۃ)
’’اے میرے ربّ! مجھے تو سوائے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں‘ پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی ڈال دے.‘‘

قوم کی اس بزدلی اور کم ہمتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے بطورِ پاداش اپنا حکم سنا دیا:

قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ (المائدۃ:۲۶)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ان کی نافرمانی اور بزدلی کی وجہ سے )ان پر ارض مقدس چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے. اب یہ اسی صحرا میں (اس مدت تک) بھٹکتے رہیں گے.‘‘ 

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ اگر جمعیت موجود ہو لیکن وہ غیرمنظم ہو‘ اس میں سمع و طاعت کا جوہر نہ ہو‘ اس میں نظم و ضبط نہ ہو تو بھی انقلابی عمل آخری مرحلہ میں داخل 
نہیں ہو سکے گا. اس کے لیے وہ جماعت درکار ہے جس کے متعلق آنحضور نے فرمایا:

آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۱)
’’(مسلمانو!) میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں. التزامِ جماعت کا‘ اور سننے اور ماننے کا‘ اور اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کا.‘‘

ایک اور روایت میں 
آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ کے بعد الفاظ آتے ہیں: اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ ’’اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے‘‘.اس طرح یہ حکم مزید مؤ کد ہو جاتا ہے. پس معلوم ہوا کہ اقامتِ دین کے مرحلے کو طے کرنے کے لیے ٹھیٹھ اسلامی اصولِ سمع و طاعت پر مبنی ایک منظم جماعت ناگزیرہے. یہ بات بھی واضح رہے کہ جہاد کی میں نے جو سطحیں بیان کی ہیں‘ اُن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بھی جماعتی زندگی لازم ہے. اکیلا شخص معاشرے کے دباؤ ‘ نفس کی ترغیبات اور ابلیس لعین کی تحریصات کے مقابلے میں مشکل ہی سے ٹھہر سکتا ہے. 

انقلابی دعوت و تربیت اور اس کا ذریعہ

انقلابی جدوجہد میں دعوت کے ساتھ تربیت کا مرحلہ آتا ہے. اس کی اہمیت کو اکبر الٰہ آبادی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس شعر میں بیان کیا ہے ؎ 

تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے
اِن خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر! 

علامہ اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کو اپنا مرشدِ معنوی مانا ہے. اسی حقیقت کو اقبال نے جس طرح ادا کیا ہے اس کی اپنی ایک شان ہے. فرمایا :

؎
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تو!

اور علامہ کی فارسی شاعری میں یہ مضمون نقطۂ عروج پر آتا ہے. ؎ (۱) مسند احمد ۴؍۱۳۰. وسنن الترمذی‘ ابواب الامثال‘ باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ.
با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن!
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن!!

یہ تربیت ہے ‘یہ تزکیہ ہے‘ یہ تعلق باللہ ہے‘ یہ رضائے الٰہی کے حصول کی آرزو اور تمنا ہے. ان چیزوں سے وہ اجتماعی طاقت وجود میں آتی ہے جس کو سلطنت ِ جم پر دے مارنا ہے‘ جس کو باطل اور طاغوت سے جا ٹکرانا ہے.

