میں نے قبل ازیں یہ بتایا تھا کہ مادی قوانین کے تحت دنیوی کاموں میں ایک دوسرے سے مددمانگی جاسکتی ہے‘لیکن اس کا بھی ایک درجہ ہے. آپ نے دنیوی قوانین کے تحت کسی شخص سے ایک کام کہا. فرض کیجیے ‘ آپ کسی سے کہتے ہیں کہ فلاں جگہ پرمیری سفارش کر دیجیے.میرا یہ مسئلہ صد فیصد درست ہے ‘لیکن میرا مدعا علیہ یا میرا مدمقابل زیادہ چرب زبان ہے یا اس نے کوئی لمبی چوڑی سفارش فراہم کر لی ہے توآپ بھی میری بات وہاں پر رکھ دیں اچھی شفاعت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اجر و ثواب رکھا ہے‘سورۃ النساء میں آیا ہے : مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ نَصِیۡبٌ مِّنۡہَا ۚ (آیت ۸۵) ’ ’جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا‘‘ اب آپ کے ایک دفعہ کہنے پراس نے آپ کا کام نہیں کیا‘ دوسری دفعہ کہنے پر بھی نہیں کیا‘تیسری دفعہ آپ نے اسے پھر وہی کام کہاتو اس ضمن میں ایک بزرگ کا ایک قول میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اب یہ ایک درجے میں شرک ہو جائے گا. ایک دو دفعہ تو ٹھیک ہے‘ لیکن اس پر اصرار کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ یقین کرلیا ہے کہ آپ کی خیر اسی کے ہاتھ میں ہے اور یہ شرک خفی ہو جائے گا. تو یہ باتیں بھی سمجھنے کی ہیں. بعض اوقات آدمی کسی کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور مسلسل کہتا رہتا ہے‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اس کی بھلائی اسی شخص کے ہاتھ میں ہے.