یاس و نومیدی کی اس شدت کے عالم میں، حال ہی میں، راقم الحروف کے شعورِ باطنی کے پردے پر، چالیس سال کی مدت کے حوالے سے اُمید کی ایک کرن جگمگائی ہے اور اس اچانک انتقالِ ذہنی نے کہ ملت اسلامیہ پاکستان نے اپنی عمر کے چالیسویں سال میں قدم رکھ دیا ہے. تاریخ بنی اسرائیل کے متذکرہ حوالے کے ناطے میرے نہاں خانہ قلب میں اُمید کا ایک چراغ روشن کر دیا ہے اور اس خیال نے زور باندھا ہے کہ ہماری بھی وہ نئی نسل جو قیام پاکستان کے بعد آزادی کی فضا میں پیدا ہوئی اور آزادی ہی کی فضا میں پروان چڑھی، تاآنکہ اب شعوری پختگی کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اگرچہ فی الوقت اپنے بڑوں کے پیدا کردہ انتشارِ ذہنی و فکری کے باعث ’’زوال علم و عرفاں‘‘ سے بھی دو چار ہے اور اُن ہی کی کوتاہی عمل اور نقضِ میثاق سے پیدا شدہ صورت حال کی بناء پر اخلاقی اور عملی اعتبار سے بھی قابل رشک حالت میں نہیں ہے. تاہم غلامی کے منحوس اثرات سے بہرحال محفوظ رہی ہے، لہٰذا غیرت و حمیت اور جرأت و ہمت کے اعتبار سے یقینا پچھلی نسل سے بہتر حالت میں ہے. نہ ’’ندرتِ افکار‘‘ سے بالکل تہی دست ہے نہ ’’جرأت کردار‘‘ سے محرومِ محض. اگر کسی طرح اُسے بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا جائے اوراُس منزل کی از سر نو نشاندہی کر دی جائے، جس کے حصول کے لیے آج سے نصف صدی قبل برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ نے سفر کا آغاز کیا تھا تو کیا عجب کہ ملت اسلامیہ پاکستان کی عمر کا یہ چالیسواں سال ایک فیصلہ کن موڑ (Turning Point) کی حیثیت حاصل کر لے اور ؏
’’کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو‘‘
کے مصداق بے یقینی اور بے مقصدیت کے ’’صحرائے تیہہ‘‘ میں بھٹکنے والا یہ قافلہ بھی از سرنو مقصد و منزل کا سُراغ پا کر ایک عزم تازہ اور ولولۂ نو کے ساتھ ؏ ’’ہوتا ہے جادہ پھر کارواں ہمارا‘‘ کی شان سے سرگرم سفر ہو جائے.
میرے دل میں دفعتہ جگمگانے والی امید کی اِس روشنی کو بھی تقویت حاصل ہوتی ہے. قرآنِ حکیم ہی کے ایک مقام سے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا ہے کہ لوگوں کے کان کھول دیں اور ڈنکے کی چوٹ فرما دیں کہ اگر تم اپنے اعراض و انکار کی موجودہ روش پر قائم رہے تو عذابِ الٰہی لازماً آکر رہے گا. اگرچہ میں یہ نہیں جانتا کہ وہ گھڑی آیا ہی چاہتی ہے اور عذاب بالکل تمہارے سروں پر آچکا ہے یا ابھی کچھ دور ہے اور حکمت خداوندی اور مشیت ایزدی میں ابھی تمہارے لیے کچھ مزید مہلت باقی ہے.
ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ اٰذَنۡتُکُمۡ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ وَ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۱۰۹﴾ (الانبیاء : ۱۰۹)
’’… پھر اگر وہ روگردانی کریں تو آپ صاف کہہ دیں کہ میں نے تم سب کو برابر خبردار کر دیا ہے. اب میں نہیں جانتا کہ جس (عذابِ الٰہی) کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ بالکل قریب ہے یا (ابھی کسی قدر) دور ہے.‘‘
اور.
وَ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۱۰۹﴾ (ایضاً : ۱۱۱)
’’… اور میں نہیں جانتا شاید کہ یہ (مہلت) تمہارے لیے مزید ایک آزمائش اور ایک وقت معین تک مزید فائدہ اُٹھا لینے کا موقع ہو.‘‘
گویا عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی ملت اِسلامیہ پاکستان کو بھی مزید مہلت عطا کرے اور اصلاحِ احوال اور تلافی مافات کا ایک اور موقع عنایت فرمائے تاآنکہ وہ صورت پیدا ہو جائے کہ:
لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ (الانفال : ۴۲)
’’… تاکہ جسے مرنا ہے وہ مرے (لیکن) قیام حجت کے بعد اور جسے جینا ہے وہ جئے (لیکن) حجت (اور بصیرت ) کے ساتھ.‘‘
لیکن اِس کے لیے لازم ہے کہ حقائق کا جرأت کے ساتھ سامنا کیا جائے، ماضی کا بے لاگ جائزہ ہو اور گزشتہ ناکامیوں اور نامرادیوں کے اسباب و علل کا بھرپور اور امکانی حد تک معروضی تجزیہ کیا جائے اور اس کے ضمن میں نہ کسی کے ادب و احترام کو حائل ہونے دیا جائے، نہ کسی کی محبت اور عقیدت کو آڑے آنے دیا جائے، پھر حال کے عوارض و امراض کی صحیح اور گہری تشخیص کی جائے اور اس سارے مواد کو سامنے رکھ کر ایک حقیقت پسندانہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت تائید کے بھروسے پر عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا جائے.
چنانچہ اسی مقصد کے تحت راقم الحروف نے پیش نظر تحریر کو سپرد قلم کرنے کا ارادہ کیا تھا اور خاص اسی مقصد کے لیے اُس نے حجاز مقدس کا سفر اختیار کیا. اور اللہ کا شکر ہے کہ آج ۲/صفر المظفر۱۴۰۶ھ کو بمقام طائف اس طویل تحریر کا ’’مقدمہ‘‘ مکمل ہو گیا.
اللہ گواہ ہے کہ اس سے نہ کسی کی دل شکنی و دل آزادی مقصود ہے، نہ کسی کی توہین و تنقیص اور نہ کسی گزری ہوئی شخصیت پر سبّ و شتم مطلوب ہے، نہ کسی حاضر وموجود شخصیت کی کردار کشی! بلکہ مقصود صرف اور صرف اصلاح ہے، اپنی امکانی حد تک.
اِنۡ اُرِیۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ ؕ وَ مَا تَوۡفِیۡقِیۡۤ اِلَّا بِاللّٰہِ ؕ (ہود : ۸۸)
’’… میرا کوئی ارادہ نہیں ہے سوائے اصلاح کے، جس حد تک میرے امکان میں ہو، اور نہیں حاصل ہے مجھے کوئی توفیق مگر صرف اللہ ہی کے سہارے.‘‘