انقلابی عمل کے اگلے تین مراحل وہی ہیں جو بیان ہو چکے ہیں: صبر محض‘ اقدام اور مسلح تصادم. لیکن یہ جو پہلا مرحلہ ہے‘ جسے انقلابی عمل میں اصل حیثیت و اہمیت اور اوّلیت حاصل ہوتی ہے‘ اس کے دو مرحلے وہ ہیں جہاں جہاد قرآن کے ذریعے ہو گا. پہلا مرحلہ نظریاتی تصادم اور نظریاتی کشمکش کا ہے اور اس کے لیے بندۂ مؤمن کے ہاتھ میں جو تلوار ہے وہ قرآن ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: 
وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا اس کے ساتھ حکمت بھی ہو. فرمایا: ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ کہ اس حکمت کے ذریعے دعوت و تبلیغ ہو. یہ قرآن موعظۂ حسنہ بھی ہے.فرمایا: قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ اسی میں جدال بھی ہے. مشرکین‘ ملحدین‘ منافقین اور اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ کا ذریعہ بھی یہی قرآن ہے. سورۃ النحل کی اس آیت میں یہ تمام طریقے نہایت حسین انداز سے آ گئے ہیں: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ (آیت ۱۲۵پس قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر نظریاتی تصادم اور کشمکش کے میدان میں کود پڑو. انذار قرآن کے ذریعے سے ہو. ارشادِ الٰہی ہے: وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ (الانعام:۱۹تبشیر قرآن کے ذریعے سے ہو. میں آپ کو سورۂ مریم کی آیت سنا چکا ہوں جس میں انذار اور تبشیر دونوں کا ذریعہ قرآن ہی کو قرا ر دیا گیا ہے: فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا ﴿۹۷﴾ میں اپنے اس احساس کا اعادہ کر رہا ہوں کہ اس ’’بِہٖ‘‘ پر ہمارے اکثر اہل ِعلم نے کماحقہ ٗتوجہ نہیں دی. سورۃ الکہف کی پہلی دو آیات میں بھی نہایت خوبصورت اسلوب سے انذار و تبشیر کے لیے ذریعہ قرآن ہی کو قرار دیا گیاہے. فرمایا: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲
’’کل حمد و ثنا اور شکر و سپاس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی. ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب‘ تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے.‘‘

تذکیر ہو تو قرآن سے ہو. فرمایا: 
فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ (قٓ) ’’پس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہراُس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہہ سے ڈرے‘‘. معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ کہہ لیں یا نظریاتی تصادم و کشمکش کہہ لیں‘ اس کا ذریعہ‘ اس کا آلہ قرآن ہے. جبکہ ہم نے تو اِس قرآن کو وعظ کا ذریعہ بھی نہیں بنایا. اقبال نے اس کا مرثیہ کہا ہے ؎ 

واعظ دستاں زن و افسانہ بند معنی ٔ اُو پست و حرفِ اُو بلند
از خطیب و دیلمی گفتارِ اُو با ضعیف و شاذ و مرسل کارِ اُو

یعنی واعظ کا حال یہ ہے کہ ہاتھ خوب چلاتا ہے اور سماں بھی خوب باندھتا ہے. اس کے الفاظ بھی ُپرشکوہ اور بلند وبالا ہوتے ہیں لیکن معنی و مفہوم کے اعتبار سے نہایت پست اور ہلکے. اس کا سارا وعظ قرآن کے بجائے خطیب بغدادی اور دیلمی سے ماخوذ ہوتا ہے اور اس کا سارا سروکار بس ضعیف‘ شاذ اور مرسل روایات سے رہ گیا ہے. ہمارے عام واعظین نہ معلوم کہاں کہاں سے ضعیف حدیثیں لاتے ہیں. میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ بدقسمتی سے ہمارے دور میں ضعیف حدیثوں کے حوالے سے تبلیغ ایک باقاعدہ ادارے کی صورت اختیار کر گئی ہے. فضائل کے بیان اور نیکیوں کی تلقین کے لیے اولیائے کرامؒ کی غیرمصد ّقہ کرامات کا ذکر ہے. وعظ و نصیحت کے لیے ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کا سہارا ہے‘ حالانکہ موعظہ ٔحسنہ تو یہ قرآن ہے. دل کی کایا پلٹ دینے کے وصف کا حامل یہ قرآن ہے ‘لیکن تلقین یہ کی جاتی ہے کہ اس کو سمجھنا بھی مت! تفسیر تو درکنار اس کا ترجمہ بھی نہ پڑھنا! اس کی تو بس تلاوت کرکے ثواب حاصل کر لیا کرو! وعظ و نصیحت کے لیے ضعیف روایات یا بے سروپا قصے کہانیاں ہیں‘ جن کو ایک عام معقول انسان کا ذہن بھی قبول نہ کرے اور ان کو تسلیم کرنے پر اس کا دل تیار نہ ہو. اس کے ذریعہ سے ابلاغ کیا ہو گا؟

جیسے کہ میں نے عرض کیا‘ انقلابی عمل میں پہلا مرحلہ دعوت کا ہے‘ جس کے لیے نظریاتی تصادم میں ہماری تلوار قرآن ہے اگرچہ اس کا حق ادا کرنا اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنا آسان کام نہیں ہے. اس کے لیے ضروری ہے کہ 
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ کی بشارتِ نبویؐ کو چند سعید روحیں اپنا مقصد ِزندگی بنائیں. اُن کو اس کے لیے زندگیاں لگانی ہوں گی.

