پھر جو لوگ نبی علیہ الصّلاۃ والسلام کی دعوت قبول کریں اور اس پر ایمان لائیں‘ اللہ تعالیٰ عز و جل اس عالمِ اسباب میں ان کو جانچتا ہے‘ ان کا امتحان لیتا ہے. چنانچہ اس عالمِ علت و معلول اور عالمِ اسباب میں اگر دین پھیلے گا تو اللہ پر‘ رسولؐ پر اور آخرت پر یقین رکھنے والے مؤمنینِ صادقین کی جانفشانیوں اور سرفروشیوں‘ ان کے ایثار و قربانی اور ان کی جدوجہد سے پھیلے گا. دنیا میں تشریعی طور پر اللہ کی کبریائی اگر فی الواقع قائم ہو گی تو ان ہی کی کشاکش‘ محنت اور جہاد و قتال سے قائم ہو گی. وہ خاک و خون میں لوٹیں گے اورراہِ حق میں نقدِ جان کا نذرانہ گزاریں گے تو اللہ کی تائید و نصرت سے اللہ کا دین غالب ہو گا. یہی سنت اللہ ہے‘ اور اللہ کو ایسے ہی جوانمردوں سے محبت ہے. بفحوائے الفاظِ قرآنی:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصّف ) ’’یقینا اللہ ان کو محبوب رکھتا ہے جو اُس کی راہ میں اس طرح صفیں باندھ کر جنگ کرتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں.‘‘
اور انہی سرفروشوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے: ؎

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

اسی جدوجہد اور کشمکش میں مؤمنینِ صادقین کی آزمائش ہے. اسی سے معلوم ہو گا کہ کون واقعتا ایمان رکھتا ہے اور کون ایمان کا جھوٹا دعوے دار ہے. اس جہاد و قتال کے ذریعے حضور کے مشن کی تکمیل میں سردھڑ کی بازی لگانے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نصرتِ رسول سے تعبیر کرتا ہے اور یہ نصرتِ رسول ہی وہ کسوٹی ہے جس پر عالمِ رنگ و بو میں سچے اور کھوٹے پرکھے جاتے ہیں‘ جیسا کہ سورۃ العنکبوت میں فرمایا: وَ لَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ﴿۱۱﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ لازماً ظاہر کر دے گا ان کو بھی جو (واقعتا) ایمان لائے ہیں اور لازماً ظاہر کر دے گا ان کو بھی جو منافق ہیں.‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کھول کر رکھ دے گا کہ کون حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اور کون جھوٹ موٹ کے مؤمن بنے پھرتے ہیں ‘جو حقیقتِ واقعی کے لحاظ سے منافق ہیں. اس دنیا میں ایمان و نفاق کا فیصلہ انہی آزمائشوں‘ ان ہی سرفروشیوں اور ان ہی جانفشانیوں سے ہوتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد رسول اللہ کے جھنڈے کو اٹھایا یا نہیں اٹھایا؟ آپ کے مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنایا یا نہیں بنایا؟ محمدٌ رسول اللہ کے منصبِ رسالت کی تکمیل میں اپنا جان و مال کھپایا یا نہیں کھپایا؟ دعوت الی اللہ کے مراحل میں صبر و استقامت دکھائی یا نہیں دکھائی؟ اگر یہ نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں‘ پھر تو رسول اللہ پر ایمان کا دعویٰ ناقابلِ قبول ٹھہرے گا‘ رسول سے محبت کا دعویٰ بھی مسترد کر دیا جائے گا اور رسول کی اطاعت کا دعویٰ بھی غیرمعتبر اور محض ریا اور دکھاوا قرار پائے گا.