یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماسے مروی ہے.یہاں میں معلوماتِ عامہ اور عمومی دلچسپی کے اعتبار سے یہ بتانا چاہوں گا کہ صحابہ کرامؓ کی دوسری نسل میں عبادلہ اربعہ ؓ بہت مشہور ہیں دیکھئے ایک نسل میں تو حضوراکرمﷺ کے قریباً ہم عمر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں‘ مثلاًحضرات ابوبکر ‘عمراور عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین ‘جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسری نسل میں آئیں گے ‘اس لیے کہ جب ایمان لائے تو آپؓ کی عمر ۱۳ برس تھی اور حضورﷺ کے انتقال کے وقت ۳۰ برس کے لگ بھگ تھے. اس دوسری نسل میں پھر ذرا اور چھوٹے صحابہ بھی ہیں اور ان میں ’’عبادلہ اربعہ‘‘ بہت مشہور ہیں‘جن میں سے ہر ایک کا اپنا ایک خاص طبعی رجحان اور خاص میدان ہے.
(۱) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما: آپ حضورﷺ کے چچا زاد بھائی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور آپ کا خاص طبعی رجحان قرآن مجید کی تفسیر اور تاویل کی طرف تھا. انہی کے بارے میں حضورﷺ نے دعا کی تھی : اَلّٰلھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ (۱) ’’اے اللہ! اس نوجوان کو دین کا فہم اور قرآن کی تاویل سکھا دے‘‘.ایک ہے علم اور ایک ہے فہم. ہو سکتا ہے کسی کے پاس ٹنوں علم ہو ‘ لیکن اس میں فہم نہ ہو‘اور ہو سکتا ہے کہ وہ شخص اپنے علم سے کسی کو فائدہ نہ پہنچا رہا ہو‘بلکہ اُلٹا دوسروں کونقصان پہنچا سکتا ہو. چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے فہم کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نوجوان صحابی کے لیے فہم فی الدین کی دعا فرمائی.
(۲) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما: عبادلہ اربعہ میں سے دوسرے ہیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ .یہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں اور ان کا خاص وصف تھا اتباعِ سنت‘بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اندر غلو کی حد تک اتباعِ سنت کا جذبہ تھا.اس کا اندازہ اس (۱) مسند احمد‘ کتاب ومن مسند بنی ہاشم‘ باب بدایۃ مسند عبداللّٰہ بن العباس. بات سے لگائیے کہ حضور اکرمﷺ کی وفات کے بعد جب آپؓ دوبارہ حج کرنے گئے تو انہوں نے حضورﷺ کے ہر ہرطریقے کی پیروی کی.مثلاً حجۃ الوداع کے موقع پر حضوراکرمﷺ نے جہاں جہاں قیام کیا‘ جہاں کسی درخت کے سائے میں آرام کیا ‘اور جس راستے سے ہوکر گزرے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بھی بعینہٖ اسی طرح آپﷺ کے نقش قدم کی پیروی کی‘ انہی مقامات پرقیام کیا‘انہی درختوں کے نیچے سے ہو کر گزرے . میں کہوں گا کہ یہ اصل میں مجذوب ہونے کی حد تک اتباعِ سنت کا جذبہ ہے‘ جو حضورﷺ کی محبت کی وجہ سے ہے. میں نے پہلے بھی آپ کو یہ واقعہ سنایاہے کہ ایک بدوی صحابی حضورﷺ سے ملنے کے لیے آئے تواُس وقت اتفاقاً حضورﷺ نے اپنی قمیص کے بٹن بند نہیں کر رکھے تھے. اُن بدوی صحابی نے آپﷺ کو اس طرح دیکھا تو پھر ساری عمر بٹن بند نہیں کیے. ہم کہیں گے کہ یہ محبت ِ رسولؐ کی وجہ سے اتباع کا جذبہ تھا. بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا خاص وصف اور خاص رجحان اتباعِ رسولؐ ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اہل حدیث مکتب فکر کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے.
(۳) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما: عبادلہ اربعہ میں سے تیسرے عبداللہ بن زبیرؓ ہیں. ان کا کوئی خاص علمی وصف نمایاں نہیں ہے‘لیکن شجاعت اور بہادری کے اندر ان کا بڑا اونچا مقام ہے. چنانچہ یزید کی بیعت سے جن حضرات نے انکار کیا‘ان میں یہ بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل تھے.اُس وقت تین عبادلہ عبداللہ بن عباس‘ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے. عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ دونوں کی رائے یہ تھی کہ اگرچہ یہ کام غلط ہوا ہے‘لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کی بنا پر فتنہ و فساد پیدا کر دیا جائے.ان کے پیش نظر یہ تھا کہ اگر بغاوت کریں گے تو مسلمانوں میں خانہ جنگی ہوگی‘ انتشار پیدا ہو گا‘جبکہ ساڑھے چارسال کی خانہ جنگی مسلمان پہلے ہی بھگت چکے تھے. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تک بلکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری تک مسلمانوں میں مسلسل خانہ جنگی رہی اور اس میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں ‘نیزوں اور تیروں سے ہلاک ہوئے .چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مصلحت کو پیش نظر رکھا کہ اگرچہ کام غلط ہے لیکن ایسا غلط بھی نہیں ہے کہ کفر ہو ‘ جس کے خلاف کھڑے ہو جانا فرض ہوجائے.