دوسرا مرحلہ ہے تربیت. اس کے لیے بھی ہمارے پاس اصل تلوار قرآن ہے. ذرا غور تو کیجیے کہ قرآن مدعی ہے اس حقیقت کا کہ 
شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ میں ہوں. لیکن ہم نے تزکیۂ نفس کے لیے کہاں کہاں بھیک مانگی ہے اور پھر اس کے لیے فلسفے اور پورے پورے نظام مدوّن کیے ہیں. مگر اِس کوچے میں گزر نہیں ہے تو قرآن کانہیں ہے. اقبال نے اس کا بھی نوحہ کیا اور مرثیہ کہا ہے ؎ 

صوفی پشمینہ پوشِ حال مست از شراب نغمہ قوال مست
آتش از شعر عراقی در دلش در نمی سازد بقرآں محفلش 

’’پشمینہ پوش صوفی اپنے حال میں مست اور قوالی کی شراب سے مدہوش ہے. اس کے دل میں عراقی کے شعر سے آگ بھڑک اُٹھتی ہے لیکن اس کی محفل میں قرآن کا کہیں گزر نہیں ہے.‘‘ 

اور بالفرض کچھ ہو بھی تو اس کا کوئی اثر نہیں‘ جو مدعی ہے 
’’ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ‘‘ ہونے کا اور جس کے بارے میں اُس کا نازل کرنے والا خود ارشاد فرماتا ہے:

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ (بنی اسراء یل:۸۲’’ہم اس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو اہل ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہے.‘‘

لیکن اس کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ ہم نے سارے کوچے کھنگال لیے‘ دردر سے بھیک مانگ لی‘ لیکن یہ دروازہ بند ہے. حالانکہ تربیت و تزکیہ بھی اسی قرآن کے ذریعے ہوگا!میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کو بھی اس دور میں اقبال نے خوب پہچانا ہے. میں علمائے کرام کی عظمت اور ان کے مقام و مرتبہ کا معترف ہوں ‘ لیکن اس حقیقت کو بیان کیے بغیر بھی چارہ نہیں کہ ان حقائق کا جو انکشاف اقبال پر ہوا ہے اور ان کا جو شعور و ادراک علامہ کو حاصل ہوا ہے وہ مجھے اس دور میں اور کہیں نظر نہیں آتا. کس خوبصورتی سے کہتے ہیں : ؎ 

کشتن ابلیس کارے مشکل است زانکہ اُو گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتہ شمشیر قرآنش کنی!

’’شیطان کو بالکل ہلاک کر دینا بہت مشکل کام ہے. اس لیے کہ وہ انسان کے دلوں میں ڈیرا لگا لیتا ہے اور اس کی رسائی انسان کے دل کی گہرائیوں تک ہے. بہتر راستہ یہ ہے کہ اسے قرآن کی حکمت و ہدایت کی شمشیر سے گھائل کرکے مسلمان بنا لیا جائے.‘‘ 
غور کیجئے ہر شعر میں احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مفہوم کو کس خوبی سے سمو دیا ہے! یہ حدیث نبویؐ گزر چکی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (متفق علیہ)
’’شیطان انسان کے وجود میں اس طرح سرایت کر جاتا ہے جیسے کہ خون.‘‘ 

پہلے شعر میں اس کا حوالہ ہے .دوسرا شعر بھی ایک حدیث ِنبویؐ سے ماخوذ ہے. ایک مرتبہ نبی اکرم نے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے. کسی صحابی نے بڑی ہمت اور جرأت کی ( اللہ تعالیٰ انہیں اجر دے ‘وہ دریافت نہ کرتے تو یہ حکمت ہم تک کیسے پہنچتی) انہوں نے سوال کیا کہ حضور !کیاآپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا : ’’ہاں ہے‘ لیکن میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے!‘‘ یہ ہے وہ بات جو 
دوسرے شعر میں علامہ نے کہی ہے کہ اس قرآن کی شمشیر سے گھائل کر کے شیطان کو مسلمان بنایا جا سکتا ہے. 

اگر زہر ایسا ہے جو پورے وجود میں سرایت کرتا ہے تو یہ قرآن بھی وہ تریاق ہے جو پورے وجود میں سرایت کرتا ہے. ظاہر ہے اگر تریاق زہر سے زیادہ مؤثر نہ ہو تو زہر کا اثر کیسے زائل ہو گا! اس بات کو بھی اقبال نے اس طرح کہا ہے ؎ 

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود!

یعنی یہ قرآن جب کسی کے اندر سرایت کر جاتا ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب آ جاتا ہے. اب وہ انسان بالکل بدلا ہوا انسان بن جاتا ہے. یہ باطنی انقلاب ہے‘ اندر کی تبدیلی ہے. یہ باطنی انقلاب‘ یہ اندر کی تبدیلی ایک عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہے‘ ورنہ انقلاب کہاں سے آئے گا. ’’جہاں دیگر شود‘‘ کا اصل مفہوم تو یہ ہو گا کہ جس انسان کے اندر قرآن کے ذریعے تبدیلی آ گئی اس کے لیے جہاں بدل گیا‘ اس کی دیکھنے والی نگاہ بدل گئی‘ اس کا زاویہ نظر بدل گیا‘ اس کی اقدار بدل گئیں. اب اس کے لیے یہ جہاں وہ نہیں ہے ‘بلکہ ’’جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا یہ عالم پیر مر رہا ہے‘‘ والا معاملہ ہے .جب کسی کے دل میں قرآن اتر جائے تو اس کے لیے اب یہ عالم نیا عالم َہے. اس کا نقطۂ نظر اور مطلوب و مقصود بدل گیا ہے. اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ اگر ایسے فدائین کی ایک منظم جماعت وجود میں آ جائے جن کے دلوں میں قرآن جاگزیں ہو جائے تو یہ تبدیلی عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر جوشِ ایمانی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ اسی قرآن کی بدولت ہی پیدا ہوا تھا. یہ مختصر سی اور بے سروسامان جماعت ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں تلوار لے کر کسریٰ و قیصر یعنی وقت کی دو عظیم سلطنتوں سے جا ٹکرائی تھی اور بیس سال کے مختصر عرصہ میں اول الذکر کو بالکل نیست و نابود کر کے رکھ دیا تھا‘ جبکہ آخرالذکر کو مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے بالکلیہ بے دخل کر دیا تھا اور ان علاقوں پر اللہ کے دین کا جھنڈا لہرانے لگا تھا. 

حاصلِ کلام یہ کہ انقلابی عمل کی دو سطحیں ہیں‘ یا یوں کہہ لیں کہ جہاد کے دو levels ہیں.مجاہدہ مع النفس کے لیے ہمارا آلۂ جہاد قرآن ہے اور نظریاتی کشمکش اور تصادم کے لیے بھی ہماری تلوار قرآن ہے. 
تحدیث بالنعمۃ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اسی جہاد بالقرآن کا عزم لے کر میں ۱۹۶۵ء کے اواخر میں ساہیوال سے لاہور منتقل ہوا تھا‘ورنہ ۱۹۵۴ء میں لاہور سے ایم بی بی ایس کر کے میں ساہیوال میں مقیم ہو گیا تھا. لاہور آ کر میں نے بالکل تن تنہا اس کام کو شروع کیا. اُس وقت کوئی ساتھی ‘ کوئی ادارہ اور کوئی انجمن نہیں تھی. ’’میثاق‘‘ کا چارج سنبھالا تو تنہا خود ہی اس کا ایڈیٹر ‘خود ہی مالک‘ خود ہی پروف ریڈر‘ حتیٰ کہ خود ہی اس کا کلرک اور چپڑاسی. پھر دارالاشاعت الاسلامیہ قائم کیا تو وہ بھی تنہا‘ وہی ’’میثاق‘‘ والی صورت حال تھی. ساتھ ہی مولانا حسرت موہانی کے اس مصرعہ ؏ ’’ہے مشق ِسخن جاری‘ چکی کی مشقت بھی‘‘ کے مصداق مطب بھی کر رہا تھا‘ نبضیں بھی دیکھ رہا تھا اور نسخے بھی لکھ رہا تھا. اسی دوران کئی علاقوں میں مطالعۂ قرآن کے حلقے قائم کیے اور منتخب نصاب کا درس شروع کیا. قرآن کی دعوت کا یہ اعجاز کہ اعوان و انصار ملتے چلے گئے.۱۹۷۲ء کے اوائل میں مَیں نے میثاق میں ’’مرکزی انجمن خدام القرآن‘‘ اور اس کے زیرِانتظام قرآن اکیڈمی کے قیام کا خاکہ پیش کیا. الحمدللہ بعض دردمند اور اہلِ دل حضرات نے اس پر لبیک کہی اور ۱۹۷۲ء کے وسط میں باقاعدہ انجمن قائم ہو گئی. میں نے انجمن کے خاکے اور پھر دستور کی تقدیم میں یہ شعر درج کیا تھا ؎

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں!
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں! 