بہرحال ان تین عبادلہ میں سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ڈٹ گئے کہ ہاں یہ غلط بھی ہے اور ہمیں اس کے خلاف مزاحمت بھی کرنا ہے‘چاہے کچھ بھی ہو. پھرحضرت حسینؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓ میں اس حوالے سے اختلاف پیداہوا . حضرت حسینؓ کو چونکہ اہل کوفہ کی طرف سے خطوط آ رہے تھے تو وہ کوفہ چلے گئے‘جبکہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی رائے یہ تھی کہ حجاز ہی میں مقیم رہ کر مزاحمت کی جائے‘اس لیے کہ یہاں پر ہمارا حلقہ ٔاثر مضبوط ہے. وقت نے ثابت کیا کہ ان کی رائے زیادہ صحیح تھی‘ اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے حجاز میں حکومت قائم کی اورپھر ان کی حکومت چھ سال تکقائم بھی رہی.دوسری طرف حضرت حسینؓ حکومت قائم نہیں کر سکے‘بلکہ انتہائی مظلومی کی حالت میں کربلا میں شہید ہو گئے.
(۴) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما: عبادلہ اربعہ میں سے چوتھے عبداللہ ابن عمرو بن العاصؓ ہیں واضح رہے کہ ’’عَمرو‘‘ عین کی زبر کے ساتھ ہے جبکہ واؤ ساکت (silent) ہے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا خاص وصف زہد اور عبادت ہے‘ بلکہ یوں سمجھئے کہ اس میں غلو کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں. چنانچہ انہی کے بارے میں وہ واقعہ آتا ہے کہ حضورﷺ کو کسی نے اطلاع دی کہ عبداللہ تو ہر روز روزہ رکھتا ہے اور ساری رات عبادت کے لیے کھڑا رہتا ہے.حضورﷺ نے طلب فرمایا اور پوچھا: اَلَمْ اُخْبَرْ اَنَّکَ تَقُوْمُ اللَّـیْلَ وَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟ ’’کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی کہ تم رات بھر قیام کرتے ہو اور روزانہ دن کو روزہ رکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپﷺ نے فرمایا: فَلَا تَفْعَلْ‘ قُمْ وَنَمْ‘ وَصُمْ وَاَفْطِرْ‘ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘ وَاِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘ وَاِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘ وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا… (۱) ’’تو ایسا مت کرو‘ (رات کو)قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو‘ اور (نفلی) روزے رکھا بھی کرو اور چھوڑ بھی دیا کرو‘ اس لیے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے‘ تمہاری آنکھ (نیند) کا بھی تم پر حق ہے‘ تمہارے ملاقاتی کا بھی تم پر حق ہے. اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے…‘‘
بہرحال ان کا خاص وصف زہد اور عبادت ہے .ایک خاص قابل ذکر تضاد (contrast) یہ ہے کہ ان کے والد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بہادری‘ شجاعت ‘موقع شناسی‘ سیاست اورڈپلومیسی میں بہت مشہور ہیں ڈپلومیسی دراصل وقت کی نزاکت اور مصلحت کو سمجھنے اور دور اندیشی کے ساتھ معاملہ کرنے کا نام ہے . آج کل ڈپلومیسی کا مفہوم غلط سمجھا جاتا ہے اور آج منافقت کا نام ڈپلومیسی ہوگیا ہے‘لیکن ڈپلومیسی کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان سیاست کے رموز سے واقف ہو‘ حالات کابھی صحیح اندازہ کر سکے اور صحیح وقت پر صحیح فیصلے تک پہنچےبہرحال حضرت عمرو بن العاصؓ شجاعت اور سیاست میں مشہور ہیں جبکہ ان کے بیٹے عبداللہ انتہائی زاہد و عابد ہیں.انہیں تو دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں ‘تو ان کی سیاست سے کیا دلچسپی ہو گی؟تو یہ تضاد ہے جو باپ اور بیٹے کے درمیان ہے.
حضرت عمرو بن العاصؓ عرب کے ایک بڑے مدبر اور سیاست دان مانے جاتے تھے‘یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان ہجرت کرکے حبشہ میں پناہ گزین ہو گئے تھے تو ان کو واپس لانے کے لیے سردارانِ مکہ نے عمرو بن العاص کوہی نجاشی کے دربار میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا تھا.انہوں نے نجاشی کے دربار میں جا کرکہا کہ ہمارے کچھ بھگوڑے آپ کے ہاں آ گئے ہیں اور انہوں نے آپ کے علاقے میں پناہ لے لی ہے‘ آپ انہیں واپس کر دیں.عمرو بن العاص نے اس کی مذہبی عصبیت کی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت عیسیٰؑ کو انسان مانتے ہیں اور تم انہیں خدا کا بیٹا کہتے ہو.اب نجاشی نے صرف ان کی بات سن کر فیصلہ نہیں کیا بلکہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس نے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب لزوجک علیک حق. مسلمانوں کے وفد کو بلایا اور پوچھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں تمہارا کیا موقف ہے؟ اس پر حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہنے سورئہ مریم کا دوسرا رکوع پڑھ کر سنایا تو وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اپنے تخت سے نیچے اُترا اور زمین سے ایک تنکا اٹھاکر کہا کہ جو کچھ ان آیات میں حضرت عیسیٰ ؑکے بارے میں کہا گیا ہے‘آپؑ اس سے ایک تنکا بھر بھی زائد نہیں ہیں. نجاشی قرآن کی حقانیت اور حضرت محمدﷺ کی رسالت پر ایمان لے آیا. چنانچہ نجاشی کا شمار اہل ایمان میں ہوتا ہے اور حضورﷺ نے ان کی وفات پر ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی اداکی.لیکن ان کا شمارصحابہ میں نہیں ہوتا ‘اس لیے کہ وہ حضورﷺ کی زیارت نہیں کر سکے‘البتہ ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے‘ کیونکہ وہ حضورﷺ کے صحابہ کی صحبت میں رہے ہیں.