الحمدللہ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۴ء تک قریباً بارہ سال انجمن کے قیام پر گزر گئے ہیں. اس عرصہ میں جو بھی بن پایا ہے اور جس کام کی بھی اللہ کی طرف سے توفیق ملی ہے وہ آپ حضرات کے سامنے ہے. انجمن کا قیام‘ اس کے لیے دفاتر‘ رہائشی کوارٹرز‘ ہاسٹل‘ جامع القرآن قرآن اکیڈمی کی تعمیرات‘ علوم و معارف قرآن کی نشر و اشاعت کے لیے مکتبہ کا قیام‘ دعوت رجوع الی القرآن کا پیغام پہنچانے کے لیے پاکستان کے دوسرے شہروں کے دورے اور دروس و خطابات کے ذریعے دین کے جامع تصور کو اُجاگر کرنے کی کوشش‘ قرآن کانفرنسوں اور محاضراتِ قرآنی کا انعقاد‘ مختلف شہروں میں قرآنی تربیت گاہوں کا انتظام‘ ساتھ ہی اسی پیغام کے لیے بیرون پاکستان کے اسفار‘ میں نے یہ کام صرف اس مقصد کے لیے گنوائے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ ان سب کاموں کو آپ ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے حافظے میں درج کر لیں. 

ایک وقت وہ بھی آیا جب خالصتاً اللہ ہی کی طرف سے اس دور کے سب سے مؤثر ذریعہ ٔابلاغ ٹیلی ویژن پر پورے پندرہ ماہ تک ’’الہدیٰ‘‘ کے نام سے قرآن مجید کا پیغام ملک کے گوشے گوشے تک پہنچا.پہلی مرتبہ جب اسلام آباد سے ٹی وی کے ایک پروڈیوسر صاحب مرکزی انجمن خدام القرآن لاہورکے دفتر میں رمضان المبارک میں روزانہ ’’الکتاب‘‘ کے عنوان سے تقاریر کی تجویز لے کر تشریف لائے تو اُس وقت انجمن کی مجلس ِمنتظمہ کا اجلاس ہو رہا تھا. میں وہاں سے اٹھ کر ان سے ملنے گیا. انہوں نے کہا کہ پورے رمضان میں روزانہ بارہ منٹ کا ’’الکتاب‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام ہوگا‘ اس میں آپ کو ایک پارے کے بارے میں کچھ بیان کرنا ہوگا. میں نے کہا مجھے ایک آیت کے لیے بسااوقات ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے اور آپ ایک پارے کے لیے مجھے بارہ منٹ عطا کر رہے ہیں‘ میں اس مختصر سے وقت میں کہوں گا کیا؟ میں نے معذرت کی کہ مجھ میں اس کی نہ صلاحیت ہے اور نہ جرأت .آپ کسی اور کو تلاش کیجئے. میں دفتر والوں سے یہ کہہ کر کہ ان کی چائے وغیرہ سے تواضع کرکے ان کو رخصت کر دو‘ انجمن کے اجلاس میں واپس آ گیا. ساتھیوں نے پوچھا کہ کون صاحب تھے؟ کیا معاملہ تھا؟ میں نے جب بتایا تو سب اراکین میرے سر ہو گئے کہ آپ نے یہ کیا کیا‘ وہ پانچ منٹ بھی دیں تو ضرور لے لیں! وہ اس ذریعہ ٔابلاغ کی اہمیت سے واقف تھے. بہرحال اراکین کے اصرار پر میں دوبارہ اٹھ کر گیا‘ وہ صاحب ابھی چائے پی رہے تھے. میں نے ان سے کہا کہ ساتھیوں کے اصرار پر میں یہ پیشکش منظور کرتا ہوں. 

چنانچہ دو سال رمضان المبارک میں روزانہ ’’الکتاب‘‘ کا پروگرام ٹی وی پر نشر ہوا‘ پھر تیسرے سال رمضان ہی میں ’’الٓـمّٓ‘‘ سیریز چلی ‘پھر ’’الہدیٰ‘‘ کا ہفتہ وار پروگرام نشر ہوا. اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے یہ راستہ پیدا فرما دیا. پھر بالکل درمیان میں ’’الہدیٰ‘‘ کا پروگرام ختم ہو گیا. درمیان میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ میں اس پروگرام میں ’’مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب‘‘ سلسلہ وار بیان کر رہا تھا. وہ نصف ہوا تھا کہ اچانک اس پروگرام کو بند کر دیا گیا. لیکن میں قطعی مطمئن ہوں کہ یہ اللہ ہی کا فیصلہ ہے اور اس میں یقینا خیر ہے. ارشادِ الٰہی ہے :

وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ (البقرۃ)
’’ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو. اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہو. اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے.‘‘

اس 
’’الہدیٰ‘‘ کے پروگرام کے ذریعے ملک بھر میں ایک پیاس پیدا ہو گئی. لوگوں کی یہی پیاس ہے جو مجھے کھینچ کر جگہ جگہ لے جا رہی ہے اور عرصہ سے صورت حال یہ ہے کہ میں عموماً لاہور سے ہفتہ کی صبح کو نکلتا ہوں اور جمعرات کی رات یا جمعہ کی صبح کو یہاں واپس پہنچتا ہوں. اگر آج شہر شہر جا کر میں قرآن کا پیغام پہنچا رہا ہوں تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ’’الہدیٰ‘‘ کے پروگرام کو بنایا‘ ورنہ ہمیں کون جانتا تھا‘ اور اگرہم پچاس برس بھی لگے رہتے تو اپنے محدود ذرائع و وسائل سے اتنا وسیع حلقہ ٔتعارف پیدا نہیں ہو سکتا تھا اور معاشرے میں اتنی پیاس پیدا نہیں ہو سکتی تھی جو بظاہر احوال نظر آرہی ہے.

بہرکیف میں گفتگو کے اختتام سے قبل عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن ہی ہمارا ذریعۂ دعوت ہے. نظریاتی تصادم اورکشمکش کے لیے ہماری تلوار قرآن حکیم ہے. جہاد بالقرآن ہی ہمارا طریقۂ کار ہے. نفس اور شیطان سے کشمکش کے لیے بھی ہمارے ہاتھ میں واحد 
تلوار قرآن مجید ہے. تزکیہ ٔنفس کے لیے قرآن نے جو پروگرام دیا ہے‘ اس میں دو مؤثر ترین چیزیں ہیں‘ ایک قیام اللیل‘ دوسری اس قیام میں ترتیل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت و قراءت. ابتدا میں قیام اللیل کا حکم اطلاقی شان کے ساتھ آیا تھا:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ (المزّمّل)

’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ( ) !رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم. آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو.‘‘

بعد میں جب اس نے ایک معین شکل اختیار کی تو حکم آیا: 

وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ (بنی اسراء یل:۷۹)
’’اور رات کو اِس (قرآن) کے ساتھ قیام کرو‘ یہ تمہارے لیے نفل ہے.‘‘

رات کا جاگنا اور مجرد جاگنا نہیں ‘بلکہ قیام میں قرآن کی طویل قراءت و تلاوت‘ یہ دو ہتھیار ہیں جن سے ایک بندۂ مؤمن کی جہاد بالقرآن کے لیے سیرت کی تعمیر ہوتی ہے اور اس دعوتِ موعظہ اور مجادلہ میں تأثیر پیدا ہوتی ہے.

اللہ تعالیٰ اس قرآن کو ہاتھ میں لے کر ہمیں باطل کے خلاف نبردآزما ہونے اور خود اپنے شیطان اور اپنے نفس سے لڑنے کے لیے اس قرآن کی تلوار کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

اَللّٰھُمَّ آنِسْ وَحْشَتَنَا فِیْ قُبُوْرِنَا‘ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ‘ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً ‘ اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا‘ وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہٗ آنَاءَ الَّیْلِ وَآنَآءَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَoo